عام آدمیکل آج اور کل

تبصرے اور تقابل سے بات کا وہ مزا جاتا رہے گا جو اس ’’تکرار‘‘ کی اصل وجہ ہے۔

Amjadislam@gmail.com

یہ 1984ء کی بات ہے میں نے اس زمانے کے ایک اہم اور منفرد اخبار ''امروز'' میں ''چشم تماشا'' ہی کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ اس وقت کا لکھا ہوا ایک کالم ''عام آدمی'' ایک کام کے سلسلے میں آج اچانک میری نظر سے گزرا تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ ان درمیان کے 34 برسوں پر نظر ڈال کر ایک بار پھر اس عام آدمی کے گزشتہ اور آنے والے کل کو دیکھا جائے کہ آج کل اس ''مخلوق'' کا ذکر بہت کثرت سے کیا جا رہا ہے، آنے والے وقت اور غیب کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس کالم کی حد تک ''عام آدمی'' اب اپنے ''آیندہ'' میں جی رہا ہے۔

تبصرے اور تقابل سے بات کا وہ مزا جاتا رہے گا جو اس ''تکرار'' کی اصل وجہ ہے، سو میں صرف اس تحریر کے چند حصے یہاں نقل کردیتا ہوں۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں، میں کالم میں اپنے لیے ''میں'' کے بجائے ''ہم'' کا صیغہ استعمال کیا کرتا تھا۔ سو اسے کمپوزنگ کی غلطی نہ سمجھئے گا البتہ عام آدمی کا ہم سے میں تک آنا اپنی جگہ پر ایک دلچسپ اور غور طلب نکتہ ہے۔

''عام آدمی وہ ہوتے ہیں جن میں خاص آدمیوں والی کوئی بات نہ پائی جاتی ہو۔ ان کی ایک اور پہچان یہ ہے کہ یہ کسی بھی نظام میں ہوں ہمیشہ کثرت سے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود کبھی ''اکثریت'' نہیں بن پاتے، ان کو طاقت کا سرچشمہ بھی کہا جاتا ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ان سرچشموں کی جگہ خاص آدمی پلانٹ لگا کر بجلی گھر بنالیتے ہیں جن سے ان کے بنگلوں میں روشنی، ایئرکنڈیشنروں اور فریجوں میں ٹھنڈک اور ہیٹروں میں گرمی رہتی ہے۔ اس سارے عمل سے جو کچھ بچتا ہے وہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں عام آدمی کے حصے میں آتا ہے۔ عام آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس کے باوجود بھی خوش رہتا ہے۔''

''عام آدمی کو تالیاں بجانے کا بہت شوق ہوتا ہے وہ مداری کے تماشے سے لے کر سیاسی جلسے تک ہر جگہ موجود رہتا ہے، مداری بچے کی زبان کاٹ رہا ہو یا سیاسی لیڈر آزادی تقریر کا مطالبہ کررہا ہو یہ دونوں کو تالی بجا کر داد دیتا ہے۔ عام آدمی کوئی نئی دریافت یا ایجاد نہیں۔ یہ صدیوں سے کرۂ ارض پر پایا جاتا ہے، اس میں تاریخ کے شعور اور تاریخ دان سے پی آر (PR) کی ہمیشہ کمی رہی ہے اس لیے تاریخ کی کتابوں میں اس کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں عام آدمی کا کوئی نام نہیں ہوتا، وہاں اسے ہمیشہ ہندسوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ سکندراعظم کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر تھا، دوسری جنگ عظیم میں چار لاکھ آدمی مارے گئے اور یہ کہ ملکہ کی تاجپوشی کی تقریب میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ عام آدمی کو ٹی وی کیمرہ ہمیشہ لانگ شاٹ میں ہجوم کے حصے کے طور پر دکھاتا ہے، عام آدمی کا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہوتا، اس کی شناخت اس کا ہجوم اور اس کی آواز اس ہجوم کا شور ہوتا ہے۔ عام آدمی کی سمجھ میں بہت سی باتیں نہیں آتیں، اس لیے وہ سوال بہت پوچھتا ہے۔ عام طور پر اس کے ان سوالات کو اَن سنا کر دیا جاتا ہے۔ زیادہ ڈھیٹ قسم کے عام آدمیوں کے منہ میں ٹافی یا لالی پاپ دے کر انھیں خاموش کرا دیا جاتا ہے جو عام آدمی اس کے باوجود بولنے سے باز نہ آئے اس کے لیے ایسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں کہ زیادہ عام آدمی نہیں رہتا یا اس کے نام سے عام آدمی کا تعارف کٹ جاتا ہے۔ عام آدمی کے بارے میں یہ ساری باتیں دراصل ہمیں بجٹ کے حوالے سے یاد آئی ہیں۔ ہر برس کی طرح اس بار بھی بجٹ کے بارے میں یہ دل خوش کن اطلاع دی گئی ہے کہ اس کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑیگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ بنانے والوں کے نزدیک عام آدمی کے گھر میں گیس نہیں ہوتی، (پیٹ کی گیس کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، اس لیے اسے بدستور قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اپنی سواری رکھنا تو دور کی بات ہے، کرائے کی بھی پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑی میں یہ نہیں بیٹھتا اور گرمی میں اپنے یا مہمان کے لیے کوئی ٹھنڈا مشروب بھی اس کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔''

''پچھلے دنوں ہم نے ایک ویگن کے پیچھے کسی عام شاعر کا لکھا ہوا شعر پڑھا تھا؎

لوگ ہم سے ملتے اور وچھڑتے رہیں گے

اسٹیشن سے ساندہ کلاں ہم چلتے رہیں گے

اب آپ ہی بتایے اس کولہو کے بیل کی سی سوچ رکھنے والے کی رائے یا شکایت پر آدمی کیسے کان دھرے، نہ نثر کا خیال اچھا ہے نہ اس کا وزن ٹھیک ہے۔ اب اگر یہاں اس کی جگہ کوئی خاص آدمی ہوتا تو وہ یہی بات یوں کہتا کہ ؎


ہر روز، روزِ عید ہے، ہر شب، شب برأت

سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کر

آسکروائلڈ نے ایک جگہ لکھا ہے:

''Some People are wise and the others are otherwise''

مغرب کی طرح سوشلسٹ دنیا میں بھی انسانی برابری کے دعوئوں کے پیچھے یہی تفریق کارفرما ہے۔ وہاں بھی سب لوگوں کو Equal کہا جاتا ہے مگر کچھ لوگ More Equal ہوتے ہیں، ہم باری باری ان دونوں دنیائوں کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ کھیل کے اس میدان میں جسے دنیا کہتے ہیں ہم بھی ہجوم میں بیٹھے ہوئے عام اور گمنام آدمی سے مختلف نہیں جس پر سے ٹی وی کیمرہ رکے بغیر گزر جاتا ہے۔''

''ایک معمہ جو گزشتہ کئی برسوں سے حل نہیں ہو پا رہا۔ آج ہم اس کالم کے ذریعے اپنے جیسے عام آدمیوں کے علاوہ ان خاص آدمیوں کی خدمت میں بھی پیش کرتے ہیں جو اسے حل کرسکتے ہیں یا کم از کم اس راز سے پردہ اٹھاسکتے ہیں۔ The Massage نامی ایک فلم چند برس پیشتر لیبیا کے ایک نوجوان مسلمان فلم ساز اور ہدایت کار مصطفے عکاد نے بنائی تھی۔ ہمیں یہ فلم دیکھنے کا موقع ملا ہے اور ہم پوری ایمانداری سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مولوی حضرات سے ہم نے پوری زندگی میں اسلام کے بارے میں جو کچھ جانا اور سمجھا ہے یہ اکیلی فلم اپنی معلومات، تبلیغ اور اثر آفرینی کے اعتبار سے اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اسلام نے اس زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کی زندگی میں کیا معیاری تبدیلی پیدا کی ہے، آدمی اور انسان کے درمیان کا فاصلہ کس طرح ایک جست میں طے کیا ہے، انسانی مساوات اور اجتماعی خیر کے تصورات کو کس طرح عملی شکل دی ہے، غلاموں کو کیسے آقائوں کا ہم سر کیا ہے اور عفو ودرگزر کے سلسلے میں کیا عظیم اور بے مثال سبق دیا ہے۔ ان سب باتوں کو اس تین گھنٹے کی فلم میں جس طرح سمویاگیا ہے وہ یقینا قابل داد ہے۔ اس کے باوجود اسلامی ملک پاکستان میں اس کی نمائش پر پابندی ہے۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اسلام نے عام اور خاص آدمی میں جو فرق ختم کیا تھا، اس فلم میں اس کا عملی نمونہ دکھایا گیا ہے۔

ہمارا دل کہتا ہے کہ ایسی بات نہیں ہے مگر دماغ کا کیا کریں کہ یہ کم بخت وجہ جاننا چاہتا ہے۔ ہمارا مشورہ یہ کہ اس صورتحال کو ختم کرنے کے لیے اگلے بجٹ میں عام آدمی کی بہتری کے لیے اس کے دماغ پر کوئی ایسا ٹیکس لگایا جائے کہ اسے ایسے سوال کرنے کا حوصلہ ہی نہ پڑے۔ ہمیں یقین ہے کہ عام آدمیوں کے نمایندے حکومت کے اس بروقت اقدام کی حسب سابق بے حد تعریف کریں گے۔ آزمائش شرط ہے۔
Load Next Story