کھجور خطرات کی زد میں

پاکستان کی اہم ترین برآمدات میں شامل پھل کو مہلک وائرس کا سامنا

پاکستان کی اہم ترین برآمدات میں شامل پھل کو مہلک وائرس کا سامنا. فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
پاکستان میں کھجورکی فصل شدید خطرات کی زد میں ہے۔

پاکستان اس پھل سے کثیر زر مبادلہ حاصل کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں کھجورکی فصل مہلک وائرس کی زد میں آگئی ہے ۔ یہ کون سے خطرات ہیں اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے ۔ رپورٹ میں اسی کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ کی تیاری میں ڈاکٹر عادل احمد ابوالسعود کے مقالے (پاکستان میں کھجور کی کاشت موجودہ صورت حال اور مستقبل ) سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔

کھجور دوا بھی ہے اور مکمل غذا بھی ، کھجور کی تمام اقسام غذائیت سے بھرپور ہیں۔ اس میں شکر کی مقدار 60 فی صد سے 83 فی صد اور پوٹاشیئم ، پروٹین، نمکیات اور چکنائی بھی مناسب مقدار میں ہوتی ہے۔ پاکستان کھجور کی پیداوار میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ بھارت، امریکا، برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، ملائیشیا اور انڈونیشیا پاکستان سے تازہ اور خشک کھجور، جسے چھوارہ کہا جاتا ہے، درآمد کرتے ہیں۔ بلوچستان کی بیگم جنگی، سندھ کی اصیل، اور ڈیرہ اسماعیل خان کی ڈھکی پاکستان کی مشہور کھجوریں ہیں، یہ بلوچستان میں تربت اور پنج گور، سندھ میں خیرپور اور سکھر، پنجاب میں مظفر گڑھ، جھنگ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان اور خیبر پختون خوا میں ڈیرہ اسماعیل خان میں کاشت کی جاتی ہیں۔ صوبہ سندھ کی 85 فی صد کھجور ضلع خیرپور میں کاشت ہوتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں کھجور کو بہت وسیع رقبے پر کاشت کیا جاتا ہے۔

یہاں کی ڈھکی کھجور بہت اعلیٰ قسم کی ہوتی ہے۔ بلوچستان میں کھجور کی بہت بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔ بلوچستان کا موسم گرمی میں خشک ہوتا ہے اور یہاں سالانہ بارش 100 ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے۔ آندھیاں بہت زیادہ چلتی ہیں کھجور کے باغات ان علاقوں میں ہیں جہاں پر پانی 15 فٹ سے نیچے ہے۔

ریت کے طوفان، خشک سالی، کھجور کی فصل کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہاں بیگم جنگی، مضافاتی اور رابی کھجور سب سے زیادہ اگائی جاتی ہیں جو کہ کل پیداوار کا 90 فیصد ہیں۔ بقیہ دس فی صد رقبے پر کاربالیاں، ڈریگ ٹروئنج، شاندش کھنڈ اور رنگنو کاشت کی جاتی ہیں۔ شاندش کھنڈ سب سے اچھی، نہایت خستہ اور لذیذ ہوتی ہے۔ شاندش کھنڈ کی فی درخت پیداوار 50 سے 70 کلوگرام ہے۔ چوں کہ یہاں ریت کے طوفان آتے رہتے ہیں، اس لیے کسان کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی ٹوکریوں سے کھجور کے گچھوں کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ اس سے کھجوریں خراب نہیں ہوتیں۔ ہر پودے کے 3 گچھوں کو ایک ٹوکری سے ڈھانپا جاتا ہے۔

خیرپور میں کھجوروں کی فصل اتارنے کا موسم دو ماہ تک رہتا ہے۔ کھجورکی خرید و فروخت کی سرگرمیاں بہت بڑھ جاتی ہیں، اس دوران خیرپور ایک انوکھا، کاروباری، اور میلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ کسان مختلف کھجوروں کو ڈوکا (پکنے سے پہلے) بننے پر درختوں سے اتارتے ہیں، پھر انہیں چھوارے بنانے کے لیے پانی میں ابال کر چٹائیوں پر پھیلا دیتے ہیں۔ دھوپ کی وجہ سے یہ ابالی گئی کھجوریں سوکھ کر چھوارے بن جاتی ہیں، جنہیں بوریوں میں بھر کر گوداموں میں محفوظ کرلیا جاتا ہے ۔ خیرپور کے مضافات اور سندھ کے دیگر علاقوں کے مزدور خیرپور آجاتے اور روزی کماتے ہیں۔



اس طرح کاروباری سرگرمیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ ان مہینوں میں کھجوروں کی مہک سے خیرپور معطر رہتا ہے۔ خیرپور جسے کھجوروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اس دوران برآمد کنندگان کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے، ان دو ماہ کے اختتام پر مقامی طور پر کھجوروں کو خوب صورت پیکنگ میں دوسرے شہروں کو بھیجنے کی صنعت عروج پر ہوتی ہے۔ خیرپور میں کھجوروں سے مختلف اشیاء بنانے کے چند پلانٹس بھی ہیں، لیکن انہیں جدید بنانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ہنرمندوں کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ خیرپور میں اس وقت کھجوروں کی 300 سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سب سے اچھی اقسام، امبل، کاربالیاں، فصلی، دیدھی، کیرو، گاجر، کاچھوواری، بیگن، مٹھری ، کھار، بھیدر، اوٹاکن اور اصول کھرمو شامل ہیں، جنہیں بین الاقوامی منڈی میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔

اگست 2010 میں پاکستان میں بدترین سیلاب نے خیرپور میں کھجوروں کے باغات کو شدید خطرات سے دوچار کردیا تھا۔ کھجور کی فصل خراب ہوجانے سے کاشت کاروں کو شدید مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ خراب کھجوروں کو جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

سیلاب کے دوران خیرپور کے کچھ علاقوں کو پتھروں کی مدد سے بند باندھ کر بچالیا گیا۔ اس دوران کھجور کے درختوں کو کئی دن تک تیز بارش کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس سیلاب اور بارش کا ایک مثبت پہلو بھی سامنے آیا اور وہ یہ کہ سورج کی روشنی خوراک بنانے (Photosynthesis) کے عمل کی وجہ سے چھڑیوں (ٹہنییوں) کے سر سبز ہونے سے درخت ہرے بھرے ہوگئے، مٹی بھی زرخیز ہوگئی کیوں کہ سیلابی ریلا اپنے ساتھ اضافی نمکیات بہا کر لے آیا تھا، اس کے نتیجے میں دریا کی لہریں مٹی کو زرخیز بنانے کا سبب بنی، جس میں کسی بھی فصل کے نشوونما کے تمام اجزاء موجود ہیں۔



کھجور کو پھل لگنے اور پکنے تک 6 سے 7 ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ پھل کے پورا ہونے سے لے کر ڈوکا حالت تک بارش نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس لیے مون سون کا موسم ہمیشہ ہی کھجور کی فصل کے لیے مسئلہ رہا ہے۔ کھجور کو خشک اور بنجر زمینوں پر کاشت کیا جاتا ہے، جہاں پر خشک گرمی اور بہت کم بارشیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان، عمان، افریقہ میں سہارا ریگستان، امریکا میں کیلی فورنیا اور ایری زونا میں بارشیں کھجور کے پھل کو خراب کردیتی ہیں۔ خیرپور میں اوٹاکن کھجور کے پھل پر چند گھنٹے کی بارش بھی ڈوکا (کچی حالت) کی سطح پر دراڑیں ڈال دیتی ہے، جب کہ دوسری اقسام زیادہ قوت مدافعت رکھتی ہیں۔ بارش کھجور کو اس وقت نقصان پہنچاتی ہے جب اپنے وقت سے پہلے ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی لمبے عرصے کے لیے بادلوں اور نمی کی موجودگی میں ہلکی بارش بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔


بہ نسبت اس کے اگر مطلع بالکل صاف اور خشک ہواؤں کے ساتھ بہت زیادہ تیز بارش ہو رہی ہو۔ کھجوروں میں تخم ریزی کے فوراً بعد پھل بننے میں کمی یا پھر پکنے کے دوران کھجوروں کے اوپر والی سطح پر دراڑیں پڑ جاتی ہیں، جس سے فصل خراب ہوجاتی اور اس پر پھپھوندی لگ جاتی ہے۔ کھجوروں کو مون سون کے برے اثرات سے بچانے کے لیے کئی قسم کے تھیلے نائیلون، سوراخوں والے کاغذ، آسانی سے آگ پکڑنے والے کاغذ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بارش کی وجہ کھجوروں کا درجۂ حرارت گرِجاتا ہے، جس سے پکنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

کھجور کے گُچھوں کو ڈھانپنے کے لیے روایتی طور پر بنی ہوئی ہوا دار ٹوکریاں، جنہیں (سوندھ) کہا جاتا ہے، پکی ہوئی کھجوروں کو پرندوںاور زمین پر گرنے سے بچانے کے ساتھ بارش اور جھلسنے سے بچانے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں ۔ اس مقصد کے لیے بیرون ملک سے منگوائے گئے، خاص تھیلے (ٹائی وک) بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جنہیں کسی بھی پھل دار درخت پر چڑھایا جاسکتا ہے۔ ان تھیلوں کے بہت مثبت اثرات دیکھے گئے ہیں، لیکن ان تھیلوں کا غلط استعمال منفی اثرات بھی دکھاتا ہے، اگر انہیں مقررہ مدت کے بعد فوراً نہ اتارا جائے تو فصل خراب بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے ان تھیلوں کے استعمال میں احتیاط اور معینہ مدت کا خیال رکھنا چاہیے۔

٭ کھجور کو لاحق خطرات، کیڑے مکوڑے اور بیماریاں:

سندھ اور خاص طور پر خیرپور میں کھجور کے درخت ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں، جسے اچانک موت (Sudden Death Syndrome) کا نام دیا جاتا ہے۔ کھجور کے درختوں کے اس اچانک زوال کی کچھ علامات دنیا میں مرجھا دینے والی بیماری سے مشابہت رکھتی ہیں، جس میں کھجور کے درختوں کا مہلک حد تک زرد ہوجانا، جوکہ فائٹو پلازما (Phytoplasma) کے باعث ہوتا ہے۔ یہ ناریل کے زوال کی بیماری بھی ہے اور اسے کھجور کے درختوں کے لیے بھی یہ ایک وبائی مرض سمجھا جاتا ہے۔ اس بیماری میں کھجور کے خوشوں کے مرجھانے کا انداز ایک پھپھوندی (Fusarium Wilt) (Bayoud) جیسی علامات ظاہر کرتا ہے، جوکہ فیوزیریم آکسی سپورم (Fusarium Oxysporum) کی شکل فیوزیریم البیڈنز (Fusarium Albedinis) کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اس بیماری کی علامات میں شاخوں کے نچلے حصوں کی درمیانی پسلی یا رگ کی رنگت زرد اور بیرونی پتے خشک ہونا شروع ہوتے ہیں۔ بعدازاں اندرونی پتے بھی خشک ہونا شروع ہوجاتے ہیں، یعنی چھڑی کی ایک سائیڈ کے سرے تک پتے خشک ہونا شروع ہوتے ہیں اور پھر دوسری سائیڈ کے پتے خشک ہوتے ہیں اور آخرکار تمام چھڑی اور پھر پورا درخت سوکھ جاتا ہے۔ چھڑیوں کے خشک ہونے کا عمل بتدریج ہوتا ہے۔ تمام چھڑیاں ایک ہی وقت میں خشک نہیں ہوتیں جوکہ اس بیماری کی نمایاں علامت ہے۔ پودے اس بیماری سے سال میں کسی وقت بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

اس بیماری کی علامات پورے باغ میں چند ایک پودوں پر ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک ہی وقت میں سارے پودے نہیں سوکھتے۔ اس کے علاوہ مزید پھل بننے کے ابتدائی مراحل میں اس کی علامات شروع ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پھل پختگی سے پہلے گر جاتا ہے اور اگر اس بیماری کا حملہ پھل بننے کے بعد ہو ، تو پھلوں کا خوشہ سوکھنا شروع کردیتا ہے۔ اس طرح سوکھنے کا عمل پھل اور پتوں دونوں کو متاثر کرتا ہے اگر پھول نکلنے سے پہلے اس بیماری کا حملہ ہو تو پھل بننا رک جاتا ہے۔

پاکستان میں اس بیماری کی ابتدا تقریباً دس سال پہلے ہوئی، لیکن خوش قسمتی سے اب تک یہ وبائی بیماری نہیں ہے۔ اس بیماری کو ضلع خیرپور اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں دیکھا گیا ہے۔ ابتدا میں اس بیماری کی وجہ دیمک کو قرار دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے متاثرہ درخت کے پتوں پر ایسا مرکب اسپرے کیا، جو نیم (Azadirachta India) کے پتوں کا نچوڑ تھا، جس سے کچھ پودے تندرست ہوگئے۔ تاہم آج کل اس بیماری سے بہت سے پودے متاثر ہورہے ہیں۔

ایسی علامات ماضی میں نہیں دیکھی گئیں تھیں۔ مختلف اداروں کے کچھ ماہرین نے ان کے نمونہ جات حاصل کیے مگر اس کا تدارک نہیں کیا، جس کی وجہ سے اب یہ بیماری بڑھ رہی ہے۔ نیشنل نیماٹالوجی ریسرچ سینٹر کراچی نے ایک کیڑے مار زہر جس کا نام فیوراڈن(کاربو فیوران) ہے اس بیماری کے لیے تجویز کی ہے۔ ان کی تحقیقات کے مطابق پودوں کی جڑوں میں کثیر تعداد میں خطیے اور طفیلئے(Nematode) موجود ہیں۔ ان خطیوں اور طفیلیوں کو ختم کرنے کے لیے زہر کا استعمال تجویز کیا گیا ہے، جس پر ایک تجربہ ایچ۔ای۔جے کراچی یونیورسٹی میں موجود کھجوروں کے باغ میں فیوراڈان کے استعمال سے کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے نتیجہ مایوس کن رہا۔ کراچی میں پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (PARC) کے مطابق کھجور کی کھال کے نمونوں میں اکثر نقصان دہ وائرس کی موجودگی کا پتا چلا ہے۔

اس کے علاوہ تمام نمونے نقصان دہ کیڑوں سے شدید متاثر ہیں، ان نمونوں میں جڑوں کے خطیے (Nematodes) بھی نمایاں ہیں، جن کے لیے ٹاپسن۔ ایم یاکاربینڈازین (Carbendazin) کا پودے اور زمین پر استعمال تجویز کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ 3 سے 4 گرام کاربو فیوران (Carbofuran) بھی تجویز کیا گیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان ادویات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور یہ بیماریاں ساتھ والے درخت پر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔ اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے DPRI نے بھی مختلف تجربات کیے۔ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی کے کھجوروں پر تحقیقاتی ادارہ (DPRI) نے متاثرہ پودوں کی جلد صحت یابی کے لیے ایک وسیع تجرباتی عمل شروع کیا۔ اس ادارے نے اس عمل کے دوران مارکیٹ میں پچھلے تین سالوں سے موجود تمام کیڑے مار اور پھپھوندی کش ادویات کا استعمال کیا گیا ۔ جن میں دو پھپھوندی کش ادویات نے بہت اچھے نتائج دیے اور بڑی حد تک متاثرہ پودے صحت یاب ہونا شروع ہوگئے۔ پودوں نے پھول اور پھل بھی دینا شروع کردیے اور ان کا سوکھنا بھی رک گیا، لیکن پتوں کے درمیانی حصے کا پیلا پن ختم نہیں ہوا۔

٭پودوں کی نشوونما کے لیے صحیح طریقے کا استعمال
متاثرہ پتے جن پر بیماری کی علامات ظاہر ہوں کاٹ کر جلادینا چاہیئے، لیکن اگر یہ پیلاپن ابتدائی طور پر پورے پتے کے صرف درمیان والی لائن پر ہوا تو انہیں کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عام طور پر کھجور کے 5 سے 7 سال پرانے پودے کے پتے کے درمیان والا حصہ زرد ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ متاثرہ پودے کے اردگرد جمع شدہ پانی کا اخراج فوراً کرنا چاہیے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بیماری سے متاثرہ درخت یا تو کھیت کی نچلی سطح پر ہوتے ہیں یا نہر کے اونچے کناروں پر، کھجور کے باغ میں روزانہ آب پاشی ترک کردیں اور موسم اور مٹی کے مطابق ہفتہ وار وافر مقدار میں پانی لگائیں۔

DPRI نے ضلع خیرپور میں سترہ جگہوں پر سروے کرایا، جن میں نور پور، احمد پور، مچھائیوں، ببرلو، گڑھی موری، کوٹ میر محمد، پیریالو، بادل شاہ، ڈرب ماہ سر، خان پور، مہر علی شاہ، روپتری، شادی شہید، منگن وادی، تھرہی، نوناری اور نظامینی میں متاثرہ پودے کے نمونے حاصل کیے اور شرح اموات کا اندازہ لگایا۔ بیماری کی شدت مختلف علاقوں میں مختلف تھی یعنی 0.25 سے 50.17 فی صد تک ۔ سب سے زیادہ بیماری کی شدت نور پور میں 50.17 فی صد دیکھی گئی اس کے بعد ببرلو میں جوکہ 35.98 فی صد اور احمد پور میں 32.47 فی صد تک ریکارڈ کی گئی۔
کھجور ہماری برآمدات کا اہم حصہ ہے، جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے، لہٰذا حکومت اور متعلقہ اداروں کے چاہیے کھجور کو لگنے والی بیماری کے تدارک کے لیے فوری اقدامات کریں۔
Load Next Story