مغربی دھوکا بازوں سے ہوشیار

اس وقت صحافی جمال خوشوگی کا قتل سعودی حکومت کے لیے مغرب نے ایک بڑا مسئلہ بنادیا ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

امریکا کی تباہی تو سینئر اور جونیئر بش کے ادوار سے ان کے عراق اور افغانستان پر احمقانہ حملوں سے ہی شروع ہوگئی تھی اور اب ٹرمپ نے اپنی متعصبانہ سوچ اور بے وقوفانہ حرکتوں سے امریکا کا بھٹہ ہی بٹھا دیا ہے۔ لگتا ہے اب آئندہ آنے والے امریکی صدور بھی ٹرمپ جیسی ہی ذہنیت کے مالک ہوںگے۔

اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ و جدول جاری ہے اور انسانوں کے بے دریغ خون بہایا جا رہا ہے، یہ تمام سانحات امریکی حکمرانوں کے حکم سے ہی پیدا ہوئے ہیں اور وہی ان کی آبیاری کر رہے ہیں۔ امریکا کے حواری ممالک اس تباہی و بربادی میں اس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ خواہ یمن کا مسئلہ ہو یا شام کا یا افغانستان کا معاملہ سعودی حکومت امریکی حکومت کی دامے، درمے، سخنے مدد کرنے میں پیش پیش ہے۔

امریکیوں نے سعودی عرب میں تیل کیا نکالا کہ سعودی شاہی خاندان امریکا کا ہی ہوکر رہ گیا۔ تب سے اب تک سعودی عرب نے امریکا کی ہر طرح مالی امداد کرنے اور تیل کی فراوانی سے سرفرازکرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ بات صرف یہی تک رہتی تو جزیرہ نما عرب کے ممالک تک امریکی شاطرانہ پالیسیاں مسلط نہ ہو پاتیں اور عربوں میں گروہ بندیاں عمل میں نہ آتیں۔

امریکا نے سعودی عرب کی دوستی کو استعمال کرکے اسرائیل کے ناجائز وجود کے مخالف عرب ممالک کو باری باری نشانہ بنایا اور اسرائیل کی بقا کو دوام بخشنے کا سامان پیدا کردیا۔ عراق، لیبیا اور شام کا بس یہی تو قصور تھا کہ وہ فلسطینیوں کی سرزمین پر زبردستی قائم ہونے والی یہودی ریاست کے خلاف تھے اس جرم کی پاداش میں انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا ،اب شام کے خلاف جنگ جاری ہے۔

ادھر ایران کو بھی فلسطینیوں کی حمایت کرنے کی سزا دینے کے لیے اس پر روز ہی نئی نئی پابندیاں عاید کی جارہی ہیں۔ سعودی حکومت کو ہمیشہ امریکی دوستی پر ناز رہا ہے کیونکہ امریکا سعودی جغرافیے کی حفاظت اور سعودی شاہی خاندان کی نگہبانی کا دعویدار رہا ہے مگر اب حالات و واقعات نے اس دعویداری کی حقیقت آشکارکردی ہے۔

شام میں جنگ جاری ہے، بد قسمتی سے اس جنگ میں سعودی عرب امریکا کا قریبی اتحادی ہے۔ اس جنگ میں لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا ہے جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ یہاں کے لوگ پناہ کی تلاش میں یورپی ممالک کا رخ کررہے ہیں مگر وہاں مارے مارے پھر رہے ہیں کیونکہ کوئی بھی ملک انھیں پناہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ وہ جس ملک میں بھی پہنچے شہریت سے محروم رہے۔ کتنے ہی مرد عورتیں اور بچے یورپی ممالک تک پہنچنے کی تگ و دو میں بحیرۂ روم کی ظالم لہروں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

سعودی حکومت اگر امریکا کا ساتھ نہ دیتی تو شاید عراق تباہ ہوتا نہ شام اور نہ ہی ایران کو دنیا سے الگ تھلک کرنے کی امریکی پالیسی کامیاب ہو پاتی۔ امریکا نے سعودی حکومت سے دوستی کی آڑ میں زبردست معاشی فائدے اٹھائے ہیں۔ امریکی بینکوں میں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے کھربوں ڈالرکے ڈپازٹ موجود ہیں اس کے علاوہ یہ ممالک اربوں ڈالر کا امریکی اسلحہ خرید کر اس کی معیشت کو براہ راست فائدہ پہنچا رہے ہیں۔


ماضی میں عربوں کو ڈرانے اور امریکا کا حلیف بنائے رکھنے کے لیے سازش کے تحت کویت پر عراق سے حملہ کرا دیا گیا تھا۔ اس طرح یہ بات راسخ کرادی گئی ہے کہ ان کے پڑوسی ہی ان کے اصل دشمن ہیں۔ اسی فارمولے کے تحت عربوں پر ایران کا ڈر بٹھا دیاگیا ہے۔ قطر سے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی دشمنی بھی امریکی سازش کا ہی شاہکار ہے۔ ایسے ماحول کی وجہ سے سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر بھروسا کرتا رہا ہے مگر شاہ فیصل کے زمانے سے سعودی سلامتی کی ذمے داری پاکستان نے بھی اٹھائی ہوئی ہے۔

حال ہی میں پاکستانی بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے۔ یہ ان کا سعودی عرب کا پہلا دورہ تھا۔ اس میں انھوں نے سعودی سلامتی سے متعلق بھی بیان دیا تھا کہ پاکستان کسی بھی صورت میں سعودی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دے گا۔ وزیراعظم کے اس بیان پر امریکی صدر سیخ پا ہوگئے اور انھوں نے غصے میں وہ بھی کہہ دیا تھا جو امریکی حکمت عملی کے تحت نہیں کہنا چاہیے تھا۔

منہ پھٹ ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی شاہی خاندان کا نگہبان امریکا ہے اور اگر وہ ایسا کرنے سے ہاتھ کھینچ لے تو سعودی حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکے گی۔ ٹرمپ دراصل سیاست دان نہیں رہے، وہ ایک بزنس مین ہیں اور جونیئر بش کی طرح ذہنی مریض بھی ہیں ۔ ان کے منہ میں جو آتا ہے وہ بک دیتے ہیں بعد میں اس کا خمیازہ امریکی وزارت خارجہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کی اس دھمکی نے سعودی شاہی خاندان کو ہلاکر رکھ دیا ہے کیونکہ اس طرح ٹرمپ نے پوری دنیا کے سامنے شاہی خاندان کی بے عزتی کردی ہے۔ اس بیان نے شاہی خاندان کی آنکھیں کھول دی ہیں کہ ٹرمپ نے تو امریکی معیشت اور اس کی دفاعی صنعت کا بوجھ اٹھانے کے سعودی احسان کا بھرم بھی چکنا چورکردیا ہے۔ ٹرمپ کا سعودی حکومت کو دھمکی کا مطلب یہ بھی تھا کہ وہ پاکستان کی کسی بھی قسم کی مالی مدد کرنے سے باز رہے کیونکہ سعودی حکومت نے سی پیک میں شامل ہونے اور پاکستان کو مالی امداد کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔

امریکا سی پیک میں چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے سخت ناراض ہے۔ ٹرمپ پاکستان کے خلاف اور اسرائیل و بھارت کے حق میں امریکی صدارتی منصب کو خوب خوب استعمال کررہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پہلے ہی آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرض نہ دینے کے سلسلے میں آگاہ کرچکے ہیں۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے اپنے دوسرے دورے میں سعودی حکومت سے وہ مالی مدد حاصل کرلی ہے جس کی پاکستان کو اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ضرورت تھی ۔

اس وقت صحافی جمال خوشوگی کا قتل سعودی حکومت کے لیے مغرب نے ایک بڑا مسئلہ بنادیا ہے۔ یہ صحافی واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور ایک کاروباری شخصیت تھے۔ وہ سعودی شاہی خاندان پر اکثر تنقید کرکے تیر برساتے رہتے تھے جس سے امریکی بہت خوش تھے۔

ٹرمپ نے جمال خوشقگی کے قتل کی ذمے داری سعودی شاہی خاندان پر ڈال دی ہے اور اسے اس کی سزا بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔ سعودی شاہی خاندان کے لیے ٹرمپ کی یہ دھمکی ان کی پہلی دھمکی سے بھی زیادہ سخت ہے چنانچہ سعودی حکومت نے بھی امریکا سے معاشی اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی دھمکی دی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت کو اب ایران سے بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سوچنا ہوگا۔

اس سعودی دھمکی سے امریکی محکمہ خارجہ لرز گیا اور پھر ٹرمپ کو مصالحتی بیان جاری کرنے پر مجبور کردیاگیا۔ کیونکہ اس طرح مشرق وسطیٰ میں امریکی سازشی ڈپلومیسی کے خطرے میں پڑنے کا احتمال تھا۔ ادھر اب حالات و واقعات سعودی حکومت پر امریکی سامراج کی سامراجیت کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ اب سعودی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی اسلامی بھائیوں سے دشمنی ختم کرکے انھیں گلے لگا لے اور مغربی دھوکا بازوں سے ہوشیار رہے۔
Load Next Story