ڈیمز کے لیے ہم نے چندہ دیا
پہلا موقع ہمیں کارنامہ سرانجام دینے کا تب ملا تھا جب ہم نے ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ میں حسب استطاعت چندہ دیا تھا۔
آج ہم بڑے خوش ہیں کہ آخر ہم نے بھی ایک اہم قومی کام میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ ایک میسج آیا تھا کہ ڈیمز تعمیر کرنے کے لیے چندہ فلاں پتے پر بھیجا جائے اور یہ بڑا اچھا ہوا کیونکہ جب سے ڈیموں کے لیے چندے کا یہ نیک کام شرو ع ہوا ہے تب سے ہم بھی چاہتے تھے کہ اپنی طرف سے چندہ ڈال دیں لیکن معلوم نہیں تھا کہ چندہ کس کو کہاں اور کیسے دیا جائے۔
چندہ جو ہم نے ڈالا اس کی تفصیل تو ہم بعد میں بتائیں گے اور ذرا تفصیل سے بتائیں گے کیونکہ آخر اتنے بڑے کار نامے کو سرسری تو نہیں لیا جاسکتا۔ ہاں اپنی خوشی جس کا ٹھکانہ نہیں، پہلے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی میں دوسرا موقع ہے جس میں ہم سے ''کارے'' سر زد ہوا ہے۔
پہلا موقع ہمیں کارنامہ سرانجام دینے کا تب ملا تھا جب ہم نے ''قرض اتارو ملک سنوارو'' میں حسب استطاعت چندہ دیا تھا۔ کیا دن تھا وہ بھی۔ چندہ دینے کے بعد ایسا لگا جیسے ہم نے پورے ملک کو ایک عظیم بوجھ سے مکت کر دیا ہو۔ اتنی خوشی ہمیں اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب ہم باکمال ''سروس'' اور لاجواب ''لوگ'' میں حصہ دار بنے تھے۔
محترمہ بی بی بینظیر کا خوشبودار زمانہ تھا، اعلان ہوا کہ ایک دن کے لیے باکمال سروس اور لاجواب لوگ کے شیئر فروخت کیے گئے۔ ہم نے اپنے ایک دوست بینک والے کے مشورے سے ایک ہزار سکۂ رائج الوقت دے کر حصص اپنے نام کر لیے، ہمارے اس بینک والے اس دوست نے بھی ایسا کیا تھا۔
آپ یقین کریں ایسا عالم خوشی کا ہم پر طاری ہوا کہ اوپر فضاء میں ایک جہاز کو اڑتے دیکھ کر نہایت ہی انسانیت کا احساس ہو گیا بلکہ ایسا لگا جیسے اس دن وہ جہاز محض ہمیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس روٹ پر آیا ہو کیونکہ اس سے پہلے ہمیں کوئی جہاز کبھی دکھائی نہیں دیا تھا۔
اس کے بعد جب بھی ہوائی سفر کا موقع ملتا، ہم جہاز کے ہرہر پرزے کو اپنا سمجھ کر دیکھتے، یہاں تک کہ سارے ملازمین بھی اپنے اپنے دکھائی دیتے تھے، خاص طور پر ائرہوسٹسوں کو دیکھ کر یہ کہنے کو جی چاہتا تھا کہ:
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سی ہو مگر ''اپنی اپنی'' لگتی ہو
خیر یہ تو ہمارے ''ذاتی کاروبار'' کا ایک واقعہ تھا اور ایسے واقعات ہماری زندگی میں بارہا گزرے ہیں لیکن قرض اتارو ملک سنوارو میں شیئر ہولڈر ہونے کی جو خوشی تھی وہ بعد میں کبھی نہیں ملی۔ آخر ہم نے ملک کا قرض اتارا تھا، کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی اور اب یہ جو ملک اوراس کے باسی بالکل بھی ''مقروض'' نہیں ہیں اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔
اوراب ایک مرتبہ پھر:
اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
ڈیموں کی تعمیر، بجلی کی پیداوار اور زمینوں کو سیراب کرنے کی سعادت اور ہمیں؟ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ اور یہ سعادت بزور بازو وغیرہ وغیرہ کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ ہمیں بھی قوم و ملک کے یوں '' کام'' آنے کا موقع ملے گا۔ ہم تو یقین کیے بیٹھے تھے۔ قومی خدمت کے ''مواقع'' صرف لیڈروں افسروں اور تنخواہ داروں کو ملیں گے اور ہم یونہی بیٹھے رہیں گے ''تصور خدمت'' کیے ہوئے۔
یاران ''تنخوا ہ دار'' نے منزل کو جا لیا
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ بندہ پریشان تو اللہ مہربان، کسی خدا کے نیک بندے نے ایس ایم ایس کرکے ہمیں بھی ''کنٹری بیوشن'' کا موقع عطا کر دیا ہے۔ خدا اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور جنت کے حور و غلمان عطا کر دے۔ اور جلد از جلد۔ موقع تو مل گیا لیکن اب سوال یہ آپڑا کہ ہم چندے میں دیں تو کیا دیں کیونکہ ہمیں جو تنخواہ ملتی ہے اس میں آدھی تو انکم ٹیکس والے لے لیتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ جب تم بیروزگار تھے مستقل خدائی خوار تھے اورساری دنیا خصوصاً اپنے گھربار والوں کے لیے نابکار و ناہنجار تھے تو ہم نے مصلے پر بیٹھ کر راتوں کو جاگ کر پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر سنسان اندھیری راتوں کو سنسان قبرستانوں میں ''چلے'' کاٹ کر دعائیں مانگی تھیں اور جس کے نتیجے میں تمہیں ملازمت ملی اور تنخواہ دار ہوئے اس لیے ''ہمارا شکار'' ہوئے اور اس کے بعد بھی تمہاری نوکری چھن گئی، دوبارہ بیروز گار، بے کار اورخدائی خوار ہوئے۔
تو ہم تمہارے لیے پہلے کی طرح خصوع و خشوع سے دعا مانگیں اور ان اگلی پچھلی دعائوں کے عوض آدھی تنخواہ تو ہمارا حق بنتی ہے۔ اس کے بعد جو آدھی رہ جاتی ہے وہ اس زمانے میں تو مہنگائی قدو قامت میں زیادہ تھی لیکن اب مہنگائی نے نہ جانے کہاں سے کوئی دوا کھا کر اتنا بڑا قد کا ٹھ نکال لیا ہے کہ بچاری ہماری تنخواہ جب اس کی طرف دیکھتی ہے تو اس کے سر سے عزت یعنی پگڑی گر کر مہنگائی کے پاؤں پر پڑ جاتی ہے۔ بازار سودا لینے جاتے ہیں تو نرخوں کے بیچ ہماری تنخواہ یوں لگتی ہے جیسے ہاتھیوں کی ٹانگوں میں کوئی مینڈک پھدک رہا ہو لیکن یہاں بھی اللہ تعالی نے ہماری دست گیری کرتے ہوئے راستہ سمجھا دیا اور ہم نے نہایت خلوص کے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں ''چندے'' میں ڈال دیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے آپ ''دعاؤں'' کو حقیر سمجھ کر مسکرا رہے ہوں، ایسا نہ کریں کسی بھی علمائے کرام یا مشائخ عظام سے جاکر پوچھئے دعائوں کی قیمت بتا دے گا۔
آپ کو یاد ہوگا ہم نے بتایا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک بہت بڑی سرکاری توپ جب اپنی پیرنی صاحبہ کے پاس جاتے تھے توپچاس ہزار روپے نذر کر دیتے تھے اور پیرنی صاحبہ اسے دعا دے دیتی۔ اس لیے دعاؤں کو حقیر مت جانیے اور ہمارے ساتھ مل کر دعا مانگئے کہ اللہ تعالی چندے میں برکت ڈالے، جمع کرنے والوں کی نیت صاف کرے کہ وہ اس پر ہاتھ صاف نہ کریں اورسارے ڈیمز جلد از جلد تعمیر ہوں۔
چندہ جو ہم نے ڈالا اس کی تفصیل تو ہم بعد میں بتائیں گے اور ذرا تفصیل سے بتائیں گے کیونکہ آخر اتنے بڑے کار نامے کو سرسری تو نہیں لیا جاسکتا۔ ہاں اپنی خوشی جس کا ٹھکانہ نہیں، پہلے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی میں دوسرا موقع ہے جس میں ہم سے ''کارے'' سر زد ہوا ہے۔
پہلا موقع ہمیں کارنامہ سرانجام دینے کا تب ملا تھا جب ہم نے ''قرض اتارو ملک سنوارو'' میں حسب استطاعت چندہ دیا تھا۔ کیا دن تھا وہ بھی۔ چندہ دینے کے بعد ایسا لگا جیسے ہم نے پورے ملک کو ایک عظیم بوجھ سے مکت کر دیا ہو۔ اتنی خوشی ہمیں اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب ہم باکمال ''سروس'' اور لاجواب ''لوگ'' میں حصہ دار بنے تھے۔
محترمہ بی بی بینظیر کا خوشبودار زمانہ تھا، اعلان ہوا کہ ایک دن کے لیے باکمال سروس اور لاجواب لوگ کے شیئر فروخت کیے گئے۔ ہم نے اپنے ایک دوست بینک والے کے مشورے سے ایک ہزار سکۂ رائج الوقت دے کر حصص اپنے نام کر لیے، ہمارے اس بینک والے اس دوست نے بھی ایسا کیا تھا۔
آپ یقین کریں ایسا عالم خوشی کا ہم پر طاری ہوا کہ اوپر فضاء میں ایک جہاز کو اڑتے دیکھ کر نہایت ہی انسانیت کا احساس ہو گیا بلکہ ایسا لگا جیسے اس دن وہ جہاز محض ہمیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس روٹ پر آیا ہو کیونکہ اس سے پہلے ہمیں کوئی جہاز کبھی دکھائی نہیں دیا تھا۔
اس کے بعد جب بھی ہوائی سفر کا موقع ملتا، ہم جہاز کے ہرہر پرزے کو اپنا سمجھ کر دیکھتے، یہاں تک کہ سارے ملازمین بھی اپنے اپنے دکھائی دیتے تھے، خاص طور پر ائرہوسٹسوں کو دیکھ کر یہ کہنے کو جی چاہتا تھا کہ:
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سی ہو مگر ''اپنی اپنی'' لگتی ہو
خیر یہ تو ہمارے ''ذاتی کاروبار'' کا ایک واقعہ تھا اور ایسے واقعات ہماری زندگی میں بارہا گزرے ہیں لیکن قرض اتارو ملک سنوارو میں شیئر ہولڈر ہونے کی جو خوشی تھی وہ بعد میں کبھی نہیں ملی۔ آخر ہم نے ملک کا قرض اتارا تھا، کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی اور اب یہ جو ملک اوراس کے باسی بالکل بھی ''مقروض'' نہیں ہیں اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔
اوراب ایک مرتبہ پھر:
اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
ڈیموں کی تعمیر، بجلی کی پیداوار اور زمینوں کو سیراب کرنے کی سعادت اور ہمیں؟ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ اور یہ سعادت بزور بازو وغیرہ وغیرہ کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ ہمیں بھی قوم و ملک کے یوں '' کام'' آنے کا موقع ملے گا۔ ہم تو یقین کیے بیٹھے تھے۔ قومی خدمت کے ''مواقع'' صرف لیڈروں افسروں اور تنخواہ داروں کو ملیں گے اور ہم یونہی بیٹھے رہیں گے ''تصور خدمت'' کیے ہوئے۔
یاران ''تنخوا ہ دار'' نے منزل کو جا لیا
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ بندہ پریشان تو اللہ مہربان، کسی خدا کے نیک بندے نے ایس ایم ایس کرکے ہمیں بھی ''کنٹری بیوشن'' کا موقع عطا کر دیا ہے۔ خدا اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور جنت کے حور و غلمان عطا کر دے۔ اور جلد از جلد۔ موقع تو مل گیا لیکن اب سوال یہ آپڑا کہ ہم چندے میں دیں تو کیا دیں کیونکہ ہمیں جو تنخواہ ملتی ہے اس میں آدھی تو انکم ٹیکس والے لے لیتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ جب تم بیروزگار تھے مستقل خدائی خوار تھے اورساری دنیا خصوصاً اپنے گھربار والوں کے لیے نابکار و ناہنجار تھے تو ہم نے مصلے پر بیٹھ کر راتوں کو جاگ کر پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر سنسان اندھیری راتوں کو سنسان قبرستانوں میں ''چلے'' کاٹ کر دعائیں مانگی تھیں اور جس کے نتیجے میں تمہیں ملازمت ملی اور تنخواہ دار ہوئے اس لیے ''ہمارا شکار'' ہوئے اور اس کے بعد بھی تمہاری نوکری چھن گئی، دوبارہ بیروز گار، بے کار اورخدائی خوار ہوئے۔
تو ہم تمہارے لیے پہلے کی طرح خصوع و خشوع سے دعا مانگیں اور ان اگلی پچھلی دعائوں کے عوض آدھی تنخواہ تو ہمارا حق بنتی ہے۔ اس کے بعد جو آدھی رہ جاتی ہے وہ اس زمانے میں تو مہنگائی قدو قامت میں زیادہ تھی لیکن اب مہنگائی نے نہ جانے کہاں سے کوئی دوا کھا کر اتنا بڑا قد کا ٹھ نکال لیا ہے کہ بچاری ہماری تنخواہ جب اس کی طرف دیکھتی ہے تو اس کے سر سے عزت یعنی پگڑی گر کر مہنگائی کے پاؤں پر پڑ جاتی ہے۔ بازار سودا لینے جاتے ہیں تو نرخوں کے بیچ ہماری تنخواہ یوں لگتی ہے جیسے ہاتھیوں کی ٹانگوں میں کوئی مینڈک پھدک رہا ہو لیکن یہاں بھی اللہ تعالی نے ہماری دست گیری کرتے ہوئے راستہ سمجھا دیا اور ہم نے نہایت خلوص کے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں ''چندے'' میں ڈال دیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے آپ ''دعاؤں'' کو حقیر سمجھ کر مسکرا رہے ہوں، ایسا نہ کریں کسی بھی علمائے کرام یا مشائخ عظام سے جاکر پوچھئے دعائوں کی قیمت بتا دے گا۔
آپ کو یاد ہوگا ہم نے بتایا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک بہت بڑی سرکاری توپ جب اپنی پیرنی صاحبہ کے پاس جاتے تھے توپچاس ہزار روپے نذر کر دیتے تھے اور پیرنی صاحبہ اسے دعا دے دیتی۔ اس لیے دعاؤں کو حقیر مت جانیے اور ہمارے ساتھ مل کر دعا مانگئے کہ اللہ تعالی چندے میں برکت ڈالے، جمع کرنے والوں کی نیت صاف کرے کہ وہ اس پر ہاتھ صاف نہ کریں اورسارے ڈیمز جلد از جلد تعمیر ہوں۔