200 طالبات ٹیچر کوئی نہیں
کراچی سندھ کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ملک کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر بھی ہے
نئی تعینات پرنسپل کا کہنا ہے کہ جب میں نے کالج میں قدم رکھا تو عجیب صورت حال تھی، کالج کی عمارت تو بڑی شاندار تھی لیکن کالج کا بجلی کا بل تقریباً 32 لاکھ تھا جو ادا نہیں کیا گیا تھا، ہم تمام صورتحال سے متعلقہ ریجنل ڈائریکٹر کو آگاہ کر چکے ہیں، ایک طالبہ نے کہا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ مجھے اس کالج میں داخلہ ملا ہے تو میں بے حد خوش ہوئی، لیکن جب میں کالج میں آئی تو حیرت ہوئی، کالج میں نہ بجلی، نہ گیس، بجلی گیس تو چھوڑیے کالج میں ایک بھی ٹیچر نہیں، پرنسپل صاحبہ ہی پڑھا رہی تھیں۔ اب ہنگامی بنیاد پر کچھ ریٹائرڈ پروفیسرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو 200 طالبات کو مشکل سے پڑھا رہے ہیں۔
یہ حال سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کا ہے جہاں وزیراعلیٰ بھی رہتا ہے، وزیر تعلیم بھی اور گورنر بھی۔ اس شہر میں اگر 200 طالبات ایک سال سے بغیر کسی ٹیچر کے وقت گزاری کر رہی ہیں تو یہ متعلقہ حکام کے ڈوب مرنے کا وقت ہے اور تعلیمی محکمے کی انتظامیہ کی کارکردگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال بھر سے کالج میں نہ بجلی ہے، نہ گیس اور اس پر بجلی کا 32 لاکھ کا بل چڑھا ہوا ہے۔ تعلیم سب سے اہم شعبہ ہوتا ہے، اس شعبے کا یہ حال ہے۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ملک کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر بھی ہے جہاں ڈھائی کروڑ انسان رہتے ہیں، جن میں ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں کے باشندے بھی شامل ہیں۔ اس ملک کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کی ایک خبر کے مطابق شہر کے ایک مشہور کالج میں جہاں 200 طالبات داخل ہیں لیکن اس کالج میں ایک بھی استاد نہیں، یہ کالج ایک سال پہلے قائم ہوا تھا۔ یہ 200 طالبات پر مشتمل کالج ایک سال سے بغیر کسی ایک ٹیچر کے چل رہا ہے، طالبات اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق ایک دوسرے کو پڑھا رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محکمہ تعلیم کے علم میں یہ بات نہیں کہ 200 طالبات پر مشتمل یہ کالج ایک سال سے بغیر استاد کے چل رہا ہے۔ کیا محکمہ تعلیم میں اس قدر لائق اور باخبر لوگ ہیں کہ ان کی ناک کے نیچے 200 طالبات پر مشتمل کالج بغیر کسی استاد کے ایک سال سے رن کر رہا ہے اور متعلقہ حکام کو اس کی خبر ہی نہیں۔ خبر کے مطابق کالج کی یہی صورتحال ہے۔ کالج میں نہ بجلی ہے نہ گیس، محکمہ کالجز نے اسی سال فروری میں کالج کی پرنسپل کا تقرر کر دیا ہے۔
ہمارا ملک پسماندہ ملکوں میں بھی پسماندہ ترین ہے، ہمارے ملک میں اسکول اور کالج جانے والے بچوں اور بڑوں کی تعداد اور شرح تعلیم پسماندہ ملکوں سے کم ہے، اسکول جانے والے ایک کروڑ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر میں پھنسے ہوئے ہیں، لاکھوں بچے پرائمری ہی سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں، اعلیٰ تعلیم غریب عوام کے لیے خواب و خیال کی بات ہے۔ سرکاری اسکولوں کے نام پر جو دھرم شالے کھلے ہوئے ہیں ان دھرم شالوں سے بچے تعلیم یافتہ ہوکر نہیں نکلتے بلکہ بری عادتوں کے ساتھ باہر آتے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد گٹکے اور شیشے جیسے علتوں میں پھنسی ہوئی ہے۔
ہماری آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ دیہات میں رہتا ہے اور دیہی عوام وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دنیا کے وہ ملک ہی ترقی کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں جن کی نوجوان نسلیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں، خصوصاً جدید علوم سے، اس کے مقابلے میں ہماری تعلیمی حالت کس قدر خستہ ہے اس کا ایک سرسری ذکر کیا گیا ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام قیام پاکستان کے بعد ہی سے دہرا ہے، ایک نظام غریبوں کے لیے، دوسرا امرا کے لیے۔ جب تک یہ دہرا نظام تعلیم ختم نہیں ہو گا مریم مختار کالج کی 200 طالبات لاوارث ہی رہیں گی۔
آج کل ملک بھر میں ایلیٹ کی اربوں کھربوں کی کرپشن کی داستانیں گونج رہی ہیں۔ یہ کوئی نئے کارنامے نہیں ہیں، یہ 71 سال سے دہرائے جا رہے ہیں۔ہماری اشرافیہ کرپشن میں دنیا کی ماہر ترین اشرافیہ ہے، ان کی کرپشن ملک بھر میں سورج کی طرح چمک رہی ہے لیکن بددیانت اشرافیہ اس پر دھول اڑانے کی کوشش کر رہی ہے، قانون ساز اداروں میں دن کے اجالوں میں ایسے سفید جھوٹ دھڑلے سے بولے جا رہے ہیں جنھیں سن کر ناخواندہ لوگ بھی ہنس دیتے ہیں۔ کرپٹ لوگوں میں حکمران اور اپوزیشن ہی نہیں رہی بلکہ یہ ایک پورا مراعات یافتہ طبقہ ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر اربوں کی کرپشن کر رہا ہے اور قانون ساز اداروں میں دھڑلے سے جھوٹ بول کر سادہ لوح عوام کو دھوکا دے رہا ہے۔
پاکستان میں قانون کے ذریعے کرپشن کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ناممکن ہے، اگر کرپشن کو روکنا ہے تو عوام کے ذہنوں کو علم کی روشنی سے منور کرنا ہو گا۔ کالج کی دو سو طالبات اور دیہات میں رہنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ طبقاتی شعور سے لیس کرنا ہوگا۔ علم اور طبقاتی شعور وہ ہتھیار ہے جو نہ صرف کرپشن کو جہنم رسید کرے گا بلکہ اشرافیہ کے بددیانت عوام دشمن حیوانوں سے معاشرے کو نجات دلائے گا۔
یہ حال سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کا ہے جہاں وزیراعلیٰ بھی رہتا ہے، وزیر تعلیم بھی اور گورنر بھی۔ اس شہر میں اگر 200 طالبات ایک سال سے بغیر کسی ٹیچر کے وقت گزاری کر رہی ہیں تو یہ متعلقہ حکام کے ڈوب مرنے کا وقت ہے اور تعلیمی محکمے کی انتظامیہ کی کارکردگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال بھر سے کالج میں نہ بجلی ہے، نہ گیس اور اس پر بجلی کا 32 لاکھ کا بل چڑھا ہوا ہے۔ تعلیم سب سے اہم شعبہ ہوتا ہے، اس شعبے کا یہ حال ہے۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ملک کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر بھی ہے جہاں ڈھائی کروڑ انسان رہتے ہیں، جن میں ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں کے باشندے بھی شامل ہیں۔ اس ملک کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کی ایک خبر کے مطابق شہر کے ایک مشہور کالج میں جہاں 200 طالبات داخل ہیں لیکن اس کالج میں ایک بھی استاد نہیں، یہ کالج ایک سال پہلے قائم ہوا تھا۔ یہ 200 طالبات پر مشتمل کالج ایک سال سے بغیر کسی ایک ٹیچر کے چل رہا ہے، طالبات اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق ایک دوسرے کو پڑھا رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محکمہ تعلیم کے علم میں یہ بات نہیں کہ 200 طالبات پر مشتمل یہ کالج ایک سال سے بغیر استاد کے چل رہا ہے۔ کیا محکمہ تعلیم میں اس قدر لائق اور باخبر لوگ ہیں کہ ان کی ناک کے نیچے 200 طالبات پر مشتمل کالج بغیر کسی استاد کے ایک سال سے رن کر رہا ہے اور متعلقہ حکام کو اس کی خبر ہی نہیں۔ خبر کے مطابق کالج کی یہی صورتحال ہے۔ کالج میں نہ بجلی ہے نہ گیس، محکمہ کالجز نے اسی سال فروری میں کالج کی پرنسپل کا تقرر کر دیا ہے۔
ہمارا ملک پسماندہ ملکوں میں بھی پسماندہ ترین ہے، ہمارے ملک میں اسکول اور کالج جانے والے بچوں اور بڑوں کی تعداد اور شرح تعلیم پسماندہ ملکوں سے کم ہے، اسکول جانے والے ایک کروڑ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر میں پھنسے ہوئے ہیں، لاکھوں بچے پرائمری ہی سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں، اعلیٰ تعلیم غریب عوام کے لیے خواب و خیال کی بات ہے۔ سرکاری اسکولوں کے نام پر جو دھرم شالے کھلے ہوئے ہیں ان دھرم شالوں سے بچے تعلیم یافتہ ہوکر نہیں نکلتے بلکہ بری عادتوں کے ساتھ باہر آتے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد گٹکے اور شیشے جیسے علتوں میں پھنسی ہوئی ہے۔
ہماری آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ دیہات میں رہتا ہے اور دیہی عوام وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دنیا کے وہ ملک ہی ترقی کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں جن کی نوجوان نسلیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں، خصوصاً جدید علوم سے، اس کے مقابلے میں ہماری تعلیمی حالت کس قدر خستہ ہے اس کا ایک سرسری ذکر کیا گیا ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام قیام پاکستان کے بعد ہی سے دہرا ہے، ایک نظام غریبوں کے لیے، دوسرا امرا کے لیے۔ جب تک یہ دہرا نظام تعلیم ختم نہیں ہو گا مریم مختار کالج کی 200 طالبات لاوارث ہی رہیں گی۔
آج کل ملک بھر میں ایلیٹ کی اربوں کھربوں کی کرپشن کی داستانیں گونج رہی ہیں۔ یہ کوئی نئے کارنامے نہیں ہیں، یہ 71 سال سے دہرائے جا رہے ہیں۔ہماری اشرافیہ کرپشن میں دنیا کی ماہر ترین اشرافیہ ہے، ان کی کرپشن ملک بھر میں سورج کی طرح چمک رہی ہے لیکن بددیانت اشرافیہ اس پر دھول اڑانے کی کوشش کر رہی ہے، قانون ساز اداروں میں دن کے اجالوں میں ایسے سفید جھوٹ دھڑلے سے بولے جا رہے ہیں جنھیں سن کر ناخواندہ لوگ بھی ہنس دیتے ہیں۔ کرپٹ لوگوں میں حکمران اور اپوزیشن ہی نہیں رہی بلکہ یہ ایک پورا مراعات یافتہ طبقہ ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر اربوں کی کرپشن کر رہا ہے اور قانون ساز اداروں میں دھڑلے سے جھوٹ بول کر سادہ لوح عوام کو دھوکا دے رہا ہے۔
پاکستان میں قانون کے ذریعے کرپشن کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ناممکن ہے، اگر کرپشن کو روکنا ہے تو عوام کے ذہنوں کو علم کی روشنی سے منور کرنا ہو گا۔ کالج کی دو سو طالبات اور دیہات میں رہنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ طبقاتی شعور سے لیس کرنا ہوگا۔ علم اور طبقاتی شعور وہ ہتھیار ہے جو نہ صرف کرپشن کو جہنم رسید کرے گا بلکہ اشرافیہ کے بددیانت عوام دشمن حیوانوں سے معاشرے کو نجات دلائے گا۔