خدا قوموں کے جرائم کبھی معاف نہیں کرتا
ہمیں بھی کام کی باتیں کرنا آتی ضرور ہیں لیکن کرتے اس لیے نہیں کہ کسی کو گالی دینا اچھی بات نہیں ہے۔
ہم پر ہمارے اپنے ہی پڑھنے والے نے الزام لگایا ہے کہ ہم ادھر ادھر کی فضولیات ہانکتے رہتے ہیں اور کام کی بات سے کنی کاٹ جاتے ہیں یا اسے چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں۔اور یہ الزام بالکل درست بھی ہے، ہم خود اقبال جرم کر رہے ہیں کہ ایسا ہی ہے، لیکن کیا کریں ۔ ہمیں '' کام '' کی بات کرنا آتا ہی نہیں ہے، آتا تو ہے لیکن ... وہ کسی نے ایک '' بے شرمے '' (معاف کرنا یہاں کسی لیڈر کی طرف اشارہ نہیں ہے ) سے پوچھا کہ تمہیں شرم نہیں آتی اس پر '' بے شرما '' بولا، آتی ہے کیوں نہیں آتی لیکن میں اسے بھگا دیتا ہوں۔
ہمیں بھی کام کی باتیں کرنا آتی ضرور ہیں لیکن کرتے اس لیے نہیں کہ کسی کو گالی دینا اچھی بات نہیں ہے اور '' سچ ''کے لیے یہی کہا جاتا ہے اور ہمیں اس ''بچے '' کی کہانی بھی معلوم ہے جس کی ماں اسے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتی تھی لیکن جب اس نے اپنی ماں سے سچ بولا ، تو ماں نے چولہے سے جلتی ہوئی لکڑی اٹھا کر اس کا سارا سچ جھاڑ دیا تھا ۔
اب یہ آفات وبلیات کو لے لیں جو اکثر ہم ہنسی میں اڑا دیتے ہیں وہ آفات ارضی و سماوی و انسانی جو ہم پر ستر سال سے مسلسل نازل ہو رہی ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے، خد ا تو مہربانی ہی کرتا رہتا ہے تو پھر وجہ کیا ہے کہ پاکستان '' خانہ انوری '' بنا ہوا ہے ۔
ہر بلائے کہ ز آسمان بود
خانہ انوری تلاش کند
'' خانہ انوری '' تلاش کند
'' خانہ انوری '' کا پتہ تو صرف '' آسمانی بلائیں '' پوچھتی تھیں اور یہاں آسمانی زمینی سیاسی جمہوری سرکاری یہاں تک کہ امریکی اور برطانوی بلائیں ۔ اور پتہ بھی نہیں پوچھتیں کیونکہ ہمارا پتہ سب نے ازبر کیا ہوا ہے ۔تو پھر آخر کیوں ہمارا خانہ چیونٹیوں کا گھر بنا ہوا ہے جو کبھی ماتم سے خالی ہوتا ہی نہیں بلکہ '' بلا در بلا '' کا سلسلہ بھی ہے ۔ وہ ایک شخص نے اپنے مکان کی چھت کے بارے میں کہا تھا کہ بارش دس منٹ ہوتی ہے لیکن میری چھت گھنٹوں ٹپکتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی آفت ایک روز کے لیے آتی ہے اور سرکاری محکمے اسے مہینوں بلکہ سالوں چلاتے رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر زلزلہ اور سیلاب کب کے گزر چکے ہیں لیکن اس کے زدگان اب تک سرکاری آفات کی '' زد '' پر ہیں ۔
یہ بڑی سوچنے والی بات ہے کیونکہ ہم تو خدا کی '' لاڈلی قوم '' بھی ہیں، بابرکت ہستیوں اور مقامات کی بھی کمی نہیں ہے، دین و ایمان کے پاسبان بھی بہت ہیں، مدرسے ہیں، مساجد ہیں جو نمازیوں اور اہل دین سے پھٹے پڑ رہے ہیں، حج ہمارے لوگ سب سے زیادہ کرتے ہیں بلکہ اب تو '' عمرے '' کا سلسلہ بھی زور شور سے چل رہا ہے ۔ تبلیغ دین میں بھی ہم درجہ اول ہیں، علمائے کرام اور مشائخ عظام بھی بکثرت رکھتے ہیں اور ماہرین آفات وبلیات یعنی عامل کامل لوگ بھی بہت ہیں تو پھر یہ کم بخت آفات و بلیات ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہی ہیں اور ہاں 47ء سے لے کر لمحۂ موجود تک ہم ایک دوسرے کو مار مار کر غازی و شہید بنانے کی انڈسٹری بھی زور شور سے چلا رہے ہیں۔
شاید آپ کو اس کی وجہ معلوم نہ ہو یا حسب معمول اسے کسی بیرونی ہاتھ کی کارستانی سمجھ رہے ہوں لیکن ہمیں اس کی وجہ معلوم ہے پھر بھی ہم بتا نہیں سکتے کہ ہم نہ تو اتنے بہادر ہیں اور نہ ہی اپنی جان ہم پر بھاری ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ہرکوئی ' ' کام '' کی بات کریں۔
'' کام کی بات '' کے سلسلے میں یاد آیا، ایک مرتبہ ہم ایک حاجی صاحب کے حجرے یا چوپال میں بیٹھا کرتے تھے ۔ سارے کسان لوگ ہوتے تھے اس لیے اپنے پیشے کے بارے میں ہی بات کرتے،کوئی اپنی فصل کوئی اپنے جانوروں کوئی اپنی بیماریوںاور جھگڑوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتا رہتا تھا ۔ ان حاجی صاحب کا ایک بھائی کسی خان کے ہاں مردان میں ملازم تھا اور کبھی کبھی چھٹی پر آتا تھا جس دن وہ آتا تھا تو حاجی صاحب بھی آجاتے تھے اورآتے ہی کہتے یہ کیا فضول باتیں لیے بیٹھے ہو، دیکھتے نہیں اکبر شاہ آیا ہوا ہے چلو اس سے کوئی کام کی بات سنتے ہیں ۔ اکبر شاہ گلا صاف کرکے گویا ہوتا ۔ پرسوں یا کل میں خان کے ڈیرے پر دھوپ سینک رہا تھا کہ خان کی موٹرکش کرکے میرے پاس رک گئی ۔ میں الرٹ ہوگیا فوراً اٹھ کر دروازہ کھولا، خان نے ایک پیر نیچے رکھا اور جب تک دوسرا پیر گاڑی سے نیچے رکھتا تب تک میں نے اپنی چادر سے '' پہلے والے پیر کا جوتا صاف کردیا، پھر دوسرا جوتا بھی چادر سے چمکا دیا ۔ خان نے خوش ہو کر کہا تم بڑے سؤر ہو ۔
اس پر حاجی صاحب پھڑکتے ہوئے کہتا، دیکھا یہ ہوتی ہے کام کی بات اور تم فضول میں فصلوں مویشیوں اور بیماریوں کی باتیں کرتے ہو، سیکھ اکبر شاہ سے کچھ سیکھ اور '' کام '' کی باتیں سنو۔
ہمارا مسٔلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے '' کام '' کی باتیں دوسروں کی طرح ہمیں بھی آتی ہیں لیکن
ہے کچھ ایسی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
مثلاً ہمارا یہ ملک جس میں آج تم بڑے مزے سے آزادی آزادی کھیل رہے ہو ۔ اس کی تعمیر میں کتنی کھوپڑیاں اور عصمتیں خرچ ہوئی تھیں، چلیے ایک مرتبہ تو ہم نے خود کو بچانے اور آزادی کے لیے پندرہ لاکھ کھوپڑیاں اور نوے ہزار عصمتیں خرچ کر ڈالی تھیں لیکن اس سے کیا ؟
ہوں گے کوئی جنہوں نے اپنی کھوپڑیاں اور عصمتیں خرچ کر ڈالی تھیں اور دوسری بار اسے ''بچانے '' کے لیے ۔ تیس لاکھ کھوپڑیاں اور تین لاکھ عصمتیں لٹائیں ۔ ان میں کسی پر کوئی نام نہیں تھا صرف پاکستانی اور مسلمان نام لکھا تھا ۔ ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا یہاں تک تو ٹھیک ہے، ہوتا ہے ایسا اس طرح کے کاموں میں۔
لیکن یہ کسی کو نہ تو معلوم ہے نہ اس کا احساس ہے کہ آدھے تو ہم بھیڑئیے کے جبڑوں سے بچالائے لیکن جو آدھے وہاں چھوڑ دیے ، اس کے لیے ہم نے بھیڑئیے کو دو چار پتھر بھی مار دیے تاکہ ذرا اور تیزی سے بھنبھوڑنے لگے سو وہ بھنبھوڑ رہا ہے ۔
لگ بھگ بیس پچیس کروڑ مسلمان گھرانے جو ہم وہاں چھوڑ آئے ہیں وہ تاحال بھنبھوڑے جا رہے ہیں۔ تو ان کے دلوں سے جو آہیں نکلتی ہیں وہ کہاں جائیں گی ؟
یہ تو ہم یہاں آرام سے بیٹھے صرف '' خبریں '' سنتے ہیں کچھ وہاں کے خاص خاص چند لوگوں کے نام سنتے ہیں جو صدر بھی ہوجاتے ہیں اور وزیر بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کے نیچے جو خون کا دریا بہہ رہا ہے ان کا صبر بھی کسی نہ کسی پر تو پڑے گا ہی ۔
کسی نے نہیں دیکھا کہ بھیڑیوں کے نرغے میں ان ہرن ہرنیوں کا کیا حال ہے جن کوہم نے بچایا بھی نہیں اورایک مسلسل عذاب کا شکار بنا دیا
صبر یا رب میری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
'' چارہ فرما '' بھی کبھی داخل زندان ہوں گے
کہتے ہیں آفات وبلیات کیوں نازل ہوتی ہیں، ذرا پیچھے مڑ کر دیکھئے تم نے بد دعاؤں کے علاوہ اور کمایا کیا ہے ؟ چند چور چند رہزن اورچند اشراف ؟
خدا افراد کی غلطیوں کو تودرگزر کر دیتا ہے لیکن قوموں کے جرائم کبھی معاف نہیں کرتا ۔
ہمیں بھی کام کی باتیں کرنا آتی ضرور ہیں لیکن کرتے اس لیے نہیں کہ کسی کو گالی دینا اچھی بات نہیں ہے اور '' سچ ''کے لیے یہی کہا جاتا ہے اور ہمیں اس ''بچے '' کی کہانی بھی معلوم ہے جس کی ماں اسے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتی تھی لیکن جب اس نے اپنی ماں سے سچ بولا ، تو ماں نے چولہے سے جلتی ہوئی لکڑی اٹھا کر اس کا سارا سچ جھاڑ دیا تھا ۔
اب یہ آفات وبلیات کو لے لیں جو اکثر ہم ہنسی میں اڑا دیتے ہیں وہ آفات ارضی و سماوی و انسانی جو ہم پر ستر سال سے مسلسل نازل ہو رہی ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے، خد ا تو مہربانی ہی کرتا رہتا ہے تو پھر وجہ کیا ہے کہ پاکستان '' خانہ انوری '' بنا ہوا ہے ۔
ہر بلائے کہ ز آسمان بود
خانہ انوری تلاش کند
'' خانہ انوری '' تلاش کند
'' خانہ انوری '' کا پتہ تو صرف '' آسمانی بلائیں '' پوچھتی تھیں اور یہاں آسمانی زمینی سیاسی جمہوری سرکاری یہاں تک کہ امریکی اور برطانوی بلائیں ۔ اور پتہ بھی نہیں پوچھتیں کیونکہ ہمارا پتہ سب نے ازبر کیا ہوا ہے ۔تو پھر آخر کیوں ہمارا خانہ چیونٹیوں کا گھر بنا ہوا ہے جو کبھی ماتم سے خالی ہوتا ہی نہیں بلکہ '' بلا در بلا '' کا سلسلہ بھی ہے ۔ وہ ایک شخص نے اپنے مکان کی چھت کے بارے میں کہا تھا کہ بارش دس منٹ ہوتی ہے لیکن میری چھت گھنٹوں ٹپکتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی آفت ایک روز کے لیے آتی ہے اور سرکاری محکمے اسے مہینوں بلکہ سالوں چلاتے رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر زلزلہ اور سیلاب کب کے گزر چکے ہیں لیکن اس کے زدگان اب تک سرکاری آفات کی '' زد '' پر ہیں ۔
یہ بڑی سوچنے والی بات ہے کیونکہ ہم تو خدا کی '' لاڈلی قوم '' بھی ہیں، بابرکت ہستیوں اور مقامات کی بھی کمی نہیں ہے، دین و ایمان کے پاسبان بھی بہت ہیں، مدرسے ہیں، مساجد ہیں جو نمازیوں اور اہل دین سے پھٹے پڑ رہے ہیں، حج ہمارے لوگ سب سے زیادہ کرتے ہیں بلکہ اب تو '' عمرے '' کا سلسلہ بھی زور شور سے چل رہا ہے ۔ تبلیغ دین میں بھی ہم درجہ اول ہیں، علمائے کرام اور مشائخ عظام بھی بکثرت رکھتے ہیں اور ماہرین آفات وبلیات یعنی عامل کامل لوگ بھی بہت ہیں تو پھر یہ کم بخت آفات و بلیات ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہی ہیں اور ہاں 47ء سے لے کر لمحۂ موجود تک ہم ایک دوسرے کو مار مار کر غازی و شہید بنانے کی انڈسٹری بھی زور شور سے چلا رہے ہیں۔
شاید آپ کو اس کی وجہ معلوم نہ ہو یا حسب معمول اسے کسی بیرونی ہاتھ کی کارستانی سمجھ رہے ہوں لیکن ہمیں اس کی وجہ معلوم ہے پھر بھی ہم بتا نہیں سکتے کہ ہم نہ تو اتنے بہادر ہیں اور نہ ہی اپنی جان ہم پر بھاری ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ہرکوئی ' ' کام '' کی بات کریں۔
'' کام کی بات '' کے سلسلے میں یاد آیا، ایک مرتبہ ہم ایک حاجی صاحب کے حجرے یا چوپال میں بیٹھا کرتے تھے ۔ سارے کسان لوگ ہوتے تھے اس لیے اپنے پیشے کے بارے میں ہی بات کرتے،کوئی اپنی فصل کوئی اپنے جانوروں کوئی اپنی بیماریوںاور جھگڑوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتا رہتا تھا ۔ ان حاجی صاحب کا ایک بھائی کسی خان کے ہاں مردان میں ملازم تھا اور کبھی کبھی چھٹی پر آتا تھا جس دن وہ آتا تھا تو حاجی صاحب بھی آجاتے تھے اورآتے ہی کہتے یہ کیا فضول باتیں لیے بیٹھے ہو، دیکھتے نہیں اکبر شاہ آیا ہوا ہے چلو اس سے کوئی کام کی بات سنتے ہیں ۔ اکبر شاہ گلا صاف کرکے گویا ہوتا ۔ پرسوں یا کل میں خان کے ڈیرے پر دھوپ سینک رہا تھا کہ خان کی موٹرکش کرکے میرے پاس رک گئی ۔ میں الرٹ ہوگیا فوراً اٹھ کر دروازہ کھولا، خان نے ایک پیر نیچے رکھا اور جب تک دوسرا پیر گاڑی سے نیچے رکھتا تب تک میں نے اپنی چادر سے '' پہلے والے پیر کا جوتا صاف کردیا، پھر دوسرا جوتا بھی چادر سے چمکا دیا ۔ خان نے خوش ہو کر کہا تم بڑے سؤر ہو ۔
اس پر حاجی صاحب پھڑکتے ہوئے کہتا، دیکھا یہ ہوتی ہے کام کی بات اور تم فضول میں فصلوں مویشیوں اور بیماریوں کی باتیں کرتے ہو، سیکھ اکبر شاہ سے کچھ سیکھ اور '' کام '' کی باتیں سنو۔
ہمارا مسٔلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے '' کام '' کی باتیں دوسروں کی طرح ہمیں بھی آتی ہیں لیکن
ہے کچھ ایسی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
مثلاً ہمارا یہ ملک جس میں آج تم بڑے مزے سے آزادی آزادی کھیل رہے ہو ۔ اس کی تعمیر میں کتنی کھوپڑیاں اور عصمتیں خرچ ہوئی تھیں، چلیے ایک مرتبہ تو ہم نے خود کو بچانے اور آزادی کے لیے پندرہ لاکھ کھوپڑیاں اور نوے ہزار عصمتیں خرچ کر ڈالی تھیں لیکن اس سے کیا ؟
ہوں گے کوئی جنہوں نے اپنی کھوپڑیاں اور عصمتیں خرچ کر ڈالی تھیں اور دوسری بار اسے ''بچانے '' کے لیے ۔ تیس لاکھ کھوپڑیاں اور تین لاکھ عصمتیں لٹائیں ۔ ان میں کسی پر کوئی نام نہیں تھا صرف پاکستانی اور مسلمان نام لکھا تھا ۔ ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا یہاں تک تو ٹھیک ہے، ہوتا ہے ایسا اس طرح کے کاموں میں۔
لیکن یہ کسی کو نہ تو معلوم ہے نہ اس کا احساس ہے کہ آدھے تو ہم بھیڑئیے کے جبڑوں سے بچالائے لیکن جو آدھے وہاں چھوڑ دیے ، اس کے لیے ہم نے بھیڑئیے کو دو چار پتھر بھی مار دیے تاکہ ذرا اور تیزی سے بھنبھوڑنے لگے سو وہ بھنبھوڑ رہا ہے ۔
لگ بھگ بیس پچیس کروڑ مسلمان گھرانے جو ہم وہاں چھوڑ آئے ہیں وہ تاحال بھنبھوڑے جا رہے ہیں۔ تو ان کے دلوں سے جو آہیں نکلتی ہیں وہ کہاں جائیں گی ؟
یہ تو ہم یہاں آرام سے بیٹھے صرف '' خبریں '' سنتے ہیں کچھ وہاں کے خاص خاص چند لوگوں کے نام سنتے ہیں جو صدر بھی ہوجاتے ہیں اور وزیر بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کے نیچے جو خون کا دریا بہہ رہا ہے ان کا صبر بھی کسی نہ کسی پر تو پڑے گا ہی ۔
کسی نے نہیں دیکھا کہ بھیڑیوں کے نرغے میں ان ہرن ہرنیوں کا کیا حال ہے جن کوہم نے بچایا بھی نہیں اورایک مسلسل عذاب کا شکار بنا دیا
صبر یا رب میری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
'' چارہ فرما '' بھی کبھی داخل زندان ہوں گے
کہتے ہیں آفات وبلیات کیوں نازل ہوتی ہیں، ذرا پیچھے مڑ کر دیکھئے تم نے بد دعاؤں کے علاوہ اور کمایا کیا ہے ؟ چند چور چند رہزن اورچند اشراف ؟
خدا افراد کی غلطیوں کو تودرگزر کر دیتا ہے لیکن قوموں کے جرائم کبھی معاف نہیں کرتا ۔