زبانِ اہلِ زمیں اور ’’گالم گلوچ کلب‘‘ کا اضافہ

حدیث سے جملوں کا آغاز و اختتام کیا صرف دکھاوے اور عوام کےلیے ہے؛ اپنے لیے معیارات تکبر، غرور اور انا ہی باقی ہیں؟

حدیث سے جملوں کا آغاز و اختتام کیا صرف دکھاوے اور عوام کےلیے ہے؛ اپنے لیے معیارات تکبر، غرور اور انا ہی باقی ہیں؟ (فوٹو: فائل)

عدم برداشت کا رویہ ہمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ آئے روز ایسی خبریں سنتے ہیں جیسے پانی بھرنے پر جھگڑے سے کہیں تین افراد جان سے گئے تو کسی جگہ بچوں کی لڑائی میں بڑوں کے شامل ہونے پر دونوں اطراف میتیں اُٹھ گئیں۔ کہیں معمولی تلخ کلامی پر ماں اپنے بچے ذبح کر رہی ہے تو کسی جگہ دیگر خونی رشتے خون سفید ہونے کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ ہم بطور مجموعی ایک ایسی سمت بڑھتے جارہے ہیں جہاں کسی سے اختلاف کا مطلب اس کی جان لینا ہی رہ جائے گا۔ اور اگر سدھار لانے کی تدبیر نہ کی گئی تو مستقبل قریب میں یہی اختلافات، گلی محلوں سے نکل کر ہماری اخلاقی و معاشرتی بے راہ روی کا اظہار کرتے ہوئے، قومی سطح پر گل کھلاتے نظر آئیں گے۔

انعام رانا پاکستان کا ایسا چہرہ ہے جس نے بدیسی معاشرے میں بھی مباحثے و مکالمے کی روایت ڈالنے کی کوشش کی ہے، اور مکالمہ کے نام سے اپنا حصہ معاشرے کی اصلاح میں ڈال رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ ہم قومی سطح پر مباحثے، مکالمے اور گفتگو میں شائستگی کو مکمل طور پر پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہے ہیں؛ اور یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہم عمرانیات و تمدن کے اصولوں کے تحت ترقی کے زینے چڑھ جائیں گے۔

یہ دن میں خواب دیکھنا ہی ہو سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں، کیوں کہ جب ہمارا معاشرہ ہی ریخت کا شکار ہے تو ہم کون سی ترقی پاسکتے ہیں؟ ہم کون سی قوم تشکیل دے سکتے ہیں؟ کیوں کہ ہمارے انفرادی رویّے ہی تو مجموعی سطح پر بطور قوم ہماری پہچان بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ راہ دکھانے والے لفظ لکھ رہے ہیں لیکن عمل سے کوسوں دور ہیں۔

کچھ دن پہلے محترم ہارون رشید صاحب کی ایک گفتگو منظر عام پر آئی تو دل کو دھچکا سا لگا کہ حدیث سے جملوں کا آغاز و اختتام کرنا کیا صرف دکھاوے اور عوام کےلیے ہے؟ اپنے لیے معیارات تکبر، غرور اور انا ہی باقی ہیں؟ وہ لوگ جو معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیں، ان کا تو ہر عمل معمول سے زیادہ اثر رکھتا ہے چاہے وہ مثبت ہو یا منفی۔ لیکن حیرت کی بات تو ہے کہ تاریخ کے اوراق سے مثالیں دینے والے خود عمل سے کیوں پہلو تہی کرنا شروع ہوگئے ہیں۔

ابھی ہارون رشید جیسے، استاد کا درجہ رکھنے والے صاحب کی گفتگو موضوع بحث ہی تھی کہ گفتگو میں کمال رکھنے والے حسن نثار صاحب کی ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا کی زینت بن گئی۔

اُمیدوں کے چراغ پھڑپھڑانے لگے کہ اگر یہ کلپ آف دی ریکارڈ بھی ہے تو کیا جن لوگوں کی ہم مثالیں دیتے ہیں، وہ حقیقی زندگی میں ایسے رجحانات رکھتے ہیں؟ کیا اخلاقیات کے سارے قاعدے صرف تحریر کو کامیاب کرنے کےلیے ہی ہیں؟ اور حقیقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں؟

میڈیا میں مندی کا دور چل رہا ہے لیکن حقیقت میں شاید یہ دور چلنا بہتری کی طرف جا رہا ہے کہ ریفائنری سی لگ گئی ہے۔ مطیع اللہ جان سے ایک ملاقات رہی۔ کس درجہ شاندار انسان، تنازعات میں گھر کر بھی کس درجہ گفتگو میں مہارت اور شائستگی، اور اقرار و انکار کے ضابطوں میں خوش اخلاقی۔ خوش اخلاقی مفقود کیوں ہو رہی ہے؟ کہیں تکبر و خود نمائی تو اس کی جگہ نہیں لے رہے۔ ماضی قریب میں شہریار آفریدی صاحب کا لب و لہجہ آصف کرمانی صاحب کے ساتھ معاشرتی انحطاط کا عملی نمونہ تھا تو مشاہد اللہ خان صاحب اور حسن نثار صاحب کا ایک مشہور چینل پر براہ راست مغلظات کا تبادلہ بھی اشرافیہ کی اخلاقی بے راہ روی کا واضح ثبوت تھا۔


خواجہ آصف اور راشد قریشی صاحب کا آپس میں بھڑ جانا اور اس پر ایک مشہور اینکر کا روکنے کے بجائے اس موقع کو ریٹنگ کےلیے استعمال کرنا ہو یا پھر گنڈا پور صاحب اور نعیم الحق کی سپریم کورٹ کے باہر مڈبھیڑ ہو، ہمارے راہنماؤں کی عقلی وسعت پر دلیل ثبت سی ہو رہی ہے۔ ہارون رشید صاحب اور حنیف عباسی صاحب کا الیکٹرونک میڈیا پر ایک دوسرے کے خاندانی کچے چٹھے کھولنا ہو یا عابد شیر علی اور شرمیلا فارقی کا عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر ایک دوسرے کی زبانی کلاس لینا، ہمارے راہ دکھانے والوں کی اخلاقی وسعت کا مثالی نمونہ ثابت ہوا ہے۔

احمد رضا قصوری صاحب جیسا قانون دان اور عابد شیر علی جیسا سیاستدان جب لفظوں سے ایک دوسرے کے گریباں چاک کرتے ہیں تو یہ ظاہر کرنے کو کافی ہے کہ ہم بطور معاشرہ کس نہج پر سفر کر رہے ہیں۔ ماضی کو بھی چھوڑیئے، وفاقی وزیر اطلاعات ہوں یا خواجہ سعد رفیق و خواجہ آصف، پارلیمان کے اراکین ہوں یا پارٹی ممبران، گفتگو کا یہ عالم ہے کہ شاید اٹھارہ پلس والا ٹیگ لگا کر چینل چلانا شروع کردیں گے... اور تہذیب اُس ''مقام'' پر ہے کہ پوری گفتگومیں الفاظ کم اور سنسر کی ''ٹوں ٹوں'' زیادہ ہوتی جارہی ہے۔

ہارون رشید و حسن نثار صاحب کی حالیہ آڈیو و ویڈیو ٹیپس تو ایک مثال ہیں تنزلی کی طرف جاتے ہمارے معاشرے کی۔ ہم تو بطور مجموعی بھی اسی کیفیت کا شکار ہیں۔ تہذیب کے دائرے میں رہ کر پروگرام کرنے والا اینکر بھی ریٹنگ کی فہرست میں نیچے چلا جاتا ہے تو عام آدمی کی اخلاقیات کا سوال ہی کیا کیجیے! یہاں جب تک ایک دوسرے کو گالم گلوچ سے مخاطب نہ کیا جائے تو اخبار میں خبر نہیں بنتی۔ جو کارکن مسلسل بد زبانی کی روش اپنائے، وہ لیڈر کے قریب سے قریب تر ہو جاتا ہے؛ اور جو تھوڑا مصلحت کے تقاضوں کے تحت مخالفین پر لعن طعن ذرا کم کرے وہ گڈ بکس میں نہیں رہتا۔

سوشل میڈیا کا جن تو پہلے سے ہی بے قابو ہے، لوگوں کی پگڑیاں سر بازار اچھل رہی ہیں لیکن پرنٹ/ الیکٹرونک میڈیا اور عام زندگی کے معاملات میں جس طرح ہم اخلاقیات سے دور ہوتے جا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

لفظوں کے امین کسی بھی معاشرے میں اپنے لفظوں سے ایک فصل تیار کرتے ہیں۔ آپ اسے کلٹیویشن تھیوری کہیے یا پھر اخلاقیات کی کاشت، یہ ثابت ہے کہ جو آج لفظوں کے امین بو رہے ہیں، وہی کل انہیں کاٹنا بھی پڑے گا۔ ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ اگر آج معاشرتی اقدار و اخلاقیات کا درس، لکھنے والوں، راہنماؤں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کے صرف لفظوں اور باتوں میں رہے گا اور عملی سطح پر ان کی زندگیوں سے ان اقدار کا دور دور تک بھی واسطہ نہیں ہوگا تو پھر مستقبل قریب میں گلہ نہیں کیجیے گا جب اسی بوئی گئی فصل کے پھل آپ کے گریباں چاک کر رہے ہوں گے۔

کاشت آپ کر رہے ہیں، کاٹنی بھی آپ ہی کو پڑے گی۔ گالم گلوچ کلب بنائیے یا برداشت کلب، فیصلہ آپ پر ہے۔ نتائج کا ذمہ بھی آپ کا ہے۔ یہ ''زُبانِ اہلِ زمیں'' ہے، یہاں نفرت کا ناگ پھنی اُگائیے یا محبت کی سرسوں کھلائیے، آنے والے وقت میں فصل آپ ہی کو کاٹنا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story