کیا سائنس فکشن واقعی ’’سائنسی‘‘ ہوتا ہے دوسرا حصہ
سائنس فکشن فلموں میں سائنسی تصورات اور حقائق کی کچھ اور غلطیاں، گزشتہ سے پیوستہ
اس قسط وار بلاگ کا پہلا حصہ 12 اگست کے روز شائع ہوچکا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ سائنس فکشن فلموں میں کس طرح فلم سازی کے تقاضے پورے کرنے کےلیے بعض مرتبہ سائنسی اصولوں اور کلیدی حقائق تک کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس ذیل میں اب تک خلائی جہازوں کی حرکت کا احوال پیش کیا جاچکا ہے۔ اب ہم اس سے آگے پڑھیں گے۔
اس بلاگ کا پہلا حصہ یہاں پڑھیے: کیا سائنس فکشن واقعی ''سائنسی'' ہوتا ہے؟
ابتداء و انتہائے کائنات اور خلا کے ہزار ہا رازوں کو طشت ازبام کرنے کا جنون، انسانوں کو ہمیشہ سے ستاروں پر کمند ڈالنے یا کم از کم اس کے خواب دیکھنے پر مجبور کرتا آیا ہے۔ سائنس ہی اس کا جواب دینے پر کسی حد تک قادر رہی ہے اور یہ سوال و جواب کا سلسلہ بھی زلف درازِ محبوب یا وسعت کائنات کی طرح بڑھتا چلا جارہا ہے․․․ مزید پیچ در پیچ ہوتا جارہا ہے۔
فلم ''اسٹار وارز 1: دی فینٹم مینیس'' میں تین کرداروں (کوئی گون جن، اوبی وان کینوبی اور جار جار برنکس) کو ایک اجنبی سیارے ''نابو'' پر، سمندر کی تہہ میں آباد ''گنگان'' نامی شہر میں دکھایا گیا ہے۔ انہیں جلد از جلد وہاں کی ملکہ امیڈالا سے ملنا ہوتا ہے جو سیارے کی مخالف سمت پر موجود ہوتی ہے۔ گنگان کا سردار انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہاں پہنچنے کا تیز ترین راستہ یہی ہے کہ اس سیارے کے پاتال یعنی قلب (Core) سے گزرتے ہوئے چلے جائیں۔ اس مقصد کےلیے وہ ایک آبدوز کا انتظام بھی کردیتا ہے۔ دوران سفر سمندری بلائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں لیکن وہ اس سیارے کے قلب سے گزرتے ہوئے، بچتے بچاتے، دوسری طرف پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک اس سارے منظرنامے کا تعلق ہے تو یہ عام سی مہم جوئی لگتی ہے۔ لیکن بغور دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اس لیے کیونکہ زمین جیسے سیاروں کے قلب میں ایسی پتھریلی چٹانیں یا پھر آبی گولے نہیں پائے جاتے جیسے کہ اس منظر میں دکھائے گئے ہیں۔ یہ سائنس سے کھلی ناواقفیت کی دلیل ہے۔
ہمارے نظامِ شمسی ہی کو لے لیجئے۔ اس میں دو طرح کے سیارے ہیں: پتھریلے بونے (یعنی عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ)؛ اور گیسی دیو (یعنی مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون)۔ نظامِ شمسی کی ابتداء میں، جب گیس اور گرد پر مشتمل ''شمسی رکابی'' کا مادّہ (جسے مجموعی طور پر ''سیار پارے'' (Planetismals) کہا جاتا ہے) آپس میں ٹکراکر مختلف جگہوں پر اکٹھا ہونے لگا، تو سیارے بھی وجود میں آنے لگے۔ اندرونی نظامِ شمسی کا بیشتر مادّہ چٹانوں، دھول اور دھاتوں پر مشتمل تھا، جو نسبتاً گرم ماحول میں قائم رہ سکتی تھیں۔ نتیجتاً وہ پتھریلے سیارے وجود میں آئے جنہیں ہم نے ''بونے'' لکھا ہے۔ اس کے برعکس، نظام شمسی کے بیرونی حصے میں زیادہ تر گیسیں، پانی، برف اور مٹی تھی، جو سرد ماحول میں بہتر طور پر برقرار رہ سکتی تھی۔ کشش ثقل نے ان سیار پاروں کو بتدریج یکجا کرتے ہوئے، سیاروں میں تبدیل کردیا․․․ اور ہمارا پورا نظامِ شمسی وجود میں آگیا۔
اب چونکہ ''نابو'' کو زمین جیسا سیارہ دکھایا گیا ہے، تو ایک نظر زمین کے بننے پر بھی ڈال لیتے ہیں:
ابتدائی دور میں سیار پاروں کے تصادم سے شدید گرمی پیدا ہوئی جس سے تمام ٹھوس مادّہ پگھل گیا۔ لیکن یہ مادّہ یکساں نہ تھا۔ پگھلی ہوئی حالت میں، اس مادّے کے مختلف حصے اپنی اپنی کثافت کے اعتبار سے پرتوں کی شکل میں آتے چلے گئے۔ جیسے کہ لوہا اور نکل چونکہ ان میں سب سے زیادہ کثیف تھے، لہٰذا وہ (ابتدائی سیارہ زمین کے) بیچوں بیچ، سب سے اندرونی تہہ میں جمع ہوگئے․․․ اور یوں زمین کا اندرونی قلب (Inner Core) وجود میں آیا۔ اسی طرح نستباً کم کثیف یا لطیف مادے، پرتوں کی شکل میں بتدریج اوپر تلے، تہہ در تہہ جمع ہوتے گئے: بیرونی قلب، مینٹل، اور سب سے اوپر قشر ارض (Crust)۔ یہ وہ عمل ہے جسے ماہرین ارضیات ''تفریق'' (Differentiation) کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ بیرونی، یعنی گیسی سیاروں کے بارے میں اندازہ ہے کہ ان میں دھول اور منجمد پانی کی برف پر مشتمل قلب، جبکہ ارد گرد مائع حالت والی گیسوں کی پرتیں ہوسکتی ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جو سیارہ ''نابو'' کو (زمین جیسا ہونے کی بناء پر) حقیقت سے بہت دور لے جاتی ہیں۔
سائنس فکشن فلموں میں سیارہ مریخ ایک دلچسپ موضوع ہوتا ہے۔ مریخ میں لوگوں کی دلچسپی، ہمیشہ ہالی ووڈ کو اپنی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ 1950ء کے عشرے میں ''دی اینگری ریڈ پلینٹ'' نامی فلم مریخ کی پوری سطح سرخ دکھانے کے ساتھ ساتھ وہاں ایسی زندگی بھی پیش کی گئی جو مکڑیوں اور چوہوں کا ملغوبہ تھی۔ اسی عجیب و غریب مخلوق نے مریخ پر پہنچنے والے عملے پر حملہ کردیا تھا۔ ایک اور فلم ''رابنسن کروسو آن مارس'' میں مریخ کو صحرائی خطہ دکھایا گیا، جس کی فضا بہت لطیف تھی۔ یہاں ہیرو ایک انسان نما مریخی مخلوق کی مدد سے خود کو بچاتا ہے۔
ان پرانی سائنس فکشن فلموں کو اس لیے معافی دی جاسکتی ہے کیونکہ یہ اس زمانے میں پرسیول لوول کی دوربین سے حاصل کردہ، مریخی تصویروں کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں․․․ کہ جب سطح مریخ پر کوئی مشن بھیجا نہیں گیا تھا۔
مریخ ایک سرد صحرائی سیارہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ وہاں پانی کبھی پایا جاتا تھا؛ اور اس کی کچھ باقیات آج بھی مریخی قطبین پر برف کی شکل میں موجود ہیں۔ دو حالیہ فلموں ''دی رَیڈ پلینٹ'' اور ''مشن ٹو مارس'' میں مریخ کی زیادہ حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ دراصل 1976ء میں مریخ پر بھیجئے گئے مشن کی معلومات پر مبنی فلمیں ہیں۔
اس کے باوجود ''دی رَیڈ پلینٹ'' میں خلانوردوں کا جہاز مریخ سے ٹکراکر تباہ ہوجاتا ہے اور انہیں پیدل چلتے ہوئے، ایک لمبا فاصلہ طے کرکے، رہائشی ماڈیول تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس سفر میں ان کے خلائی لباسوں کی آکسیجن ختم ہوگئی اور ان کا دم گھٹنے لگا۔ ایک خلا نورد نے دم گھٹ کر مرنے کے بجائے، پہاڑی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔
اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہوا کہ جب تمام خلانورد، سانس گھٹنے سے کھانس رہے تھے تو ان میں سے ایک نے اپنا ہیلمٹ اتاردیا اور سانس لینے لگا! اسے اچانک پتا چلا کہ مریخ پر آکسیجن موجود ہے۔ اس کے بعد اس نے یہ بات باقی خلانوردوں کو بھی بتادی اور سب وہاں سانس لینے لگے۔ کیا وہ یہ عجیب بات پہلے سے نہیں جان پائے تھے؟ اتنا انتظام کس بات کا؟
درحقیقت مریخ کی فضا بہت ہلکی ہے، جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ اس میں آکسیجن موجود نہیں، جو انسانوں کو زندگی بخش سکے۔ علاوہ ازیں، حرارت یا روشنی کے باعث گرم ہوجانے والے عناصر مختلف انداز سے برقی مقناطیسی شعاعیں جذب اور خارج کرتے ہیں؛ جن میں زیریں سرخ (انفراریڈ) شعاعیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اسی زیریں سرخ طیف کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کسی سیارے کی سطح اور فضا میں کون کونسے ایٹم/ سالمات کم یا زیادہ مقدار میں موجود ہیں۔ اور اس کےلیے اس سیارے تک جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ کام تو زمینی دوربینوں پر نصب، زیریں سرخ طیف نگار بھی بہ آسانی کرلیتے ہیں۔ مریخ تو بہت قریب ہے، اس تکنیک کی مدد سے تو ہم ایسے سیاروں کی فضا کا تجزیہ بھی کرسکتے ہیں جو ہمارے نظامِ شمسی سے بہت دور، کسی دوسرے ستارے کے گرد چکر لگا رہے ہوں۔
اتنی سہولیات کی موجودگی میں، مذکورہ فلم میں دکھائے گئے خلانوردوں کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ فضائے مریخ میں آکسیجن موجود ہے یا نہیں۔
البتہ، مستقبل میں مریخ کو زمین کی طرح قابلِ رہائش بنانے کے منصوبے بھی زیرِ غور ہیں۔ ان منصوبوں کا خمیر، کم اسٹینلے رابنسن کے ناولوں (رَیڈ مارس، گرین مارس، بلیو مارس، اور مارشیئنز) سے اٹھایا گیا ہے۔
فلم ''آرماگیڈن'' میں ماہرینِ فلکیات ایک ایسا شہابیہ دریافت کرتے ہیں جو عنقریب زمین سے ٹکرانے والا ہوتا ہے؛ اور اس کی جسامت، امریکی ریاست ٹیکساس سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ اس تصادم کے نتیجے میں زمین پر زندگی کا مکمل خاتمہ ہوجاتا (یا کم از کم انسان ضرور صفحہ ہستی سے مٹ جاتے)۔ شہابئے کو چھوٹے پتھروں کی شکل میں تباہ کرنے اور زمین پر انسانیت کو بچانے کےلیے خلانوردوں کا ایک گروپ اس شہابئے پر جاتا ہے؛ جو اِس کی سطح پر 800 فٹ گہرا گڑھا کرکے اس میں ایٹم بم نصب کرتا ہے اور وہاں سے اور دور جاکر اس بم کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔ اس دھماکے سے شہابئے کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے جو زمین کے اطراف مختلف سمتوں میں بکھر گئے؛ یعنی انسانیت بچ گئی۔ اس فلم میں بھی سائنس فکشن کے نام پر بہت سی فاش سائنسی غلطیاں نظر آتی ہیں۔
چلیے! یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ شہابئے پر اُترنے والے خلانوردوں نے مخصوص لباس پہنے ہوتے ہیں، اور وہ نہایت کم کشش والے ماحول میں ادھر سے اُدھر اچھلتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن خلائی جہاز کے اندر ایسی کوئی بات نہیں دکھائی گئی۔ وہاں پر کشش ثقل ویسی ہی دکھائی گئی ہے جیسی زمین پر ہوتی ہے۔ دوسری غلطی اس شہابئے کی سطح ہے، جو نوک دار چٹانوں پر مشتمل اور کھردری دکھائی گئی ہے۔ حالانکہ اب تک جتنے بھی شہابیوں سے ہم واقف ہیں، ان کی سطح خاصی ہموار ہوتی ہے (البتہ اس پر گڑھے ضرور موجود ہوتے ہیں)۔ تیسری اور نہایت اہم فاش غلطی یہ ہے کہ فلم میں شہابئے کی جسامت، امریکی ریاست ٹیکساس جتنی بتائی گئی ہے اور وہ صرف چند دن میں زمین سے ٹکرانے والا ہے۔ اگر کوئی اتنا بڑا شہابیہ، زمین کی طرف بڑھ رہا ہو، تو اس وقت بھی ہمارے پاس اتنے جدید آلات موجود ہیں کہ اس کا سراغ گھنٹوں، دنوں اور ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں اور برسوں پہلے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اور تو اور، اس کے راستے (ٹریجکٹری) کی پیش گوئی بھی درستگی کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ یعنی ایسے میں ہمارے پاس خاصا وقت ہونا چاہیے تھا۔
کم و بیش ایسی ہی ایک اور فلم ''ڈِیپ امپیکٹ'' تھی، جو تقریباً ان ہی دنوں میں جاری ہوئی۔ لیکن اس میں شہابئے کے بجائے دمدار ستارے کو زمین کی طرف بڑھتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ البتہ وہ ایکشن ایڈونچر سے زیادہ انسانی نفسیات کی نمائندگی کرتی تھی کہ ایسے حالات میں انسانوں کا ردِعمل کیا ہوگا (یا یہ کہ کیا ہونا چاہیے)۔
فلم اسٹار ٹریک میں خلائی جہازوں کو حرکت دینے کےلیے مادہ اور ضدِ مادہ کا ملاپ (ری ایکشن) کرواکر توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ضدِ مادہ اصل میں مادے کی ضد ہے۔ یعنی مادّے میں الیکٹرون پر منفی چارج ہوتا ہے تو ضد مادّہ میں پوزیٹرون پر مثبت چارج۔ اسی طرح مادّے میں پروٹون پر مثبت جبکہ ضد مادّے کے اینٹی پروٹون پر منفی چارج ہوتا ہے۔ یعنی ضد ہائیڈروجن ایٹم کے مرکزے میں منفی چارج (اینٹی پروٹون) اور مدار میں مثبت چارج (پوزیٹرون) ہوگا۔ ان کی کمیت آپس میں بالکل برابر ہوگی؛ صرف چارج ایک دوسرے کے بالکل اُلٹ ہوں گے۔ جب مادّہ اور ضد مادّہ کے ایٹم آپس میں ٹکرائیں گے تو وہ ایک دوسرے کو فنا کردیں گے․․․ اور زبردست توانائی میں تبدیل ہوجائیں گے۔ یہ سب جدید طبیعیات میں معمول کی باتیں ہیں۔ شاید یہ طریقہ ستاروں کے مابین سفر کےلیے توانائی مہیا کرنے کا سب سے مؤثر ذریہ ثابت ہو۔ البتہ فی الحال ایسے منصوبے صرف خیال کی حد تک ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ ضدِ مادہ وجود رکھتا ہے، یا یہ کہ یہ توانائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس کائنات میں ضدِ مادہ انتہائی قلیل مقدار میں پایا جاتا ہے۔ نظری طور پر جب کائنات کا ظہور ہوا، تو مادہ اور ضد مادہ برابر مقداروں میں بننا چاہیے تھا لیکن آج یہ کائنات بنیادی طور پر صرف مادے پر مشمل ہے۔ تو پھر ضد مادہ کہاں گیا؟ ہم ابھی تک اس بارے میں پورے وثوق سے کچھ نہیں جانتے۔
ضدِ مادّہ حاصل کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اسے تیار کرلیا جائے۔ لیکن یہ معاملہ بھی ایسا آسان اور سادہ نہیں کہ جتنا اسٹار ٹریک اور اس جیسی دوسری فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ بہت زیادہ توانائی استعمال کرتے ہوئے، تجربہ گاہ کے انتہائی خاص ماحول میں، ضد مادّہ کی نہایت قلیل مقداریں ہی تیار کی جاسکتی ہیں۔ (کم سے کم آج کی ٹیکنالوجی کےلیے تو یہ بات بالکل درست ہے۔) اس بارے میں ''فزکس آف دی اسٹار ٹریک'' میں مصنف لارنس کراس نے اعتراض کیا ہے کہ فی الحال ضد مادّہ اور مادّے کے ملاپ سے (فنا ہونے پر) جتنی توانائی خارج ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ توانائی ضد مادّہ تیار کرنے کےلیے درکار ہوتی ہے۔
البتہ، یہ بات بعید از امکان نہیں کہ شاید، مستقبل میں کسی وقت، کوئی ایسا طریقہ سامنے آجائے جو ضد مادّہ کی تیاری کو نہایت آسان اور کم خرچ بنادے۔ تب تک کےلیے ہم اسٹار ٹریک کے ''ایندھن'' کو ناظرین کا شک دور کرنے کی ایک کوشش ہی قرار دے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
بلاگ کے اگلے حصے میں سائنس فکشن کے حوالے سے کششِ ثقل، خلاء میں بے وزنی کی کیفیت، مصنوعی قوتِ ثقل اور بلیک ہولز پر بات کی جائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس بلاگ کا پہلا حصہ یہاں پڑھیے: کیا سائنس فکشن واقعی ''سائنسی'' ہوتا ہے؟
سیارے اور دیگر اجرامِ فلکی
ابتداء و انتہائے کائنات اور خلا کے ہزار ہا رازوں کو طشت ازبام کرنے کا جنون، انسانوں کو ہمیشہ سے ستاروں پر کمند ڈالنے یا کم از کم اس کے خواب دیکھنے پر مجبور کرتا آیا ہے۔ سائنس ہی اس کا جواب دینے پر کسی حد تک قادر رہی ہے اور یہ سوال و جواب کا سلسلہ بھی زلف درازِ محبوب یا وسعت کائنات کی طرح بڑھتا چلا جارہا ہے․․․ مزید پیچ در پیچ ہوتا جارہا ہے۔
فلم ''اسٹار وارز 1: دی فینٹم مینیس'' میں تین کرداروں (کوئی گون جن، اوبی وان کینوبی اور جار جار برنکس) کو ایک اجنبی سیارے ''نابو'' پر، سمندر کی تہہ میں آباد ''گنگان'' نامی شہر میں دکھایا گیا ہے۔ انہیں جلد از جلد وہاں کی ملکہ امیڈالا سے ملنا ہوتا ہے جو سیارے کی مخالف سمت پر موجود ہوتی ہے۔ گنگان کا سردار انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہاں پہنچنے کا تیز ترین راستہ یہی ہے کہ اس سیارے کے پاتال یعنی قلب (Core) سے گزرتے ہوئے چلے جائیں۔ اس مقصد کےلیے وہ ایک آبدوز کا انتظام بھی کردیتا ہے۔ دوران سفر سمندری بلائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں لیکن وہ اس سیارے کے قلب سے گزرتے ہوئے، بچتے بچاتے، دوسری طرف پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک اس سارے منظرنامے کا تعلق ہے تو یہ عام سی مہم جوئی لگتی ہے۔ لیکن بغور دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اس لیے کیونکہ زمین جیسے سیاروں کے قلب میں ایسی پتھریلی چٹانیں یا پھر آبی گولے نہیں پائے جاتے جیسے کہ اس منظر میں دکھائے گئے ہیں۔ یہ سائنس سے کھلی ناواقفیت کی دلیل ہے۔
ہمارے نظامِ شمسی ہی کو لے لیجئے۔ اس میں دو طرح کے سیارے ہیں: پتھریلے بونے (یعنی عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ)؛ اور گیسی دیو (یعنی مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون)۔ نظامِ شمسی کی ابتداء میں، جب گیس اور گرد پر مشتمل ''شمسی رکابی'' کا مادّہ (جسے مجموعی طور پر ''سیار پارے'' (Planetismals) کہا جاتا ہے) آپس میں ٹکراکر مختلف جگہوں پر اکٹھا ہونے لگا، تو سیارے بھی وجود میں آنے لگے۔ اندرونی نظامِ شمسی کا بیشتر مادّہ چٹانوں، دھول اور دھاتوں پر مشتمل تھا، جو نسبتاً گرم ماحول میں قائم رہ سکتی تھیں۔ نتیجتاً وہ پتھریلے سیارے وجود میں آئے جنہیں ہم نے ''بونے'' لکھا ہے۔ اس کے برعکس، نظام شمسی کے بیرونی حصے میں زیادہ تر گیسیں، پانی، برف اور مٹی تھی، جو سرد ماحول میں بہتر طور پر برقرار رہ سکتی تھی۔ کشش ثقل نے ان سیار پاروں کو بتدریج یکجا کرتے ہوئے، سیاروں میں تبدیل کردیا․․․ اور ہمارا پورا نظامِ شمسی وجود میں آگیا۔
اب چونکہ ''نابو'' کو زمین جیسا سیارہ دکھایا گیا ہے، تو ایک نظر زمین کے بننے پر بھی ڈال لیتے ہیں:
ابتدائی دور میں سیار پاروں کے تصادم سے شدید گرمی پیدا ہوئی جس سے تمام ٹھوس مادّہ پگھل گیا۔ لیکن یہ مادّہ یکساں نہ تھا۔ پگھلی ہوئی حالت میں، اس مادّے کے مختلف حصے اپنی اپنی کثافت کے اعتبار سے پرتوں کی شکل میں آتے چلے گئے۔ جیسے کہ لوہا اور نکل چونکہ ان میں سب سے زیادہ کثیف تھے، لہٰذا وہ (ابتدائی سیارہ زمین کے) بیچوں بیچ، سب سے اندرونی تہہ میں جمع ہوگئے․․․ اور یوں زمین کا اندرونی قلب (Inner Core) وجود میں آیا۔ اسی طرح نستباً کم کثیف یا لطیف مادے، پرتوں کی شکل میں بتدریج اوپر تلے، تہہ در تہہ جمع ہوتے گئے: بیرونی قلب، مینٹل، اور سب سے اوپر قشر ارض (Crust)۔ یہ وہ عمل ہے جسے ماہرین ارضیات ''تفریق'' (Differentiation) کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ بیرونی، یعنی گیسی سیاروں کے بارے میں اندازہ ہے کہ ان میں دھول اور منجمد پانی کی برف پر مشتمل قلب، جبکہ ارد گرد مائع حالت والی گیسوں کی پرتیں ہوسکتی ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جو سیارہ ''نابو'' کو (زمین جیسا ہونے کی بناء پر) حقیقت سے بہت دور لے جاتی ہیں۔
ہالی ووڈ کا مریخ
سائنس فکشن فلموں میں سیارہ مریخ ایک دلچسپ موضوع ہوتا ہے۔ مریخ میں لوگوں کی دلچسپی، ہمیشہ ہالی ووڈ کو اپنی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ 1950ء کے عشرے میں ''دی اینگری ریڈ پلینٹ'' نامی فلم مریخ کی پوری سطح سرخ دکھانے کے ساتھ ساتھ وہاں ایسی زندگی بھی پیش کی گئی جو مکڑیوں اور چوہوں کا ملغوبہ تھی۔ اسی عجیب و غریب مخلوق نے مریخ پر پہنچنے والے عملے پر حملہ کردیا تھا۔ ایک اور فلم ''رابنسن کروسو آن مارس'' میں مریخ کو صحرائی خطہ دکھایا گیا، جس کی فضا بہت لطیف تھی۔ یہاں ہیرو ایک انسان نما مریخی مخلوق کی مدد سے خود کو بچاتا ہے۔
ان پرانی سائنس فکشن فلموں کو اس لیے معافی دی جاسکتی ہے کیونکہ یہ اس زمانے میں پرسیول لوول کی دوربین سے حاصل کردہ، مریخی تصویروں کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں․․․ کہ جب سطح مریخ پر کوئی مشن بھیجا نہیں گیا تھا۔
مریخ ایک سرد صحرائی سیارہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ وہاں پانی کبھی پایا جاتا تھا؛ اور اس کی کچھ باقیات آج بھی مریخی قطبین پر برف کی شکل میں موجود ہیں۔ دو حالیہ فلموں ''دی رَیڈ پلینٹ'' اور ''مشن ٹو مارس'' میں مریخ کی زیادہ حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ دراصل 1976ء میں مریخ پر بھیجئے گئے مشن کی معلومات پر مبنی فلمیں ہیں۔
اس کے باوجود ''دی رَیڈ پلینٹ'' میں خلانوردوں کا جہاز مریخ سے ٹکراکر تباہ ہوجاتا ہے اور انہیں پیدل چلتے ہوئے، ایک لمبا فاصلہ طے کرکے، رہائشی ماڈیول تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس سفر میں ان کے خلائی لباسوں کی آکسیجن ختم ہوگئی اور ان کا دم گھٹنے لگا۔ ایک خلا نورد نے دم گھٹ کر مرنے کے بجائے، پہاڑی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔
اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہوا کہ جب تمام خلانورد، سانس گھٹنے سے کھانس رہے تھے تو ان میں سے ایک نے اپنا ہیلمٹ اتاردیا اور سانس لینے لگا! اسے اچانک پتا چلا کہ مریخ پر آکسیجن موجود ہے۔ اس کے بعد اس نے یہ بات باقی خلانوردوں کو بھی بتادی اور سب وہاں سانس لینے لگے۔ کیا وہ یہ عجیب بات پہلے سے نہیں جان پائے تھے؟ اتنا انتظام کس بات کا؟
درحقیقت مریخ کی فضا بہت ہلکی ہے، جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ اس میں آکسیجن موجود نہیں، جو انسانوں کو زندگی بخش سکے۔ علاوہ ازیں، حرارت یا روشنی کے باعث گرم ہوجانے والے عناصر مختلف انداز سے برقی مقناطیسی شعاعیں جذب اور خارج کرتے ہیں؛ جن میں زیریں سرخ (انفراریڈ) شعاعیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اسی زیریں سرخ طیف کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کسی سیارے کی سطح اور فضا میں کون کونسے ایٹم/ سالمات کم یا زیادہ مقدار میں موجود ہیں۔ اور اس کےلیے اس سیارے تک جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ کام تو زمینی دوربینوں پر نصب، زیریں سرخ طیف نگار بھی بہ آسانی کرلیتے ہیں۔ مریخ تو بہت قریب ہے، اس تکنیک کی مدد سے تو ہم ایسے سیاروں کی فضا کا تجزیہ بھی کرسکتے ہیں جو ہمارے نظامِ شمسی سے بہت دور، کسی دوسرے ستارے کے گرد چکر لگا رہے ہوں۔
اتنی سہولیات کی موجودگی میں، مذکورہ فلم میں دکھائے گئے خلانوردوں کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ فضائے مریخ میں آکسیجن موجود ہے یا نہیں۔
البتہ، مستقبل میں مریخ کو زمین کی طرح قابلِ رہائش بنانے کے منصوبے بھی زیرِ غور ہیں۔ ان منصوبوں کا خمیر، کم اسٹینلے رابنسن کے ناولوں (رَیڈ مارس، گرین مارس، بلیو مارس، اور مارشیئنز) سے اٹھایا گیا ہے۔
اصلی اور فلمی شہابئے
فلم ''آرماگیڈن'' میں ماہرینِ فلکیات ایک ایسا شہابیہ دریافت کرتے ہیں جو عنقریب زمین سے ٹکرانے والا ہوتا ہے؛ اور اس کی جسامت، امریکی ریاست ٹیکساس سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ اس تصادم کے نتیجے میں زمین پر زندگی کا مکمل خاتمہ ہوجاتا (یا کم از کم انسان ضرور صفحہ ہستی سے مٹ جاتے)۔ شہابئے کو چھوٹے پتھروں کی شکل میں تباہ کرنے اور زمین پر انسانیت کو بچانے کےلیے خلانوردوں کا ایک گروپ اس شہابئے پر جاتا ہے؛ جو اِس کی سطح پر 800 فٹ گہرا گڑھا کرکے اس میں ایٹم بم نصب کرتا ہے اور وہاں سے اور دور جاکر اس بم کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔ اس دھماکے سے شہابئے کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے جو زمین کے اطراف مختلف سمتوں میں بکھر گئے؛ یعنی انسانیت بچ گئی۔ اس فلم میں بھی سائنس فکشن کے نام پر بہت سی فاش سائنسی غلطیاں نظر آتی ہیں۔
چلیے! یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ شہابئے پر اُترنے والے خلانوردوں نے مخصوص لباس پہنے ہوتے ہیں، اور وہ نہایت کم کشش والے ماحول میں ادھر سے اُدھر اچھلتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن خلائی جہاز کے اندر ایسی کوئی بات نہیں دکھائی گئی۔ وہاں پر کشش ثقل ویسی ہی دکھائی گئی ہے جیسی زمین پر ہوتی ہے۔ دوسری غلطی اس شہابئے کی سطح ہے، جو نوک دار چٹانوں پر مشتمل اور کھردری دکھائی گئی ہے۔ حالانکہ اب تک جتنے بھی شہابیوں سے ہم واقف ہیں، ان کی سطح خاصی ہموار ہوتی ہے (البتہ اس پر گڑھے ضرور موجود ہوتے ہیں)۔ تیسری اور نہایت اہم فاش غلطی یہ ہے کہ فلم میں شہابئے کی جسامت، امریکی ریاست ٹیکساس جتنی بتائی گئی ہے اور وہ صرف چند دن میں زمین سے ٹکرانے والا ہے۔ اگر کوئی اتنا بڑا شہابیہ، زمین کی طرف بڑھ رہا ہو، تو اس وقت بھی ہمارے پاس اتنے جدید آلات موجود ہیں کہ اس کا سراغ گھنٹوں، دنوں اور ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں اور برسوں پہلے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اور تو اور، اس کے راستے (ٹریجکٹری) کی پیش گوئی بھی درستگی کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ یعنی ایسے میں ہمارے پاس خاصا وقت ہونا چاہیے تھا۔
کم و بیش ایسی ہی ایک اور فلم ''ڈِیپ امپیکٹ'' تھی، جو تقریباً ان ہی دنوں میں جاری ہوئی۔ لیکن اس میں شہابئے کے بجائے دمدار ستارے کو زمین کی طرف بڑھتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ البتہ وہ ایکشن ایڈونچر سے زیادہ انسانی نفسیات کی نمائندگی کرتی تھی کہ ایسے حالات میں انسانوں کا ردِعمل کیا ہوگا (یا یہ کہ کیا ہونا چاہیے)۔
ضدِ مادہ (اینٹی میٹر)
فلم اسٹار ٹریک میں خلائی جہازوں کو حرکت دینے کےلیے مادہ اور ضدِ مادہ کا ملاپ (ری ایکشن) کرواکر توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ضدِ مادہ اصل میں مادے کی ضد ہے۔ یعنی مادّے میں الیکٹرون پر منفی چارج ہوتا ہے تو ضد مادّہ میں پوزیٹرون پر مثبت چارج۔ اسی طرح مادّے میں پروٹون پر مثبت جبکہ ضد مادّے کے اینٹی پروٹون پر منفی چارج ہوتا ہے۔ یعنی ضد ہائیڈروجن ایٹم کے مرکزے میں منفی چارج (اینٹی پروٹون) اور مدار میں مثبت چارج (پوزیٹرون) ہوگا۔ ان کی کمیت آپس میں بالکل برابر ہوگی؛ صرف چارج ایک دوسرے کے بالکل اُلٹ ہوں گے۔ جب مادّہ اور ضد مادّہ کے ایٹم آپس میں ٹکرائیں گے تو وہ ایک دوسرے کو فنا کردیں گے․․․ اور زبردست توانائی میں تبدیل ہوجائیں گے۔ یہ سب جدید طبیعیات میں معمول کی باتیں ہیں۔ شاید یہ طریقہ ستاروں کے مابین سفر کےلیے توانائی مہیا کرنے کا سب سے مؤثر ذریہ ثابت ہو۔ البتہ فی الحال ایسے منصوبے صرف خیال کی حد تک ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ ضدِ مادہ وجود رکھتا ہے، یا یہ کہ یہ توانائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس کائنات میں ضدِ مادہ انتہائی قلیل مقدار میں پایا جاتا ہے۔ نظری طور پر جب کائنات کا ظہور ہوا، تو مادہ اور ضد مادہ برابر مقداروں میں بننا چاہیے تھا لیکن آج یہ کائنات بنیادی طور پر صرف مادے پر مشمل ہے۔ تو پھر ضد مادہ کہاں گیا؟ ہم ابھی تک اس بارے میں پورے وثوق سے کچھ نہیں جانتے۔
ضدِ مادّہ حاصل کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اسے تیار کرلیا جائے۔ لیکن یہ معاملہ بھی ایسا آسان اور سادہ نہیں کہ جتنا اسٹار ٹریک اور اس جیسی دوسری فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ بہت زیادہ توانائی استعمال کرتے ہوئے، تجربہ گاہ کے انتہائی خاص ماحول میں، ضد مادّہ کی نہایت قلیل مقداریں ہی تیار کی جاسکتی ہیں۔ (کم سے کم آج کی ٹیکنالوجی کےلیے تو یہ بات بالکل درست ہے۔) اس بارے میں ''فزکس آف دی اسٹار ٹریک'' میں مصنف لارنس کراس نے اعتراض کیا ہے کہ فی الحال ضد مادّہ اور مادّے کے ملاپ سے (فنا ہونے پر) جتنی توانائی خارج ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ توانائی ضد مادّہ تیار کرنے کےلیے درکار ہوتی ہے۔
البتہ، یہ بات بعید از امکان نہیں کہ شاید، مستقبل میں کسی وقت، کوئی ایسا طریقہ سامنے آجائے جو ضد مادّہ کی تیاری کو نہایت آسان اور کم خرچ بنادے۔ تب تک کےلیے ہم اسٹار ٹریک کے ''ایندھن'' کو ناظرین کا شک دور کرنے کی ایک کوشش ہی قرار دے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
بلاگ کے اگلے حصے میں سائنس فکشن کے حوالے سے کششِ ثقل، خلاء میں بے وزنی کی کیفیت، مصنوعی قوتِ ثقل اور بلیک ہولز پر بات کی جائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔