ایتھوپیا کے ’’بی ٹا یہودی‘‘۔۔۔

اسرائیل کے سوتیلے بیٹے صہیونی ریاست میں تیسرے درجے کے شہری بن کر زندگی گزارنے پر مجبور۔

اسرائیل کے سوتیلے بیٹے صہیونی ریاست میں تیسرے درجے کے شہری بن کر زندگی گزارنے پر مجبور۔ فوٹو: فائل

انسانی تاریخ رنگ و نسل کے تعصب اور غلامی کے تصورات سے بھری پڑی ہے لیکن یہ اعتراف کیے بنا کوئی چارہ نہیں کہ تہذیب و تمدن کی باگیں تھامے دوڑتی دنیا میں انسان دشمن اس قدیم فلسفے نے اب تک دم نہیں توڑا بلکہ پورے دھڑلے سے انسانیت کے پنجر کو مزید کھوکھلا کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اسی تعصب کی چکی میں ایتھوپیا کے بیِٹا یہودی بھی بری طرح پس رہے ہیں جو اسرائیلی سماج کے سب سے آخری پائے دان پر پائوں دھرے دو دنیائوں کے درمیان معلق ہیں۔ یہودیت کی مضبوط اینٹوں پر استوار ہونے والی اسرائیلی ریاست میں رنگ و نسل اور سماجی نفاق کی ایسی دراڑیں ہیں جن کا شکار ہونے والے بھی اسی یہودیت کی پیڑھی سے ہیں جن کے تحفظ کے لیے ارضِ فلسطین کو عرصۂ دراز سے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے تازہ ترین بیان کے مطابق مزید ایک ہزار بی ٹا یہودیوں کو اسرائیل کی طرف نقل مکانی اجازت دی گئی ہے۔ یہ وہ یہودی ہیں جن کے کنبے اسرائیل میں پہلے سے مقیم ہیں۔

شمالی ایتھوپیا کے بی ٹا یہودیوں کی ایک افسانوی تاریخ ہے۔ یہ اپنا تعلق اس بارھویں یہودی قبیلے سے بتاتے ہیں جو صدیوں پہلے لاپتا ہوگیا تھا۔ یہودی ربی (پیشوا) اس تاریخ پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں خالص یہودی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن خود کو منوانے کے لیے یہ بی ٹا یہودی ہمیشہ سے سراپا احتجاج رہے ہیں ۔

1950میں اسرائیل کے ''واپسی کے قانون ''کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل میں بسنے کا حق دیا گیا مگر بدقسمت ایتھوپیا کے یہودی اس سے استفادہ کرنے کے اہل قرار نہ پائے، جس کی یہ وضاحت دی گئی کہ ایک صدی پہلے کیوں کہ انہیں جبری طور پر عیسائی بنا دیا گیا تھا، لہٰذا اب یہ خالص یہودی نہیں رہے، اس لیے ان کو اسرائیلی ریاست میں جگہ نہیں دی جاسکتی۔

دوسری طرف بی ٹا یہودی جو جان کے خوف سے عیسائی تو ہوگئے لیکن انھوں نے اپنے طورطریقے نہ بدلے اور یہودی رسومات پر ہی قائم رہے، پھر بھی یہودی پیشوائوں کے نزدیک ان کا مذہب مشکوک ہے اور وہ اسرائیلی سماج میں ضم ہونے کے قابل نہیں۔ اس وقت بھی ایتھوپیا کے آٹھ ہزار بی ٹا یہودی اسرائیل میں پناہ کے خواہش مند ہیں۔ اب تک جو بی ٹا یہودی اسرائیل منتقل ہوئے ہیں ان کو دوبارہ یہودیت میں داخل کر کے اسرائیل میں رہنے کا اہل بنایا گیا ہے۔


1984سے1991کے دوران اسی ہزار ایتھوپیا الاصل یہودیوں نے اسرائیل کی طرف ہجرت کی اور اب وہاں ان کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے آدھے وہ ہیں جو ہجرت کے بعد اسرائیل میںہی پیدا ہوئے۔1991میں ایتھوپیا میں موساد اور اسرائیلی حکومت نے مشہور زمانہ ''آپریشن سلمان'' کیا تھا، جس میں چھتیس گھنٹوں کے اندر اندر پندرہ ہزار ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل منتقل کردیا گیا۔ 2015 میں کنبوں کو جمع کرنے کے قانون کے تحت نو ہزار بی ٹا یہودیوں کو ہجرت کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اسرائیلی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اب ایتھوپیا میں کوئی یہودی نہیں۔ اگر یہ سچ تھا تو اب نقل مکانی کے لیے ایک ہزار یہودی وہاں کیسے نکل آئے؟ اسرائیل نقل مکانی کرنے والے ان بیِٹا یہودیوں کو دوبارہ یہودی مذہب میں داخل کرنے کے باوجود ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے متعصب رویوں میں کوئی کمی نہ آسکی۔

نسل پرستی کا زہر ایتھوپیا کے یہودیوں سے اسرائیل کو بار بار کنی کترانے پر مجبور کرتا ہے، جس کا اعتراف گذشتہ سال نیتن یاہو نے بھی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بدترین نسل پرستی کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن خود نیتن یاہو اس معاملے میں پیچھے کب ہیں؟ 2016 میں دورۂ ایتھوپیا کے دوران انہوں نے مقامی یہودی راہ نماؤں کے ساتھ بہ مشکل دس منٹ گزارنا بھی گوارا نہ کیا، جب کہ اسرائیلی وزیراعظم جس ملک کا بھی دورہ کرتے ہیں قانون کے مطابق وہاں کے یہودی لیڈروں کے ساتھ تفصیلی نشست رکھتے ہیں، مگر ایتھوپیا سے تو وہ ایسے بھاگے جیسے کوئی متعدی مرض ان کا پیچھا کر رہا ہو۔ یہی سلوک اسرائیل کے اندر بسنے والے یہودی حکم راں اور باشندے ایتھوپیائی یہودیوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔

وہ یہودی جو ایتھوپیا سے اچھے مواقع کی تلاش میں بے وطن ہوئے یہاں بدترین تعصب کی لپیٹ میں ہیں۔ نسل پرستی کا جذبہ اتنا قوی ہے کہ یہودی اپنے ہم مذہبوں کو ہی اسرائیل میں دیکھنے کو تیار نہیں۔ اسی تعصب کی بنا پر ایتھوپیائی یہودیوں کو اسرائیل کے انتہائی غریب علاقوں میں بسایا جارہا ہے جہاں یہ سیاہ فام معمولی تنخواہوں کے باعث خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیلی سرزمین پر ہی جنم لینے والے یہودیوں کو بھی ان کی سیاہ رنگت کے باعث اسرائیلی سماج میں ضم نہیں کیا جارہا۔

اسرائیلی سفید فام یہودی ان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے بچوں کو ایتھوپیائی یہودیوں کے علاقے سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں، حتی کہ انہیں سفید فاموں کے اسکول میں پڑھنے کی بھی اجازت نہیں۔ صرف نو فی صد ایتھوپیائی باشندے اسرائیل میں بہتر عہدوں پر فائز ہیں اور باقی ایتھوپیا سے بھی زیادہ برے حال میں ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب اسی نسل پرستانہ سوچ کے تحت ایتھوپیا سے ہجرت کر کے آنے والی یہودی عورتوں کو ان کی لاعلمی میں برتھ کنٹرول کے انجیکشن بھی لگائے گئے، جس سے ایتھوپیائی یہودیوں کی شرح پیدائش پریشان کن حد تک کم ہو گئی۔ پہلے تو اسرائیلی حکومت اس گھنائونے فعل سے انکار کرتی رہی لیکن جب اسرائیلی وزارت صحت کی ایک ڈائریکٹر کی جانب سے اس قبیح فعل کو روکنے کا حکم جاری ہوا تو پھر تردید کا کیا جواز باقی بچا؟

غرض ایتھوپیا سے اسرائیل لا کر بسائے جانے والے یہودیوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ وہ غربت کی وجہ سے بچوں کو پڑھا نہیں سکتے اور تعلیم کی یہی کمی اچھے عہدوں کے حصول میں بڑی رکاوٹ بن کر ایستادہ ہے۔ ماضی میں بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی ریوڑ کی طرح یہ اسرائیل کی یہودی منڈی میں ہنکادیے گئے یہاں تک کہ ایتھوپیا کی حکومت سے کالے یہودیوں کو باقاعدہ خرید کر بھی اسرائیل میں بسایا گیا۔ اب حکومت کی اجازت سے وہ نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن ان کو انسانوں کے زمرے میں کبھی شامل نہ کیا گیا۔ یہ ایتھوپیائی آئے دن اسرائیلی سڑکوں کو اپنے احتجاج سے رونق بخشتے ہوئے اپنا حق مانگتے ہیں۔
Load Next Story