گزرے ہوئے کل کا سبق
بچوں کو اپنے بیتے وقت کے تجربات سے آگاہ کیجیے
تیز رفتار زندگی نے بڑوں سے لے کر بچوں تک سب کو اپنی، اپنی مصروفیات میں اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ انہیں باہمی رابطے اور ملاقات کے لیے وقت کی کمی کا سامنا ہے۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے دوسرے کونے پر بیٹھا شخص شاید ہمارے گھر میں موجود کسی دوسرے فرد سے بھی زیادہ رابطے میں آ رہا ہو، لیکن ایک چھت تلے رہنے والوں سے بات چیت کے مواقع محدود تر ہونے لگے ہیں، پھر اہل خانہ سے کچھ پوچھنے اور بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی کہ کچھ خاص بات ہو تو آواز کان میں پڑ جائے گی، البتہ اس کے برعکس اگر کوئی دوسرا فرد مل جائے تو اس سے نسبتاً جب بھی ملاقات ہو تو علیک سلیک کے بعد کچھ نہ کچھ گفت گو کا موقع مل جاتا ہے، جب کہ ایک گھر میں اس چیز کا کچھ بحران سا پیدا ہونے لگا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک گھر میں رہنے کے باعث بالکل غیر محسوس طریقے سے اپنے ان نہایت قریبی رشتوں کی کچھ بے قدری سی کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح پوری زندگی ہی تمام ہو جاتی ہے اور ہمیں اپنے معمولات روزمرہ سے سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں مل پاتی، یا شاید ہم خود بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ فرصت کے اوقات ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون وغیرہ کی نذر ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ''گھر کی مرغی دال برابر'' کے مصداق ان کی اہمیت غیر محسوس طریقے سے کم ہو جاتی ہے۔
ماہرین عمرانیات کے مطابق ایک گھر کے افراد میں پیدا ہونے والی اس اجنبیت کی وجہ سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی بہت سی معاشرتی روایات اور اقدار اگلی نسلوں تک منتقل نہیں ہو پا رہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ یاد ہوگا کہ آخری بار اپنے گھر کے کسی فرد سے ان کی تفصیلی گفتگو کب ہوئی تھی۔ اکثر کوئی بڑا مسئلہ ہی گھر کے افراد کے درمیان تفصیلی مکالمے اور بات چیت کا محرک بنتا ہے۔ فرصت کے لمحات میں اہل خانہ کے درمیان تبادلہ خیال کی اہمیت نئی نسل کے لیے تو اور بھی زیادہ ہے۔ یہ گفتگو ان کے اندر بات کرنے کا سلیقہ اور زندگی گزارنے کا شعور دیتی ہے۔ انہیں بول چال کا ڈھنگ آتا ہے، جملوں کی ساخت، ادائیگی، لہجہ اور اتار چڑھائو کا معلوم چلتا ہے۔ یہ چیز ایک طرف ان کی شخصیت میں اعتماد، گھر اور خاندان سے وابستگی مضبوط تر کرتی ہے۔
تو دوسری طرف ان کے سیکھنے کے عمل اور معلومات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ انہیں سنائی گئی یہ یادیں کسی بہت بڑے واقعے یا سفر وغیرہ کا تجربہ ہوں۔ ہر فرد کے پاس اپنے بیتے لمحات کے حوالے سے بہت سی یادیں، باتیں اور تجربات تو موجود ہی ہوتے ہیں، جن سے اس نے سبق سیکھا ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ یہ تمام چیزیں انہیں گوش گزار کرائی جائیں تاکہ ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ انہیں یہ انمول چیزیں دنیا کی کسی بھی کتاب یا انٹرنیٹ پر نہیں مل سکتیں۔ جب والدین یا خاندان کے دیگر بزرگ اپنی یادیں اور گزرے واقعات اور تلخ وترش تجربات بیان کرتے ہیں، تو اس میں ان بچوں کے لیے ایک عملی شکل میں سبق موجود ہوتا ہے، چوں کہ ان تجربات یا حالات کا کردار خود اپنی کہانی سنا رہا ہوتا ہے تو بچے ان تمام باتوں کو بھر پور توجہ دیتے ہیں اور اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتے ہیں۔
ساتھ ہی اس حوالے سے بات چیت بھی کرتے ہیں، جس میں پھر بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور بہت سی دوسری اچھی چیزوں کا تذکرہ بھی آ جاتا ہے، عام حالات میں جن کا اتفاق شاید نہیں ہو پاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ تربیت کا یہ طریقہ کسی کتاب یا سننے اور دیکھنے والی کسی چیز کی بہ نسبت اس لیے بھی کہیں زیادہ پُر اثر ہوتا ہے کہ کتاب میں کچھ پڑھنے کے بعد ذہن میں سوالات اٹھے تو وہ پھر تشنہ ہی رہ گئے یا ان کا جواب ملا تو ظاہر ہے یہ گھر کے کسی بڑے یا استاد کی مدد سے ہی ممکن ہے، کیوں کہ لکھنے والا تو کتاب کے قاری کے سامنے موجود نہیں ہوتا۔ اس ہی طرح ریڈیو، ٹی وی یا کمپیوٹر پر کسی بھی قسم کا معلومات سے بھر پور مواد بھی اس موقع پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہی ہوتا ہے، لیکن جب کوئی فرد اپنے ساتھ بیتنے والے لمحات کی کہانی خود سنا رہا ہو تو ایسے میں نہ صرف سننے والوں کے ہر ہر سوال کی تشفی ہوتی ہے، بلکہ دو طرفہ ابلاغ کے ذریعے اس کی اثر انگیزی کسی بھی ابلاغی طریقے سے خاصی بڑھ جاتی ہے۔ نفسیات اطفال کے ماہرین کے نزدیک بچوں کے سوالات کا جواب ملنا ان کی فکر کو بالکل ایک نئی جلا بخشتا ہے اور دو طرفہ گفتگو اور بات چیت کا طریقہ انہیں کُھل کر سوچنے کے مواقع دیتا ہے اور ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
بچوں کے مصروف معمولات میں اس طرح کے مواقع شاذونادر ہی ملتے ہیں۔ عام دنوں میں اس طرح غیر رسمی انداز میں ایک دوسرے کو وقت دینا شاید بہت مشکل لگے، لیکن ہفتہ وار تعطیلات یا بالخصوص گرمیوں کی چھٹیوں کے طویل موقع پر آپ باقاعدہ اس طرح کی بیٹھک کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ بے شک آپ ان بچوں کی چھٹیوں کو مختلف کورسز کی شکل میں کار آمد بنائیں، مگر یہ یاد رکھیے کہ ان کی سیکھنے کی یہ عمر اور وقت میں یہ نشست کسی بھی مفید و مثبت تعلیمی سرگرمی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ یہ باتیں رسمی تعلیم سے قطع نظر ہمیشہ ان کی راہ نمائی کرتی رہیں گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی کی مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر ان بچوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا اہتمام کیا جائے اور ماضی کے دریچے وا کر کے انہیں گزرے ہوئے کل کے اس سبق سے آشنا کرایا جائے کہ جن سے آنے والے وقت میں انہوں نے نبرد آزما ہونا ہے۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے دوسرے کونے پر بیٹھا شخص شاید ہمارے گھر میں موجود کسی دوسرے فرد سے بھی زیادہ رابطے میں آ رہا ہو، لیکن ایک چھت تلے رہنے والوں سے بات چیت کے مواقع محدود تر ہونے لگے ہیں، پھر اہل خانہ سے کچھ پوچھنے اور بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی کہ کچھ خاص بات ہو تو آواز کان میں پڑ جائے گی، البتہ اس کے برعکس اگر کوئی دوسرا فرد مل جائے تو اس سے نسبتاً جب بھی ملاقات ہو تو علیک سلیک کے بعد کچھ نہ کچھ گفت گو کا موقع مل جاتا ہے، جب کہ ایک گھر میں اس چیز کا کچھ بحران سا پیدا ہونے لگا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک گھر میں رہنے کے باعث بالکل غیر محسوس طریقے سے اپنے ان نہایت قریبی رشتوں کی کچھ بے قدری سی کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح پوری زندگی ہی تمام ہو جاتی ہے اور ہمیں اپنے معمولات روزمرہ سے سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں مل پاتی، یا شاید ہم خود بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ فرصت کے اوقات ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون وغیرہ کی نذر ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ''گھر کی مرغی دال برابر'' کے مصداق ان کی اہمیت غیر محسوس طریقے سے کم ہو جاتی ہے۔
ماہرین عمرانیات کے مطابق ایک گھر کے افراد میں پیدا ہونے والی اس اجنبیت کی وجہ سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی بہت سی معاشرتی روایات اور اقدار اگلی نسلوں تک منتقل نہیں ہو پا رہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ یاد ہوگا کہ آخری بار اپنے گھر کے کسی فرد سے ان کی تفصیلی گفتگو کب ہوئی تھی۔ اکثر کوئی بڑا مسئلہ ہی گھر کے افراد کے درمیان تفصیلی مکالمے اور بات چیت کا محرک بنتا ہے۔ فرصت کے لمحات میں اہل خانہ کے درمیان تبادلہ خیال کی اہمیت نئی نسل کے لیے تو اور بھی زیادہ ہے۔ یہ گفتگو ان کے اندر بات کرنے کا سلیقہ اور زندگی گزارنے کا شعور دیتی ہے۔ انہیں بول چال کا ڈھنگ آتا ہے، جملوں کی ساخت، ادائیگی، لہجہ اور اتار چڑھائو کا معلوم چلتا ہے۔ یہ چیز ایک طرف ان کی شخصیت میں اعتماد، گھر اور خاندان سے وابستگی مضبوط تر کرتی ہے۔
تو دوسری طرف ان کے سیکھنے کے عمل اور معلومات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ انہیں سنائی گئی یہ یادیں کسی بہت بڑے واقعے یا سفر وغیرہ کا تجربہ ہوں۔ ہر فرد کے پاس اپنے بیتے لمحات کے حوالے سے بہت سی یادیں، باتیں اور تجربات تو موجود ہی ہوتے ہیں، جن سے اس نے سبق سیکھا ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ یہ تمام چیزیں انہیں گوش گزار کرائی جائیں تاکہ ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ انہیں یہ انمول چیزیں دنیا کی کسی بھی کتاب یا انٹرنیٹ پر نہیں مل سکتیں۔ جب والدین یا خاندان کے دیگر بزرگ اپنی یادیں اور گزرے واقعات اور تلخ وترش تجربات بیان کرتے ہیں، تو اس میں ان بچوں کے لیے ایک عملی شکل میں سبق موجود ہوتا ہے، چوں کہ ان تجربات یا حالات کا کردار خود اپنی کہانی سنا رہا ہوتا ہے تو بچے ان تمام باتوں کو بھر پور توجہ دیتے ہیں اور اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتے ہیں۔
ساتھ ہی اس حوالے سے بات چیت بھی کرتے ہیں، جس میں پھر بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور بہت سی دوسری اچھی چیزوں کا تذکرہ بھی آ جاتا ہے، عام حالات میں جن کا اتفاق شاید نہیں ہو پاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ تربیت کا یہ طریقہ کسی کتاب یا سننے اور دیکھنے والی کسی چیز کی بہ نسبت اس لیے بھی کہیں زیادہ پُر اثر ہوتا ہے کہ کتاب میں کچھ پڑھنے کے بعد ذہن میں سوالات اٹھے تو وہ پھر تشنہ ہی رہ گئے یا ان کا جواب ملا تو ظاہر ہے یہ گھر کے کسی بڑے یا استاد کی مدد سے ہی ممکن ہے، کیوں کہ لکھنے والا تو کتاب کے قاری کے سامنے موجود نہیں ہوتا۔ اس ہی طرح ریڈیو، ٹی وی یا کمپیوٹر پر کسی بھی قسم کا معلومات سے بھر پور مواد بھی اس موقع پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہی ہوتا ہے، لیکن جب کوئی فرد اپنے ساتھ بیتنے والے لمحات کی کہانی خود سنا رہا ہو تو ایسے میں نہ صرف سننے والوں کے ہر ہر سوال کی تشفی ہوتی ہے، بلکہ دو طرفہ ابلاغ کے ذریعے اس کی اثر انگیزی کسی بھی ابلاغی طریقے سے خاصی بڑھ جاتی ہے۔ نفسیات اطفال کے ماہرین کے نزدیک بچوں کے سوالات کا جواب ملنا ان کی فکر کو بالکل ایک نئی جلا بخشتا ہے اور دو طرفہ گفتگو اور بات چیت کا طریقہ انہیں کُھل کر سوچنے کے مواقع دیتا ہے اور ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
بچوں کے مصروف معمولات میں اس طرح کے مواقع شاذونادر ہی ملتے ہیں۔ عام دنوں میں اس طرح غیر رسمی انداز میں ایک دوسرے کو وقت دینا شاید بہت مشکل لگے، لیکن ہفتہ وار تعطیلات یا بالخصوص گرمیوں کی چھٹیوں کے طویل موقع پر آپ باقاعدہ اس طرح کی بیٹھک کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ بے شک آپ ان بچوں کی چھٹیوں کو مختلف کورسز کی شکل میں کار آمد بنائیں، مگر یہ یاد رکھیے کہ ان کی سیکھنے کی یہ عمر اور وقت میں یہ نشست کسی بھی مفید و مثبت تعلیمی سرگرمی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ یہ باتیں رسمی تعلیم سے قطع نظر ہمیشہ ان کی راہ نمائی کرتی رہیں گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی کی مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر ان بچوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا اہتمام کیا جائے اور ماضی کے دریچے وا کر کے انہیں گزرے ہوئے کل کے اس سبق سے آشنا کرایا جائے کہ جن سے آنے والے وقت میں انہوں نے نبرد آزما ہونا ہے۔