6 خلیجی ممالک کا فوجی اتحاد بنانے کا فیصلہ
عرب نیٹو میں خلیجی ممالک بحرین، کویت، عُمان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یمن شامل ہوں گے۔
عرب میڈیا کے مطابق بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ نے کہا ہے کہ 6 خلیجی ممالک نے خطے کے تحفظ کے لیے عرب نیٹو بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے جسے آیندہ برس تک تشکیل دے دیا جائے گا۔ عرب نیٹو میں خلیجی ممالک بحرین، کویت، عُمان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یمن شامل ہوں گے۔
بحرین کے وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ عرب نیٹو میں مصر کی شمولیت بھی متوقع ہے اس طرح یہ سات ممالک پر مشتمل ایک سیکیورٹی فورس ہوگی۔ عرب نیٹو کے قیام کا فیصلہ مشرق وسطیٰ سے متعلق حکمت عملی وضع کرنے والے اتحاد ''میسا'' کی تجویز پر کیا گیا۔
بحرین نے خلیجی ممالک کے جس اتحاد کی بات کی ہے وہ بظاہر بہت اعلیٰ خیال ہے' مشرق وسطیٰ اور اس خطے کے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے' اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خلیجی ممالک عسکری اعتبار سے محفوظ اور مضبوط ہوں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بحرینی وزیر خارجہ نے جس عرب نیٹو اتحاد کی بات کی ہے' اس میں یمن کو بھی شامل کیا گیا ہے جب کہ قطر اس اتحاد میں شامل نہیں ہے۔
یمن کے حالات سب کے سامنے ہیں' اس اتحاد میں یمن کی نمایندگی کون سا گروپ کرے گا' وہ بھی واضح ہے' یوں دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ یمن برائے نام ہی اس اتحاد میں اپنا کردار ادا کرے گا جب کہ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے باہمی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ برس خلیجی ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی معاونت کا الزام عائد کر کے سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے۔ واضح رہے کہ مڈل ایسٹ اسٹرٹیجک الائنس ''میسا'' کا قیام خطے میں ایران کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔
اس الائنس کو امریکا کی حمایت حاصل رہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس جولائی میں اس الائنس کو عرب نیٹو کا نام دیا تھا۔ جمال خشوگی کے قتل کے بعد امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت واضح نہیں ہے' ادھر اس مجوزہ اتحاد میں ایران' عراق' اردن اور شام بھی شامل نہیں ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو صورت حال خاصی پیچیدہ اور پراسرار نظر آتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ امیر عرب ممالک کو اپنے دفاع کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
خلیجی عرب ممالک کے پاس دولت بھی موجود ہے اور وہاں انفرااسٹرکچر بھی موجود ہے لیکن ان کی دفاعی صلاحیت خاصی کمزور ہے' اس صورت حال کو دیکھا جائے تو خلیجی عرب ملکوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ اس خطے میں پراکسی جنگ کو ختم کیا جا سکے۔
عرب ملکوں کو اپنے معاملات باہمی افہام و تفہیم سے ہی حل کرنے چاہئیں اور یہی پورے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا واحد راستہ ہے۔ اگر ان کے اختلافات جاری رہے تو اس کا تمام تر فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا۔ اب جو صورت حال ہے اس کا بھی فائدہ اسرائیل کو ہی پہنچ رہا ہے۔
بحرین کے وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ عرب نیٹو میں مصر کی شمولیت بھی متوقع ہے اس طرح یہ سات ممالک پر مشتمل ایک سیکیورٹی فورس ہوگی۔ عرب نیٹو کے قیام کا فیصلہ مشرق وسطیٰ سے متعلق حکمت عملی وضع کرنے والے اتحاد ''میسا'' کی تجویز پر کیا گیا۔
بحرین نے خلیجی ممالک کے جس اتحاد کی بات کی ہے وہ بظاہر بہت اعلیٰ خیال ہے' مشرق وسطیٰ اور اس خطے کے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے' اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خلیجی ممالک عسکری اعتبار سے محفوظ اور مضبوط ہوں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بحرینی وزیر خارجہ نے جس عرب نیٹو اتحاد کی بات کی ہے' اس میں یمن کو بھی شامل کیا گیا ہے جب کہ قطر اس اتحاد میں شامل نہیں ہے۔
یمن کے حالات سب کے سامنے ہیں' اس اتحاد میں یمن کی نمایندگی کون سا گروپ کرے گا' وہ بھی واضح ہے' یوں دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ یمن برائے نام ہی اس اتحاد میں اپنا کردار ادا کرے گا جب کہ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے باہمی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ برس خلیجی ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی معاونت کا الزام عائد کر کے سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے۔ واضح رہے کہ مڈل ایسٹ اسٹرٹیجک الائنس ''میسا'' کا قیام خطے میں ایران کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔
اس الائنس کو امریکا کی حمایت حاصل رہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس جولائی میں اس الائنس کو عرب نیٹو کا نام دیا تھا۔ جمال خشوگی کے قتل کے بعد امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت واضح نہیں ہے' ادھر اس مجوزہ اتحاد میں ایران' عراق' اردن اور شام بھی شامل نہیں ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو صورت حال خاصی پیچیدہ اور پراسرار نظر آتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ امیر عرب ممالک کو اپنے دفاع کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
خلیجی عرب ممالک کے پاس دولت بھی موجود ہے اور وہاں انفرااسٹرکچر بھی موجود ہے لیکن ان کی دفاعی صلاحیت خاصی کمزور ہے' اس صورت حال کو دیکھا جائے تو خلیجی عرب ملکوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ اس خطے میں پراکسی جنگ کو ختم کیا جا سکے۔
عرب ملکوں کو اپنے معاملات باہمی افہام و تفہیم سے ہی حل کرنے چاہئیں اور یہی پورے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا واحد راستہ ہے۔ اگر ان کے اختلافات جاری رہے تو اس کا تمام تر فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا۔ اب جو صورت حال ہے اس کا بھی فائدہ اسرائیل کو ہی پہنچ رہا ہے۔