چیف جسٹس کی کوششیں

محترم چیف جسٹس بڑی خدا ترسی اور عوام دوستی کے جذبات کے ساتھ کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کر رہے ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

''اربوں روپے پتوں کی طرح بانٹے گئے'' یہ انکشاف چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ایک ریمارکس میں کیا۔ تھرکول سے بجلی بنانے کے منصوبے فرانزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ اس مسئلے یا کرپشن کا کسی کو تو ذمے دار ٹھہرانا پڑے گا۔ اس منصوبے پر قوم کے ضایع ہونے والے اربوں روپے کون لوٹائے گا؟

عدالت نے آڈیٹر جنرل سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے وفاقی اور سندھ حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے منصوبے کی مشینری اور دیگر سامان تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک سائنسدان کے دعوے پر اسے 4 ارب روپے دیے گئے۔ اب ڈاکٹر ثمر کہتے ہیں کہ میرا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں ۔ عدالتی معاون نے کہاکہ منصوبہ قابل عمل نہیں تھا۔

چونکہ چیف جسٹس نے منصوبے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اس لیے اس پر مزید کوئی رائے زنی مناسب نہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج عدالتی معاون اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ منصوبہ قابل عمل نہیں تھا تو پھر یہ منصوبہ اپنے آغاز کے وقت کیسے قابل عمل بن گیا تھا اور کون ماہر تھا جس نے اس منصوبے کو قابل عمل قرار دیا۔ عدالتی معاون نے بتایا کہ بادی النظر میں انڈر گراؤنڈ گیس فیکشن منصوبہ ناقابل عمل تھا۔ منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ واضح نہیں تھی۔ 30 سال تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

ہمارا ملک عشروں سے بجلی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ سے سخت پریشان ہیں ۔ ایسی تکلیف دہ صورتحال میں ملک کے ذمے داروں کی طرف سے ناقابل عمل منصوبوں پر اربوں روپے کا زیاں کیا حب الوطنی کی تعریف میں آ سکتا ہے۔ چیف جسٹس ایک عرصے سے قومی دولت کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کر رہے ہیں ۔

سرکاری اداروں میں شاید ہی کوئی ایسا ادارہ بچا ہو جس نے اربوں کی کرپشن کا ارتکاب نہ کیا ہو، لیکن یہ ادارے بدستور کام کر رہے ہیں۔ پی آئی اے ریلوے سمیت بیسوں ادارے اربوں کے نقصان میں جا رہے ہیں۔ اسٹیل ملزکا تو بیڑہ ہی غرق ہو گیا ہے۔ برسوں سے ہزاروں مزدور بیکار بیٹھے ہوئے ہیں اور سخت معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔


ان کی اشک شوئی کے لیے چار، چھ ماہ بعد ایک ماہ کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ کیا اس ایک ماہ کی تنخواہ سے غریب خاندانوں کا گزر بسر ہو جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسٹیل ملز کو دوبارہ چلایا جا سکتا ہے تو برسوں بلکہ عشروں سے اسے کیوں نہیں Run کیا جا رہا ہے ۔ اگر اسٹیل ملز اب دوبارہ فنکشن نہیں کر سکتا تو اسے کیوں رکھا گیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں ایسے اداروں کے سربراہ اعلیٰ حکام مقررکرتے تھے جس کا مقصد اداروں کو چلانا نہیں بلکہ لوٹ مار کے ذریعے ان قومی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا ہوتا تھا۔

جب تک ایسے اداروں کو تباہ کرنے والے قومی ملزموں کو سخت سے سخت اور عبرتناک سزائیں نہیں دی جائیںگی، پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے جیسے قومی ادارے تباہ ہوتے رہیںگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیل ملزکے قومی ادارے کے مسئلے کا حل یہی ہے کہ کبھی کبھار ہزاروں کارکنوں کو ایک آدھ مہینے کی تنخواہ دے دی جائے۔ کیا ملک میں ایک بھی حکمران طبقے میں ایسا ایماندار اور دانا شخص نہیں ہے جو با اختیار حکمرانوں کو یہ بتا سکے کہ اسٹیل ملزکے مسئلے کا حل چار چھ ماہ میں ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ ادا کرنا نہیں ہے۔ کروڑوں روپے تنخواہ اور اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو قومی اداروں کی تباہی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔

اب ایک عوام دوست اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی خواہشمند حکومت آئی ہے تو اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور دوسرے قومی اداروں کا بیڑہ غرق کرنے والے اس کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور احتجاج کے جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ انھیں بھی ایک دن مرنا ہے اور خدا کو جواب دینا ہے جن کے نامۂ اعمال میں بے ایمانی، جھوٹ، دغا بازی اور اربوں کی لوٹ مار ہو وہ خدا کے سامنے کس منہ سے اور کس طرح کا نامۂ اعمال لے کر جائیںگے۔ اس حوالے سے سزا و جزا کا درس دینے والے بھی ان کرپٹ شاہوں کے پیچھے ہاتھ باندھے چل رہے ہیں۔

محترم چیف جسٹس بڑی خدا ترسی اور عوام دوستی کے جذبات کے ساتھ کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کر رہے ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور ضمانتیں اور رہائیاں بھی ہو رہی ہیں۔ ہمارے قانون میں بڑی لچک ہے اور بڑے بڑے مجرم بڑے بڑے وکلا کی پیشہ ورانہ مہارت سے بھاری بھاری فیس دے کر قانون ہی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ وڈیرے غریب کسانوں اور ہاریوں کو جرم بے گناہی میں گرفتار کرا دیتے ہیں کوئی ان کی ضمانت لینے والا نہیں ہوتا اور یہ غریب کسان، ہاری اور غریب اور نادار طبقات سے تعلق رکھنے والے جرم بے گناہی میں ساری زندگی جیلوں میں گزار کر بستے ہیں۔

اسٹیل ملز کے ہزاروں کارکنوں کی معاشی مشکلات کا ذکر کیا اسٹیل ملز کا مسئلہ عشروں سے لگا ہوا ہے۔ اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن مسئلہ 10 سال پہلے جہاں تھا وہیں ہے۔ اب چیف جسٹس نے اربوں روپوں کی کرپشن کا شکار تھر کول کا مسئلہ زیر بحث لایا ہے۔ اس مسئلے کے ایک اہم کردار پر چار ارب کی بھاری رقم لینے کا الزام ہے۔ یقینا اس میں اور بھی کئی ارب پتی شامل ہوں گے ان سب کا احتساب اور بامعنی با نتیجہ احتساب ضروری ہے۔ ورنہ اس ملک میں تھر کول، پی آئی اے، ریلوے اورکرپشن میں سر سے پاؤں تک لتھڑے ہوئے قومی اداروں کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔
Load Next Story