فلسفہ کے مضمون کی بے توقیری کیوں

4 سالہ ڈگری لینے کے باوجود طالب علم میں فلسفیانہ کی سوچ تک پیدا نہیں ہوتی

4 سالہ ڈگری لینے کے باوجود طالب علم میں فلسفیانہ کی سوچ تک پیدا نہیں ہوتی۔ فوٹو: فائل

فلسفہ جہاں قدیم زمانے کی سوچ کو واضح کرتا ہے' اسی طرح نئے زمانے میں بھی اپنے منفرد مقام کا حامل ہے۔

سقراط کوفلسفے کا بانی کہا جاتا ہے لیکن یہ سلسلہ اس سے بھی کہیں پرانا ہے جب بنی نوع انسان نے اپنے گردونواح کو سمجھنے کی کوشش شروع کی۔ کہانیوں کی دنیا جسے انگریزی میں پتھالوجی کہا جاتا ہے، انسان کو قدیم زمانے میں اندھیرے کی طرح گھیرے ہوئے تھی اور زنجیروں کی طرح جکڑے ہوئے تھی۔ اس وقت مختلف لوگوں نے سوچ وبچار شروع کی اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں کی دنیا کے بارے میں وضاحت تو شاید اس قدر ٹیکنیکل یا سائنسی نہیں تھی مگر ان کی سوچ اپنی مثال آپ تھی۔ انھوں نے دنیا کو نئے نئے رنگوں میں رنگ دیا۔ انھیں رنگوں کی وجہ سے انسانی تاریخ کے مختلف ادوار شروع ہوئے جنہیں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

مغربی دنیا میں بہت سے مختلف سلسلے چلے جنہوں نے بہت سے بڑے بڑے ناموں کو جنم دیا۔ جن میں سے مارکس' کانٹ اور فرائیڈ جیسے فلسفیوں کے ذکر کے بغیر شاید بات ادھوری رہ جائے۔ یہ فلسفی ایسے تھے جو کہ مذہب کی طرح چھا گئے، ان کو ماننے والے ایسے تھے جیسے کسی مندر کے پجاری ہوں۔ اس دوڑ میں ہمارے اسلامی فلاسفر بھی کچھ کم نہ رہے۔ انھوں نے بھی اس شعبہ میں ایسا مقام پیدا کیا اور ایسی تعلیمات دیں جو آج بھی پوری دنیا میں مرکزی حیثیت کی حامل ہیں۔ مسلمان فلسفیوں نے بھی مختلف گروہوں کی شکل میں بہت سی تعلیمات دیں جن کی بدولت وہ آج تک مغرب میں بھی زندہ ہیں۔


نیا زمانہ آ گیا اور فلسفہ پروان چڑھ کر ایک جامع مضمون کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جامعات میں پڑھا جانے لگا۔ برصغیر میں بھی اس کی ہوا پہنچی اور یہاں پر بھی فکر شروع ہوگئی اور کالجوں میں فلسفہ کا چرچا عام ہوا۔ شعبہ جات تشکیل دیئے گئے، بہت سے لوگوں نے جدید بنیادوں پر اپنے اپنے خیالات کو تحریر کیا اور ایسے نام بن گئے جو شاید کبھی بھی نہیں بھلائے جا سکیں گے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا نام بھی ایسا نام ہے جو رہتی دنیا تک ان کی کتب کے ذریعے محفوظ ہو گیا۔ ان کے بہت سے ماننے والے ہیں' جو انھیں بہت سے القابات سے بھی نوازتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تعلیم گورنمنٹ کالج کے شعبہ فلسفہ سے حاصل کی تھی۔ جسے آج تک اقبالؒ کے شعبہ سے بھی پہنچانا جاتا ہے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ فلسفہ پاکستان کی سرزمین تک بھی آیا لیکن درست سمت میں نشوو نما نہیں پا سکا۔ آج پاکستان میں بہت کم جامعات ایسی ہیں جو فلسفہ کے مضمون کو پڑھا رہی ہیں۔ فلسفہ کے شعبے بنائے گئے ہیں اور ڈگریاں بھی دی جاتی ہیں مگر اس میں کہیں کچھ کمی ہے۔ کہیں کوئی ایسا خلاء ہے جو پورا نہیں ہو رہا۔ فلسفہ آج وہ مفکر پیدا کیوں نہیں کر رہا جنہوں نے لوگوں کی سوچ کے دھاروں کو ہی بدل کر رکھ دیا تھا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا۔ فلسفے کا مضمون اس قدر کمزور ہو رہا ہے کہ چند عرصہ قبل اقبال کے نام سے پہنچانا جانے والے شعبہ کو ختم کرنے کی نوبت آگئی تھی کیوںکہ وہاں صرف ایک طالبعلم باقی رہ گیا تھا۔ فلسفہ کو آج اس طرح سے کیوں پڑھا جا رہا ہے کہ طالب علم چار سال کی ڈگریاں لے لیتے ہیں لیکن ان میں اقبالؒ جیسے فلاسفروں کی سوچ ہی پیدا نہیں ہوتی۔ فلسفہ کو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جو اسے پڑھتا ہے اُس کے ذہنی توازن پر شک کیا جاتا ہے اور یہی بات ہمارے معاشرے میں اس کی نشو ونما کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس بات کو کیوں بدل نہیں جاتا ہے؟ ایسا دیکھنے میں کیوں آتا ہے کہ طالب علم اس مضمون کی افادیت سے قطع نظر صرف ڈگری کی خاطر فلسفہ میں داخلہ لیتے ہیں۔

اس ضمن میں ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ طالب علم صرف ڈگری کی غرض سے کسی اچھے ادارے میں فلسفہ کو منتخب کرتے ہیں وہاں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اساتذہ بھی شاید صرف ڈگریاں دینے کیلئے ہی بیٹھے ہیں۔ چار سالہ تعلیم کے دوران اساتذہ اپنے طالب علموں میں ایسا ذوق ہی پیدا نہیں کر پاتے کہ کوئی فلسفے کو پڑھ کر سمجھے۔ طالب علموں سے جب پہلے دن یہ سوال ہوتا ہے کہ آپ نے فلسفہ کو کیوں منتخب کیا تو ان میں اکثریت کا جواب ہوتا ہے کہ کسی اور میں داخلہ نہیں ملا اور یہی سوال جب ڈگری ملنے کے بعد دوہرایا جاتا ہے تو اس وقت بھی جواب میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ وہ سوچ پیدا نہیں ہو پاتی جس کی بدولت تاریخ میں فلسفیوں نے نام پیداکئے۔

مغرب میں آج فلسفہ آگے مختلف شعبوں کو جنم دے چکا ہے۔ یہ ایسے شعبے ہیں جو زندگی کے ہر میدان میں فلسفی پیدا کر رہے ہیں۔ وہاں پر فلسفہ کو کاروبار سے لے کر ہر میدان میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی وہاں بڑے بڑے لوگ فلسفہ پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا کوئی رواج نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں فلسفہ اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے پریشان نظر آتا ہے۔ اگر کوئی مفکر اس سرزمین پر جنم لے بھی لیتا ہے تو اس کی پذیرائی نہیں ہوتی نہ اُس کے انکار سے استفسادہ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کے وسائل اجازت دیں تو وہ ملک ہی چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں فلسفہ کے مضمون کی حفاظت اور فروغ کے لئے بے پناہ کام کرنے کی ضرورت ہے تب جا کر اقبالؒ کی روایت کو دوبارہ قائم کیا جاسکے گا۔
Load Next Story