وجدان کی قوت
پانچ ظاہری حسیں ہیں اور پانچ باطنی حسیں، ظاہری حواس خمسہ (باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ، شامہ) کے فرائض تو ہمیں۔۔۔
پانچ ظاہری حسیں ہیں اور پانچ باطنی حسیں، ظاہری حواس خمسہ (باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ، شامہ) کے فرائض تو ہمیں معلوم ہی ہیں۔ باصرہ کا کام دیکھنا ہے، سامعہ کا سننا، لامسہ کا فریضہ چھو کر کسی چیز کی کیفیت معلوم کرنا، ذائقہ کا چکھ کر، شامہ کا سونگھ کر... جہاں تک باطنی حواس خمسہ (واہمہ، مصورہ، متخیلہ، حافظہ اور حس مشترک) کا تعلق ہے تو وہم کا کام یہ ہے کہ وہ کسی تصور اور خیال دونوں چیزوں کو ملا کر تیسری چیز کو وجود میں لے آئے۔ مثلاً آپ نے سونا بھی دیکھا ہے، پہاڑ بھی، ان دونوں چیزوں کا خیال تصور کی شکل میں حافظے کے اندر موجود ہے۔
تصور کا تعلق حس مصورہ سے ہے، خیال کا حسن متخیلہ سے، واہمے کی کارگزاری یہ ہوگی کہ وہ سونے اور پہاڑ (دونوں الگ الگ چیز یں ہیں) کے خیال اور تصور کو (کہ حافظے میں موجود ہیں) جوڑ کر ''سونے کے پہاڑ'' کا تصور پیدا کر دے۔ حس مشترک وہ حس ہے جو مختلف حواس کے عمل میں رابطہ پیدا کرتی ہے۔ ظاہری اور باطنی حواس خمسہ کی اصل حقیقت اب تک واضح طور پر معلوم نہیں ہوسکی۔ اس سلسلے میں جو کچھ کہا جاتا رہا ہے وہ بیشتر قیاسوں اور مفروضوں پر مبنی ہے۔ کوئی ٹھوس بات نہیں، ان اندر اور باہر کی دس حسوں کے علاوہ انسان میں اور حسیں بھی ہیں، مثلاً چھٹی حس کہ درحقیقت گیارہوں حس ہے (لیکن عموماً لوگ اسے چھٹی حس ہی پکارتے ہیں)۔ اس گیارہویں حس کے ذریعے ہم ایسی چیزوں کو معلوم کرتے ہیں جو حواس خمسہ کی سطح سے بلند ہیں۔ چھٹی حس کو ادراک ماورائے حواس (E.S.P) Extra Sensory Perception بھی کہتے ہیں، مثلاً کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی سے بات کریں تو پہلے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیا جواب ملے گا، یا کسی کام کی ابتدا میں ہی انجام بھانپ لیتے ہیں۔
چھٹی حس کے ذریعے ہم ایسے حقائق کو بھانپ لیتے ہیں جو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ مثلاً فلاں شخص سے نفع کی توقع ہے یا نقصان کی؟ حدس اور فراست کا تعلق بھی چھٹی حس سے ہے، حدس کے ذریعے ہم کسی انسان کے اخلاق و کردار اور سرشت و مزاج کا اندازہ لگا لیتے ہیں، یا بعض واقعات کے بارے میں قبل از وقت ایسی پیش گوئیاں کردیتے ہیں جو آگے چل کر ہو بہو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ فراست کا ملکہ یا خوبی عقل تجربہ کار کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ عقل ہر کام کے لیے دلیل مہیا کرتی اور پھر اس دلیل سے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، جب عقل متواتر دلیل اور نتیجے کی اس منطق کو استعمال کرتی رہتی ہے تو رفتہ رفتہ فراست کا ملکہ بیدار ہوجاتا ہے، یعنی انسان بغیر دلیل کے صحیح نتیجے تک پہنچ جاتا ہے۔ فراست کا اعلیٰ درجہ وجدان ہے۔ وجدان ہے کیا؟ اس ''کیا'' کا جواب مستقل بحث کے بغیر نہیں دیا جاسکتا، تاہم اس موقع پر چند لفظ کہے بغیر چارہ نہیں۔
اپالو نمبر 15 کی چاند گاڑی کے خلاباز میجر الفرڈ ایم وارڈن نے جو تین روز تک تنہا چاند کے مدار پر گردش کرتے رہے۔ سفر ماہ کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ''خلا میں چاند کے مدار پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بے کراں خاموشی اور روانی کے سمندروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ چاند پر بعض وقت ایسے عجیب و غریب اور اتنے حسین و جمیل مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے حسن و جمال اور اثر آفرینی کو بیان کرنے کا بوجھ دنیا کی کوئی زبان نہیں اٹھا سکتی۔ ایک موقع پر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ تاریک و وسیع اسٹیج پر کوئی شخص کھڑا ہے اس کے بعد روشنیوں کے کوندے لپکتے نظر آئے۔ جب میں خلا میں چہل قدمی کر رہا تھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان گنت تجلیاں اور بے شمار روشنیاں مجھ پر برس رہی ہیں۔''
اپالو 15 کے دوسرے خلاباز، ڈیوڈ اسکاٹ نے کہا کہ چاند پر قدم رکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اس سے پہلے بھی یہاں آچکا ہوں۔ کرنل جیمز بی وارڈن نے جو کہ شریک سفر تھے، اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا جب تک میں چاند پر رہا یہ محسوس ہوتا رہا کہ میرے اندر وجدان کی قوت پیدا ہوگئی ہے، جیسے کوئی میرے ساتھ ہے، میری نگرانی کر رہا ہے، پیچھے پیچھے آرہا ہے، میرے ساتھ چل رہا ہے۔
اپالو نمبر 15 کے خلابازوں نے اگرچہ اپنے تاثرات شاعرانہ لفظوں میں بیان کیے ہیں مگر ان کی شاعرانہ بندش خیالی نہیں، حقیقی ہے۔ خلا نورد بی وارن کا یہ فقرہ نہایت خیال انگیز ہے کہ:
''جب تک میں چاند پر رہا، یہ محسوس ہوتا رہا کہ میرے اندر وجدان کی قوت پیدا ہوگئی ہے۔''
وجدان کی قوت عظیم الشان قوت ہے۔ ہمارے اندر بہت سی قوتیں ہیں۔ سوچنے کی قوت، انتخاب کرنے کی قوت، فیصلہ کرنے کی قوت۔ یہ ساری قوتیں شعور کے تحت ہیں۔ یہ شعور ہی تو ہے جس کے بل بوتے پر ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کسی معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلاً مجھے یہ کام کرنا چاہیے یا نہ کرنا چاہیے اور جب سوچنے سمجھنے کے بعد کسی کام کا انتخاب کر لیتے ہیں تو فیصلہ کر گزرتے ہیں۔ یہ سارے کام جان بوجھ کر دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر سے خودبخود ایک خیال ابھرتا ہے اور ہم اس خیال کی درستی اور نادرستی کا عقلی فیصلہ کیے بغیر اس خیال کو عملی جامہ پہنا دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک اجنبی شخص ہمیں ملتا ہے اور ہم ایک ہی نظر میں اسے پسند کرکے اپنا رازدار بنا لیتے ہیں، یا ایک معالج کسی مریض کو دیکھ کر بغیر کسی ظاہری وجہ کے چند دواؤں میں سے ایک دوا چن لیتا ہے اور دوا مریض کے حق میں اکسیر ثابت ہوتی ہے، یا ہمارے ذہن میں یکایک یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں قدم اٹھانا چاہیے، بظاہر وہ قدم خطرناک ہوتا ہے، مگر نتیجے میں کامیابی ہوتی ہے۔ زیادہ وضاحت سے کہا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ عمل کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
وہ فیصلہ اور عمل جو شعور کی روشنی میں تمام اونچ نیچ دیکھ کر کیا جائے اور وہ عمل اور فیصلے جو کسی اندرونی تقاضے اور لاشعوری دباؤ کی بنا پر یکایک کیے جائیں۔ ان دوسرے اقدامات کو وجدانی عمل اور وجدانی فیصلے کہا جائے گا۔ وجدان کی قوت وہ خواہش و ارادہ و تقاضا، وہ عمل اور وہ فیصلہ ہے جو شعور کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے، خود رو چشمے کی طرح نفس کے اندر سے پھوٹ نکلتا اور اپنے بہاؤ کا راستہ خود بنالیتا ہے۔ وجدانی قوت کسی کی رہنمائی کی محتاج نہیں وہ آپ اپنی منزل اور آپ اپنی رہنما ہوتی ہے۔
یوں تو وجدان کا ملکہ چیونٹی سے لے کر آدمی تک کارفرما ہوتا ہے لیکن اس کا اظہار کسی ظاہری وجہ (خارجی تحریک) کا محتاج نہیں ہوتا۔ طوفان آنے سے کئی دن پہلے چیونٹیاں محفوظ مقامات پر چلی جاتی ہیں۔ ان کا یہ نقل مکانی وجدانی عمل کی حیثیت رکھتا ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ طوفان سے قبل چیونٹیاں ہوا سے طوفان کی خوشبو سونگھ لیتی ہوں گی، اس لیے اپنے بل اور سوراخ چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں میں چلی جاتی ہیں۔ میں اس کی تائید کروں گا۔ ہر واقعے کے پیش آنے سے پہلے (ایک دن پہلے یا ایک سال) فضا میں یقیناً نازک، باریک اور مخفی تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور ہمارا نفس کہ انسانی وجود کا حساس ترین آلہ ہے، ان تبدیلیوں کو ریکارڈ (مرتسم) کرتا ہے۔ اسی لاشعوری ریکارڈ سے ''وجدان'' جنم لیتا ہے۔ وجدان کی نگاہ مستقبل شناس ہے اور عقل فقط ''آج'' پر نظر رکھتی ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
تصور کا تعلق حس مصورہ سے ہے، خیال کا حسن متخیلہ سے، واہمے کی کارگزاری یہ ہوگی کہ وہ سونے اور پہاڑ (دونوں الگ الگ چیز یں ہیں) کے خیال اور تصور کو (کہ حافظے میں موجود ہیں) جوڑ کر ''سونے کے پہاڑ'' کا تصور پیدا کر دے۔ حس مشترک وہ حس ہے جو مختلف حواس کے عمل میں رابطہ پیدا کرتی ہے۔ ظاہری اور باطنی حواس خمسہ کی اصل حقیقت اب تک واضح طور پر معلوم نہیں ہوسکی۔ اس سلسلے میں جو کچھ کہا جاتا رہا ہے وہ بیشتر قیاسوں اور مفروضوں پر مبنی ہے۔ کوئی ٹھوس بات نہیں، ان اندر اور باہر کی دس حسوں کے علاوہ انسان میں اور حسیں بھی ہیں، مثلاً چھٹی حس کہ درحقیقت گیارہوں حس ہے (لیکن عموماً لوگ اسے چھٹی حس ہی پکارتے ہیں)۔ اس گیارہویں حس کے ذریعے ہم ایسی چیزوں کو معلوم کرتے ہیں جو حواس خمسہ کی سطح سے بلند ہیں۔ چھٹی حس کو ادراک ماورائے حواس (E.S.P) Extra Sensory Perception بھی کہتے ہیں، مثلاً کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی سے بات کریں تو پہلے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیا جواب ملے گا، یا کسی کام کی ابتدا میں ہی انجام بھانپ لیتے ہیں۔
چھٹی حس کے ذریعے ہم ایسے حقائق کو بھانپ لیتے ہیں جو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ مثلاً فلاں شخص سے نفع کی توقع ہے یا نقصان کی؟ حدس اور فراست کا تعلق بھی چھٹی حس سے ہے، حدس کے ذریعے ہم کسی انسان کے اخلاق و کردار اور سرشت و مزاج کا اندازہ لگا لیتے ہیں، یا بعض واقعات کے بارے میں قبل از وقت ایسی پیش گوئیاں کردیتے ہیں جو آگے چل کر ہو بہو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ فراست کا ملکہ یا خوبی عقل تجربہ کار کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ عقل ہر کام کے لیے دلیل مہیا کرتی اور پھر اس دلیل سے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، جب عقل متواتر دلیل اور نتیجے کی اس منطق کو استعمال کرتی رہتی ہے تو رفتہ رفتہ فراست کا ملکہ بیدار ہوجاتا ہے، یعنی انسان بغیر دلیل کے صحیح نتیجے تک پہنچ جاتا ہے۔ فراست کا اعلیٰ درجہ وجدان ہے۔ وجدان ہے کیا؟ اس ''کیا'' کا جواب مستقل بحث کے بغیر نہیں دیا جاسکتا، تاہم اس موقع پر چند لفظ کہے بغیر چارہ نہیں۔
اپالو نمبر 15 کی چاند گاڑی کے خلاباز میجر الفرڈ ایم وارڈن نے جو تین روز تک تنہا چاند کے مدار پر گردش کرتے رہے۔ سفر ماہ کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ''خلا میں چاند کے مدار پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بے کراں خاموشی اور روانی کے سمندروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ چاند پر بعض وقت ایسے عجیب و غریب اور اتنے حسین و جمیل مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے حسن و جمال اور اثر آفرینی کو بیان کرنے کا بوجھ دنیا کی کوئی زبان نہیں اٹھا سکتی۔ ایک موقع پر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ تاریک و وسیع اسٹیج پر کوئی شخص کھڑا ہے اس کے بعد روشنیوں کے کوندے لپکتے نظر آئے۔ جب میں خلا میں چہل قدمی کر رہا تھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان گنت تجلیاں اور بے شمار روشنیاں مجھ پر برس رہی ہیں۔''
اپالو 15 کے دوسرے خلاباز، ڈیوڈ اسکاٹ نے کہا کہ چاند پر قدم رکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اس سے پہلے بھی یہاں آچکا ہوں۔ کرنل جیمز بی وارڈن نے جو کہ شریک سفر تھے، اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا جب تک میں چاند پر رہا یہ محسوس ہوتا رہا کہ میرے اندر وجدان کی قوت پیدا ہوگئی ہے، جیسے کوئی میرے ساتھ ہے، میری نگرانی کر رہا ہے، پیچھے پیچھے آرہا ہے، میرے ساتھ چل رہا ہے۔
اپالو نمبر 15 کے خلابازوں نے اگرچہ اپنے تاثرات شاعرانہ لفظوں میں بیان کیے ہیں مگر ان کی شاعرانہ بندش خیالی نہیں، حقیقی ہے۔ خلا نورد بی وارن کا یہ فقرہ نہایت خیال انگیز ہے کہ:
''جب تک میں چاند پر رہا، یہ محسوس ہوتا رہا کہ میرے اندر وجدان کی قوت پیدا ہوگئی ہے۔''
وجدان کی قوت عظیم الشان قوت ہے۔ ہمارے اندر بہت سی قوتیں ہیں۔ سوچنے کی قوت، انتخاب کرنے کی قوت، فیصلہ کرنے کی قوت۔ یہ ساری قوتیں شعور کے تحت ہیں۔ یہ شعور ہی تو ہے جس کے بل بوتے پر ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کسی معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلاً مجھے یہ کام کرنا چاہیے یا نہ کرنا چاہیے اور جب سوچنے سمجھنے کے بعد کسی کام کا انتخاب کر لیتے ہیں تو فیصلہ کر گزرتے ہیں۔ یہ سارے کام جان بوجھ کر دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر سے خودبخود ایک خیال ابھرتا ہے اور ہم اس خیال کی درستی اور نادرستی کا عقلی فیصلہ کیے بغیر اس خیال کو عملی جامہ پہنا دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک اجنبی شخص ہمیں ملتا ہے اور ہم ایک ہی نظر میں اسے پسند کرکے اپنا رازدار بنا لیتے ہیں، یا ایک معالج کسی مریض کو دیکھ کر بغیر کسی ظاہری وجہ کے چند دواؤں میں سے ایک دوا چن لیتا ہے اور دوا مریض کے حق میں اکسیر ثابت ہوتی ہے، یا ہمارے ذہن میں یکایک یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں قدم اٹھانا چاہیے، بظاہر وہ قدم خطرناک ہوتا ہے، مگر نتیجے میں کامیابی ہوتی ہے۔ زیادہ وضاحت سے کہا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ عمل کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
وہ فیصلہ اور عمل جو شعور کی روشنی میں تمام اونچ نیچ دیکھ کر کیا جائے اور وہ عمل اور فیصلے جو کسی اندرونی تقاضے اور لاشعوری دباؤ کی بنا پر یکایک کیے جائیں۔ ان دوسرے اقدامات کو وجدانی عمل اور وجدانی فیصلے کہا جائے گا۔ وجدان کی قوت وہ خواہش و ارادہ و تقاضا، وہ عمل اور وہ فیصلہ ہے جو شعور کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے، خود رو چشمے کی طرح نفس کے اندر سے پھوٹ نکلتا اور اپنے بہاؤ کا راستہ خود بنالیتا ہے۔ وجدانی قوت کسی کی رہنمائی کی محتاج نہیں وہ آپ اپنی منزل اور آپ اپنی رہنما ہوتی ہے۔
یوں تو وجدان کا ملکہ چیونٹی سے لے کر آدمی تک کارفرما ہوتا ہے لیکن اس کا اظہار کسی ظاہری وجہ (خارجی تحریک) کا محتاج نہیں ہوتا۔ طوفان آنے سے کئی دن پہلے چیونٹیاں محفوظ مقامات پر چلی جاتی ہیں۔ ان کا یہ نقل مکانی وجدانی عمل کی حیثیت رکھتا ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ طوفان سے قبل چیونٹیاں ہوا سے طوفان کی خوشبو سونگھ لیتی ہوں گی، اس لیے اپنے بل اور سوراخ چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں میں چلی جاتی ہیں۔ میں اس کی تائید کروں گا۔ ہر واقعے کے پیش آنے سے پہلے (ایک دن پہلے یا ایک سال) فضا میں یقیناً نازک، باریک اور مخفی تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور ہمارا نفس کہ انسانی وجود کا حساس ترین آلہ ہے، ان تبدیلیوں کو ریکارڈ (مرتسم) کرتا ہے۔ اسی لاشعوری ریکارڈ سے ''وجدان'' جنم لیتا ہے۔ وجدان کی نگاہ مستقبل شناس ہے اور عقل فقط ''آج'' پر نظر رکھتی ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)