سوچو صرف سوچو
سقراط کہا کرتا تھا میں کسی کو نہ کچھ سکھاتا ہوں اور نہ ہی مجھے کچھ معلوم ہے میرا صرف یہ کہنا ہے کہ آپ سوچو صرف سوچو۔۔۔
سقراط کہا کرتا تھا میں کسی کو نہ کچھ سکھاتا ہوں اور نہ ہی مجھے کچھ معلوم ہے میرا صرف یہ کہنا ہے کہ آپ سوچو صرف سوچو ۔ایک بھارتی دانشور سے جب پوچھا گیا کہ بھارت اور پاکستان کی جمہوریت میں کیا فر ق ہے تو اس نے جواب دیا کہ ہم پاکستان کی طرح اپنے سیاستدا نوں کو پھانسی نہیں دیتے ایک اور واضح فرق جو ہم میں اور ان میں ہے وہ ہے کہ بھارت کے لوگ آزادی دلوانے والے اپنے رہنماؤں کو دیوتا کا درجہ دیتے ہیں جب کہ ہم ؟ آئیں ہم جلد ی سے اپنی تاریخ کے صفحات الٹ کر پڑھتے ہیں ۔
مس جناح لکھتی ہیں کہ ''اگست کے آخر میں قائد اعظم بالکل دل چھوڑگئے تھے ۔ انھوں نے میری آنکھوں میں گھورتے ہوئے مجھے کہا '' فطی۔ میں اب زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔ میں جتنا جلد چلا جاؤں،بہتر ہے'' مس جناح نے تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ مردہ مسکراہٹ کے ساتھ مسکرائے اور بو لے'' نہیں، میں اب زندہ رہنا نہیں چاہتا ۔ستمبر کے دوسرے ہفتے میں ان پر ہذیان کی کیفیت طاری ہوگئی اور ''ایک مرتبہ وہ ایسی ہی حالت میں یہ کہتے سنے گئے کہ کشمیر کمیشن کوآج مجھ سے ملنا تھا وہ اب تک کیوں نہیں آئے ؟ کہاں چلے گئے '' اور وہ یہ کہتے بھی سنے گئے '' کشمیر۔انہیں حق ۔ دے دو ۔ فیصلہ کا ۔ آئین ۔ میں مکمل کرو ں گا ۔
جلد ۔ مہا جرین ۔ ان کو دو ۔ ہر قسم کی امداد ۔'' جب ڈاکٹر کرنل الہی بخش نے یہ حالت دیکھی تو اس نے مس جناح کو یہ مشور ہ دیا کہ قائد اعظم کو فوراً کراچی لے جایا جائے کیونکہ بجز ا س کے کہ کوئی معجز ہ رونما ہو قائد اعظم کے چند دن سے زیادہ زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ چنانچہ 11 ستمبر کو گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کا خاص ہوائی جہاز چا ر بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈ ہ پر پہنچا ۔ وہاں گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری کے سوا کوئی اور سرکار ی عہدیدار موجود نہیں تھا البتہ ایک ایمبو لینس تھی ۔ مس جناح اورکوئٹہ والی نرس ایمبو لینس میں بیٹھ گئی ۔
راستے میں ایمبولینس کے ساتھ جو افتاد بیتی اس کا احوال کرنل الہی بخش لکھتا ہے کہ '' بمشکل چار میل گئے ہوں گے کہ ایمبو لینس یکایک رک گئی ۔ ہم حیران تھے کہ آخر یہ کیا ہوا ۔ میں نے باہر نکل کر دریافت کیا تو معلو م ہوا کہ گاڑی کا انجن خراب ہوگیا ہے ۔ڈرائیور نے کہاکہ ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں ۔ وہ کوئی بیس منٹ تک مصروف رہا لیکن گاڑی پھر بھی نہ چلی ۔ مس جناح نے ملٹری سیکریٹری کو ایک اور ایمبولینس لانے کے لیے بھیجا ۔ ڈاکٹر مستری بھی اس کے ساتھ ہو لیے ۔ ایمبولینس میں ہوا بالکل بند تھی۔ نرس اور نوکر انہیں پنکھا جھل رہے تھے ۔ پھر بھی قا ئداعظم کو پسینہ آرہا تھا۔
ہمیں خیال آیا کہ انہیں بڑی کار میں منتقل کردیں لیکن اسٹریچر اس کے دروازے سے بڑا تھا ۔ وہ خو د بھی اتنے کمزور تھے کہ پچھلی سیٹ پر نہیں لیٹ سکتے تھے ۔ اس کے علاوہ ان کے کپڑے پسینہ سے شرابور تھے اور باہر انہیں ہوا لگ جانے کا خطرہ تھا ۔ میں ان کی نبض دیکھ کر کچھ سہم سا گیا ۔کیونکہ وہ بڑی کمزور معلوم ہورہی تھی ۔ مجھے خیال آیا کہ خدانخواستہ قائداعظم نے ہوائی سفر بخیروخوبی طے کر نے کے بعد سٹر ک کے کنارے جان دے دی تو یہ کتنا بڑا سانحہ ہوگا۔
میں گھڑی گھڑی شہر کی طرف نظریں دوڑاتا تھا لیکن ایمبولینس کے کوئی آثار نہ تھے ۔ ٹرک اور بسیں ادھر ادھر سے گذر رہی تھیں لیکن کوئی بس اس قابل نہ تھی کہ وہ استعمال میں لائی جاسکے۔ میں بہت ہراساں اور پریشان بیٹھا تھا ۔ بڑے صبر آزما انتظار کے بعد خدا خدا کرکے ایمبولینس نمودار ہوئی ہم نے فوراً قائداعظم کو اس میں منتقل کیا پھر روانہ ہوئے ایمبو لینس پرگورنر جنرل کا نشان نہ تھا ۔ اس لیے کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ قائداعظم اس نازک حالت میں کراچی کے بازاروں سے گذر ر ہے ہیں ۔ چھ بچ کر دس منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترنے کے دو گھنٹے بعد کہیں جا کر ہمارا سفر ختم ہوا ۔'' لیکن کئی گھنٹے تک تگ ودو کے با وجود رات کے لیے کسی نرس کا انتظام نہ ہوسکا ۔
ڈاکٹر الہی بخش اس مقصد کے لیے خود بھی دوڑ دھوپ کررہا تھا اور وہ حیران تھا کہ ہوائی اڈے سے لے کر اب تک ہر بات مخالف ہورہی ہے ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ پورے کراچی شہر میں نرس کا ملنا اتنا دشوار ہوگا۔ بالا ٓخر ملٹری سیکریٹری کو رات کے آٹھ بجے کے قریب کہیں سے ایک نرس مل گئی لیکن اس کے تقریباً دوگھنٹے بعد دس بج کر دس منٹ پر قا ئداعظم محمد علی جناح کی روح پرواز کر گئی ۔ اس موقعے پر ان کے بستر مرگ کے نزدیک صرف تین ڈاکٹروں ، ایک نرس اور مس فاطمہ جناح کے سوا اور کوئی نہیں تھا ۔اب وقت آگیاہے کہ ہم اپنی تاریخ اپنے رویوں کا بے رحم تجزیہ روز اول سے شروع کریں اس کے بغیر ہم ہرگز نہ منزل پر پہنچ سکتے ہیں اور نہ خوشحالی ترقی و استحکام کا سفر طے ہوسکتا ہے ۔
یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ناکامی کے مفہوم کو سمجھا جائے پاکستان کے حوالے سے اس اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیاگیا ۔ یہ اصطلاح حالیہ دور کی ان ریاستوں کے لیے استعمال کی گئی جو اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضروریات کا پورا نہ کرسکیں ۔جیسے صومالیہ اور افغانستان ، ناکامی کی کم ازکم اقسام کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔ (۱) اپنی یا دوسروں کی ماضی کی توقعات پر پورا نہ اترنا (۲) بصیرت کی ناکامی (۳) معاشی ناکامی (4)قیادت کی ناکامی (5) ناگہانی ناکامی۔ بدقسمتی سے ہم تمام اقسام کی ناکامی سے دوچار رہے ہیں ۔یا ہمیں دو چار کیا جاتا رہا ہے ، پاکستان ہمیشہ جمہوریت کے کنارے پر رہا اس کے مشرقی ایشیاء ہم منصب اس سے آگے نکل گئے اور معاشی ترقی سے چھلانگ لگا کر جمہوری ترقی تک جا پہنچے ۔
پاکستان کی حد تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور ریاست کی تعمیر نو ایک ایسا مستقبل ہے جو متوقع کی بجائے غیر امکانی محسوس ہوتا ہے ۔ بطور جمہوریت پاکستان کا مقدر ان چند یونانی شہری ریاستوں کے مماثل ہوگا جو ارسطو کے زیر مطالعہ رہیں۔ ارسطو نے ان شہری ریاستوں کی تفصیل اپنی تصنیف سیاست میں بیان کی ہیں بقول ارسطو ان میں سے اکثر ناقص امرا شاہی حکومتیں تھیں جو ارتقا ء کے مراحل طے کر نے کے بعد ناقص جمہوریتوں میں بدل گئیں اور ایک مرتبہ پھر امرا شاہی طرز حکومت کی حامل ریاستیں بن گئیں ان میں سے ایک آدھ کبھی کبھارجابر ریاست میں بھی تبدیل ہوتی رہی شاید ہی کوئی ایسی ہو جس نے خالص نظام کو اپنایا بقول ارسطو صحت مند اصولوں کو اپنی بنیاد بنایا۔ پاکستان کا امرا شاہی سے مکمل جمہوریت کی سمت سفر انتہائی دشوار لگتا ہے ہمارا ماضی اور حال یونانی شہری ریاستوں سے مختلف نہیں ہے ۔
دنیا کی غیور قومیں اپنے قومی مجرموں کو قبروں سے نکال کر سزا دے چکی ہیں جب کہ ہمارے سامنے روشنی ہوتے ہوئے بھی ہم اندھیروں میں اپنا سر ٹکرا رہے ہیں ۔ ہمیں اندھیرے اتنے پیارے ہو چکے ہیں کہ ہم ان سے نکل کر روشنی کی سمت جانا ہی نہیں چاہتے۔ ہم بہت بکواس سن چکے ہیں ،بہت کہانیاں سن چکے ہیں ،جھوٹی سچی کہانیاں سن سن کر قوم بہری ہو چکی ہے۔ بحیثیت قوم ہمارے صدموں کی طویل داستان ہے اب ہمیں اپنا بے رحم تجزیہ کرتے ہوئے تمام خرابیوں اور برائیوں کو ہمیشہ کے لیے مٹانا ہو گا ۔اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضرورتوں کو پورا کرنا ہوگا ۔مکمل جمہوریت کی طرف تیزی سے سفر طے کرنا ہوگا اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو انجام سب کو معلوم ہے ۔لہذا سوچو صرف سوچو ۔
مس جناح لکھتی ہیں کہ ''اگست کے آخر میں قائد اعظم بالکل دل چھوڑگئے تھے ۔ انھوں نے میری آنکھوں میں گھورتے ہوئے مجھے کہا '' فطی۔ میں اب زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔ میں جتنا جلد چلا جاؤں،بہتر ہے'' مس جناح نے تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ مردہ مسکراہٹ کے ساتھ مسکرائے اور بو لے'' نہیں، میں اب زندہ رہنا نہیں چاہتا ۔ستمبر کے دوسرے ہفتے میں ان پر ہذیان کی کیفیت طاری ہوگئی اور ''ایک مرتبہ وہ ایسی ہی حالت میں یہ کہتے سنے گئے کہ کشمیر کمیشن کوآج مجھ سے ملنا تھا وہ اب تک کیوں نہیں آئے ؟ کہاں چلے گئے '' اور وہ یہ کہتے بھی سنے گئے '' کشمیر۔انہیں حق ۔ دے دو ۔ فیصلہ کا ۔ آئین ۔ میں مکمل کرو ں گا ۔
جلد ۔ مہا جرین ۔ ان کو دو ۔ ہر قسم کی امداد ۔'' جب ڈاکٹر کرنل الہی بخش نے یہ حالت دیکھی تو اس نے مس جناح کو یہ مشور ہ دیا کہ قائد اعظم کو فوراً کراچی لے جایا جائے کیونکہ بجز ا س کے کہ کوئی معجز ہ رونما ہو قائد اعظم کے چند دن سے زیادہ زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ چنانچہ 11 ستمبر کو گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کا خاص ہوائی جہاز چا ر بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈ ہ پر پہنچا ۔ وہاں گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری کے سوا کوئی اور سرکار ی عہدیدار موجود نہیں تھا البتہ ایک ایمبو لینس تھی ۔ مس جناح اورکوئٹہ والی نرس ایمبو لینس میں بیٹھ گئی ۔
راستے میں ایمبولینس کے ساتھ جو افتاد بیتی اس کا احوال کرنل الہی بخش لکھتا ہے کہ '' بمشکل چار میل گئے ہوں گے کہ ایمبو لینس یکایک رک گئی ۔ ہم حیران تھے کہ آخر یہ کیا ہوا ۔ میں نے باہر نکل کر دریافت کیا تو معلو م ہوا کہ گاڑی کا انجن خراب ہوگیا ہے ۔ڈرائیور نے کہاکہ ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں ۔ وہ کوئی بیس منٹ تک مصروف رہا لیکن گاڑی پھر بھی نہ چلی ۔ مس جناح نے ملٹری سیکریٹری کو ایک اور ایمبولینس لانے کے لیے بھیجا ۔ ڈاکٹر مستری بھی اس کے ساتھ ہو لیے ۔ ایمبولینس میں ہوا بالکل بند تھی۔ نرس اور نوکر انہیں پنکھا جھل رہے تھے ۔ پھر بھی قا ئداعظم کو پسینہ آرہا تھا۔
ہمیں خیال آیا کہ انہیں بڑی کار میں منتقل کردیں لیکن اسٹریچر اس کے دروازے سے بڑا تھا ۔ وہ خو د بھی اتنے کمزور تھے کہ پچھلی سیٹ پر نہیں لیٹ سکتے تھے ۔ اس کے علاوہ ان کے کپڑے پسینہ سے شرابور تھے اور باہر انہیں ہوا لگ جانے کا خطرہ تھا ۔ میں ان کی نبض دیکھ کر کچھ سہم سا گیا ۔کیونکہ وہ بڑی کمزور معلوم ہورہی تھی ۔ مجھے خیال آیا کہ خدانخواستہ قائداعظم نے ہوائی سفر بخیروخوبی طے کر نے کے بعد سٹر ک کے کنارے جان دے دی تو یہ کتنا بڑا سانحہ ہوگا۔
میں گھڑی گھڑی شہر کی طرف نظریں دوڑاتا تھا لیکن ایمبولینس کے کوئی آثار نہ تھے ۔ ٹرک اور بسیں ادھر ادھر سے گذر رہی تھیں لیکن کوئی بس اس قابل نہ تھی کہ وہ استعمال میں لائی جاسکے۔ میں بہت ہراساں اور پریشان بیٹھا تھا ۔ بڑے صبر آزما انتظار کے بعد خدا خدا کرکے ایمبولینس نمودار ہوئی ہم نے فوراً قائداعظم کو اس میں منتقل کیا پھر روانہ ہوئے ایمبو لینس پرگورنر جنرل کا نشان نہ تھا ۔ اس لیے کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ قائداعظم اس نازک حالت میں کراچی کے بازاروں سے گذر ر ہے ہیں ۔ چھ بچ کر دس منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترنے کے دو گھنٹے بعد کہیں جا کر ہمارا سفر ختم ہوا ۔'' لیکن کئی گھنٹے تک تگ ودو کے با وجود رات کے لیے کسی نرس کا انتظام نہ ہوسکا ۔
ڈاکٹر الہی بخش اس مقصد کے لیے خود بھی دوڑ دھوپ کررہا تھا اور وہ حیران تھا کہ ہوائی اڈے سے لے کر اب تک ہر بات مخالف ہورہی ہے ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ پورے کراچی شہر میں نرس کا ملنا اتنا دشوار ہوگا۔ بالا ٓخر ملٹری سیکریٹری کو رات کے آٹھ بجے کے قریب کہیں سے ایک نرس مل گئی لیکن اس کے تقریباً دوگھنٹے بعد دس بج کر دس منٹ پر قا ئداعظم محمد علی جناح کی روح پرواز کر گئی ۔ اس موقعے پر ان کے بستر مرگ کے نزدیک صرف تین ڈاکٹروں ، ایک نرس اور مس فاطمہ جناح کے سوا اور کوئی نہیں تھا ۔اب وقت آگیاہے کہ ہم اپنی تاریخ اپنے رویوں کا بے رحم تجزیہ روز اول سے شروع کریں اس کے بغیر ہم ہرگز نہ منزل پر پہنچ سکتے ہیں اور نہ خوشحالی ترقی و استحکام کا سفر طے ہوسکتا ہے ۔
یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ناکامی کے مفہوم کو سمجھا جائے پاکستان کے حوالے سے اس اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیاگیا ۔ یہ اصطلاح حالیہ دور کی ان ریاستوں کے لیے استعمال کی گئی جو اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضروریات کا پورا نہ کرسکیں ۔جیسے صومالیہ اور افغانستان ، ناکامی کی کم ازکم اقسام کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔ (۱) اپنی یا دوسروں کی ماضی کی توقعات پر پورا نہ اترنا (۲) بصیرت کی ناکامی (۳) معاشی ناکامی (4)قیادت کی ناکامی (5) ناگہانی ناکامی۔ بدقسمتی سے ہم تمام اقسام کی ناکامی سے دوچار رہے ہیں ۔یا ہمیں دو چار کیا جاتا رہا ہے ، پاکستان ہمیشہ جمہوریت کے کنارے پر رہا اس کے مشرقی ایشیاء ہم منصب اس سے آگے نکل گئے اور معاشی ترقی سے چھلانگ لگا کر جمہوری ترقی تک جا پہنچے ۔
پاکستان کی حد تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور ریاست کی تعمیر نو ایک ایسا مستقبل ہے جو متوقع کی بجائے غیر امکانی محسوس ہوتا ہے ۔ بطور جمہوریت پاکستان کا مقدر ان چند یونانی شہری ریاستوں کے مماثل ہوگا جو ارسطو کے زیر مطالعہ رہیں۔ ارسطو نے ان شہری ریاستوں کی تفصیل اپنی تصنیف سیاست میں بیان کی ہیں بقول ارسطو ان میں سے اکثر ناقص امرا شاہی حکومتیں تھیں جو ارتقا ء کے مراحل طے کر نے کے بعد ناقص جمہوریتوں میں بدل گئیں اور ایک مرتبہ پھر امرا شاہی طرز حکومت کی حامل ریاستیں بن گئیں ان میں سے ایک آدھ کبھی کبھارجابر ریاست میں بھی تبدیل ہوتی رہی شاید ہی کوئی ایسی ہو جس نے خالص نظام کو اپنایا بقول ارسطو صحت مند اصولوں کو اپنی بنیاد بنایا۔ پاکستان کا امرا شاہی سے مکمل جمہوریت کی سمت سفر انتہائی دشوار لگتا ہے ہمارا ماضی اور حال یونانی شہری ریاستوں سے مختلف نہیں ہے ۔
دنیا کی غیور قومیں اپنے قومی مجرموں کو قبروں سے نکال کر سزا دے چکی ہیں جب کہ ہمارے سامنے روشنی ہوتے ہوئے بھی ہم اندھیروں میں اپنا سر ٹکرا رہے ہیں ۔ ہمیں اندھیرے اتنے پیارے ہو چکے ہیں کہ ہم ان سے نکل کر روشنی کی سمت جانا ہی نہیں چاہتے۔ ہم بہت بکواس سن چکے ہیں ،بہت کہانیاں سن چکے ہیں ،جھوٹی سچی کہانیاں سن سن کر قوم بہری ہو چکی ہے۔ بحیثیت قوم ہمارے صدموں کی طویل داستان ہے اب ہمیں اپنا بے رحم تجزیہ کرتے ہوئے تمام خرابیوں اور برائیوں کو ہمیشہ کے لیے مٹانا ہو گا ۔اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضرورتوں کو پورا کرنا ہوگا ۔مکمل جمہوریت کی طرف تیزی سے سفر طے کرنا ہوگا اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو انجام سب کو معلوم ہے ۔لہذا سوچو صرف سوچو ۔