دس سوالات
اپنے بارے میں بہتر جاننے والے ہی خوشی، اطمینان اور کامیابی پاتے ہیں
انسانی علم اور ترقی کا راز اس کی سوال پوچھنے کی صلاحیت ہے۔
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ چیزوں کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش ساتھ لے کر آتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بچہ دنیا کے بارے میں جاننے کا عمل اپنی پیدائش سے پہلے ہی شروع کردیتا ہے۔ پھر دنیا میں آجانے کے بعد وہ اپنی ہر حس کے ذریعے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کسی سائنسدان کی طرح ماحول میں موجود ہر چیز کے ساتھ تجربات کرنا چاہتا ہے۔ جب وہ بولنے لگتا ہے تو اس کے سوالات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے؟ پانی کہاں سے آتا ہے؟ رات کے وقت سورج کہاں چلا جاتا ہے؟ سوالات پوچھنے سے ہی اس کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہمارے ذہنوں میں علم کی نہ بجھنے والی پیاس ہوتی ہے لیکن بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری جاننے اور سوال پوچھنے کی صلاحیت ماند پڑنے لگتی ہے۔ دنیا کے بڑے اور عظیم لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ساری زندگی متجسس رہتے ہیں اور سوالات پوچھنے اور جاننے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، یہ خوبی انھیں عام لوگوں سے ممتاز بناتی ہے۔
ہمارے لیے زندگی کا اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی سوال پوچھنے کی صلاحیت استعمال کرتے رہیں اور اسے ایسے انداز میں ترقی دیں کہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی رہے۔ تاریخ میں غیر معمولی تخلیقی صلاحیت رکھنے والوں میں سے ایک نمایاں نام لیونارڈو ڈاونچی کا ہے۔ وہ ایک عظیم مصور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قابل فلسفی، انجینئر، سائنسدان اور موجد بھی تھا۔ اس کی تحریروں میں سائیکل، ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر اور پیرا شوٹ جیسی ایجادات کے ابتدائی تصورات ملتے ہیں۔
تخلیق کرنے کی لامحدود صلاحیت رکھنے والا یہ آرٹسٹ بھی سوالات پوچھنے کی خوبی میں کمال رکھتا تھا۔ یہ سوالات اس کی نوٹ بک کی زینت بنتے تھے۔ ڈائونچی ہر وقت اپنے پاس ایک نوٹ بک رکھتا تھا۔ اس میں اپنے خیالات اور مشاہدات لکھتا رہتا تھا۔ اس کے لکھے گئے صفحات سات ہزار تک بتائے جاتے ہیں۔ یہ صفحات حکایتوں، لطیفوں، نامور مفکرین کے افکار، خطوط، فلسفیانہ خیالات، ایجادات کے منصوبوں، حیوانات، نباتات، ارضیات کے مقالوں، ہوا کی تسخیر اور مصوری کی معلومات کا خزانہ ہیں۔ ڈاونچی کے نزدیک ذہن میں آنے والے سوالات اور مشاہدات نوٹ کرتے رہنے کا عمل بڑا اہم تھا۔
اس عظیم آرٹسٹ پر لکھی گئی ایک خوبصورت کتاب 'ڈاونچی کی طرح کیسے سوچا جائے'' ہے۔ اس کے مصنف کے خیال میں اپنے پاس نوٹ بک رکھنے کی عادت سے ہم بھی اپنے جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت کو ترقی دے سکتے ہیں۔ یہ نوٹ بک ایسی ہوگی جسے ہم ہروقت اپنے پاس رکھیں اور اس میں باقاعدگی سے لکھیں۔ اس نوٹ بک کے ساتھ ہم مختلف موضوعات کے لیے اپنے پاس فائلیں بھی رکھ سکتے ہیں۔ جن میں ہم سائنس، آرٹ، صحت، غذا کسی بھی موضوع کے متعلق اخبارات اور میگزینوں کے مضامین رکھ سکتے ہیں۔
ہم اس نوٹ بک میں اپنے ذہن میں آنے والے سوالات مشاہدات خواب اور خیالات لکھ سکتے ہیں۔ اس نوٹ بک کی ہر تحریر میں ہم خیال رکھیں گے کہ جو کچھ بھی ہمارے ذہن میں آئے ہم اسے لکھتے جائیں۔ یہ بلا روک ٹوک لکھی جائے اسے مکمل کرنے کی فکر ہم پر سوار نہ ہو۔ اسے ہم جھجک اور بے پروا ہوکر لکھیں۔ اس میں ہمیں ترتیب اور منطقی بہائو کی فکر نہ ہو۔ ایسی تحریر ہمیں سوچ کی وسعت دیتی ہے اور چیزوں کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنا سکھاتی ہے۔
ایسی نوٹ بک لکھنا ہماری ذاتی اصلاح اور ترقی کے لیے بڑا فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاونچی پر لکھی گئی کتاب میں دی گئی 100 سوالات کی مشق نوجوانوں کے لیے بڑی دلچسپ ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اپنی نوٹ بک میں ایک سو سوالات لکھیں۔
یہ سوالات کسی بھی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ ایسے ہونے چاہیں جو ہمارے نزدیک اہم ہوں انھیں ایک نشست میں لکھیں اور تیزی سے لکھتے جائیں۔ پہلے 20 سوالات فوراً آپ کے ذہن سے باہر آجائیں گے۔ اگلے 30 یا 40 سوالات کے بعد آپ کے سامنے ایک ترتیب آجائے گی کہ کون سے سوالات کس خاص موضوع سے تعلق رکھتے ہیں۔ فہرست کے آخر میں آپ کے سامنے بڑی غیر متوقع اور گہری چیزیں آئیں گی۔ جب 100 سوالات کی فہرست مکمل ہوجائے تو اس فہرست کو پڑھیں اور دیکھیں کہ آپ کے سوالات کن موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان موضوعات میں آپ کا کام، کاروبار تعلقات زندگی کا مقصد کچھ بھی شامل ہوسکتا ہے۔
ان سوالات میں دس اہم سوالات منتخب کرلیں اور انھیں اہمیت کے اعتبار سے ترتیب دے دیں۔ آپ نے ابھی ان کے جوابات نہیں دینے بس انھیں ایسی جگہ رکھ لیں جہاں آپ کے لیے وقتاً فوقتاً انھیں دیکھنا آسان ہو۔
اپنی کتاب میں مصنف نے مختلف لوگوں کے مرتب کیے گئے سوالات میں سے 10 سوالات منتخب کیے ہیں۔
یہ 10 سوالات ذاتی اصلاح ترقی اور اطمینان حاصل کرنے میںبہت مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ بہتر ہے کہ انھیں نوٹ بک میں لکھ لیا جائے اور ان پر سوچ بچار کا عمل جاری رکھا جائے۔ یہ سوالات کچھ یوں ہیں۔
(1) مجھے کب محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی ذات کا اظہار کرپا رہا ہوں؟ کن لوگوں، جگہوں اور کاموں سے مجھے یہ احساس زیادہ ملتا ہے؟
(2) اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک کون سی ایسی چیز ہے جسے میں آج کرنا چھوڑ سکتا ہوں یا جس کو میں آج سے شروع کرسکتا ہوں؟
(3) میری سب سے بڑی صلاحیت (Talent) کیا ہے؟
(4) مجھے جو کام پسند ہے وہ کیسے میرے لیے آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے؟
(5) میں رہنمائی کے لیے کن لوگوں کو رول ماڈل خیال کرتا ہوں؟
(6) میں دوسروں کو کس طرح بہترین انداز میں مدد اور فائدہ دینے والا بن سکتا ہوں؟
(7) میرے دل کی سب سے شدید خواہش کیا ہے؟
(8) میرا قریبی دوست، میرا بدترین مخالف، میرا باس، میرے بچے، میرے ساتھ کام کرنے والے مجھے کیسا انسان سمجھتے ہیں؟
(9) قدرت نے مجھے زندگی کی کن نعمتوں سے نوازا ہے؟
(10)میں کیا ترکہ (Legacy) دنیا میں چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں؟
ان سوالات پر سوچنے کے لیے کچھ وقت نکالنے سے ہماری خوشی اور اطمینان میں اضافہ ہوگا۔ ان پہ غور فکر سے ہمیں اپنی زندگی کی ترجیحات معلوم ہوں گی، ہم جان سکیں گے کہ ہمارا وقت اور صلاحیت کن کاموں پر صرف ہورہے ہیں۔ ان کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں، ہماری قابلیت اور اہلیت کا اصل میدان کیا ہے۔ ہم جان سکیں گے کہ ہم دوسروں کی زندگی آسان بنانے کے لیے کیا کررہے ہیں؟
اس سوچ بچار سے ہم اپنی خامیاں دیکھ سکتے ہیں۔ انھیں دور کرنے کے لیے کوشش کا آغاز کرسکتے ہیں۔ ہم جان سکتے ہیں کہ کیا ہمارا کام ہمیں اپنی ذات کے اظہار کا موقعہ دے رہا ہے اور کیا ہمارا کام ہماری خوشی اور اطمینان میں اضافہ کررہا ہے۔ یہی سوالات ہمیں بتائیں گے کہ کیا ہمارا آج کادن گزشتہ کل سے بہتر ہے یا نہیں۔ ان سوالات میں ہماری ذاتی اصلاح اور ترقی کے بے شمار امکانات چھپے ہوئے ہیں۔
(مضمون نگار موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر ہیں۔ مثبت نفسیات، تخلیقی صلاحیت اور ہیومن پوٹینشل جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں۔)
facebook/atif.mirza.56
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ چیزوں کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش ساتھ لے کر آتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بچہ دنیا کے بارے میں جاننے کا عمل اپنی پیدائش سے پہلے ہی شروع کردیتا ہے۔ پھر دنیا میں آجانے کے بعد وہ اپنی ہر حس کے ذریعے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کسی سائنسدان کی طرح ماحول میں موجود ہر چیز کے ساتھ تجربات کرنا چاہتا ہے۔ جب وہ بولنے لگتا ہے تو اس کے سوالات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے؟ پانی کہاں سے آتا ہے؟ رات کے وقت سورج کہاں چلا جاتا ہے؟ سوالات پوچھنے سے ہی اس کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہمارے ذہنوں میں علم کی نہ بجھنے والی پیاس ہوتی ہے لیکن بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری جاننے اور سوال پوچھنے کی صلاحیت ماند پڑنے لگتی ہے۔ دنیا کے بڑے اور عظیم لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ساری زندگی متجسس رہتے ہیں اور سوالات پوچھنے اور جاننے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، یہ خوبی انھیں عام لوگوں سے ممتاز بناتی ہے۔
ہمارے لیے زندگی کا اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی سوال پوچھنے کی صلاحیت استعمال کرتے رہیں اور اسے ایسے انداز میں ترقی دیں کہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی رہے۔ تاریخ میں غیر معمولی تخلیقی صلاحیت رکھنے والوں میں سے ایک نمایاں نام لیونارڈو ڈاونچی کا ہے۔ وہ ایک عظیم مصور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قابل فلسفی، انجینئر، سائنسدان اور موجد بھی تھا۔ اس کی تحریروں میں سائیکل، ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر اور پیرا شوٹ جیسی ایجادات کے ابتدائی تصورات ملتے ہیں۔
تخلیق کرنے کی لامحدود صلاحیت رکھنے والا یہ آرٹسٹ بھی سوالات پوچھنے کی خوبی میں کمال رکھتا تھا۔ یہ سوالات اس کی نوٹ بک کی زینت بنتے تھے۔ ڈائونچی ہر وقت اپنے پاس ایک نوٹ بک رکھتا تھا۔ اس میں اپنے خیالات اور مشاہدات لکھتا رہتا تھا۔ اس کے لکھے گئے صفحات سات ہزار تک بتائے جاتے ہیں۔ یہ صفحات حکایتوں، لطیفوں، نامور مفکرین کے افکار، خطوط، فلسفیانہ خیالات، ایجادات کے منصوبوں، حیوانات، نباتات، ارضیات کے مقالوں، ہوا کی تسخیر اور مصوری کی معلومات کا خزانہ ہیں۔ ڈاونچی کے نزدیک ذہن میں آنے والے سوالات اور مشاہدات نوٹ کرتے رہنے کا عمل بڑا اہم تھا۔
اس عظیم آرٹسٹ پر لکھی گئی ایک خوبصورت کتاب 'ڈاونچی کی طرح کیسے سوچا جائے'' ہے۔ اس کے مصنف کے خیال میں اپنے پاس نوٹ بک رکھنے کی عادت سے ہم بھی اپنے جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت کو ترقی دے سکتے ہیں۔ یہ نوٹ بک ایسی ہوگی جسے ہم ہروقت اپنے پاس رکھیں اور اس میں باقاعدگی سے لکھیں۔ اس نوٹ بک کے ساتھ ہم مختلف موضوعات کے لیے اپنے پاس فائلیں بھی رکھ سکتے ہیں۔ جن میں ہم سائنس، آرٹ، صحت، غذا کسی بھی موضوع کے متعلق اخبارات اور میگزینوں کے مضامین رکھ سکتے ہیں۔
ہم اس نوٹ بک میں اپنے ذہن میں آنے والے سوالات مشاہدات خواب اور خیالات لکھ سکتے ہیں۔ اس نوٹ بک کی ہر تحریر میں ہم خیال رکھیں گے کہ جو کچھ بھی ہمارے ذہن میں آئے ہم اسے لکھتے جائیں۔ یہ بلا روک ٹوک لکھی جائے اسے مکمل کرنے کی فکر ہم پر سوار نہ ہو۔ اسے ہم جھجک اور بے پروا ہوکر لکھیں۔ اس میں ہمیں ترتیب اور منطقی بہائو کی فکر نہ ہو۔ ایسی تحریر ہمیں سوچ کی وسعت دیتی ہے اور چیزوں کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنا سکھاتی ہے۔
ایسی نوٹ بک لکھنا ہماری ذاتی اصلاح اور ترقی کے لیے بڑا فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاونچی پر لکھی گئی کتاب میں دی گئی 100 سوالات کی مشق نوجوانوں کے لیے بڑی دلچسپ ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اپنی نوٹ بک میں ایک سو سوالات لکھیں۔
یہ سوالات کسی بھی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ ایسے ہونے چاہیں جو ہمارے نزدیک اہم ہوں انھیں ایک نشست میں لکھیں اور تیزی سے لکھتے جائیں۔ پہلے 20 سوالات فوراً آپ کے ذہن سے باہر آجائیں گے۔ اگلے 30 یا 40 سوالات کے بعد آپ کے سامنے ایک ترتیب آجائے گی کہ کون سے سوالات کس خاص موضوع سے تعلق رکھتے ہیں۔ فہرست کے آخر میں آپ کے سامنے بڑی غیر متوقع اور گہری چیزیں آئیں گی۔ جب 100 سوالات کی فہرست مکمل ہوجائے تو اس فہرست کو پڑھیں اور دیکھیں کہ آپ کے سوالات کن موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان موضوعات میں آپ کا کام، کاروبار تعلقات زندگی کا مقصد کچھ بھی شامل ہوسکتا ہے۔
ان سوالات میں دس اہم سوالات منتخب کرلیں اور انھیں اہمیت کے اعتبار سے ترتیب دے دیں۔ آپ نے ابھی ان کے جوابات نہیں دینے بس انھیں ایسی جگہ رکھ لیں جہاں آپ کے لیے وقتاً فوقتاً انھیں دیکھنا آسان ہو۔
اپنی کتاب میں مصنف نے مختلف لوگوں کے مرتب کیے گئے سوالات میں سے 10 سوالات منتخب کیے ہیں۔
یہ 10 سوالات ذاتی اصلاح ترقی اور اطمینان حاصل کرنے میںبہت مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ بہتر ہے کہ انھیں نوٹ بک میں لکھ لیا جائے اور ان پر سوچ بچار کا عمل جاری رکھا جائے۔ یہ سوالات کچھ یوں ہیں۔
(1) مجھے کب محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی ذات کا اظہار کرپا رہا ہوں؟ کن لوگوں، جگہوں اور کاموں سے مجھے یہ احساس زیادہ ملتا ہے؟
(2) اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک کون سی ایسی چیز ہے جسے میں آج کرنا چھوڑ سکتا ہوں یا جس کو میں آج سے شروع کرسکتا ہوں؟
(3) میری سب سے بڑی صلاحیت (Talent) کیا ہے؟
(4) مجھے جو کام پسند ہے وہ کیسے میرے لیے آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے؟
(5) میں رہنمائی کے لیے کن لوگوں کو رول ماڈل خیال کرتا ہوں؟
(6) میں دوسروں کو کس طرح بہترین انداز میں مدد اور فائدہ دینے والا بن سکتا ہوں؟
(7) میرے دل کی سب سے شدید خواہش کیا ہے؟
(8) میرا قریبی دوست، میرا بدترین مخالف، میرا باس، میرے بچے، میرے ساتھ کام کرنے والے مجھے کیسا انسان سمجھتے ہیں؟
(9) قدرت نے مجھے زندگی کی کن نعمتوں سے نوازا ہے؟
(10)میں کیا ترکہ (Legacy) دنیا میں چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں؟
ان سوالات پر سوچنے کے لیے کچھ وقت نکالنے سے ہماری خوشی اور اطمینان میں اضافہ ہوگا۔ ان پہ غور فکر سے ہمیں اپنی زندگی کی ترجیحات معلوم ہوں گی، ہم جان سکیں گے کہ ہمارا وقت اور صلاحیت کن کاموں پر صرف ہورہے ہیں۔ ان کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں، ہماری قابلیت اور اہلیت کا اصل میدان کیا ہے۔ ہم جان سکیں گے کہ ہم دوسروں کی زندگی آسان بنانے کے لیے کیا کررہے ہیں؟
اس سوچ بچار سے ہم اپنی خامیاں دیکھ سکتے ہیں۔ انھیں دور کرنے کے لیے کوشش کا آغاز کرسکتے ہیں۔ ہم جان سکتے ہیں کہ کیا ہمارا کام ہمیں اپنی ذات کے اظہار کا موقعہ دے رہا ہے اور کیا ہمارا کام ہماری خوشی اور اطمینان میں اضافہ کررہا ہے۔ یہی سوالات ہمیں بتائیں گے کہ کیا ہمارا آج کادن گزشتہ کل سے بہتر ہے یا نہیں۔ ان سوالات میں ہماری ذاتی اصلاح اور ترقی کے بے شمار امکانات چھپے ہوئے ہیں۔
(مضمون نگار موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر ہیں۔ مثبت نفسیات، تخلیقی صلاحیت اور ہیومن پوٹینشل جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں۔)
facebook/atif.mirza.56