الیکشن سے پہلے‘ سلیکشن کے بعد

زندگی بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ ذہن بدلنے کی دیر ہوتی ہے، لیکن وقت بدلنے میں زندگی لگ جاتی ہے۔

زندگی بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ ذہن بدلنے کی دیر ہوتی ہے، لیکن وقت بدلنے میں زندگی لگ جاتی ہے۔ ایک سردار جی نے خوبصورت ریپر میں پیک صابن کی ٹکیہ کو چاکلیٹ بار سمجھ کر خرید لیا۔ پہلا ٹکڑا ہی منہ میں ڈالا تھا کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ منہ سے جھاگ کے گولے نکلنے لگے، لیکن انھوں نے کھانا نہیں روکا۔ دوسرا ٹکڑا منہ میں ڈالا، جھاگ بہہ کر کہنیوں تک آگئی۔ وہ پھر بھی کھاتے رہے۔ ایک راہ گیر کی نظر پڑی، اس نے حیرت سے پوچھا ''سردارجی! کیا کھا رہے ہو؟'' سردار جی نے بڑے دکھ سے جواب دیا ''اپنے پیسے''۔ آج کل پاکستانی قوم بھی الیکشن پر خرچ کیے گئے پیسے کھا رہی ہے۔

اگر بھٹو صاحب کی پھانسی کو عدالتی قتل، بینکوں سے قرضے معاف کرانے کو قانونی کرپشن کہہ سکتے ہیں تو 62-63 کا ملیدہ بنانے کو آئینی دھاندلی کیوں نہیں کہہ سکتے؟ کیا جیتنے والے اور ہارنے والے مل کر دھاندلی کا نعرہ نہیں لگا رہے ہیں؟

الیکشن 2013 کے دوران چند ایسے واقعات جن کو فوراً ''ہش ہش'' کردیا گیا درج ذیل ہیں۔

1۔خیبرپختونخواہ میں کار میں لے جاتے ہوئے 90 ہزار بیلٹ پیپرز پکڑے گئے۔ الیکشن کمیشن نے وضاحت کی کہ یہ بیلٹ پیپر ایک مذہبی سیاسی جماعت نے چھپوائے تھے۔ نیت بری نہیں تھی اپنے ووٹرز کو تربیت دینا تھا۔ جب کہ اس جماعت نے اس سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیا۔2۔ کراچی میں موٹرسائیکل پر دو بیلٹ پیپر کے تھیلے لے جاتے ہوئے دیکھے گئے جس کے ساتھ الیکشن کمیشن کا آفیسر تھا نہ پولیس گارڈ۔ ویڈیو پر لے جانے والوں کے چہرے اور موٹرسائیکل کی نمبر پلیٹ صاف نظر آرہی تھی۔ 3۔MQM کی امیدوار خوش بخت شجاعت کے مطابق PTI کے عارف علوی بیلٹ بکس اپنی گاڑی میں لوڈ کرکے لے گئے۔ جس کا اعتراف عارف علوی نے بھی کیا ہے۔ 4۔FAFEN کے مدثر صدیقی کے مطابق پنجاب کے 31 پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹوں کی تعداد ووٹروں سے (سو فیصد سے لے کر 3 سو فیصد تک) زیادہ پائی گئی۔ 1 الیکشن 2013 کا سب سے بڑا انتخابی دنگل صوبہ پنجاب بنا۔ 2۔طالبان کی دھمکی کی وجہ سے پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے الیکشن مہم نہیں چلائی۔ 3۔پنجاب میں (ن)لیگ ساری حریف پارٹیوں کے اشتہاری، ہوائی، برقیاتی حملوں کی زد میں رہی۔ ن لیگ نے انتہائی حوصلے سے (اعصاب شکن دباؤ کے ہوتے ہوئے) فائٹ بیک کیا۔

ایک طرف الیکشن مہم کی ابتداء اس اعتراف سے کی گئی کہ ''ہم سے ماضی میں غلطیاں سرزد ہوئیں، ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کیا۔ آیندہ عوام ایک بدلا ہوا نواز شریف دیکھیں گے''۔ شریف برادران کی تقاریریں ملک کے آتش گیر مسائل کا ذکر اور ان کو حل کرنے کا عزم ہوتا تھا۔ عوام دوست منصوبوں کی فہرست تھی ان کو روبہ عمل لانے کے وعدے تھے۔ میگاپراجیکٹ کی تکمیل کے دعوے تھے اور ملک کی کایا پلٹنے کے ارادے اور اپنی اہلیت کے ثبوت میں پنجاب کے سابق و حاضر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی بے مثال کارکردگی۔

دوسری طرف ن لیگ پر الزامات کے چوکے چھکوں کی بارش اور مخالفین کو سونامی میں بہالے جانے کی دھمکیاں تھیں۔ کارکنوں کے ناقابل شکست جذبہ جنون پر فخر تھا۔ ایک بال پر کئی وکٹ حاصل کرنے کا دعویٰ تھا۔ ماضی کی کارکردگی کا خانہ خالی تھا۔ تیس دن میں کرپشن کے خاتمے کا عزم تھا جس کے لیے وزارت عظمیٰ کی ضرورت تھی یعنی وزارت عظمیٰ کی کرسی ایک تھی اور امیدوار دو۔

مختصراً ایک طرف برداشت، برداشت اور برداشت تھی تو دوسری طرف اوپر اللہ نیچے بلا تھا باقی اللہ اللہ خیر صلا!


ایک پاکستانی امریکا میں مقیم اپنے دوست سے موبائل پر بات کر رہا تھا ''یار! اپنے شہر کا تو حلیہ ہی تبدیل ہوگیا۔ چوڑی چوڑی سڑکیں، گرین بیلٹ، زیرزمین راستے، بالائی گزرگاہیں، خوبصورت پارک۔ جب تو پاکستان آئے گا ہر طرف تبدیلی ہی تبدیلی نظر آئے گی'' جواب میں امریکی دوست نے پوچھا ''یہ بتا صبح ناشتے میں کھاتا کیا ہے؟'' پاکستانی دوست نے جواب دیا ''وہی چائے پاپے'' امریکی دوست نے جل کر جواب دیا ''کیا خاک تبدیلی آئی ہے؟ 65 سال سے چائے میں پاپے ڈبو ڈبو کر کھا رہا ہے'' اور فون بند کردیا۔

بدقسمتی سے عمران خان کو حادثہ پیش آیا۔ اسپتال میں داخل ہوگئے۔ نواز شریف نے اس نازک موقعے پر اپنے حریف سے اظہار یک جہتی کے لیے تمام انتخابی مصروفیات منسوخ کردیں۔ اپنی فیملی کو عمران خان کی صحت یابی کے لیے دعا کرنے کی ہدایت دی۔ شہباز شریف اسپتال پہنچے تاکہ مزاج پرسی کرسکیں۔ ملنے سے معذرت کرلی گئی۔ سابق وزیر اعلیٰ رحمن ملک سے ملاقات کی۔ نواز شریف نے بھی عمران خان سے ملاقات کی اور دعائے صحت کی۔ تناؤ کے ماحول کو خوشگوار ماحول میں تبدیل کرآئے۔ لوگوں کو یقین کرنا پڑا کہ یہ پہلے والا نواز شریف نہیں ہے۔ زندگی کا ڈھب بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ صرف ذہن بدلنے کی دیر لگتی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کو یقین تھا کہ وہ سویپ کرجائے گی۔ لیکن (ن) لیگ کا ووٹ بینک محفوظ رہا۔ پیپلز پارٹی کو امید تھی کہ عمران خان اور نواز شریف کے براہ راست ٹکراؤ کے نتیجے میں نہ صرف ان کا ووٹ بینک محفوظ رہے گا بلکہ (ن) لیگ کا کچھ ''مال غنیمت'' بھی ہاتھ لگے گا۔ لیکن تحریک انصاف کا سونامی آدھی پیپلز پارٹی کو بہا لے گیا۔ اور تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی جہاں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ مرکز میں (ن) لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوچکی ہے اور میاں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔

اس وقت پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے جس کی کامیابی کا دارومدار دو باتوں پر ہے۔ 1۔معیشت کی فوری بحالی۔ 2۔دہشت گردی کا مکمل خاتمہ۔

اس وقت ملک کا وزیر اعظم ایک معروف صنعت کار ہے جو منڈی کی مندی تیزی، صنعتی ترقی کے لیے توانائی، تجارتی سرگرمیوں کے لیے پرامن ماحول کی اہمیت اور ضرورت سے اچھی طرح واقف ہے۔

دوسری طرف خیبرپختونخوا ہے جو دہشت گردی کا ہیڈکوارٹر ہے پورا ملک ہدف اور پاکستان کا معاشی حب کراچی چراگاہ ہے۔ یہاں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت ہے۔ طالبان کی نظر میں نواز شریف اور عمران خان اتنے برے نہیں ہیں جتنے پیپلز پارٹی، MQM اور ANP والے۔

یوں لگتا ہے قدرت نے نواز شریف اور عمران خان کو پاکستان کے اس نازک موڑ پر گھیر گھار کر کسی اہم مشن کے لیے اکٹھا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے جس سے جو چاہے کام لے۔ آخر سورج بھی تو گھور اندھیروں سے ہی طلوع ہوتا ہے۔ اگر ان دونوں نے (نواز شریف اور عمران خان) مولا جٹ والا رویہ ترک کرکے تدبر سے کام لیتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرکے قوم کی دعاؤں کے سہارے، پاکستان کی معیشت کی فوری بحالی اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا مشن امپاسبل (Mission Impossible) سر کرلیا تو پاکستان کی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ نہ صرف سنہری حرفوں سے لکھا جائے گابلکہ پوری قوم ان کو اپنے قلب و نظر میں چاہت کا وہ مقام عطا کرے گی جس کے آگے وزارت عظمیٰ کی کرسی کی ''قدر'' چپڑاسی کے اسٹول کے برابر ہوگی۔

کوئی اس ستم رسیدہ قوم کے لیے بھی' کچھ کرکے تو دیکھے!
Load Next Story