برف کا سُواء
پچھلے دنوں ایک دردناک واقعہ ٹیلیویژن کے ذریعے دیکھنے کو اور اخبارات کے ذریعے پڑھنے کو ملا۔۔۔
پچھلے دنوں ایک دردناک واقعہ ٹیلیویژن کے ذریعے دیکھنے کو اور اخبارات کے ذریعے پڑھنے کو ملا۔ فیصل آباد میں ایک برف فروش نے ایک برف خریدنے والے دس سالہ بچے کو برف کاٹنے والا سُواء اس کے پیٹ میں اس لیے دے مارا کہ اس معصوم بچے نے برف کا ایک ڈلا بغیر پوچھے مُنّہ میں ڈال لیا تھا۔ہم پر قہر خدا وندی نازل ہونے والاہے کیونکہ ہم نے اب ظلم کی انتہا کردی ہے۔ یہ ظلم وبربریت حکومت کی طرف سے نہیں ہو رہا۔ یہ ہم لوگ خود ایک دوسرے پر کر رہے ہیں۔ یہ ظلم کوئی جاگیردار یا وڈیرہ یا سرمایہ دار نہیں کر رہا۔ یہ ظلم تو غریب پر غریب ہی ڈھا رہا ہے۔
بچہ تو مرگیا لیکن اس کے ماں باپ بھی تو زندہ نہیں رہے۔ وہ بھی تو اب چلتی پھرتی لاشیں ہی رہ گئی ہوں گی۔ بچہ منوں مٹی تلے چلا گیا لیکن مٹی تو اس کے پسماندہ ماں باپ پر بھی ٹنوں کے حساب سے پڑگئی جو بظاہر ہم جیسے زندہ جانوروں کو نظر نہیں آرہی کسی نے پوچھا اب کیا ہو گا۔ میں نے کہا 'دائم آباد رہے گی دنیا 'ایک بچہ نہیں تو کوئی اور بچہ ہوگا اسی طرح ایک اور برف فروش بھی ہوگا۔ جس کے ہاتھ میں ایک سُوا بھی ہوگا۔ شدید گرمی کا موسم دوبارہ بھی آئے گا اور بچہ اسی طرح مُنہ میں ڈلا رکھے گا اور سُواء اپنے پیٹ پر لے گا۔
میں سوچ رہا تھا اور مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کس کیفیت کے تحت اُس شقی القلب برف فروش نے بچے کے پیٹ میں سُواء مارا۔ برف کے انبار میں سے اس کے چھوٹے سے مُنہ میں آدھی چھٹانک سے بھی کم برف آئی ہوگی۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس ڈلے کی قیمت اس کے وزن سے زیادہ وصول کرلی جاتی۔ ٹھیک ہے منافع اور بے پناہ منافع کی لالچ آدمی کو بالکل اندھا، ظالم اور مکمل طور پر بے حس بنا دیتی ہے لیکن اس کے بدلے کسی ننھی سی جان سے کھیل جانا کس طرح کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لیے میں شاید زندگی بھر سر گرداں رہوں۔
اگر یہی سوال میں آپ سے پوچھوں تو لاتعداد جوابات ملنے کے باوجود غالباً ایک بھی باقاعدہ طور پر تسلی بخش اور ہر لحاظ سے قابل تسلیم جواب نہیں مل سکے گا۔ قصور اس میں نہ آپ کا ہے اور نہ ہی میرا ہے۔ کیونکہ انگنت اور لاتعداد عوامل اس قسم کے واقعات کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں۔ جو بات ہم سب کے لیے شرمناک ہے وہ یہ کہ ہم اس واقعے کو بھول جائیں گے۔ بلکہ بھول چکے ہیں اور آئندہ کچھ عرصہ تک یہ واقعہ اپنی یادوں سے بھی محو ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایسے واقعات کا ہونا ایک قدرتی عمل سمجھ بیٹھے ہیں اور اسے انہونی بات سمجھنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔
ہمارے اور دوسرے لوگوں اور معاشروں میں یہی ایک بڑا فرق ہے کہ ہم بڑے سے بڑے درد ناک اور المناک واقعے کو بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر نہ صرف تسلیم کرلیتے ہیں بلکہ جلد از جلد بھول بھی جاتے ہیں۔ شاید اگر ہم سمجھیں تو یہ پہلے سی بھی زیادہ شرمناک بات ہے۔ دوسرے معاشروں میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ ان معاشروں میں جو ہماری طرح نہ ہونے کے باعث زیادہ باوقار ترقی یافتہ اور قابل عزت گردانے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں اسی نوعیت کے المناک واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد یک دم پورے معاشرے کے اندر ایک بھونچالی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور معاشرے کی ساری اکائیاں یعنی خاندان سے لے کر سماجی سیاسی اور حکومتی اداروں تک فوراً حرکت میں آجاتے ہیں اور نہ صرف سوچ بچار شروع کردیتے ہیں بلکہ باقاعدہ سنجیدہ اقدامات بھی اٹھاتے ہیں تاکہ اس قسم کے واقعات کا اعادہ روکا جاسکے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے اس مثبت اور سنجیدہ ردعمل کے نتیجے میں ان باکمال معاشروں میں دوبارہ مشکل سے ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ لیکن ''میری بات اور ہے میں نے تو نفرت کی ہے''۔جو سُواء اس شقی القلب اور آدمی کی شکل میں جانور نے ایک معصوم بچے کو گھونپا وہ تو دیکھنے والوں کو نظر آگیا تھا۔ جس کے باعث چاروں طرف سے تندوتیز نشتروں کا استعمال ہو رہا ہے لیکن وہ سُوئے ہم بالکل نہیں دیکھ پاتے جو ہم میں سے اکثر لوگ روزانہ ایک دوسرے کو لگاتار مارتے رہتے ہیں ۔
کبھی گالی گلوچ کے ذریعے، کبھی طعنوں اور لعنت ملامت کے ذریعے کبھی ایک دوسرے کے حقوق غصب کرکے کبھی بڑوں کا ادب نہ کرکے اور کبھی چھوٹوں کی بے عزتی کرکے کبھی اپنوں کو بھول کے اور کبھی غیروں کو اپنا سمجھ کے کبھی ظالموں کا ساتھ دیکر اور کبھی مظلوموں کو بے یارومدگار چھوڑ کر کبھی جھوٹ بول کر اور کبھی سچ کو چھپا کر کبھی غیبت کرکے اور کبھی بہتان لگا کر غرضیکہ ہم خود اس سُوئے سے زیادہ قہر آلود اور زہریلے سُوئے اپنے ہی لوگوں کو گھونپتے رہتے ہیں۔ اس لیے جب ایک برف فروش کا سُواء الف ننگا ہو کر سامنے آجاتا ہے تو اس کی چکاچوند ہمارے سوئوں پر پڑتی ہے جس کے باعث ہم بالکل بے حس ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ کس منہ سے اس سُوئے کی تذلیل کریں جو ہماری ذات کے اندر معزز اور قابل احترم ہے۔
کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ ان سوئوں کی آبیاری ہم دن میں پانچ مرتبہ سربسسجود ہوکر، تسبیحاں گھما پھرا کر، چہروں کو باقاعدہ سجا سجا کر اور نورانی بنا کر آمد رمضان سے پہلے پہلے روزہ داروں کو لوٹنے کا پروگرام بنا بنا کر، جعلی دوائیاں بنا بنا کر اور غریبوں کی خوراک اور کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کے ذریعے ان جعلی دوائوں کے استعمال کو مزید اجاگر کرکے مسلسل کرتے ہیں۔ یہ سُوئے ہمارے اندر کی طاقت ہیں ان سُوئوںکی بدولت ہی ہم نے جینا سیکھا ہے ان سوئوں سے ہی ہماری آن ہماری شان اور ہماری بقاء وابستہ ہے۔ اس لیے برف فروش نہ کبھی گرفتار ہوگا نہ کبھی اس پر مقدمہ چلے گا نہ کبھی وہ جیل جائے گا کیونکہ وہ کسی وڈیرے کا نہیں غریب کا شاہ رخ جتوئی ہے۔ کیونکہ بقول فراز ؎
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
خدا ہم سب کا حامی وناصرہو۔ آمین
بچہ تو مرگیا لیکن اس کے ماں باپ بھی تو زندہ نہیں رہے۔ وہ بھی تو اب چلتی پھرتی لاشیں ہی رہ گئی ہوں گی۔ بچہ منوں مٹی تلے چلا گیا لیکن مٹی تو اس کے پسماندہ ماں باپ پر بھی ٹنوں کے حساب سے پڑگئی جو بظاہر ہم جیسے زندہ جانوروں کو نظر نہیں آرہی کسی نے پوچھا اب کیا ہو گا۔ میں نے کہا 'دائم آباد رہے گی دنیا 'ایک بچہ نہیں تو کوئی اور بچہ ہوگا اسی طرح ایک اور برف فروش بھی ہوگا۔ جس کے ہاتھ میں ایک سُوا بھی ہوگا۔ شدید گرمی کا موسم دوبارہ بھی آئے گا اور بچہ اسی طرح مُنہ میں ڈلا رکھے گا اور سُواء اپنے پیٹ پر لے گا۔
میں سوچ رہا تھا اور مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کس کیفیت کے تحت اُس شقی القلب برف فروش نے بچے کے پیٹ میں سُواء مارا۔ برف کے انبار میں سے اس کے چھوٹے سے مُنہ میں آدھی چھٹانک سے بھی کم برف آئی ہوگی۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس ڈلے کی قیمت اس کے وزن سے زیادہ وصول کرلی جاتی۔ ٹھیک ہے منافع اور بے پناہ منافع کی لالچ آدمی کو بالکل اندھا، ظالم اور مکمل طور پر بے حس بنا دیتی ہے لیکن اس کے بدلے کسی ننھی سی جان سے کھیل جانا کس طرح کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لیے میں شاید زندگی بھر سر گرداں رہوں۔
اگر یہی سوال میں آپ سے پوچھوں تو لاتعداد جوابات ملنے کے باوجود غالباً ایک بھی باقاعدہ طور پر تسلی بخش اور ہر لحاظ سے قابل تسلیم جواب نہیں مل سکے گا۔ قصور اس میں نہ آپ کا ہے اور نہ ہی میرا ہے۔ کیونکہ انگنت اور لاتعداد عوامل اس قسم کے واقعات کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں۔ جو بات ہم سب کے لیے شرمناک ہے وہ یہ کہ ہم اس واقعے کو بھول جائیں گے۔ بلکہ بھول چکے ہیں اور آئندہ کچھ عرصہ تک یہ واقعہ اپنی یادوں سے بھی محو ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایسے واقعات کا ہونا ایک قدرتی عمل سمجھ بیٹھے ہیں اور اسے انہونی بات سمجھنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔
ہمارے اور دوسرے لوگوں اور معاشروں میں یہی ایک بڑا فرق ہے کہ ہم بڑے سے بڑے درد ناک اور المناک واقعے کو بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر نہ صرف تسلیم کرلیتے ہیں بلکہ جلد از جلد بھول بھی جاتے ہیں۔ شاید اگر ہم سمجھیں تو یہ پہلے سی بھی زیادہ شرمناک بات ہے۔ دوسرے معاشروں میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ ان معاشروں میں جو ہماری طرح نہ ہونے کے باعث زیادہ باوقار ترقی یافتہ اور قابل عزت گردانے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں اسی نوعیت کے المناک واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد یک دم پورے معاشرے کے اندر ایک بھونچالی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور معاشرے کی ساری اکائیاں یعنی خاندان سے لے کر سماجی سیاسی اور حکومتی اداروں تک فوراً حرکت میں آجاتے ہیں اور نہ صرف سوچ بچار شروع کردیتے ہیں بلکہ باقاعدہ سنجیدہ اقدامات بھی اٹھاتے ہیں تاکہ اس قسم کے واقعات کا اعادہ روکا جاسکے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے اس مثبت اور سنجیدہ ردعمل کے نتیجے میں ان باکمال معاشروں میں دوبارہ مشکل سے ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ لیکن ''میری بات اور ہے میں نے تو نفرت کی ہے''۔جو سُواء اس شقی القلب اور آدمی کی شکل میں جانور نے ایک معصوم بچے کو گھونپا وہ تو دیکھنے والوں کو نظر آگیا تھا۔ جس کے باعث چاروں طرف سے تندوتیز نشتروں کا استعمال ہو رہا ہے لیکن وہ سُوئے ہم بالکل نہیں دیکھ پاتے جو ہم میں سے اکثر لوگ روزانہ ایک دوسرے کو لگاتار مارتے رہتے ہیں ۔
کبھی گالی گلوچ کے ذریعے، کبھی طعنوں اور لعنت ملامت کے ذریعے کبھی ایک دوسرے کے حقوق غصب کرکے کبھی بڑوں کا ادب نہ کرکے اور کبھی چھوٹوں کی بے عزتی کرکے کبھی اپنوں کو بھول کے اور کبھی غیروں کو اپنا سمجھ کے کبھی ظالموں کا ساتھ دیکر اور کبھی مظلوموں کو بے یارومدگار چھوڑ کر کبھی جھوٹ بول کر اور کبھی سچ کو چھپا کر کبھی غیبت کرکے اور کبھی بہتان لگا کر غرضیکہ ہم خود اس سُوئے سے زیادہ قہر آلود اور زہریلے سُوئے اپنے ہی لوگوں کو گھونپتے رہتے ہیں۔ اس لیے جب ایک برف فروش کا سُواء الف ننگا ہو کر سامنے آجاتا ہے تو اس کی چکاچوند ہمارے سوئوں پر پڑتی ہے جس کے باعث ہم بالکل بے حس ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ کس منہ سے اس سُوئے کی تذلیل کریں جو ہماری ذات کے اندر معزز اور قابل احترم ہے۔
کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ ان سوئوں کی آبیاری ہم دن میں پانچ مرتبہ سربسسجود ہوکر، تسبیحاں گھما پھرا کر، چہروں کو باقاعدہ سجا سجا کر اور نورانی بنا کر آمد رمضان سے پہلے پہلے روزہ داروں کو لوٹنے کا پروگرام بنا بنا کر، جعلی دوائیاں بنا بنا کر اور غریبوں کی خوراک اور کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کے ذریعے ان جعلی دوائوں کے استعمال کو مزید اجاگر کرکے مسلسل کرتے ہیں۔ یہ سُوئے ہمارے اندر کی طاقت ہیں ان سُوئوںکی بدولت ہی ہم نے جینا سیکھا ہے ان سوئوں سے ہی ہماری آن ہماری شان اور ہماری بقاء وابستہ ہے۔ اس لیے برف فروش نہ کبھی گرفتار ہوگا نہ کبھی اس پر مقدمہ چلے گا نہ کبھی وہ جیل جائے گا کیونکہ وہ کسی وڈیرے کا نہیں غریب کا شاہ رخ جتوئی ہے۔ کیونکہ بقول فراز ؎
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
خدا ہم سب کا حامی وناصرہو۔ آمین