پاکستان کی شہری آبادی۔۔۔۔ مسائل کی اصل جڑ

ملک کی شہری آبادی میں خصوصاً کراچی کی آبادی میں پھر اضافہ 1972 کی مردم شماری میں دیکھنے میں آیا۔

ملک کی شہری آبادی میں خصوصاً کراچی کی آبادی میں پھر اضافہ 1972 کی مردم شماری میں دیکھنے میں آیا۔ فوٹو: فائل

"Better City Better Life" ''بہتر شہر، بہتر زندگی'' اس با ر ا قوام متحدہ کی جانب سے منائے جانے والے شہروں کے عالمی دن کے موقع پر تھیم یعنی مرکزی خیال ہے۔

یہ دن ہر سال 31 اکتوبر کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، اس بار اس دن کے منانے کے لحاظ سے ایک ذیلی تھیم یا مرکزی خیال بھی دیا گیا ہے جو کچھ یوں ہے,,Building Sustainable and Resilient Cities ,, یعنی ''پائیدار عمارات اور قابل برداشت شہر'' اس ترجمے سے بعض قارئین اختلاف بھی کر سکتے ہیں کہ Resilient کے معنی لچکدار ہو تے ہیں اور غالباً یہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں جتنے زیادہ اور شدید زلزلے دنیا میں آئے ہیں تاریخ میں کسی دہائی میں نہیں آئے یعنی ریکارڈ کے مطابق 2008 سے 2018 کے درمیان ریکٹر اسکیل پر شدت کے اعتبار سے4.0-4.9 کی شدت کے123057 زلزلے،5.0-5.9 کی شدت کے17814 زلزلے6.0-6.9 کی شدت کے1497 زلزلے7.0-7.9 کی شدت کے161 زلزلے اور8.0-9.9 کی شدت کے12 زلزلے آئے، یوں ان کی مجموعی تعداد142541 تھی۔

ان زلزلوں اور سونامیوں سے سب سے زیادہ نقصان شہروں اور شہر ی آبادیوں کو ہوا مگر شہروں کے لیے صرف زلزلے ہی تباہیوں کا سبب نہیں ہیں مثلًا 8 اکتوبر 2005 کو آزادکشمیر اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں آنے والا ملک کی تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ تھا جس میں آزاد کشمیر مظفر آباد ، کے پی کے میں بالاکوٹ اور باغ کا تقریبا چالیس ہزار مربع کلو میٹر رقبہ ملبے کے ڈھیروں میںتبد یل ہو گیا تھا اور تقریباً ایک لاکھ افراد جاں بحق ہوئے تھے، چونکہ اس قدرتی آفت سے چند سیکنڈ وں میں یہ تباہی ہوئی اور انسانی اموات ایک لاکھ تک پہنچ گئیں لہٰذا پورے ملک اور پوری دنیا کو فوری طور پر اس کا شدت سے احساس ہوا ، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں پینے کا صاف پانی نہ ملنے نکاسی آب اور صفائی کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ کئی لاکھ انسان ہلاک ہو جا تے ہیں اور بد قسمتی سے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اس لیے پائیدار عمارتوں سے مراد منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی عمارتیں ہیں ۔

جن سے شہر وجود میں آتے ہیں اور یہ ایسے شہر ہوں جو زلزلوں سمیت تمام قدرتی اور غیر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں، واضح رہے کہ جب سے دنیا میں انسانی معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا اور پھر شہر آباد ہونے لگے تو کسی علا قے کی مجموعی آبادی میں ہمیشہ سے تناسب کے اعتبار دیہی آبادی زیادہ رہی، آج سے ایک ہزار برس پہلے دنیا کی مجموعی آبادی چار سے پانچ کروڑ تھی جو ڈیڑھ سوسال قبل ایک ارب ہو گئی اور اب یہ آبادی ساڑھے سات ارب سے زیادہ ہو چکی ہے۔

2010 سے دنیا میں دیہی آبادی کے مقابلے میں شہری آبادی کا تناسب بڑھنے لگا۔ 2010 میں دنیا کی کل آبادی 6958169159 تھی جس میں سے شہری آبادی3571272167 تھی، یوں شہری آبادی کا تناسب 51.3% ہوگیا اوراس کے بعد سے شہری آبادی کے تناسب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2018 میں دنیا کی کل آبادی 7632819325 ہے جس میںکل شہری آبادی 4186975665 ہے اور شہری آبادی کا تناسب اب 54.9% ہوگیا ہے۔ 2018 میںشہری آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ ٹن ملکوں کی صورتحال یہ ہے کہ چین میں شہری آبادی کا تناسب 58% ہے۔

بھارت میںشہری آبادی 32%، امریکہ میں 83% ،انڈونیشیا میں 54% ، برازیل میں شہری آبادی84% ، پاکستان میں 38فیصد، نائجیریا میں 49% ، بنگلہ دیش میں35% ، روس میں73% اور میکسیکو شہری آبادی کا تناسب78 فیصد ہے۔آبادی کے اعتبار سے پاکستان اس وقت چھٹے نمبر پر ہے اور ماہرین کے مطابق دس سال بعد پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر آجائے گا اور اس دوران نہ صرف ملک کی مجموعی آبادی میں اضافہ ہوگا بلکہ شہری آبادی میں اور اس کے تناسب میں بھی اضافہ ہو گا۔ آزادی کے چار سال بعد ملک میں بھارت سے آنے والے مہاجرین کی آمد پر پابندی عائد کر دی گئی اور پاکستان سٹیزن ایکٹ نافذالعمل ہوا اور اب تک اسی ایکٹ کی بنیاد پر ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری ہوتے ہیں۔ مہاجرین کی آمد پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد 1951ء میںملک کی پہلی مردم شماری ہوئی جس کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 7 کروڑ 50 لاکھ تھی۔

جس میں سے مشرقی پاکستان 4 کروڑ 20 لاکھ اور ہمار ی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی۔ اس وقت آج کے پاکستان سے 45 لاکھ سکھوں اور ہندوں نے بھارت ہجرت کی اور بھارت سے 65 لاکھ مسلمان پاکستان آئے۔ 1961 میں پا کستان کی آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ اور مشرقی پاکستا ن کی آبادی پانچ کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ تھی۔ 1972 میں آج کے پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ، 1981 کی مردم شماری میں یہ آباد ی 8 کروڑ 37 لاکھ، 1998میں آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ اور 2017 ء میں 20 کروڑ 77 لاکھ ہوگئی۔ پاکستان کی آبادی میں ایک تو سالانہ شرح پیدائش زیادہ رہی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت رہی کہ ہمار ے ہاں ہمسایہ ممالک سے تارکینِ وطن کی آمد جاری رہی اور یہ کتنی حیرت انگیز حقیقت ہے کہ 16 دسمبر1971 کوایک جانب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور تقریباً تیس لاکھ بہاری وہاں کیمپوں میںرہے تو لاکھوں بنگالی غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے یہاں آئے۔

1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں قومی شناختی کارڈ کا اجرا کیا۔ آزادی سے پہلے پاکستان میں شہروں کا سائز اور آبادی بہت کم تھی لیکن جو آبادی ہجر ت کر کے آئی یا جو تارکین وطن آئے اس کی 90% اکثریت شہروں میں آباد ہو ئی۔ قیام پاکستا ن کے وقت مغربی پاکستان سے 14% آبادی بھارت گئی اور بھارت سے آنے والے افراد ہماری آبادی کا 20% بنے، یوں چھ فیصد کا اضافہ تھا۔ 1961 میں مہاجرآبادی میں سے بوڑھے فوت ہوئے اور بچے پیدا ہوئے، یوں بیرون ملک پیدا ہونے والی آبادی کا تناسب 13.73% اور ان کی کل تعداد 60 لاکھ سے زیادہ تھی۔ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پیدا ہونے والی آبادی عمر کے بڑھنے یعنی بوڑھا ہونے پر اموات کی وجہ سے کم ہوتی گئی اور ان کی وہ اولادیں جو پاکستان میں پیدا ہوئیں وہ پاکستانی تھیں۔ یوں 1970 بیرون ملک پیدا ہو نے والی آبادی کا تناسب 8.57% ہو گا اور ان کی کل تعداد 50 لاکھ ہو گئی۔ 1980 میں یہ تناسب 6.32% اس کے بعد 1990ء میں 5.87% اور 2000 ء میں یہ تناسب 2.97% ہوا لیکن یہ ضرور ہوا کہ شہری آبادی میں سالانہ شرح پیدائش سے بھی اضافہ ہوتا رہا اور دیہی علاقوں سے بھی آبادی شہروں میں منتقل ہوتی رہی۔

پاکستان بننے کے بعد ایک جانب ہمارے پاس چونکہ ایک ہی بندر گاہ کراچی تھی اور ویسے بھی اس وقت تمام تر صنعتی یونٹ کراچی ہی میں لگائے گئے۔ کراچی شہرکو انگریزوں نے تعمیر کیا یہاں فرئیرہال 1865ء میں تعمیر ہوا، مگر 1856ء میں کلاچی گوٹھ سے کراچی بننے والے شہر کی آبادی56 ہزار ہو چکی تھی۔ یہ آبادی آزادی کے وقت تقریبا ساڑھے چار لاکھ ہو چکی تھی۔ 1951 میں یہ آبادی 10 لاکھ 58 ہزار ہوگئی، اکتوبر 1958ء میں صدر ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس شہر کے اعتبار سے دو فیصلے ہوئے ایک یہ کہ وفاقی دارالحکومت کو راولپنڈی کے قریب ایک نیا شہر اسلام آباد کے نام سے تعمیر کیا جائے گا، دوسرا فیصلہ یہ کہ کراچی میں تیز رفتار صنعتی ترقی کا منصوبہ شروع کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1961 میں کراچی کی آبادی 69لاکھ ہو گئی۔ 1972ء میں یہ ایک کروڑ ہوئی۔ 1981ء میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجی جارحیت کی وجہ سے 35 لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی اور ایک بڑی تعداد کراچی میں بھی آباد ہو ئی۔ کراچی کی آبادی 1998 میں دو کروڑ بتائی گئی اور یہ آبادی محتاط اندازوں کے مطابق 2015 میں دو کروڑ 40 لاکھ بتائی گئی۔

اب جہاں تک تعلق مردم شماریوں کا ہے تو اسی کے اعدادو شمار کو انتخابات میں اور قومی اور بین الاقومی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے 1941 میں کراچی کی آبادی 387000 تھی، 1951 کی مردم شماری کے مطابق 1068000 تھی، 1961 کی مردم شماری کے لحاظ سے 1913000 افراد کراچی میں آباد تھے، 1972 کی مردم شماری کے مطابق آبادی 3515000 تھی، 1981 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 5208000 شمار کی گئی، 1998 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 9339000 ہو گئی، 2017 کی مردم شماری کے مطابق اب کراچی کی آبادی 14910352 ہے۔ جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے تو 1981 کے بعد 1998 اور اب 2017 کی مردم شماریوں پر بہت سے حلقوں کی جانب سے تنقید ہوتی رہی ہے، لیکن یہاں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کراچی اور دیگر شہروں میں آبادی کی ایک صورت یہ ہے کہ تقریباً 20% سے زیادہ آبادی وہ ہے جو برسہا برس سے رہتی تو شہروں میں ہے مگر ان کا اند راج ان کے آبائی اور دیہی علاقوں میں ہے، یہ ووٹ بھی انہی علاقوں میںکاسٹ کرتے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی قوانین کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ملازمتوں کے کو ٹے دیہی علاقوں کی بنیاد پر زیادہ آسانی سے ملتے ہیں ۔ یوں یہ رہتے تو شہروں میں ہیں اور جب مردم شماری ہوتی ہے تو اندراج دیہی اور آبائی علاقوں میں کرواتی ہے۔

آبادی کے لحاظ سے کراچی کے بعد دوسرے نمبر پر لاہور ہے جس کی آبادی 1941 ء میںکراچی سے زیادہ تھی۔ لاہور کی آبادی اُس وقت 672000 تھی جو1951ء میں آزادی کے چار سال بعد 848000 ہو گئی اور اب 2017 کی مردم شماری میں یہ آبادی 11126285 ہوچکی ہے۔کراچی کی طرح فیصل آباد (لائل پور) بھی انگریزوں نے تعمیر اور آبادکیا تھا، 1941 میں اس شہر کی آبادی صرف ستر ہزار تھی، 1951 میں یہ آبادی 179000 ہوگئی جو 2017 کی مردم شماری میں 3203846 ہو چکی ہے۔ راولپنڈی جو انگریزوں کی آمد کے وقت ایک دیہات یا قصبے کی مانند تھا یہ بھی کوئٹہ کی طرح افغان سرحد کے قریب بڑی چھاونی بلکہ ہیڈکوا رٹر ہو نے کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا تھا اور جلد یہ ایک بڑا اور اہم شہر بن گیا۔1941ء میں اس کی آبادی 185000تھی جو1951ء میں بڑھ کر 237000 ہوگئی اور 2017 یہ آبادی 2098231 ہو چکی ہے۔

 



ملتان کی آبادی 1941ء میں 143000تھی، 1951ء میں یہ آبادی 197000 ہوگئی اور 2017 میں ملتان کی آبادی 1871843 ہو چکی ہے، حیدر آباد کی مجموعی آبادی 1941 میں 135000 تھی جو 1951 میں 242000 ہوگئی اور2017 کی مردم شماری میں یہ آبادی1732693 ہوگئی۔ گوجرانوالہ کی آبادی 1941 میں 85000 تھی 1951 میں121000 ہوگئی اور 2017 میں یہ آبادی2027001 ہو چکی ہے۔ پشاور کی آبادی1941 میں 152000 تھی جو1951 میں بڑھ کر 173000 ہوگئی اور2017 کی مردم شماری میں یہ آبادی 1970042 ہوگئی ۔کوئٹہ شہر کو بھی کراچی، فیصل آباد کی طرح انگریزوں نے آباد کیا، اس کی بنیاد 1878میں رکھی گئی، 1935 کے زلزلے میں شہر کی پچاس ہزار آبادی میں سے 30000 افراد جاں بحق ہوئے، شہر دوبارہ آباد ہوا تو 1941 میں اس کی آبادی 65000 تھی جو1951 میں 84000 ہوگئی اور 2017 کی مردم شماری میں شہر کی آبادی 1001205 شمار کی گئی ہے۔ اسلام آباد پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جو آزادی کے15 سال بعد 1962 میں تعمیر ہوا، 1972 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 77000 تھی جو1981 میں 204000 ہوگئی، 1998 کی مردم شماری میں یہ آبادی 529000 ہوگئی اور اب2017 کی مردم شماری میں اسلام آباد کی آبادی 1014825 شمار کی گئی ہے۔


جہاں تک تعلق ملک کی مجموعی آبادی کا ہے تو اس آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن جہاں تک تعلق دیہی اور شہری آبادی کے تناسب کا ہے تو آزادی کے بعد 1951 میں شہری آبادی کا تناسب 20% تھا جو1961 میں تقریباً 23% ہو گیا۔ پاکستان اگرچہ اب بھی ایک زرعی ملک ہے مگر آزادی سے قبل اور بعد میں شروع کے برسوں میں جب تک صنعتی ترقی نہیں ہو ئی تھی، دیہی آبادی 77 فیصد رہی، آج شہری آبادی کا تناسب 38% تک بتایا جا رہا ہے اور شہری آبادی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، شہری آبادی میں ایک اضافہ تو سالانہ شرح آبادی میں اضافے کے سبب ہے تو دوسرا اور بڑا اضافہ دیہی آبادی کا شہروں میں منتقل ہونا ہے اور ایک تیسری وجہ ملک میں دوسرے ملکوں کے تارکین وطن کی آمد بھی ہے۔ شہری آبادی کے رجحان کا مشاہدہ کریں تو پہلی بار شہری آبادی میں اضافہ آزادی کے بعد ہوا جب آج کے پاکستانی علاقے سے 40 سے45 لاکھ ہندووں، سکھوں کے بھارت منتقل ہونے کے مقابلے میں وہاں سے 65 لاکھ مسلمان یہاں آئے۔ 1951 کی مردم شماری کے اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس سے کراچی کی آبادی میں 200% اضافہ ہوا۔

لاہور کی آبادی میں 20% اضافہ ہوا، فیصل آباد کی آبادی میں تقریبا ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا، یوںہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ٹاپ ٹن شہروں کی آبادیوں میں پہلا بڑا اضافہ1951ء میں ریکارڈ کیا گیا جو ظاہر تقسیم ہند اور آزاد ملک پاکستان کے قیام کی وجہ سے ہوا تھا، دوسرا بڑا اضافہ کراچی ، فیصل آباد اور حیدرآباد میں 1961کی مردم شماری میں صدر ایوب خان کے دور کی تیز رفتار صنعتی ترقی کی وجہ سے ہوا، ایوب خان کے دور میں پوری دنیا میں پائیدار ترقی کی بنیاد صنعتی ترقی ہی کو سمجھا جاتا تھا اس لیے اس دور میںترقیاتی منصوبہ بندی عدم توازن کا شکار ہوئی۔ پاکستان زرعی ملک ہے مگر زیادہ توجہ صنعتی ترقی پر دی گئی۔

ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ تقریباً معافی کی حد تک دی گئی۔ دوسری جانب ساٹھ ہی کی دہائی میں امریکہ اور یورپ میں زرعی سائنس میں کامیاب ریسرچ کی وجہ سے گندم اور دوسری فصلوںکی فی ایکڑ پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا اس لیے ملکی اور بین الاقومی منڈیوں میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی ہوئی اور ہمارا کسان امریکہ اور یورپ کے کسان کے مقابلے میں یوں متاثر ہوا کہ یہاں کسانوں کو زرعی اجناس کے تحقیق شدہ بیج ،ادویات، مصنوعی کھاد اور مشینوں کا استعمال واجبی سا آتا تھا اس لیے بہت سے کسان کم آمدنی کی وجہ سے شہروں میں منتقل ہوئے، اگرچہ بعد میں زرعی اجناس کی کم پیداوار اور قلت کے سبب زرعی اصلاحات اور جدید طریقوں پر توجہ دی گئی مگر اس وقت تک زراعت اور صنعت کے شعبوں میں عدم توازن بڑھ چکا تھا۔ صنعت کار سرمایہ دار طبقے کے پاس ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ کی وجہ سے ملک کے مجموعی سرمائے کا بڑا حصہ جمع ہوگیا اور اس ارتکازِ زر کی وجہ سے جب اشیاِ خورونوش کی، قیمتوںمیں معمولی اضافہ ہوا تو اس سے غریبوں کی قوت خرید اتنی زیادہ متاثر ہوئی کہ ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔

ملک کی شہری آبادی میں خصوصاً کراچی کی آبادی میں پھر اضافہ 1972 کی مردم شماری میں دیکھنے میں آیا، اس کی وجہ بنگلہ دیش کے قیام سے ذرا پہلے وہاں سے بہاریوں کی منتقلی تھی۔ 1970 کے پہلے عام انتخابات کے بعد 1972ء میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں۔ بلوچستان کو پہلی بار 1970 میں صوبے کا درجہ دیا گیا تھا اور پہلی منتخب صوبائی حکومت قائم ہوئی اور کوئٹہ صوبائی دارالحکومت بن گیا۔ کوئٹہ کی آباد ی1941 میں 65000 تھی جو1951 میں 84000 ہوگئی اور1961 میں 107000 پھر 1972 میں کوئٹہ کی آبادی 158000ہوئی۔ واضح رہے کہ صوبائی دارالحکومت بننے سے یہاں صوبائی ملازمین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تھا ،1981 کی مردم شماری میں افغان مہا جرین کوشمار نہیں کیا گیا تھا۔ کوئٹہ شہر کی آبادی 286000 ہوگئی۔ 1998 میں کوئٹہ شہرکی آبادی 565000 ہوگئی اس مردم شماری کے 19 سال بعد 2017 میں مردم شماری ہوئی تو کوئٹہ کی آبادی ریکارڈ کے مطابق 1014825 ہوگئی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ کراچی کی طرح کوئٹہ کی آبادی کے بارے میں شدید تنقید ہوتی ہے کہ مردم شماری میں آبادی کم دکھا ئی گئی ہے جبکہ کوئٹہ کی آبادی اِس وقت 2500000 سے زیادہ ہے۔

لاہور کی آبادی میں 1981 سے تیز رفتار اضافہ ہوا اس کی ایک بڑی وجہ کراچی میں ہونے والے بد امنی کے واقعات تھے جو لسانی بنیادوں پر ہونے والے واقعات تھے، یوں بہت سے صنعتکاروں نے لاہور سمیت پنجاب کے دوسرے شہروں کا رخ کیا۔ 1981 میں لاہور کی آبادی 2953000 تھی جو تیزی سے بڑھی اور 1998 میں یہ آبادی 5443000 ہوگئی۔ یہ آبادی 19 برس میں یعنی 2017 کی مردم شماری میں تقریباً دگنی یعنی ایک کروڑ گیارہ لاکھ چھبیس ہزار سے زیادہ ہوگئی ، لیکن اِس شہر کی یہ بڑی خوبی ہے کہ کراچی،کوئٹہ اور اسلام آباد جیسے کم عمر شہروں کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار برس پرانے اس شہر کو مسائل تو درپیش ہیں مگر ان کی شدت بہت حد تک قابلِ برداشت ہے۔ یہاں ٹریفک بہت حد تک رواں ہے۔ باوجود میدانی علاقے کے نکاسیِ آب کا نظام دوسرے شہروں کے مقابلے میں بہتر ہے۔ فراہمیِ آب کے اعتبار سے بھی ابھی تک صورتحال کنٹرول میں ہے اگرچہ اب صاف پانی کی دستیابی ایک مسئلہ ہے مگر اکثر مقامات پر زیرِ زمین 200 فٹ پر پینے کا شفاف پانی دستیاب ہے۔ اس شہر میں اب بھی رہائش کے لحاظ سے فلیٹ کلچر فروغ نہیں پا سکا ہے۔

شہر کے لوگوں کو پبلک پارکوں اور دوسری تفریحات کی سہولتیں بھی دیگر شہروں کے مقابلے میں تعداد اور معیار کے اعتبار سے بہتر انداز میں میسر ہیں، سب سے اہم اور اچھی بات یہ ہے کہ اس شہر کی آبادی باوجود کہ سوا کروڑ تک پہنچ چکی ہے مگر اب تک اس شہر میں لسانی قومی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات اس حد تک نہیں بڑھے ہیں کہ شہر کی آبادی کسی خوف کے تحت تحفظ کے لیے مختلف حصوں میں بٹ جائے۔ اگرچہ لاہور مون سون کے مختلف ٹریکوں میں سے مون سون گیٹ وے پر واقع ہے مگر صدیوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں سیلاب تو آتے رہے ہیں مگر یہ شہر کبھی بھی سیلاب سے مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا، البتہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ماضی میں حملہ آور اس شہر کو بارہا تباہ کر چکے ہیں، یہ شہر اس لحاظ سے خطرے میں ضرور رہتا ہے کہ بڑا شہر ہونے کے باوجود اب اس کی میونسپل حدود بھارت کی سرحد تک پہنچ چکی ہیں، لیکن اب ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ 1941 میں لاہور کی آبادی صرف تین لاکھ 87 ہزار تھی جواب سوا کروڑ ہو چکی ہے اور آئندہ 10 برسوں میں یہ اندیشہ ہے کہ یہ آبادی دو کروڑ ہو جائے۔

کوئٹہ شہر 1878 میں آبادکیا گیا تھا،اس سے چند برس قبل ہی انگریزوں نے کراچی شہر بنایا تھا کو ئٹہ شہر 31 مئی 1935 کے زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہو کر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا جو دوبارہ 1937-38 میں تعمیر ہوا، 65 لاکھ آبادی کا یہ شہر 2017 کی مردم شماری کے مطابق 10 لاکھ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے مگر حقیقتاً 25 سے 30 لاکھ آبادی کا شہر ہے، زلزلوںکے ممکنہ خطرات کے پیش نظر یہاں پہلے 1937 کے بلڈنگ کوڈ پر ساٹھ کی دہائی تک عملدرآمد ہوتا رہا، پھر 8 اکتوبر 2005 کے آزادکشمیر اور خیبر پختونخوا کے زلزلے کے بعد2007 کے بلڈنگ کوڈ کو بھی نظر انداز کر کے کئی منزلہ بڑے بڑے پلازے اور عمارتیں بنائیں گئی ہیں۔ اس شہر میں ساٹھ کی دہائی تک زیرِ زمین پانی کی سطح 30 فٹ سے50 فٹ تک تھی جو اب ایک ہزار فٹ سے بارہ سو فٹ تک نیچے جا چکی ہے۔

یہاں یہ بھی سوچنا ہے کہ زمین میں 50 فٹ سے 1200 فٹ تک جہاں پانی تھا وہاں اب کیا ہے؟ نیچے سے اس کھوکھلی زمین پر جس پر کئی کئی منزلہ بلڈنگیں تعمیر ہو چکی ہیں، واضح رہے کہ کوئٹہ میں 1935 کے بعد 1956 - 1992-93 اور اکتوبر 2008 میں زیارت مرکز کے شدید زلزلے آچکے ہیں جن سے کئی عمارتوں کے اسٹرکچر ''بنیادی ڈھانچے'' متاثر ہو چکے ہیں، ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، یہ شہر ایک درجن کے قریب صاف پانی کی بہتی ہوئی کاریزیں ''زمین دوز نہریں'' اور لورہا ندی اور اس کے کناروں پر واقع ایک درجن سے زیادہ قدرتی چشموں کو نگل چکا ہے،کوئٹہ شہر ایک مستطیل پیالہ نما وادی میں واقع ہے جہاں نکاسیِ آب مسئلہ نہیں مگر گذشتہ 35 برسوں میں سڑکوں پر سالانہ بجری اور تارکول کی تہیں بچھائی جاتی رہی ہیں ، یہی صورت زیرِزمین نکاسی آب کے ناکام منصوبوں کی رہی۔ یوں کوئٹہ ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے اُن تین اضلاع میں شامل ہیں جہاں اب تک پولیو کا مرض ہے۔

اِس وقت ملک کی تقریباً 22 کروڑ آبادی میں گذشتہ اٹھارہ برس کے اعداد وشمار کے مطابق ہمارے ملک میں قومیتوں اور لسانی گروپوںکا تناسب یوں ہے کہ پنجابیوں کا تناسب 44.15% ، پشتون 15.4% ، سندھی 14.1% ، سرائیکی10.5%، اردو 7.57% ، بلوچی یا بلوچ3.7% تھی اور اب تک انہی اعداد وشمار کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں غیرقدرتی آفات کے اندیشوںکے لحاظ سے دیکھیں تو لسانی اور فرقہ وارانہ گروپوں کا تناسب بھی خطرناک ہے اور اس سے ملک کے ٹاپ ٹن شہروں میں بھی صورتحال قابل توجہ ہے مگر کراچی اور کوئٹہ جہاں اس حوالے سے ماضی قریب میں واقعا ت ہو چکے ہیں ان کے نتیجے میں ان دونوں شہروں میں آبادیاں اپنے گروپوں کے اعتبار سے تقسیم ہو رہی ہیں اور بعض مقامات پر ہو چکی ہے۔ کراچی اور کوئٹہ میں یہ صورتحال قابلِ فکر ہے اور بے ہنگم انداز سے بڑھتی ہو ئی شہری آبادی کے مسائل میں سے بڑا اور نازک مسئلہ ہے۔



پاکستان کا سب سے نیا شہر اسلام آباد ہے جو 1962 میں اُس وقت آباد ہوا جب ملک کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ 1972ء میں جب ملک میں پہلی منتخب پارلیمانی جمہوری حکومت قائم ہوئی توآج کے پاکستان کی مردم شماری ہوئی اور اس میں پہلی باراسلام آباد کی آبادی بھی شمارکی گئی تو1972 میںاسلام آباد کی کل آبادی 77 ہزار تھی یہ آبادی1981 میں دولاکھ چار ہزار ہوگئی یہ آبادی 1998 میں بڑھ کر پانچ لاکھ انتیس ہزار ہوگئی اور اب 2017 میںاسلام آباد کی آبادی 1014825 ہو چکی ہے۔ پاکستان کا یہ دارالحکومت 1981 تک دنیا کا خوبصورت دارالحکومت تھا مگر اب یہاں بھی نکاسیِ آب اور فراہمی آب کے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیںکہ یہاں پر بھی نصف آبادی بلبلانے لگی ہے۔ اس وقت ملک کی مجموعی آبادی میں شہری آبادی کا تناسب 34% سے38% بتایا جا رہا ہے لیکن ملک میں مجموعی طور پر آبادی کی گنجانیت 260 افراد فی مربع کلومیٹر ہے اور یہ گنجانیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں، سندھ اور جنوبی پنجاب کے بارانی علاقوں کو چھوڑ کر باقی علاقوں میں کچھ یوں ہے کہ پنجاب اور سندھ میں ایک شہر سے دوسرے شہر تک آبادیوں کا تسلسل ٹوٹتا ہی نہیں اس لیے یہ کہنا کہ اب تک ہماری شہری آبادی کا تناسب کیا 34% سے38% تک ہے۔

اس پر ماہرین کی تحقیق ضروری ہے۔ ہمارے ٹاپ ٹن شہرکراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، حیدر آباد، گوجرانوالہ، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد ہیں ، ضروری ہے کہ ان شہروں پر فوری توجہ کے ساتھ ملک کے تمام شہروںکی منصوبہ بندی کریں،اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر کا اعلان کیا ہے، واضح رہے کہ ملک کے دارالحکومت میں بھی کچی آبادیاں موجود ہیں اس جانب بھی توجہ کی ضرور ت ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ماضی کی طرح پانچ سال میں یہ پچاس لاکھ مکانات بھی زرعی زمینوں پر تو نہیں بنائے جائیں گے؟ اس کی یقین دہانی ضروری ہے۔ یہاں فراز کا یہ شعر یاد آتا ہے۔

رفتہ رفتہ یہی زنداںمیں بدل جاتے ہیں

اب کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے

 
Load Next Story