بلوچستان میں نئے سیاسی نظام کی ضرورت وزیراعلیٰ بااختیار ہونا چاہیے
قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ عسکریت پسندوں کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش مسترد کرنیکا اشارہ ہے
KARACHI:
15 جون پاکستان کی تاریخ کے غمگین ترین دنوں میں شمار ہوگا جب قوم بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ کی حفاظت نہیں کرسکی۔
ہم اب قائداعظم ریزیڈنسی کی تعمیر نو کرسکتے ہیں مگر ان نایاب کاغذات کا کیا ہوگا جو جل کر راکھ ہوگئے، میں حیران ہوں کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے واقعہ کیخلاف ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیوں نہیںکیا، نواز شریف سے توقع ہے کہ وہ حکومتی و اپوزیشن ارکان اسمبلی کے وفد کو زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی لے کر جائیں گے۔ بلوچستان میں ایک نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جس میں وزیراعلیٰ کو مکمل اختیارات ہونے چاہیں تاکہ وہ مقامی انتظامیہ، پولیس اور دیگر شعبوں میں مکمل صفائی کرسکے، عدالتی نظام میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ سالوں کے بجائے مہینوں میں کیسز کے فیصلے ہوں۔
قوم پرست وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزارت اعلیٰ سنبھالے ابھی 10 روز ہی ہوئے ہیں کہ ایسے افسوسناک واقعے رونما ہوگئے، ڈاکٹر مالک کو ان کی توقعات سے بھی زیادہ سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کتنی کمزور ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر مالک اس سے قبل ہی خضدار اور دیگر علاقوں سے مسخ لاشیں ملنے کی وجہ سے پریشان تھے کہ یہ واقعات رونما ہوگئے، وزیراعلیٰ کیلیے بھی یہ ایک اشارہ ہے کہ انھیں فوری اقدامات کرنے ہونگے۔ ڈاکٹر مالک جانتے ہیں کہ قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ عسکریت پسندوں کی طرف سے مذاکرات کے انکار کا اشارہ ہے۔
ڈاکٹر مالک کیلیے ایک اور مشکل لاپتہ افراد کا مکمل ڈیٹا نہ ہونا بھی ہے اور اس معاملے میں ڈاکٹر مالک وفاقی وزارت داخلہ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ایک سینئیر نیشنل پارٹی رہنماء کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ سابق آئی جی بلوچستان ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ اگر لیوی کو پولیس میں ضم کردیا جائے اور اچھی ٹریننگ دی جائے، اس کے علاوہ 25 ہزار بلوچ نوجوانوں کو پولیس میں بھرتی کیا جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
15 جون پاکستان کی تاریخ کے غمگین ترین دنوں میں شمار ہوگا جب قوم بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ کی حفاظت نہیں کرسکی۔
ہم اب قائداعظم ریزیڈنسی کی تعمیر نو کرسکتے ہیں مگر ان نایاب کاغذات کا کیا ہوگا جو جل کر راکھ ہوگئے، میں حیران ہوں کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے واقعہ کیخلاف ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیوں نہیںکیا، نواز شریف سے توقع ہے کہ وہ حکومتی و اپوزیشن ارکان اسمبلی کے وفد کو زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی لے کر جائیں گے۔ بلوچستان میں ایک نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جس میں وزیراعلیٰ کو مکمل اختیارات ہونے چاہیں تاکہ وہ مقامی انتظامیہ، پولیس اور دیگر شعبوں میں مکمل صفائی کرسکے، عدالتی نظام میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ سالوں کے بجائے مہینوں میں کیسز کے فیصلے ہوں۔
قوم پرست وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزارت اعلیٰ سنبھالے ابھی 10 روز ہی ہوئے ہیں کہ ایسے افسوسناک واقعے رونما ہوگئے، ڈاکٹر مالک کو ان کی توقعات سے بھی زیادہ سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کتنی کمزور ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر مالک اس سے قبل ہی خضدار اور دیگر علاقوں سے مسخ لاشیں ملنے کی وجہ سے پریشان تھے کہ یہ واقعات رونما ہوگئے، وزیراعلیٰ کیلیے بھی یہ ایک اشارہ ہے کہ انھیں فوری اقدامات کرنے ہونگے۔ ڈاکٹر مالک جانتے ہیں کہ قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ عسکریت پسندوں کی طرف سے مذاکرات کے انکار کا اشارہ ہے۔
ڈاکٹر مالک کیلیے ایک اور مشکل لاپتہ افراد کا مکمل ڈیٹا نہ ہونا بھی ہے اور اس معاملے میں ڈاکٹر مالک وفاقی وزارت داخلہ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ایک سینئیر نیشنل پارٹی رہنماء کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ سابق آئی جی بلوچستان ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ اگر لیوی کو پولیس میں ضم کردیا جائے اور اچھی ٹریننگ دی جائے، اس کے علاوہ 25 ہزار بلوچ نوجوانوں کو پولیس میں بھرتی کیا جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔