ہیلتھ کارڈ ’’چن‘‘ کو لے ڈوبا
خان صاحب سے استدعا ہے کہ بی آئی ایس پی کی طرح ہیلتھ کارڈ کو بھی پوری شفافیت کے ساتھ جاری و ساری رکھا جائے
اگر آپ سیاسی ٹاک شوز دیکھتے ہیں تو آپ پی پی کے سابق ایم این اے اور چئیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ندیم افضل چن کے نام سے ضرور واقف ہوں گے۔ ندیم افضل چن کا تعلق سرگودھا کی تحصیل بھیرہ کے ایک دور افتادہ گاؤں پنڈ مکو سے ہے۔ چن صاحب ایک نہایت ملنسار اور عوامی آدمی ہیں، آپ چن کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ چن نے بلدیاتی الیکشن میں پی پی سے تعلق ہونے کے باوجود تیر کے بجائے اپنے گروپ کےلیے بالٹی کے انتخابی نشان کو پسند کیا اور کامیابی حاصل کی۔ مگر 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں چن صاحب اس مسلم لیگ ن کے امیدوار سے شکشت کھاگئے جو پہلے سےتقسیم کا شکار تھی؛ یہ بات بطور صحافی میرے لیے حیران کن تھی۔
پاکستان آنا ہوا تو میں نے اپنے طور پر کھوج لگانے کی کوشش کی، جو وجوہ سامنے آئیں ان میں چن کی حد سے زیادہ خود اعتمادی اور دیگر وجوہ کے علاوہ ہیلتھ کارڈ ایک بڑی وجہ تھی۔ ہیلتھ کارڈ میاں نواز شریف کی خفیہ نیکی ہے، اس کی بدولت وہ غریب آدمی جو علاج کےلیے چوہدری کا محتاج تھا وہ اب خود کفیل ہوگیا۔ پہلے بھٹے پر کام کرنے والے ورکرز علاج معالجے کےلیے بھٹہ مالکان سے قرض لے کر علاج کرواتے تھے اور بھٹہ مالکان 40000 دے کر 70000 تک وصول کرتے تھے۔ اب ہیلتھ کارڈ کی بدولت مزدور آزاد ہوگیا ہے، جس کے صلے میں ان غریب لوگوں نے شیر کو ووٹ دیا۔ معروف سیاسی و سماجی شخصیت چوہدری شاہد الرحمن اور محمد سرور نے جب یہ کہانی بیان کی تو سن کر مجھے ایسے لگا جیسے یہ کسی یورپی ملک کی داستان ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہیلتھ کارڈ وصول کرنے والے ایک شہری نے اطلاع دی کہ آپ کا بھی ہیلتھ کارڈ آیا ہوا ہے، میں نے کوئی توجہ نہ دی کیونکہ میں نے ہیلتھ کارڈ کےلیے اپلائی نہیں کیا تھا۔ بہرحال کچھ دوستوں کے اصرار پر میں میونسپلٹی گیا تو میرا کارڈ واقعی آیا ہوا تھا، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا تو پتہ چلا کہ نادرا سے میرا ڈیٹا لیا گیا جس کی بنیاد پر میری پوری فیملی کا ہیلتھ کارڈ بنا دیا گیا۔ اس ایک کارڈ پر میری پوری فیملی مفت علاج کروا سکتی ہے۔ کچھ عرصے بعد مجھے چیک اپ کےلیے مبارک ہسپتال سرگودھا جانا پڑا، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد مجھے بتایا آپ کے گردے میں پھتری ہے، آپ کا اپریشن ہوگاجس کا خرچہ 80000 روپے ہوگا۔
رقم کا سن کر میرے ہوش اڑگئے، میری کیفیت کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے پوچھا آپ کے پاس ہیلتھ کارڈ ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اسی وقت مجھے ایڈمٹ کر لیا گیا، میں تین دن ایڈمٹ رہا، مجھ سے ایک روپیہ نہیں لیا گیا، بہترین علاج کی سہولیات دی گئیں اور جاتے وقت 350 روپیہ کرایہ بھی دیاگیا۔ میرے گھر آمد کے دوسرے دن پی ایم آفس سے فون آیا اور مجھ سے علاج اور دوران علاج ملنے والی سہولیات کے متعلق تفصیلی کنفرمیشن کی گئی۔
مندرجہ بالا قصہ میں نے قریب قریب من و عن دررج کیا ہے۔ میری عمران خان صاحب سے استدعا ہے، جیسے بی آئی ایس پی کو جاری رکھا گیا ہے ایسے ہی ہیلتھ کارڈ کو بھی پوری شفافیت کے ساتھ جاری و ساری رکھا جائے۔ اگر یہ پروگرام بھی انڈس ہسپتال کی طرح سیاست کی بھینت چڑھ گیا تو اس سے کسی اور کا نہیں، غریب آدمی کا نقصان ہوگا؛ اور غریب کےلیے خان صاحب امید کی آخری کرن ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان آنا ہوا تو میں نے اپنے طور پر کھوج لگانے کی کوشش کی، جو وجوہ سامنے آئیں ان میں چن کی حد سے زیادہ خود اعتمادی اور دیگر وجوہ کے علاوہ ہیلتھ کارڈ ایک بڑی وجہ تھی۔ ہیلتھ کارڈ میاں نواز شریف کی خفیہ نیکی ہے، اس کی بدولت وہ غریب آدمی جو علاج کےلیے چوہدری کا محتاج تھا وہ اب خود کفیل ہوگیا۔ پہلے بھٹے پر کام کرنے والے ورکرز علاج معالجے کےلیے بھٹہ مالکان سے قرض لے کر علاج کرواتے تھے اور بھٹہ مالکان 40000 دے کر 70000 تک وصول کرتے تھے۔ اب ہیلتھ کارڈ کی بدولت مزدور آزاد ہوگیا ہے، جس کے صلے میں ان غریب لوگوں نے شیر کو ووٹ دیا۔ معروف سیاسی و سماجی شخصیت چوہدری شاہد الرحمن اور محمد سرور نے جب یہ کہانی بیان کی تو سن کر مجھے ایسے لگا جیسے یہ کسی یورپی ملک کی داستان ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہیلتھ کارڈ وصول کرنے والے ایک شہری نے اطلاع دی کہ آپ کا بھی ہیلتھ کارڈ آیا ہوا ہے، میں نے کوئی توجہ نہ دی کیونکہ میں نے ہیلتھ کارڈ کےلیے اپلائی نہیں کیا تھا۔ بہرحال کچھ دوستوں کے اصرار پر میں میونسپلٹی گیا تو میرا کارڈ واقعی آیا ہوا تھا، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا تو پتہ چلا کہ نادرا سے میرا ڈیٹا لیا گیا جس کی بنیاد پر میری پوری فیملی کا ہیلتھ کارڈ بنا دیا گیا۔ اس ایک کارڈ پر میری پوری فیملی مفت علاج کروا سکتی ہے۔ کچھ عرصے بعد مجھے چیک اپ کےلیے مبارک ہسپتال سرگودھا جانا پڑا، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد مجھے بتایا آپ کے گردے میں پھتری ہے، آپ کا اپریشن ہوگاجس کا خرچہ 80000 روپے ہوگا۔
رقم کا سن کر میرے ہوش اڑگئے، میری کیفیت کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے پوچھا آپ کے پاس ہیلتھ کارڈ ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اسی وقت مجھے ایڈمٹ کر لیا گیا، میں تین دن ایڈمٹ رہا، مجھ سے ایک روپیہ نہیں لیا گیا، بہترین علاج کی سہولیات دی گئیں اور جاتے وقت 350 روپیہ کرایہ بھی دیاگیا۔ میرے گھر آمد کے دوسرے دن پی ایم آفس سے فون آیا اور مجھ سے علاج اور دوران علاج ملنے والی سہولیات کے متعلق تفصیلی کنفرمیشن کی گئی۔
مندرجہ بالا قصہ میں نے قریب قریب من و عن دررج کیا ہے۔ میری عمران خان صاحب سے استدعا ہے، جیسے بی آئی ایس پی کو جاری رکھا گیا ہے ایسے ہی ہیلتھ کارڈ کو بھی پوری شفافیت کے ساتھ جاری و ساری رکھا جائے۔ اگر یہ پروگرام بھی انڈس ہسپتال کی طرح سیاست کی بھینت چڑھ گیا تو اس سے کسی اور کا نہیں، غریب آدمی کا نقصان ہوگا؛ اور غریب کےلیے خان صاحب امید کی آخری کرن ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔