جنگجوئوں نے طبل جنگ بجا دیا
اگر وزیرستان میں کوئی آپریشن ہونا ہے تو پہل جنگی طیارے ہی کریں گے
''میں نہ کہتا تھا'' یاوہ گوئی سے مجھے بہت چڑ ہے۔ اسی لیے تو ہمت نہیں ہو رہی کہ آپ کو یاد دلائو ںکہ دفاعی امور کے بارے میں قطعی کورا ہونے کے باوجود میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اس بات پر غصہ بھری حیرت کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے ''امریکی دوست'' وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ہو جانے کے دعوے کیوں کر رہے ہیں۔ رازداری جنگوں میں کلیدی کردار ادا کیا کرتی ہے۔ دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اپنے تمام تر وسائل کو بروائے کار لا کر آپ اس کی جنگی صلاحیت کو جانچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اپنے منصوبوں کو کسی کے ہاتھ نہ لگنے کے پورے انتظامات بھی کیے جاتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے حالیہ دورہ امریکا کے فوری بعد ''وال اسٹریٹ جرنل'' نے ایک لمبی چوڑی کہانی لکھ ڈالی۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکی اور پاکستانی افواج مل کر وزیرستان میں آپریشن کرنے والی ہیں۔ ہماری وزارتِ خارجہ والوں کو ایسے معاملات کی خبر ہی نہیں ہوا کرتی۔ مگر کہنے میں کیا حرج ہے۔ کچھ دن خاموش رہنے کے بعد اس کے ترجمان نے اس خبر کی تردید جاری کر دی۔ ابھی ہم اس تردید کو ہضم بھی نہ کر پائے تھے کہ امریکی وزیر دفاع کا بیان آ گیا۔ موصوف نے معاملے کو مبہم رکھنے کے بجائے قطعی طور پر یہ اعلان بھی کر دیا کہ پاکستانی فوج کا وزیرستان میں ''جلد ہی'' کیا جانے والا آپریشن، حقانی گروپ کے خلاف نہیں ان ''طالبان'' کے خلاف ہو گا جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد 27 ویں رمضان کی مقدس رات کو پاکستان کے ایک اہم ترین فضائی مستقر پر ہونے والا حملہ کسی کے لیے حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔
یہ تو ہونا ہی تھا۔ مگر ہماری وہ ایجنسیاں کہاں تھیں جن کے کارندے گزشتہ چند ہفتوں سے اسلام آباد میں ہونے والی کسی بھی سفارتی تقریب سے نکل کر باہر آنے والے جانے پہچانے صحافیوں کو شاہرائوں پر روک کر بڑی ڈھٹائی سے ''تفتیش'' کرنے کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انھیں نہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت سرگرم عدلیہ روک رہی ہے نہ ایک منتخب پارلیمان کے اراکین کو ''چور اور ڈاکو'' ثابت کرنے والا بے باک اور نڈر میڈیا۔
یہ بات تو جنرل مشرف کے دنوں میں ہی کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ پاکستان کی ائرفورس میں نام نہاد ''جہادی'' گھس چکے ہیں۔ ایک مرتبہ اس کا قافلہ ایئرپورٹ سے نکل کر آرمی چیف کے سرکاری گھر کی طرف جا رہا تھا تو دھماکے ہوئے۔ ایسے حملوں کا سراغ کسی ایجنسی نے نہیں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے راولپنڈی کے کورکمانڈر کے طور پر لگایا تھا۔ ان کی تفتیشی صلاحیتوں کی دریافت کے بعد ہی انھیں ڈی جی آئی ایس آئی بنایا گیا تھا۔
کامرہ پر اس سے پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں اور اب کم از کم یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ کراچی کے مہران بیس پر حملہ کرنے والے ایئرفورس کے کنٹرول والے راستوں سے گزر کر اپنے ہدف تک پہنچے تھے۔ نشانہ ان کا بھی وہ بہت ہی قیمتی طیارے تھے جو دشمن کی آبدوزوں کو ڈھونڈ کر تباہ کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان طیاروں کے ذریعے پہاڑوں میں چھپے جنگ بازوں کا پتہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ سوات کو ''ملا ریڈیو'' کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے زمینی فوج کو متحرک کرنے سے پہلے پاکستان ایئرفورس کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر وزیرستان میں کوئی آپریشن ہونا ہے تو پہل جنگی طیارے ہی کریں گے۔
وزیرستان میں کوئی بھرپور آپریشن نہ بھی ہو تو پاکستان گزشتہ کئی مہینوں سے امریکنوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ بجائے ڈرون اُڑا کر ہماری خود مختاری کی جارحانہ پامالی کے لیے ہمیں اعتماد میں لے۔ اپنے اہداف کی نشاندہی کرے۔ ہم ان کے بتائے ٹھکانوں کی اپنے طور پر جانچ کرنے کے بعد F-16 طیاروں کے ذریعے خبر لے سکتے ہیں۔ اُڑتی اُڑتی خبریں آ رہی تھیں کہ مسلسل انکار کے بعد امریکی اس معاملے پر کچھ لچک دکھانے کو تیار ہو رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ''مجاہدین'' مگر کوئی مہلت دینے کو تیار نہیں ہو رہے۔ ایک طویل منصوبے کے بعد کامرہ کے بارے میں ہر طرح کی جنگی تفصیلات اکٹھا کرنے کے بعد 27 ویں رمضان کی شب ایک بھرپور حملہ کیا گیا جس کا واضح مقصد پاکستان ایئرفورس کی پہنچ اور صلاحیت کو نقصان پہنچانے والی Preventive Strike تھی۔ پاکستان وزیرستان میں آپریشن کرے یا نہیں، وہاں مقیم جنگ بازوں نے طبلِ جنگ بجا دیا ہے۔
ہمارا میڈیا اور ''صاف، ستھرے اور پارسا'' سیاستدانوں کی اکثریت مگر اب بھی ان کو جنگی جواب دینے پر تیار نہ ہوںگے۔ ان سب کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ ''یہ ہماری جنگ نہیں ہے''۔ وزیرستان میں بیٹھے جنگجوئوں سے لڑنے کے بجائے ہمیں ساری توانائیاں اس بات پر صرف کر دینا چاہیئں کہ امریکا فی الفور افغانستان سے نکل جائے۔ وہ نکل گیا تو آج کل کے جنگجو ہتھیار پھینک کر کھیتی باڑی کرنا شروع کر دیں گے۔ ہمارے گھروں کی چوکیداری کریں گے اور سڑکوں پر بکسے اُٹھائے جوتے پالش کر کے رزق حلال کمانے میں مشغول ہو جائیں گے۔
دنیا کی طاقتور ترین فوج بھی اپنے لوگوں کی مکمل اور بھرپور حمایت کے بغیر کوئی جنگ نہیں لڑ سکتی، اسے جیتنا تو دور کی بات ہے۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات کاکول کی ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وزیرستان میں کوئی آپریشن کرنے کے مبہم اشارے دیے تھے بعینہ اس وقت راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ''فرزندِ راولپنڈی'' سے اپنے تئیں ''فرزندِ پاکستان'' بن جانے والا لال حویلی کا ایک مکین آرمی چیف کو یوں پکار رہا تھا جیسے آپ گھریلو ملازموں کو بلایا کرتے ہیں۔ جنرل کیانی کو نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے اس نے اعلان کیا کہ پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہماری فوج ''چوروں کی رکھوالی'' نہ کرے۔ سیدھا پیغام یہ تھا کہ بجائے وزیرستان جانے کے جنرل کیانی پستول لے کر ایوانِ صدر پہنچ جائیں۔ وہاں بیٹھے ''لٹیرے'' کو گھر بھیجیں اور ایسے انتخابات کی راہ ہموار کریں جو ''فرزندِ پاکستان'' اور ''تبدیلی کے نشان'' کو اقتدار میں لے آئیں۔
لال حویلی کے اسی مکین نے جسے ہمارے ٹی وی اسکرینوں کے بقراطی اینکر اپنے پروگراموں میں اکیلے بٹھاکر انتہائی احترام سے دفاعی امور کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں، 13 اگست ہی کے جلسے میں ملاعمر کو ا پنا ''امیر المومنین'' بھی قرار دیا۔ ان سے استدعا کی کہ وہ ''تبدیلی کے نشان'' کی وزیرستان میں پذیرائی کا حکم صادر فرمائیں۔ ہمارے میڈیا کی اکثریت نے لال حویلی کے مکین کے ان ارشادات کا بھرپور خیرمقدم کیا ہے۔ ابھی ان بیانوں کی وجہ سے جگائی ایمان کی حرارت کم نہ ہوئی تھی کہ چوہدری نثار علی خان نے بھی پریس کانفرنس کر ڈالی۔ وہاں اور باتوں کے علاوہ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستانی فوج وزیرستان میں آپریشن کرنے سے باز رہے۔
ان حالات میں جنرل کیانی کو تھوڑی دیر رُک کر سوچ لینا چاہیے۔ کیا یہ وقت نہیں آ گیا کہ سعودی عرب سے واپسی کے بعد میاں نواز شریف، چوہدری نثار علی خان کو ساتھ لے کر لال حویلی جائیں اور وہاں کے مکین سے التجا کریں کہ وہ ملا عمر سے رابطہ کرے۔ جب رابطہ ہو جائے تو نواز شریف اور ''تبدیلی کے نشان'' ان سے اکٹھے ملاقات کرنے کے بعد پاکستانی ریاست کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی مانگیں اور ''امیر المومنین'' سے درخواست کریں کہ فی الحال وہ اپنے پیروکاروں کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی افواج پر حملے روک دینے کے احکامات صادر فرمائیں۔ باقی سب کچھ بعد میں طے کرلیں گے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے حالیہ دورہ امریکا کے فوری بعد ''وال اسٹریٹ جرنل'' نے ایک لمبی چوڑی کہانی لکھ ڈالی۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکی اور پاکستانی افواج مل کر وزیرستان میں آپریشن کرنے والی ہیں۔ ہماری وزارتِ خارجہ والوں کو ایسے معاملات کی خبر ہی نہیں ہوا کرتی۔ مگر کہنے میں کیا حرج ہے۔ کچھ دن خاموش رہنے کے بعد اس کے ترجمان نے اس خبر کی تردید جاری کر دی۔ ابھی ہم اس تردید کو ہضم بھی نہ کر پائے تھے کہ امریکی وزیر دفاع کا بیان آ گیا۔ موصوف نے معاملے کو مبہم رکھنے کے بجائے قطعی طور پر یہ اعلان بھی کر دیا کہ پاکستانی فوج کا وزیرستان میں ''جلد ہی'' کیا جانے والا آپریشن، حقانی گروپ کے خلاف نہیں ان ''طالبان'' کے خلاف ہو گا جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد 27 ویں رمضان کی مقدس رات کو پاکستان کے ایک اہم ترین فضائی مستقر پر ہونے والا حملہ کسی کے لیے حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔
یہ تو ہونا ہی تھا۔ مگر ہماری وہ ایجنسیاں کہاں تھیں جن کے کارندے گزشتہ چند ہفتوں سے اسلام آباد میں ہونے والی کسی بھی سفارتی تقریب سے نکل کر باہر آنے والے جانے پہچانے صحافیوں کو شاہرائوں پر روک کر بڑی ڈھٹائی سے ''تفتیش'' کرنے کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انھیں نہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت سرگرم عدلیہ روک رہی ہے نہ ایک منتخب پارلیمان کے اراکین کو ''چور اور ڈاکو'' ثابت کرنے والا بے باک اور نڈر میڈیا۔
یہ بات تو جنرل مشرف کے دنوں میں ہی کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ پاکستان کی ائرفورس میں نام نہاد ''جہادی'' گھس چکے ہیں۔ ایک مرتبہ اس کا قافلہ ایئرپورٹ سے نکل کر آرمی چیف کے سرکاری گھر کی طرف جا رہا تھا تو دھماکے ہوئے۔ ایسے حملوں کا سراغ کسی ایجنسی نے نہیں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے راولپنڈی کے کورکمانڈر کے طور پر لگایا تھا۔ ان کی تفتیشی صلاحیتوں کی دریافت کے بعد ہی انھیں ڈی جی آئی ایس آئی بنایا گیا تھا۔
کامرہ پر اس سے پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں اور اب کم از کم یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ کراچی کے مہران بیس پر حملہ کرنے والے ایئرفورس کے کنٹرول والے راستوں سے گزر کر اپنے ہدف تک پہنچے تھے۔ نشانہ ان کا بھی وہ بہت ہی قیمتی طیارے تھے جو دشمن کی آبدوزوں کو ڈھونڈ کر تباہ کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان طیاروں کے ذریعے پہاڑوں میں چھپے جنگ بازوں کا پتہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ سوات کو ''ملا ریڈیو'' کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے زمینی فوج کو متحرک کرنے سے پہلے پاکستان ایئرفورس کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر وزیرستان میں کوئی آپریشن ہونا ہے تو پہل جنگی طیارے ہی کریں گے۔
وزیرستان میں کوئی بھرپور آپریشن نہ بھی ہو تو پاکستان گزشتہ کئی مہینوں سے امریکنوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ بجائے ڈرون اُڑا کر ہماری خود مختاری کی جارحانہ پامالی کے لیے ہمیں اعتماد میں لے۔ اپنے اہداف کی نشاندہی کرے۔ ہم ان کے بتائے ٹھکانوں کی اپنے طور پر جانچ کرنے کے بعد F-16 طیاروں کے ذریعے خبر لے سکتے ہیں۔ اُڑتی اُڑتی خبریں آ رہی تھیں کہ مسلسل انکار کے بعد امریکی اس معاملے پر کچھ لچک دکھانے کو تیار ہو رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ''مجاہدین'' مگر کوئی مہلت دینے کو تیار نہیں ہو رہے۔ ایک طویل منصوبے کے بعد کامرہ کے بارے میں ہر طرح کی جنگی تفصیلات اکٹھا کرنے کے بعد 27 ویں رمضان کی شب ایک بھرپور حملہ کیا گیا جس کا واضح مقصد پاکستان ایئرفورس کی پہنچ اور صلاحیت کو نقصان پہنچانے والی Preventive Strike تھی۔ پاکستان وزیرستان میں آپریشن کرے یا نہیں، وہاں مقیم جنگ بازوں نے طبلِ جنگ بجا دیا ہے۔
ہمارا میڈیا اور ''صاف، ستھرے اور پارسا'' سیاستدانوں کی اکثریت مگر اب بھی ان کو جنگی جواب دینے پر تیار نہ ہوںگے۔ ان سب کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ ''یہ ہماری جنگ نہیں ہے''۔ وزیرستان میں بیٹھے جنگجوئوں سے لڑنے کے بجائے ہمیں ساری توانائیاں اس بات پر صرف کر دینا چاہیئں کہ امریکا فی الفور افغانستان سے نکل جائے۔ وہ نکل گیا تو آج کل کے جنگجو ہتھیار پھینک کر کھیتی باڑی کرنا شروع کر دیں گے۔ ہمارے گھروں کی چوکیداری کریں گے اور سڑکوں پر بکسے اُٹھائے جوتے پالش کر کے رزق حلال کمانے میں مشغول ہو جائیں گے۔
دنیا کی طاقتور ترین فوج بھی اپنے لوگوں کی مکمل اور بھرپور حمایت کے بغیر کوئی جنگ نہیں لڑ سکتی، اسے جیتنا تو دور کی بات ہے۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات کاکول کی ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وزیرستان میں کوئی آپریشن کرنے کے مبہم اشارے دیے تھے بعینہ اس وقت راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ''فرزندِ راولپنڈی'' سے اپنے تئیں ''فرزندِ پاکستان'' بن جانے والا لال حویلی کا ایک مکین آرمی چیف کو یوں پکار رہا تھا جیسے آپ گھریلو ملازموں کو بلایا کرتے ہیں۔ جنرل کیانی کو نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے اس نے اعلان کیا کہ پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہماری فوج ''چوروں کی رکھوالی'' نہ کرے۔ سیدھا پیغام یہ تھا کہ بجائے وزیرستان جانے کے جنرل کیانی پستول لے کر ایوانِ صدر پہنچ جائیں۔ وہاں بیٹھے ''لٹیرے'' کو گھر بھیجیں اور ایسے انتخابات کی راہ ہموار کریں جو ''فرزندِ پاکستان'' اور ''تبدیلی کے نشان'' کو اقتدار میں لے آئیں۔
لال حویلی کے اسی مکین نے جسے ہمارے ٹی وی اسکرینوں کے بقراطی اینکر اپنے پروگراموں میں اکیلے بٹھاکر انتہائی احترام سے دفاعی امور کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں، 13 اگست ہی کے جلسے میں ملاعمر کو ا پنا ''امیر المومنین'' بھی قرار دیا۔ ان سے استدعا کی کہ وہ ''تبدیلی کے نشان'' کی وزیرستان میں پذیرائی کا حکم صادر فرمائیں۔ ہمارے میڈیا کی اکثریت نے لال حویلی کے مکین کے ان ارشادات کا بھرپور خیرمقدم کیا ہے۔ ابھی ان بیانوں کی وجہ سے جگائی ایمان کی حرارت کم نہ ہوئی تھی کہ چوہدری نثار علی خان نے بھی پریس کانفرنس کر ڈالی۔ وہاں اور باتوں کے علاوہ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستانی فوج وزیرستان میں آپریشن کرنے سے باز رہے۔
ان حالات میں جنرل کیانی کو تھوڑی دیر رُک کر سوچ لینا چاہیے۔ کیا یہ وقت نہیں آ گیا کہ سعودی عرب سے واپسی کے بعد میاں نواز شریف، چوہدری نثار علی خان کو ساتھ لے کر لال حویلی جائیں اور وہاں کے مکین سے التجا کریں کہ وہ ملا عمر سے رابطہ کرے۔ جب رابطہ ہو جائے تو نواز شریف اور ''تبدیلی کے نشان'' ان سے اکٹھے ملاقات کرنے کے بعد پاکستانی ریاست کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی مانگیں اور ''امیر المومنین'' سے درخواست کریں کہ فی الحال وہ اپنے پیروکاروں کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی افواج پر حملے روک دینے کے احکامات صادر فرمائیں۔ باقی سب کچھ بعد میں طے کرلیں گے۔