قصہ مختصر

یورپ میں 500 یورو کے نوٹ کے خاتمے کی بحث اب کچھ اس ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔

یورپ میں 500 یورو کے نوٹ کے خاتمے کی بحث اب کچھ اس ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
اب بڑے کرنسی نوٹوں کی ضرورت نہیں ؟ یورپی یونین کے ممالک میں بڑی مالیت کے نوٹوں کو ختم کرنے کی بحث جاری

معاشیات کا ارتقائی سفر مختلف اجناس اور چیزوں کے شرح تبادلہ (بارٹر سسٹم)، سونے چاندنی کے سکوں اور کاغذی نوٹوں سے ہوتا ہوا چیک اور کریڈٹ کارڈ کے دور میں داخل ہو چکا ہے، جسے ''اعتباری زر'' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

اس میں تمام سرمایہ بینک میں پڑا رہتا ہے اور صارفین محض مختلف ہندسوں کے ذریعے جمع تفریق کر کے حساب کتاب لگا لیتے ہیں اور یوں ایک کھاتے دار کی رقم دوسرے کھاتے میں اور پھر تیسرے اور چوتھے کے کھاتے میں سفر کرتی رہتی ہے اور ہم اپنے پیسوں کے صرف عدد یاد رکھتے ہیں کہ ہماری رقم اتنی بڑھ گئی یا اتنی گھٹ گئی ہے۔ ''اعتباری زر'' کی آمد کے بعد ابھی کاغذی نوٹوں کے ساتھ وہ کچھ تو رونما نہیں ہوا، جو کاغذی نوٹوں کی آمد کے بعد سونے اور چاندنی کے سکوں کے ساتھ ہوا، لیکن یورپ میں 500 یورو کے نوٹ کے خاتمے کی بحث اب کچھ اس ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔

اس کی وجہ بھی وہی ہے جو ہمارے ہاں اور اکثر ممالک میں چھوٹے سکوں اور نوٹوں کے خاتمے کی وجہ بنی، یعنی عدم استعمال! چھوٹے سکوں کا استعمال نہ ہونا منہگائی اور گرانی کی وجہ سے ہوا، تو بڑے نوٹوں کا یہ انجام اس کے برعکس انتہائی زیادہ قیمت کی وجہ سے ہوا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ لوگ اپنی ضروریات محض چھوٹی رقم میں ہی پوری کر لیتے ہیں بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ بڑی رقم کے لیے نوٹوں کے براہ راست استعمال کے بہ جائے ڈیبٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ ''اعتباری زر'' کے اس دور میں اتنے بڑے نوٹ کو جیب میں رکھ کر گھومنا نِری حماقت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ میں متعدد حلقوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ یورو کرنسی کے سب سے بڑے 500 یورو کے نوٹ کو بند کر دیا جائے، کیوں کہ یہ نوٹ فقط منشیات، چوری اور اس جیسی دیگر غیرقانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ بہت سارے لوگوں کو تو ابھی تک 500 یور کا نوٹ اپنے ہاتھ میں لینے کا اتفاق ہی نہیں ہوا۔ کچھ خریداری بہ ذریعہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوتی ہے اور پیسے بینک سے ہی کٹ جاتے ہیں، ایسے میں بقایا لین دین کے لیے بھی نوبت 500 یورو کے نوٹ تک نہیں آتی۔

یورپ میں اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا، جب یورپی مرکزی بینک کے نائب سربراہ ویٹور کونسٹا نزیو نے اس نوٹ کو ختم کرنے کے حق میں بیان دیا۔ جرمنی کے سرکاری حکام نے ابھی اس معاملے پر اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، تاہم کچھ بعید نہیں کہ اس پر جلد ہی عمل درآمد کردیا جائے کیوں کہ عام زندگی میں لوگ اس نوٹ کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔

٭٭٭٭

صفائی یا کرتب
جب دسویں منزل پر مکین ایک صاحب نے اپنی کھڑکی صاف کی

یوں تو دوسروں میں اپنی دھاک بٹھانے اور شہرت کے حصول کے لیے حضرت انسان کا عجیب وغریب کارنامے دکھانے اور اس کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کا زعم کوئی نیا نہیں۔

دس لوگوں میں اپنی واہ واہ کرانے کے لیے عام زندگی میں ناممکن کی حد تک مشکل سمجھے جانے والے کاموں کو بھی بائیں ہاتھ کا کھیل بنا دیا جاتا ہے اور دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ ایسے کارنامے انجام دینے والے پھر قیمتاً بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بہت سے اسے ہی معاش کی راہ بنا بیٹھتے ہیں، لیکن اگر مقصود اس سے قطع نظر صرف اور صرف اپنے کام کی دُھن ہو اور کام کو انجام دینے والے کو اس کی خبر تک نہ ہو کہ وہ اپنے کام کرنے کے انداز سے دیکھنے والوں کو دنگ کر رہا ہے، لوگ دانتوں میں انگلیاں دابے اسے بڑے کمال سے تعبیر کر رہے ہیں، لیکن وہ ساری دنیا سے بے نیاز اپنے کام میں مگن ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں امریکا کے شہر نیویارک میں پیش آیا، جو خبروں کی زینت بھی بنا۔ Manhattan اسٹریٹ پر واقع عمارت کی دسویں منزل سے یہ صاحب کھڑکی سے یوں باہر آئے جیسے کوئی گھر کے دروازے سے باہر نکلتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے کھڑکی کی چوکھٹ پر قدم ٹکائے اور ایک ہاتھ سے کھڑکی کو تھاما اور نہایت اطمینان اور تیزی سے شیشوں کی صفائی کی۔ ایک کھڑکی کی صفائی کے بعد وہ دوسری کھڑکی پر بھی اس کمال اور اعتماد سے منتقل ہوئے جیسے ہم سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ دس برس کی غیرمعمولی بلندی جس سے نیچے گرنے کا تصور ہی پیروں تلے زمین نکال دیتا ہے۔

مگر نہ کوئی رسی اور نہ ہی کوئی حفاظتی تدبیر۔ اس اعتبار سے ان صاحب کو صفائی ستھرائی کے بہ جائے کرتب دکھانے پر مامور ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ پُرخطر اور اچھوتا کام انجام دینے والے یہ صاحب نیویارک کے ایک گھر میں ایک عام صفائی کا کام کرنے والے ہیں۔

٭٭٭٭

15سال بعد معلوم ہوا ...!
دنیا کے بہت سے حادثات و واقعات طویل عرصہ گزارنے کے بعد منظر عام پر آتے ہیں اور اتنے عرصے بعد بھی ان کے معلوم چلنے کا محرک کوئی اتفاق یا حادثہ ہی ہوتا ہے۔ جیسے طویل عرصہ گزرنے کے بعد کسی مدفون آثار کی برآمدگی وغیرہ۔ بعض اوقات یہ دریافت شدہ چیزیں انسان کی معلومات اور نظریات تک کو از سرنو مرتب اور تبدیل کرنے کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔


اس ہی طرح بعض انسانوں کے ساتھ بھی ایسے حادثات ہو چکے ہوتے ہیں کہ انہیں کافی عرصے بعد معلوم چلتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہوا، لیکن وہ بے خبر رہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ دنوں سر درد سے پریشان 24 سالہ ایک افغان شخص کے ساتھ پیش آیا۔ جب ڈاکٹروں نے اس کا سر کا تفصیلی معائنہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے سر کے اندر چار انچ لمبی پینسل موجود ہے۔ وہ خود بھی یہ جان کر خاصا حیران ہوا، پھر اسے یاد آیا کہ وہ 15 سال قبل بچپن میں ایک بار بہت بری طرح گر کر زخمی ہوا تھا۔ یہ شاید اس ہی کا شاخسانہ ہے کہ پینسل اس کے سر میں گُھپ گئی۔ ڈاکٹروں نے آپریشن کر کے کام یابی سے اس کے سر سے یہ پینسل نکال لی۔

٭٭٭٭

کتے نے نومولود بچی کی جان بچالی
پالتو کتے ''پوئی'' کو کارنامے پر بنکاک میں ہیرو کا درجہ حاصل ہو گیا

دنیا کے بہت سے معاشروں کی روایات واقدار ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی حد تک مختلف ہوتی ہیں۔ کوئی چیز ایک جگہ جتنی اچھی سمجھی جاتی ہے وہی چیز دوسری جگہ بے توقیر ہوتی ہے یا بالکل الٹ معنوں میں بھی لی جاتی ہے۔ صرف جانوروں کی ہی مثال لیں تو اس نوع کی ایک سے زاید مثالیں ہمارے سامنے آجائیں گی۔ جیسے گدھا اور الّو ہمارے ہاں بے وقوفی کی علامت سمجھے جاتے ہیں، جب کہ مغرب میں یہ عقل اور دانش مندی سے تعبیر کیے جاتا ہیں۔ یہی ماجرا کتّے کے ساتھ ہے۔



ہمارے یہاں اسے مغلظات کے درجے میں شمار کیا جاتا ہے، جب کہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں اسے گھر کے ایک فرد کا سا مقام حاصل ہوتا ہے۔ یہی نہیں وہاں کتے بھی بعض اوقات ''انسانیت'' کی ایسی مثالیں قائم کر جاتے ہیں، جسے دیکھ کر آج کا انسان اپنے غیر انسانی کاموں پر شرم محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں ایسا واقعہ تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں پیش آیا، جہاں ایک پالتو کتے نے سڑک کنارے پڑی ایک نومولود بچی کی جان بچاکر ایسی ہی ایک مثال قائم کر دی۔ ''پوئی'' نامی یہ کتا حسب معمول کوچہ نوردی سے گھر لوٹا تو اس کے منہ میں ایک پلاسٹک کا تھیلا تھا، جسے اس نے گھر میں لاکر رکھا اور زور زور سے بھونک کر مالک کو متوجہ کرنے لگا۔

مالک نے جب اس تھیلے کو کھولا تو اس میں ایک نومولود بچی موجود تھی، جس کی سانسیں باقی تھیں۔ بچی کو فوری طبی امداد کے لیے نزدیکی اسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس بچی کی ولادت قبل ازوقت ہوئی تھی، تاہم اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے لواحقین کی تلاش میں ہیں، تاکہ اس افسوس ناک واقعے کی وجوہات تک پہنچا جا سکے۔ واقعے کے بعد بہت سے خاندانوں نے نومولود بچی کو گود لینے کے لیے رابطہ کیا ہے۔ ساتھ ہی دو سالہ پالتو کتے ''پوئی'' کو ایک قیمتی انسانی جان بچانے کے کارنامے پر ایک ہیرو کا سا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ ریڈ کراس کی جانب سے ''پوئی'' کو چمڑے کا نیا گلو بند اور تمغہ دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

٭٭٭٭

روبوٹ مکھیاں بھی رکھیں گی اب ہر خبر پر نظر !

کبوتروں کے ذریعے پیغام رسائی کے قدیم سلسلے کے بعد عصر حاضر میں پرندوں کے ذریعے دوسرے ممالک کی جاسوسی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

اس سلسلے میں پرندوں کی جگہ فضا میں بلند مصنوعی سیاروں اور بغیر پائلٹ طیاروں نے بھی لی۔ اب اس ضمن میں مزید پیش رفت اڑنے والے ننھے کیڑے سے مماثل ایک روبوٹ کی تیاری کی شکل میں ہوئی ہے، جسے امریکی محققین نے تیار کیا ہے۔ ''روبو فلائی'' نامی اس روبوٹ کی لمبائی محض دو سینٹی میٹر ہے اور یہ بالکل ایک عام مکھی کی طرح پرواز کرتا ہے۔

اس کے دو پر ہیں جو فی سیکنڈ 120 بار حرکت کرتے ہیں، جب کہ اصل مکھی کے پر ایک سیکنڈ میں 130 بار پھڑ پھڑاتے ہیں۔ اسی طرح اس روبو فلائی کے پر 110 ڈگری کے زاویے کے اندر اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں۔ یہ زاویہ بھی اصل مکھی کے پروں کی حرکت کے زاویے سے کم ہے جو 120 سے 150 ڈگری کے درمیان ہوتا ہے۔

پروں کو پھڑ پھڑا کر اڑنے والے روبوٹ کی یہ اولین ایجاد ہے جو سائنس دانوں کے لیے یہ سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے کہ کیڑے دراصل اڑتے کیسے ہیں۔ اس روبوٹک مکھی کا کْل وزن محض 0.08 گرام ہے۔ یہ روبو ٹک مکھی نہ صرف ہوا میں اوپر اٹھ سکتی ہے، بلکہ ہوا میں سمت کی تبدیلی اور اوپر نیچے ہونے جیسے بنیادی حرکات کر سکتی ہے۔ اس پرواز کے دوران یہ روبوٹ 19 ملی واٹ کے قریب توانائی خرچ کرتا ہے۔

یہ کم وبیش اتنی ہی توانائی ہے جو ایک قدرتی مکھی اپنی پرواز کے دوران خرچ کرتی ہے، لیکن فی الحال اسے دوران پرواز اس توانائی کے حصول کے لیے انتہائی باریک تار سے منسلک کرنا پڑتا ہے، جو ظاہر ہے اس کے لیے زیادہ طویل پرواز میں حائل بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے اسے تار کی بندش سے آزاد کرنے کے لیے اس ہی میں نصب کی جانے والی ننھی بیٹری کی تیاری پر سوچ بچار جاری ہے۔ اس کے علاوہ اس میں استعمال اجزا اور مواد کو ابھی اتنا پائے دار بنانا ہے کہ وہ دوران پرواز ہوا وغیرہ کے دبائو کا بہ خوبی سامنا کر سکے۔ قدرتی مکھیاں اپنی ساخت کے حوالے سے انتہائی دل چسپ اُڑنے والی مخلوق ہیں۔

یہ مکھیاں برق رفتاری سے کسی بھی خطرے سے بچ نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ ہوا کے دوش پر جھومنے والے پھولوں پر بھی آسانی سے اپنا توازن برقرار رکھ سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق مکھیاں صرف ساخت کے اعتبار سے ہی اہم موضوع نہیں ہیں، بلکہ ان کے بارے میں معلومات روبو طرز کے انتہائی چھوٹے روبوٹس کی تیاری میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں اور ان کی قدرتی صلاحیتوں کو مصنوعی طریقے سے تیار کردہ ربورٹس میں استعمال کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
Load Next Story