بجٹ اور میاں نواز شریف
’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ انتخابی سرگرمیوں کے دوران یہ نعرہ چھوٹے بڑے سب کی زبان پر تھا اور پھر۔۔۔
ISLAMABAD:
''قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں'' انتخابی سرگرمیوں کے دوران یہ نعرہ چھوٹے بڑے سب کی زبان پر تھا اور پھر ہوا بھی یوں ہی کہ اہل پاکستان نے الیکشن والے دن پورا پورا اور ہر طرح سے ساتھ دیا۔ دھاندلی اور جعلسازی کے واقعات بھی سامنے آئے لیکن اس کے باوجود نواز شریف کے حامیوں نے خلوص دل کے ساتھ اتنے ووٹ دیے کہ میاں نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ یقینا بہت بڑا اعزاز اور بڑی بھاری ذمے داری ہے جو اس وقت وزیر اعظم جناب نواز شریف کے کاندھوں پر ہے، نواز شریف کو سابقہ حکومت کے سیاہ دور سے سبق سیکھنا بے حد ضروری ہے، ورنہ دانشوروں کے بقول کہ حکومت کو اپنی میعاد پوری کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔
قوم بے حد دکھی، پریشان حال اور بے سہارا ہے وہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، پانی، بجلی، گیس کے بناء زندگی کیسے گزرتی ہے؟ یہی وہ حالات ہیں جن کے تحت شہری سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ چند روز قبل فیصل آباد میں ہزاروں افراد نے گرڈ اسٹیشن میں گھسنے کی کوشش کی، پولیس نے بھی شیلنگ کرکے اپنا فرض ادا کردیا اور اس نعرے کا ثبوت پیش کردیا ہے کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی''۔ ایسی فرض شناسی کی مثال قائم کی کہ گھروں میں گھس کر نہتے مکینوں پر لاٹھی چارج کردیا اس دوران پولیس اور عوام میں جھڑپیں ہوئیں ۔ کراچی میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے لیاقت آباد کے مکینوں نے بجلی کی عدم فراہمی کے باعث احتجاج کیا، ان حالات میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خالد محمود خان نے کہا کہ اب نئی حکومت مٹھائیاں تقسیم کرنا بند کرے، حکومت بن چکی ہے اب کام پر توجہ دے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خسرہ کو روکنے کے لیے نہ پچھلی حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی نئی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
نواز شریف پر اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی آزمائش بھی ہے کہ وہ اس بار اپنی عوام کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے؟ انصاف کا بول بالا کرسکیں گے اور غریب و مظلوم شخص کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنایا جائے گا کہ نہیں؟ یہ ان کی بصارت و بصیرت پر منحصر ہے۔ اسلامی قوانین کے تحت حاکم کو قوم کا آقا نہیں بلکہ خادم بن کر خدمت کرنی چاہیے تب شاندار انصاف قائم ہوسکتا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عدل و انصاف ہر شخص کے لیے شاندار مثال اور اعلیٰ نمونہ ہے عدل کا ایک مختصراً واقعہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں کچھ چادریں آئیں جو بلاتخصیص غیرے ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس چادر کا کرتہ زیب تن کیا تو ایک شخص نے آپ کا دامن پکڑ کر کہا کہ آپ کا قد لمبا ہے اور ایک چادر میں کرتا نہیں بن سکتا ہے۔ آپؓ نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا، بیٹے نے اس بات کی وضاحت کی کہ میں نے اپنے حصے کی چادر والد محترم کو دے دی تھی۔
معاشرتی نظام کو ہموار رکھنے کے لیے عدل و انصاف کی ضرورت پیش آتی ہے، بنا عدل کے ظالم عیش کرتا ہے اور مظلوم جیل کی دیواروں کے پیچھے گریہ و زاری میں شب و روز مصروف رہتا ہے، گھر والے علیحدہ پریشان گویا ایک پورا گھرانا برباد ہوجاتا ہے۔
ہمارے یہاں تو نگراں وزیر اور وزیر اعظم اپنوں کو مراعات مہیا کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر ذرا سی بھی دیر ہوگئی اور کرسی سے اترنا پڑا تب وزارت عظمیٰ کے فائدوں سے محروم ہونا پڑے گا۔
ہمارے معاشرے میں ہمارے حکمران اپنے مفاد کی ہی بات کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے سنہری موقع مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا دیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں، جبرواستحصال کی فضا کو پروان چڑھانے والوں کو قرار واقعی سزا دیں، تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔ جناب نواز شریف صاحب کو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن حالات جوں کے توں ہیں، کراچی میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، سیاسی افق پر خوشگوار تبدیلیاں رونما ہونے کے باوجود لاشیں گرنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔
بجٹ 2013-14 کا بھی اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو نہایت مایوس کن ہے، وجہ یہ ہے کہ کم آمدنی والے پھر مار کھاگئے ان کے لیے ضروریات زندگی کی اشیاء خریدنا ناممکن سا لگتا ہے، چونکہ متوسط طبقہ اور غربت کی لکیر پر زندگی گزارنے والوں کی دسترس سے یہ چیزیں باہر ہیں، گھی، چینی، مشروبات، سگریٹ اور پان، چھالیہ پر سالانہ چالیس سے 60 لاکھ روپے، تنخواہ لینے والوں، حاجیوں اور چیک کیش کرانے پر بھی ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے۔
رہ گئیں وہ چیزیں جو روزمرہ کے استعمال میں آتی ہیں مثال کے طور پر ککنگ رینج، گیزر، ہیٹرز، بجلی کے پنکھے، استریاں، ٹیلی فون سیٹ وغیرہ بھی مہنگے کردیے، اب غریب کو بیٹی بیاہنا بھی مشکل ہوگیا چونکہ استری، پنکھے، چولہے وغیرہ عام طور پر جہیز میں دیے جاتے ہیں۔ شرفاء کو قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے لیکن اپنی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی کوشش کرتے ہیں بعض لوگ گھر کے سامنے ٹینٹ لگانے کی بجائے شادی ہال کو ترجیح دیتے ہیں، تو جناب ٹیکس لگانے کی وجہ سے شادی ہالوں کا کرایہ بھی مہنگا ہوجائے گا۔ جن چیزوں پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے وہ ہر شخص استعمال نہیں کرپاتا ہے، گاڑی خریدنا، پانی کی فلٹریشن، تمام لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ اور چھوٹے قرضے دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ لیپ ٹاپ سے ہر انسان استفادہ نہیں کرسکتا ہے سوائے طلبہ کے۔ پتھاروں کے ذریعے رزق کمانے والے ، ٹھیلے چلانے والوں کا لیپ ٹاپ سے کیا تعلق؟
یہ اچھی بات ہوئی کہ ماسٹر ڈگری ہولڈرز کو 10 ہزار ماہانہ وظیفہ ملنے کا اعلان کیا گیا ہے۔یہ اعلان ملک کے تمام نوجوانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یوتھ ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرنیوالے نوجوانوں کے لیے یہ سہولت ہے۔
سرکاری ملازمین نے 21 جون کو ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ سرکار نے گیس اور بجلی کے 15 ہزار روپے بل پر 5 فیصد اضافی ٹیکس عائد کردیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ اور موجودہ حکومت میں کیا فرق ہے؟ نواز شریف صاحب جب اقتدار میں نہیں تھے تو بہت بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے اور غریبوں کے خیر خواہ تھے دیکھیے اب وہ ان دعوؤں کو کیسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔ ابھی تو ابتداء ہے اقتدار میں آنے والوں نے حلف اٹھایا ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قسم کھائی ہے۔ اللہ سے وعدہ کیا ہے، لہٰذا اس بار حلف کو جھوٹا نہ کریں۔
ابھی بہت سا وقت ہے، عوام کی فلاح اور سکون و خوشحالی کے لیے کام کیے جاسکتے ہیں تاکہ لوگ نہ نواز شریف سے تنگ ہوں اور نہ ان کی حکومت سے، پیٹھ پیچھے انھیں برا بھلا نہ کہیں وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حکومتی امور انجام دیں تو یہ فیصلہ سب کے لیے بہتری کا پیغام لائے گا۔
''قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں'' انتخابی سرگرمیوں کے دوران یہ نعرہ چھوٹے بڑے سب کی زبان پر تھا اور پھر ہوا بھی یوں ہی کہ اہل پاکستان نے الیکشن والے دن پورا پورا اور ہر طرح سے ساتھ دیا۔ دھاندلی اور جعلسازی کے واقعات بھی سامنے آئے لیکن اس کے باوجود نواز شریف کے حامیوں نے خلوص دل کے ساتھ اتنے ووٹ دیے کہ میاں نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ یقینا بہت بڑا اعزاز اور بڑی بھاری ذمے داری ہے جو اس وقت وزیر اعظم جناب نواز شریف کے کاندھوں پر ہے، نواز شریف کو سابقہ حکومت کے سیاہ دور سے سبق سیکھنا بے حد ضروری ہے، ورنہ دانشوروں کے بقول کہ حکومت کو اپنی میعاد پوری کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔
قوم بے حد دکھی، پریشان حال اور بے سہارا ہے وہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، پانی، بجلی، گیس کے بناء زندگی کیسے گزرتی ہے؟ یہی وہ حالات ہیں جن کے تحت شہری سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ چند روز قبل فیصل آباد میں ہزاروں افراد نے گرڈ اسٹیشن میں گھسنے کی کوشش کی، پولیس نے بھی شیلنگ کرکے اپنا فرض ادا کردیا اور اس نعرے کا ثبوت پیش کردیا ہے کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی''۔ ایسی فرض شناسی کی مثال قائم کی کہ گھروں میں گھس کر نہتے مکینوں پر لاٹھی چارج کردیا اس دوران پولیس اور عوام میں جھڑپیں ہوئیں ۔ کراچی میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے لیاقت آباد کے مکینوں نے بجلی کی عدم فراہمی کے باعث احتجاج کیا، ان حالات میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خالد محمود خان نے کہا کہ اب نئی حکومت مٹھائیاں تقسیم کرنا بند کرے، حکومت بن چکی ہے اب کام پر توجہ دے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خسرہ کو روکنے کے لیے نہ پچھلی حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی نئی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
نواز شریف پر اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی آزمائش بھی ہے کہ وہ اس بار اپنی عوام کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے؟ انصاف کا بول بالا کرسکیں گے اور غریب و مظلوم شخص کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنایا جائے گا کہ نہیں؟ یہ ان کی بصارت و بصیرت پر منحصر ہے۔ اسلامی قوانین کے تحت حاکم کو قوم کا آقا نہیں بلکہ خادم بن کر خدمت کرنی چاہیے تب شاندار انصاف قائم ہوسکتا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عدل و انصاف ہر شخص کے لیے شاندار مثال اور اعلیٰ نمونہ ہے عدل کا ایک مختصراً واقعہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں کچھ چادریں آئیں جو بلاتخصیص غیرے ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس چادر کا کرتہ زیب تن کیا تو ایک شخص نے آپ کا دامن پکڑ کر کہا کہ آپ کا قد لمبا ہے اور ایک چادر میں کرتا نہیں بن سکتا ہے۔ آپؓ نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا، بیٹے نے اس بات کی وضاحت کی کہ میں نے اپنے حصے کی چادر والد محترم کو دے دی تھی۔
معاشرتی نظام کو ہموار رکھنے کے لیے عدل و انصاف کی ضرورت پیش آتی ہے، بنا عدل کے ظالم عیش کرتا ہے اور مظلوم جیل کی دیواروں کے پیچھے گریہ و زاری میں شب و روز مصروف رہتا ہے، گھر والے علیحدہ پریشان گویا ایک پورا گھرانا برباد ہوجاتا ہے۔
ہمارے یہاں تو نگراں وزیر اور وزیر اعظم اپنوں کو مراعات مہیا کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر ذرا سی بھی دیر ہوگئی اور کرسی سے اترنا پڑا تب وزارت عظمیٰ کے فائدوں سے محروم ہونا پڑے گا۔
ہمارے معاشرے میں ہمارے حکمران اپنے مفاد کی ہی بات کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے سنہری موقع مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا دیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں، جبرواستحصال کی فضا کو پروان چڑھانے والوں کو قرار واقعی سزا دیں، تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔ جناب نواز شریف صاحب کو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن حالات جوں کے توں ہیں، کراچی میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، سیاسی افق پر خوشگوار تبدیلیاں رونما ہونے کے باوجود لاشیں گرنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔
بجٹ 2013-14 کا بھی اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو نہایت مایوس کن ہے، وجہ یہ ہے کہ کم آمدنی والے پھر مار کھاگئے ان کے لیے ضروریات زندگی کی اشیاء خریدنا ناممکن سا لگتا ہے، چونکہ متوسط طبقہ اور غربت کی لکیر پر زندگی گزارنے والوں کی دسترس سے یہ چیزیں باہر ہیں، گھی، چینی، مشروبات، سگریٹ اور پان، چھالیہ پر سالانہ چالیس سے 60 لاکھ روپے، تنخواہ لینے والوں، حاجیوں اور چیک کیش کرانے پر بھی ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے۔
رہ گئیں وہ چیزیں جو روزمرہ کے استعمال میں آتی ہیں مثال کے طور پر ککنگ رینج، گیزر، ہیٹرز، بجلی کے پنکھے، استریاں، ٹیلی فون سیٹ وغیرہ بھی مہنگے کردیے، اب غریب کو بیٹی بیاہنا بھی مشکل ہوگیا چونکہ استری، پنکھے، چولہے وغیرہ عام طور پر جہیز میں دیے جاتے ہیں۔ شرفاء کو قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے لیکن اپنی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی کوشش کرتے ہیں بعض لوگ گھر کے سامنے ٹینٹ لگانے کی بجائے شادی ہال کو ترجیح دیتے ہیں، تو جناب ٹیکس لگانے کی وجہ سے شادی ہالوں کا کرایہ بھی مہنگا ہوجائے گا۔ جن چیزوں پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے وہ ہر شخص استعمال نہیں کرپاتا ہے، گاڑی خریدنا، پانی کی فلٹریشن، تمام لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ اور چھوٹے قرضے دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ لیپ ٹاپ سے ہر انسان استفادہ نہیں کرسکتا ہے سوائے طلبہ کے۔ پتھاروں کے ذریعے رزق کمانے والے ، ٹھیلے چلانے والوں کا لیپ ٹاپ سے کیا تعلق؟
یہ اچھی بات ہوئی کہ ماسٹر ڈگری ہولڈرز کو 10 ہزار ماہانہ وظیفہ ملنے کا اعلان کیا گیا ہے۔یہ اعلان ملک کے تمام نوجوانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یوتھ ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرنیوالے نوجوانوں کے لیے یہ سہولت ہے۔
سرکاری ملازمین نے 21 جون کو ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ سرکار نے گیس اور بجلی کے 15 ہزار روپے بل پر 5 فیصد اضافی ٹیکس عائد کردیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ اور موجودہ حکومت میں کیا فرق ہے؟ نواز شریف صاحب جب اقتدار میں نہیں تھے تو بہت بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے اور غریبوں کے خیر خواہ تھے دیکھیے اب وہ ان دعوؤں کو کیسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔ ابھی تو ابتداء ہے اقتدار میں آنے والوں نے حلف اٹھایا ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قسم کھائی ہے۔ اللہ سے وعدہ کیا ہے، لہٰذا اس بار حلف کو جھوٹا نہ کریں۔
ابھی بہت سا وقت ہے، عوام کی فلاح اور سکون و خوشحالی کے لیے کام کیے جاسکتے ہیں تاکہ لوگ نہ نواز شریف سے تنگ ہوں اور نہ ان کی حکومت سے، پیٹھ پیچھے انھیں برا بھلا نہ کہیں وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حکومتی امور انجام دیں تو یہ فیصلہ سب کے لیے بہتری کا پیغام لائے گا۔