سندھ میں تنخواہیں اور پراپرٹی ٹیکس بڑھانےکی تجاویز 625 ارب کا بجٹ آج پیش کیا جائیگا
امن و امان کیلیے 50ارب، توانائی کیلیے 21ارب مختص، پنشن بھی بڑھے گی، سکھر اور میرپور خاص کیلیے پیکیجز کا اعلان متوقع
سندھ کا سوا6کھرب روپے سے زائد کا بجٹ پیرکوسہ پہر3بجے سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بجٹ پیش کریں گے، توقع ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں10 فیصد اور ریٹائرڈملازمین کی پنشن میں بھی 10فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا تاہم پراپرٹی ٹیکس اور انفراسٹرکچر سیس کی شرحوں میں اضافہ متوقع ہے۔جبکہ خدمات پرجنرل سیلزٹیکس (جی ایس ٹی) کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے گا۔ 15ہزارنئی اسامیوں پر بھرتیوں، صوبے کی سطح پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرزپر ایک اورپروگرام وسیلہ حق پروگرام شروع کرنے کا اعلان بھی متوقع ہے۔ امن وامان کے بجٹ میں 40فیصد اضافے کے ساتھ اس مد میں 50ارب روپے سے زائد رقم مختص کرنے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق کاشتکاروں کو 9ہزارٹریکٹرزاور دیگرزرعی آلات کی خریداری اور زرعی قرضوں پر سسبڈی دینے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
حکومت سندھ خود بجلی پیداکرنے کے لیے 3 نئے منصوبوں کا اعلان کرسکتی ہے۔ کوئلے اور توانائی کے منصوبوں پر مجموعی طور پر21ارب روپے سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کراچی،کراچی کے دیہی علاقوں ملیراور کیماڑی، حیدرآباد، بے نظیرآباد،لاڑکانہ کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ سکھراور میرپورخاص کے لیے بھی خصوصی ترقیاتی پیکجز کااعلان متوقع ہے۔ محکمہ صحت کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے17ارب روپے جبکہ محکمہ تعلیم کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 13ارب 48 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔محکمہ تعلیم کا مجموعی بجٹ 115ارب روپے اور محکمہ صحت کا مجموعی بجٹ 59ارب روپے ہوگا۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 1099نئی اسکیمیں شامل کی جا سکتی ہیں۔ سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کی تکمیل کے لیے ایک ارب22کروڑروپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ کے صوابدیدی فنڈکے لیے3ارب روپے سے زیادہ رقم رکھی جارہی ہے۔جبکہ گورنر کے صوابدیدی فنڈ میں9کروڑ روپے کمی کی متوقع ہے۔ بجٹ میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر بھی انفراسٹرکچرسیس وصول کرنے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
انتہائی باخبرذرائع سے معلوم ہواہے کہ آئندہ مالی سال 2013-14 کے لیے سندھ کے بجٹ میں غیرترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 393ارب روپے لگایا گیا ہے۔جبکہ مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم235ارب روپے ہوگا۔اس کے لیے 171روپے صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی)کے لیے مختص ہوں گے جبکہ 20ارب روپے اضلاع کے اے ڈی پی کے لیے رکھے گئے ہیں۔اس طرح صوبے کا مجموعی اے ڈی پی 190ارب روپے کا ہوگاجورواں سال کے 181ارب روپے سے صرف 9ارب روپے زیادہ ہے۔ہرسال اے ڈی پی میں 30سے 40فیصدتک اضافہ کیا جاتا تھالیکن وسائل کی کمی اور رواں سال اے ڈی پی کے لیے رقم میسرنہ آنے کی وجہ سے آئندہ بجٹ میںصرف5فیصداضافہ کیا گیا ہے۔ بیرونی امدادسے چلنے والے منصوبوں کے لیے 15 ارب روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔صوبے کی مجموعی آمدنی کا تخمینہ 6کھرب20ارب روپے سے زائد لگایا گیا ہے۔
ان میں سے حکومت سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت قابل تقسیم محاصل کی مد میں339ارب روپے،خام تیل اور گیس پر رائلٹی اور سرچارج کی مد میں 61ارب روپے ، آکٹرائے اور ضلع ٹیکس کے متبادل کی مد میں9ارب30 کروڑ روپے، صوبائی محصولات کی آمدنی کی مد میں125تا130ارب روپے، بیرونی امدادسے چلنے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے 30ارب روپے جبکہ وفاقی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 15ارب روپے ملنے کی توقع ہے جبکہ سرمایہ جاتی آمدنی کا تخمینہ بھی 25سے30ارب روپے لگایا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق بجٹ خسارہ7 سے 10ارب روپے ہوسکتا ہے تاہم خسارے سے بچنے یااس سے کم کرنے کے لیے پبلک اکائونٹس سے رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔خدمات پر جی ایس ٹی کا دائرہ بڑھانے سے آئندہ مالی سال کے دوران اس مد میں آمدنی کا تخمینہ 42ارب روپے لگایا گیا ہے ،جو رواں سال کے25ارب سے 17ارب روپے زیادہ ہے۔پراپرٹی ٹیکس اور انفرااسٹرکچر کی شرحوں میں تبدیلی سے صوبے کو 4سے5ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔
ذرائع سے معلوم ہواہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام(اے ڈی پی)کی مدمیں 190ارب روپے مختص کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔ ان میں اضلاع کے اے ڈی پی کے لیے 20ارب روپے بھی شامل ہیں۔سندھ کے ترقیاتی بجٹ کا مجموعی حجم235 ارب روپے ہوگا۔ان میں غیرملکی امدادسے چلنے والے منصوبوں کے لیے 30ارب روپے اور وفاق کی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 15ارب روپے بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق سندھ اسمبلی کے 168ارکان اسمبلی کے ترجیحی پروگراموں کیلیے 8ارب40کروڑروپے مختص کرنے کی تجویزہے۔اس طرح ہررکن اسمبلی کوفی کس5کروڑ روپے ملیں گے۔ وفاق اور دیگرصوبوں نے ارکان اسمبلی کے لیے ترجیحی فنڈزکوخلاف قانون قراردے دیا ہے لیکن سندھ میں گزشتہ سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی یہ فنڈزرکھے جارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق 170ارب روپے کے صوبائی اے ڈی پی میں سے 58فیصد رقوم 1363پرانی ترقیاتی اسکیموں کے لیے جبکہ42فیصدرقوم 1099نئی اسکیموں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق کوئلے کی ترقی اورتوانائی کی دیگر17اسکیموں کے لیے11ارب68کروڑ60لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ بجلی کے8منصوبوں کے لیے 10ارب5کروڑ60لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ان میں سے 8ارب روپے بجلی پیداکرنے کے4نئے منصوبوں کے لیے مختص ہوں گے جبکہ دیہی علاقوں کو بجلی اور گیس پہنچانے کے لیے 2ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق محکمہ زراعت کے37 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 16ارب16 کروڑ روپے ،محکمہ نوادر کے26منصوبوں کے لیے 58کروڑ5لاکھ روپے ،محکمہ اوقاف ،مذہبی واقلیتی امورکی ترقیاتی اسکیموں کے لیے37 ارب روپے،بورڈآف ریونیوکی 8اسکیموں کیلیے 4ارب39 کروڑروپے،محکمہ ثقافت کی44 اسکیموں کے لیے ایک ارب5کروڑروپے ،محکمہ ماحولیات ومتبادل توانائی کی 14 اسکیموںکے لیے 38کروڑ80لاکھ روپے،محکمہ ایکسائزکی 5 اسکیموں کے لیے24کروڑ روپے، محکمہ خزانہ کی4اسکیموں کے لیے 6کروڑ 20لاکھ روپے،محکمہ خصوصی ترغیبات کی اسکیموں کے لیے7ارب34کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی ایک اسکیم کیلیے50لاکھ روپے محکمہ خوراک کی ایک اسکیم کے لیے50 کروڑروپے،محکمہ جنگلات کی14اسکیموں کے لیے 84 کروڑ 76لاکھ روپے،محکمہ جنگلی حیات کی 3اسکیموں کے لیے10 کروڑ63لاکھ روپے، گورنر سیکریٹریٹ کی2اسکیموں کے10 کروڑ70لاکھ روپے، محکمہ پولیس کی 24ترقیاتی اسکیموں کے لیے ایک ارب5کروڑ روپے، محکمہ جیل خانہ جات کی 29 اسکیموں کے لیے95کروڑ 95لاکھ روپے، محکمہ صنعت کی 6اسکیموں کے لیے17کروڑ 43 لاکھ روپے، محکمہ اطلاعات وآرکائیوزکے 8منصوبوں کے لئے 33 کروڑ 53 لاکھ روپے، محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی9اسکیموں کیلیے ایک ارب4 کروڑروپے،محکمہ کچی آبادی کی دواسکیموں کیلیے12 کروڑروپے ، محکمہ محنت کی 6اسکیموں کیلیے 14کروڑ40لاکھ روپے، محکمہ قانون اور پراسیکیوشن کی 40اسکیموں کے72 کروڑ72لاکھ روپے،محکمہ لائیواسٹاک اینڈفشریز کی 28 اسکیموں کے لیے2ارب 87 کروڑ روپے،کراچی ،بینظیرآباد ، ٹھٹھہ، میرپورخاص، سکھر، حیدرآباد اور دیگرشہروں میں محکمہ بلدیات کے تحت چلنے والی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 7ارب 13کروڑروپے جبکہ محکمہ بلدیات کی کل 382 اسکیموں کے 15ارب68کروڑروپے روپے مختص کیئے گئے ہیں۔
اسی طرح اے ڈی پی میں سے محکمہ معدنیات و معدنی ترقی کی 9 اسکیموں کے لیے 38 کروڑ80 لاکھ روپے، محکمہ منصوبہ بندی کے زریعے چلنے والی20اسکیموں کے لیے4ارب46 کروڑروپے، محکمہ بہبودآبادی کیلیے ایک ارب12 کروڑ روپے، صوبائی محتسب کی ترقیاتی اسکیموں کیلیے2 کروڑ 25 لاکھ روپے،محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی 237ترقیاتی اسکیموں کیلیے 4ارب15کروڑ روپے،محکمہ بجلی کی 3نئی اسکیموں کیلیے50کروڑروپے، سندھ ریونیوبورڈ کی 2اسکیموں کیلیے66کروڑروپے ،محکمہ سماجی بہبود کی8اسکیموں کے لیے 21کروڑروپے محکمہ خصوصی تعلیم کی 2اسکیموں کیلیے25 کروڑروپے،محکمہ کھیل کی 50اسکیموں کیلیے20 کروڑروپے، اسٹیوٹاکی6اسکیموں کے لیے ایک ارب روپے، محکمہ سیاحت کی 11اسکیموں کے لیے59کروڑ روپے ، محکمہ ٹرانسپورٹ کی 3اسکیموں کے لیے30کروڑ روپے، محکمہ ترقی نسواں کی 16 اسکیموں کے لیے43 کروڑ روپے، محکمہ ورکس اینڈ سروسزکے زریعے چلنے والی اسکیموں کے لیے3ارب 53 کروڑروپے مختص کیئے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بجٹ پیش کریں گے، توقع ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں10 فیصد اور ریٹائرڈملازمین کی پنشن میں بھی 10فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا تاہم پراپرٹی ٹیکس اور انفراسٹرکچر سیس کی شرحوں میں اضافہ متوقع ہے۔جبکہ خدمات پرجنرل سیلزٹیکس (جی ایس ٹی) کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے گا۔ 15ہزارنئی اسامیوں پر بھرتیوں، صوبے کی سطح پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرزپر ایک اورپروگرام وسیلہ حق پروگرام شروع کرنے کا اعلان بھی متوقع ہے۔ امن وامان کے بجٹ میں 40فیصد اضافے کے ساتھ اس مد میں 50ارب روپے سے زائد رقم مختص کرنے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق کاشتکاروں کو 9ہزارٹریکٹرزاور دیگرزرعی آلات کی خریداری اور زرعی قرضوں پر سسبڈی دینے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
حکومت سندھ خود بجلی پیداکرنے کے لیے 3 نئے منصوبوں کا اعلان کرسکتی ہے۔ کوئلے اور توانائی کے منصوبوں پر مجموعی طور پر21ارب روپے سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کراچی،کراچی کے دیہی علاقوں ملیراور کیماڑی، حیدرآباد، بے نظیرآباد،لاڑکانہ کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ سکھراور میرپورخاص کے لیے بھی خصوصی ترقیاتی پیکجز کااعلان متوقع ہے۔ محکمہ صحت کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے17ارب روپے جبکہ محکمہ تعلیم کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 13ارب 48 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔محکمہ تعلیم کا مجموعی بجٹ 115ارب روپے اور محکمہ صحت کا مجموعی بجٹ 59ارب روپے ہوگا۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 1099نئی اسکیمیں شامل کی جا سکتی ہیں۔ سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کی تکمیل کے لیے ایک ارب22کروڑروپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ کے صوابدیدی فنڈکے لیے3ارب روپے سے زیادہ رقم رکھی جارہی ہے۔جبکہ گورنر کے صوابدیدی فنڈ میں9کروڑ روپے کمی کی متوقع ہے۔ بجٹ میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر بھی انفراسٹرکچرسیس وصول کرنے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
انتہائی باخبرذرائع سے معلوم ہواہے کہ آئندہ مالی سال 2013-14 کے لیے سندھ کے بجٹ میں غیرترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 393ارب روپے لگایا گیا ہے۔جبکہ مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم235ارب روپے ہوگا۔اس کے لیے 171روپے صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی)کے لیے مختص ہوں گے جبکہ 20ارب روپے اضلاع کے اے ڈی پی کے لیے رکھے گئے ہیں۔اس طرح صوبے کا مجموعی اے ڈی پی 190ارب روپے کا ہوگاجورواں سال کے 181ارب روپے سے صرف 9ارب روپے زیادہ ہے۔ہرسال اے ڈی پی میں 30سے 40فیصدتک اضافہ کیا جاتا تھالیکن وسائل کی کمی اور رواں سال اے ڈی پی کے لیے رقم میسرنہ آنے کی وجہ سے آئندہ بجٹ میںصرف5فیصداضافہ کیا گیا ہے۔ بیرونی امدادسے چلنے والے منصوبوں کے لیے 15 ارب روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔صوبے کی مجموعی آمدنی کا تخمینہ 6کھرب20ارب روپے سے زائد لگایا گیا ہے۔
ان میں سے حکومت سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت قابل تقسیم محاصل کی مد میں339ارب روپے،خام تیل اور گیس پر رائلٹی اور سرچارج کی مد میں 61ارب روپے ، آکٹرائے اور ضلع ٹیکس کے متبادل کی مد میں9ارب30 کروڑ روپے، صوبائی محصولات کی آمدنی کی مد میں125تا130ارب روپے، بیرونی امدادسے چلنے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے 30ارب روپے جبکہ وفاقی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 15ارب روپے ملنے کی توقع ہے جبکہ سرمایہ جاتی آمدنی کا تخمینہ بھی 25سے30ارب روپے لگایا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق بجٹ خسارہ7 سے 10ارب روپے ہوسکتا ہے تاہم خسارے سے بچنے یااس سے کم کرنے کے لیے پبلک اکائونٹس سے رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔خدمات پر جی ایس ٹی کا دائرہ بڑھانے سے آئندہ مالی سال کے دوران اس مد میں آمدنی کا تخمینہ 42ارب روپے لگایا گیا ہے ،جو رواں سال کے25ارب سے 17ارب روپے زیادہ ہے۔پراپرٹی ٹیکس اور انفرااسٹرکچر کی شرحوں میں تبدیلی سے صوبے کو 4سے5ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔
ذرائع سے معلوم ہواہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام(اے ڈی پی)کی مدمیں 190ارب روپے مختص کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔ ان میں اضلاع کے اے ڈی پی کے لیے 20ارب روپے بھی شامل ہیں۔سندھ کے ترقیاتی بجٹ کا مجموعی حجم235 ارب روپے ہوگا۔ان میں غیرملکی امدادسے چلنے والے منصوبوں کے لیے 30ارب روپے اور وفاق کی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 15ارب روپے بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق سندھ اسمبلی کے 168ارکان اسمبلی کے ترجیحی پروگراموں کیلیے 8ارب40کروڑروپے مختص کرنے کی تجویزہے۔اس طرح ہررکن اسمبلی کوفی کس5کروڑ روپے ملیں گے۔ وفاق اور دیگرصوبوں نے ارکان اسمبلی کے لیے ترجیحی فنڈزکوخلاف قانون قراردے دیا ہے لیکن سندھ میں گزشتہ سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی یہ فنڈزرکھے جارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق 170ارب روپے کے صوبائی اے ڈی پی میں سے 58فیصد رقوم 1363پرانی ترقیاتی اسکیموں کے لیے جبکہ42فیصدرقوم 1099نئی اسکیموں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق کوئلے کی ترقی اورتوانائی کی دیگر17اسکیموں کے لیے11ارب68کروڑ60لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ بجلی کے8منصوبوں کے لیے 10ارب5کروڑ60لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ان میں سے 8ارب روپے بجلی پیداکرنے کے4نئے منصوبوں کے لیے مختص ہوں گے جبکہ دیہی علاقوں کو بجلی اور گیس پہنچانے کے لیے 2ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق محکمہ زراعت کے37 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 16ارب16 کروڑ روپے ،محکمہ نوادر کے26منصوبوں کے لیے 58کروڑ5لاکھ روپے ،محکمہ اوقاف ،مذہبی واقلیتی امورکی ترقیاتی اسکیموں کے لیے37 ارب روپے،بورڈآف ریونیوکی 8اسکیموں کیلیے 4ارب39 کروڑروپے،محکمہ ثقافت کی44 اسکیموں کے لیے ایک ارب5کروڑروپے ،محکمہ ماحولیات ومتبادل توانائی کی 14 اسکیموںکے لیے 38کروڑ80لاکھ روپے،محکمہ ایکسائزکی 5 اسکیموں کے لیے24کروڑ روپے، محکمہ خزانہ کی4اسکیموں کے لیے 6کروڑ 20لاکھ روپے،محکمہ خصوصی ترغیبات کی اسکیموں کے لیے7ارب34کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی ایک اسکیم کیلیے50لاکھ روپے محکمہ خوراک کی ایک اسکیم کے لیے50 کروڑروپے،محکمہ جنگلات کی14اسکیموں کے لیے 84 کروڑ 76لاکھ روپے،محکمہ جنگلی حیات کی 3اسکیموں کے لیے10 کروڑ63لاکھ روپے، گورنر سیکریٹریٹ کی2اسکیموں کے10 کروڑ70لاکھ روپے، محکمہ پولیس کی 24ترقیاتی اسکیموں کے لیے ایک ارب5کروڑ روپے، محکمہ جیل خانہ جات کی 29 اسکیموں کے لیے95کروڑ 95لاکھ روپے، محکمہ صنعت کی 6اسکیموں کے لیے17کروڑ 43 لاکھ روپے، محکمہ اطلاعات وآرکائیوزکے 8منصوبوں کے لئے 33 کروڑ 53 لاکھ روپے، محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی9اسکیموں کیلیے ایک ارب4 کروڑروپے،محکمہ کچی آبادی کی دواسکیموں کیلیے12 کروڑروپے ، محکمہ محنت کی 6اسکیموں کیلیے 14کروڑ40لاکھ روپے، محکمہ قانون اور پراسیکیوشن کی 40اسکیموں کے72 کروڑ72لاکھ روپے،محکمہ لائیواسٹاک اینڈفشریز کی 28 اسکیموں کے لیے2ارب 87 کروڑ روپے،کراچی ،بینظیرآباد ، ٹھٹھہ، میرپورخاص، سکھر، حیدرآباد اور دیگرشہروں میں محکمہ بلدیات کے تحت چلنے والی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 7ارب 13کروڑروپے جبکہ محکمہ بلدیات کی کل 382 اسکیموں کے 15ارب68کروڑروپے روپے مختص کیئے گئے ہیں۔
اسی طرح اے ڈی پی میں سے محکمہ معدنیات و معدنی ترقی کی 9 اسکیموں کے لیے 38 کروڑ80 لاکھ روپے، محکمہ منصوبہ بندی کے زریعے چلنے والی20اسکیموں کے لیے4ارب46 کروڑروپے، محکمہ بہبودآبادی کیلیے ایک ارب12 کروڑ روپے، صوبائی محتسب کی ترقیاتی اسکیموں کیلیے2 کروڑ 25 لاکھ روپے،محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی 237ترقیاتی اسکیموں کیلیے 4ارب15کروڑ روپے،محکمہ بجلی کی 3نئی اسکیموں کیلیے50کروڑروپے، سندھ ریونیوبورڈ کی 2اسکیموں کیلیے66کروڑروپے ،محکمہ سماجی بہبود کی8اسکیموں کے لیے 21کروڑروپے محکمہ خصوصی تعلیم کی 2اسکیموں کیلیے25 کروڑروپے،محکمہ کھیل کی 50اسکیموں کیلیے20 کروڑروپے، اسٹیوٹاکی6اسکیموں کے لیے ایک ارب روپے، محکمہ سیاحت کی 11اسکیموں کے لیے59کروڑ روپے ، محکمہ ٹرانسپورٹ کی 3اسکیموں کے لیے30کروڑ روپے، محکمہ ترقی نسواں کی 16 اسکیموں کے لیے43 کروڑ روپے، محکمہ ورکس اینڈ سروسزکے زریعے چلنے والی اسکیموں کے لیے3ارب 53 کروڑروپے مختص کیئے گئے ہیں۔