امریکا کی چڑیل

جس وقت امریکا سپر پاور بننے جا رہا تھا اُس وقت ہر جگہ اس چڑیل کا نام مشہور تھا۔

muhammad.anis@expressnews.tv

آج کل گلی محلے کے ''چھوکرے'' بھی حکومت پر تنقید کرنے لگے ہیں۔ جیب میں سگریٹ پینے کے پیسے نہیں ہوتے لیکن باتیں IMF کی کر رہے ہوتے ہیں۔ خود چندہ لے کر اسکوٹر کا پیٹرول ڈلواتے ہیں مگر حکومت کو کہتے ہیں کہ غیرت کا مظاہرہ کرے۔

یہ ''چھوکرے'' کسی کیفے میں ایک بوتل میں دو اسٹرا ڈال کر شئیر کرتے ہیں۔اور اپنی کنگالی چھپانے کے لیے لڑکی سے کہتے ہیں کہ اس سے محبت بڑھتی ہیں۔ یہ حکومت کو سمجھاتے ہیں کہ جیب خالی ہو تو کیا ہوا؟ امریکا کو چشمہ اتار کر آنکھیں دکھاؤں۔ دولت کیسے جمع ہوتی ہے؟ یہ بات نہ ان ''چھوکروں'' کو سمجھ آتی ہے نہ ہی حکومت کچھ سمجھنے کے لیے تیار ہے۔ انھیں ''امریکا کی چڑیل'' سے سبق سیکھنا چاہیے۔

جس وقت امریکا سپر پاور بننے جا رہا تھا اُس وقت ہر جگہ اس چڑیل کا نام مشہور تھا۔ جو ہمیں پیسہ دیتا ہے وہ ہمارا دوست ہوتا ہے۔ اس لیے وہ چڑیل اگر ہمارا خون چوس لیتی لیکن ہمیں پیسے دیتی تو ہماری دوست ہوتی۔اس کا شمار انیسویں صدی کی امیر ترین خاتون میں ہوتا تھا۔ آج زندہ ہوتی تو ہم اُس سے بھی امداد لینے چلے جاتے۔کیونکہ یہ پہلی خاتون تھی جو فائننسر تھی۔جو لوگوں کو سود پر قرضہ دیتی تھی۔ اور سود پر قرض لینے کے تو ہم چیمپین ہیں۔ اُسے بھی شیشے میں اتار ہی لیتے۔ اس چڑیل کا نام ''ہیٹی گرین'' تھا۔ جو 1834ء میں امریکا میں پیدا ہوئی۔ اور بعد میں ''وال اسٹریٹ کی چڑیل یا امریکا کی چڑیل'' کے نام سے مشہور ہوئی۔

ہمیں ڈیم بنانا ہے لیکن پیسے نہیں ہیں۔ ہمیں تعلیم دینی ہے لیکن جیب خالی ہے۔ ہمیں بڑی بڑی باتیں کرنی ہے لیکن بینک میں نو ٹ نہیں۔ ہاتھ میں خارش بہت ہوتی ہے لیکن ڈالر ناچتے نہیں۔ ایسے میں جب یہ چھوکرے آپ کا مذاق اُڑائے تو انھیں اس چڑیل جیسی زندگی گزارنے کا مشورہ دیں۔ اس کے پاس کروڑوں پاؤنڈ تھے لیکن صبح سب سے پہلے اخبار خرید کر جلدی جلدی پڑھتی تھی اور پھر بازار میں جا کر اسی اخبار کو آدھی قیمت میں بیچ دیتی تھی۔ سخت سردیوں میں کپڑے نہیں سلواتی تھی۔ بلکہ پرانے اخبار گلی سے اٹھا کر لباس کے اندر ڈال دیتی تھی۔

کون سردیوں میں پیسے خرچ کر کے گرم کپڑے لے۔ مشورہ تمام شریف مردوں کو اپنی بیوی کو دینا چاہیے۔ اور بتانا چاہیے کہ اگر چڑیل کی طرح کروڑ پتی بننا ہے تو گرم کپڑوں کی جگہ اخبار رکھیں۔ سوچیں اگر سارے وزیر، اراکین اسمبلی گرم کپڑے نہ خریدیں تو اس قوم کے کتنے پیسے بچ جائینگے۔

پانی کی بچت اس طرح کرتی تھی کہ دھوبی کو کپڑوں کا وہ ہی حصہ دھونا ہوتا تھا جو گندہ ہوا ہو۔ اب سوچیں اگر ہم نے یہ اصول اپنا لیا تو کتنا پانی بچ جائیگا۔ وہ سردیوں میں گرم پانی استعمال نہیں کرتی تھی۔ کالے رنگ کا لباس اُس وقت تک نہیں بدلتی تھی جب تک وہ پھٹ نہ جائے۔ اگر ہمارے سارے وزراء اس فارمولے پر عمل کریں تو روز کے لاکھوں روپے بچ سکتے ہیں۔ وال اسٹریٹ کی امیر ترین خاتون تھی۔ جو بینکوں کو بھی قرضہ دیتی تھی۔ ہمارے بہت سے سرکاری ملازموں اور سیاستدانوں کی طرح اس چڑیل کا بھی کوئی گھر نہیں تھا۔


اُسے یہ ڈر تھا کہ اگر اُس نے نیویارک میں گھر لے لیا تو انکم ٹیکس والے اُسے چھوڑیں گے نہیں۔ جیسے آج کل نیب والے فالودے والے کو نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ جس طرح آج کی چڑیلوں نے پیسہ اور ٹیکس چھپانے کے راستے نکالے ہوئے ہیں اسی طرح ہیٹی گرین نے بھی راستہ نکالا ہوا تھا۔ وہ ہر ہفتے سستے ہوٹل میں کمرہ لیتی اور انتہائی برے کپڑوں میں وہاں رہتی۔ اکثر لوگ اُسے کنگال عورت سمجھتے۔ ایک ہفتے بعد وہ کسی اور ہوٹل میں کمرا کرایے پر لے لیتی۔

آج کی پاکستانی چڑیل اور 100 سال پرانی امریکا کی چڑیل میں ایک بات مشترک اور ایک مختلف تھی ۔100 سال پرانی چڑیل اور آج کی چڑیل دونوں ٹیکس بچانے کے لیے ہر گندگی تک جانے کے لیے تیار ہیں جب کہ دونوں میں مختلف بات یہ ہے کہ 100سال پرانی امریکی چڑیل عیاشی نہیں کرتی تھی۔ آج کی چڑیلیں جب تک دو چار ٹھمکے نہ لگا لیں پیسے ہضم نہیں ہوتے۔

ایک صاحب جن کا نام ''بوائڈن اسپارکس'' تھا۔ہیٹی سے اتنے متاثر ہوئے کہ اس چڑیل پر کتاب لکھ ڈالی۔ ہمارے یہاں کی چڑیلیں تو اپنی تعریف میں خود ہی کتابیں لکھواتی ہیں۔ وہ صاحب لکھتے ہیں کہ آج کل کی پاکستانی چڑیلوں کی طرح ہیٹی گرین کو بھی دولت سے بہت محبت تھی۔

نیویارک کے کیمیکل نیشنل بینک میں ہیٹی کا بہت سا پیسہ تھا ۔ پیسہ ہمیشہ اُس کی آنکھوں کے سامنے رہے اس لیے چڑیل نے بینک میں ہی اپنا گھر بنا لیا تھا۔ سارے کپڑے بینک کے لاکر میں رکھے تھے۔ ایک پرانی سی گھوڑا گاڑی خریدی۔ گاڑی کے پہیے نکال کر دوسری منزل پر رکھے اور گاڑی کو چھت پر رکھ کر اُس میں سونے لگی۔ اب آپ خود سوچیں چڑیلوں کو دولت سے کتنی محبت ہوتی ہے۔ پتہ نہیں ہمارے یہاں کتنی چڑیلیں بینک میں رہتی ہیں۔ جو اتنے سارے اکاؤنٹ سامنے آرہے ہیں۔

دولت سے محبت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ 81 برس کی عمر میں چڑیل پر فالج کا حملہ ہوا۔ ڈاکٹر اور خاندان کے لوگوں نے ایک اہم میٹنگ کی۔ ہو سکتا ہے کوئی ٹاسک فورس یا GIT بھی بنائی ہو۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ چڑیل کی دیکھ بھال کرنے والی تمام نرسیں گندے کپڑے پہنیں گی۔ کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چڑیل کو ہوش آئے اور وہ یہ سمجھیں کہ نرس نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور اس کی قیمت چڑیل کے اکاؤنٹ سے جا رہی ہے۔ وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اور وقت سے پہلے موت ہو جائے۔

میرا مشورہ یہ ہے کہ چھوکروں کی خطرناک ٹوئیٹ کو بلکل خاطر میں مت لائیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ آج کی چڑیلوں کو بھی چاہیے کہ وہ ہیٹی گرین کے عظیم کارناموں سے سبق سیکھیں۔ مگر ایک بار ''وال اسٹریٹ کی چڑیل '' نے بھی پیسے خرچ کیے تھے۔ جب وہ بوڑھی ہونے لگی تو اُس کے ایک قریبی دوست نے چڑیل کی کمزوری پکڑ لی۔ اُس نے کہا کہ اگر وہ 60 پونڈ خرچ کرے تو وہ ایک ایسا نسخہ دے سکتا ہے جس سے وہ جوان ہو جائے گی۔

چڑیل نے پہلی بار اتنی بڑی رقم خرچ کی۔ مجھے آج تک حیرت ہے کہ وہ کون سا دوست تھا جو چڑیل سے پیسے نکلوانے میں کامیاب ہوا۔ آج کل ایسے ہی دوست پھر سے جوان کرنے کا نسخہ بیچ رہے ہیں اور پیسے نکلوا رہے ہیں۔ جنھیں آج کی چڑیلوں کی کمزوری معلوم ہے۔ وہ بھرپور کھیل رہے ہیں۔ آج کے مطابق ہیٹی گرین کی دولت 5 ارب ڈالر تھی۔ آج کی چڑیل اس سے زیادہ دولت مند ہو گی۔یا پیسے ہمیں ملیں گے یا پھر ہم سردیوں میں نئے کپڑے خریدنے کی بجائے اخبار سے کام چلائیں۔
Load Next Story