چوروں کے غار کا پتہ چل گیا
علی بابا نے بھی جب چالیس چوروں کے غار کا پتہ پایااور ’’سم سم‘‘ کاکوڈ سیکھا توغار میں پڑی ہوئی دولت نے اسے شکار کرلیا۔
بزرگوں کی یہ بات ہم نے گانٹھ باندھی ہوئی ہے کہ ''افسر '' کے آگے اور گھوڑے کے پیچھے سے ہر گز نہیں گزرنا چاہیے ۔ بلکہ ہم نے اس پر تھوڑا سا اضافہ بھی کیا ہوا ہے کہ صرف گھوڑا ہی نہیں بلکہ ہر اس جانور کے پیچھے سے نہیں گزرنا چاہیے جس کے نام میں '' گ '' آتا ہو۔
مثلاً گائے اور اور وہ جو گاڑی میں بطور انجن استعمال کیے جاتے ہیں جو لاہور ، پشاور،کوئٹہ اور کراچی کا خاصا مرغوب جانور ہے، آگے سے گزرنے والے تواس میں بھی اب بہت سارے '' جاندار '' شامل ہو چکے ہیں، تفصیل تو ہم سنا نہیں پائیں گے کیونکہ ایک تو ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے، سیاست انتخابات اور جمہوریت کی وجہ سے اور پھر آج کل ان میں پڑھے لکھے بھی بہت ہیں، اس لیے منہ نہ لگناہی بہتر ہے،کیا خبر پڑھ کر ان میں سے اندر کا ''وڈیرہ'' جاگ پڑے اس لیے کھل کر نہ لکھ پائیں گے لیکن ان ہی میں سے ایک نے جن کے آگے پیچھے تو کیا قریب سے بھی گزرنا خطرناک ہے اپنے بیان میں بہت ہی زبردست بات کہی ہے۔
فرماتے ہیں کہ ہم بہت جلد وہ بیرونی دولت لے آئیں گے جو چور لوگ لوٹ کر ''غاروں '' میں چھپائے ہوئے ہیں ۔ گویا ان کا ارادہ '' علی بابا '' بننے کا ہے ۔ ٹھیک ہے بن جایئے لیکن احتیاط کی بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ یہ دولت ظالم چیز ہی ایسی ہے کہ بندے کو علی بابا کر دیتی ہے۔
علی بابا نے بھی جب چالیس چوروں کے غار کا پتہ پایا اور '' سم سم '' کا کوڈ سیکھا تو غار میں پڑی ہوئی دولت نے اسے شکار کر لیا۔ اور وہ اسے حقداروں اور مالکوں تک پہنچانے کے بجائے اپنا گدھا بار کرکے اپنے گھر لے آیا اور اپنی مرجینا کے ساتھ رنگ رلیاں بلکہ '' دولت ملیاں '' منانے لگا ۔ اور جن کو لوٹ لوٹ کر وہ دولت جمع کی گئی تھی وہ بدستور سو کھے ہونٹوں سیٹیاں بجاتے رہے ۔ یہ توہم نے محض احتیاط برتنے کے لیے کہا ہے لیکن اس سے بھی پہلے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کون بنے گا کروڑ پتی کی طرز پر۔ کون بنے گا علی بابا ؟
اور پھر یہ کہانی بھی صرف '' دولفظوں '' یعنی '' سم سم '' میں بیاں نہ ہو پائے گی ۔ کہ یہ ستر سالہ پرانی پریم کہانی ہے جو بہت زیادہ مشکل ہے
تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل
دو لفظوں میں بیاں نہ ہو پائے گی
صرف مشکل ہی نہیں بلکہ پھیلی ہوئی بھی بہت ہے کیونکہ یہ وہ پرانا دور نہیں کہ چور بھی سادہ تھے اور ان کا کوڈ بھی صرف '' سم سم '' تھا، یہ الیکٹرانک بلکہ میگنیٹک بلکہ مائیکرو میگنیٹک دور ہے ۔ بڑے پیچیدہ قسم کے '' کوڈ '' بنائے جا چکے ہیں، صرف دروازے ہی نہیں بلکہ '' غاروں '' کے درو دیوار بھی الیکٹرانک اور میگنیٹک ہو چکے ہیں ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہفت خواں سر کرنا ہے جو علی بابا کے بس کا نہیں رستم کاکام ہے اور ''رستم '' بننے کے لیے اپنے '' بیٹے '' کو بھی اپنے ہاتھوں سے مارنا پڑتا ہے۔ علی بابا کا کیا ہے، ایک گدھا اور ایک کلہاڑی لے کر پھرنے سے بھی آدمی علی بابا بن جاتا ہے۔ ایک مرجینا ہے، وہ بھی ٹرائی ٹرائی اگین کرنے سے آخر کار مل ہی جاتی ہے ۔
لیکن بہت بڑی دشواری اور بھی ہے، ہمیں فی الحال جو علی بابا دستیاب ہو سکتا ہے یا جس کو بنایا جا سکتا ہے یا وہ خود بھی بننے کی خواہش رکھتا ہے، اس میں باقی تو بہت ساری خوبیاں ہیں لیکن ایک قباحت یہ ہے کہ بھلکڑ بہت ہے، ابھی ابھی جو کہتا ہے وہ تھوڑی دیر بعد بھولتا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو خود غصے میں آجاتا ہے پوچھتا ہے،کس نے کہا ہے ۔ یاد دلایئے کہ آپ نے کہا ہے تو لال پیلا ہو کر صاف مکر جاتا ہے، ادھر کہنے سے بھی باز نہیں آتا، کہتا جاتا ہے اور بھولتا جاتا ہے، بھولتا جاتا ہے ۔اور کہتا جاتا ہے اگر نہیں بھولتا تو صرف کہنا اور بولنا نہیں بھولتا ۔
بھول گئے سب کچھ یاد نہیں اب کچھ
لیکن تیری یا د نہیں بھولی ۔ میری جولی
چنانچہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قاسم کی طرح وہ بھی کھل جا سم سم بھول کر سم جا کھل کھل کہہ ڈالے، مطلب یہ کام بڑی بھی ہے اور نازک بھی۔ اور سناہے اماؤنٹ بھی بہت بڑی ہے، اس لیے پہلے ہی نیک وبد سمجھا جائے تو اچھا ہے۔ جب سے ہم نے یہ خبر سنی ہے کہ ستر سال سے چوری ہونے والا سرمایہ واپس لایا جائے گا، دل بلیوں اچھلنے لگا ہے اور دل میں طرح طرح کے منصوبے باندھ رہے ہیں کہ چلو دو چار بوند تو ہمارے بھی منہ میں پڑ جائیں گے، آخرہمیں بھی تو لوٹا گیا ہے، ویسے اس خبر سے ہمارا ایک تحقیقی پراجیکٹ خود بخود پورا ہو گیا ہے۔
ہم ایک عرصے سے تلاش میں تھے کہ انگریز ہمارا جو سرمایہ لوٹتے تھے اور ''کالونیل ازم '' پر لکھنے والے دانا دانشور اپنی موٹی موٹی کتابوں میں یہی لکھتے رہتے تھے کہ انگریزنے ہمیں لوٹ کر سارا مال اپنے ملک بھیجاہے۔ یہ سڑکیں، یہ پل ، یہ ریلوے وغیرہ انھوں نے ہمارے لیے نہیں بلکہ یہ دولت لے جانے کے لیے بنائے تھے، مطلب یہ کہ اتنی بڑی دولت وہ باہر لے جا رہے تھے جس کے لیے انھوں نے پورا مواصلاتی نظام بنایا تھا ۔پھر وہ تو چلے گئے دولت بس رہ گئی، پتہ نہیں کہاں لیکن لوٹنے والے چلے گئے تو دولت کو تو گھر میں ہونا چاہیے تھا لیکن ویراباؤٹ کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ تب ہم نے ابھی پچھلے سال یہ '' تحقیقی پراجیکٹ '' اپنے ذمے لیا تھا۔ یوں کہیے کہ '' سولو ریسرچ '' شروع کی تھی
لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری نئی حکومت نے نئے پاکستان کی بنیادیں کھودتے ہوئے وہ '' سرنگ '' دریافت کر لی جس میں سے یہ دولت باہر جا رہی تھی۔ اب معاملہ آسان ہے ، صرف علی بابا کو بھیجنا ہے ۔کھل جا سم سم یا سم جا کھل کھل کہنا ہے اور دولت لادنا ہے ۔
مثلاً گائے اور اور وہ جو گاڑی میں بطور انجن استعمال کیے جاتے ہیں جو لاہور ، پشاور،کوئٹہ اور کراچی کا خاصا مرغوب جانور ہے، آگے سے گزرنے والے تواس میں بھی اب بہت سارے '' جاندار '' شامل ہو چکے ہیں، تفصیل تو ہم سنا نہیں پائیں گے کیونکہ ایک تو ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے، سیاست انتخابات اور جمہوریت کی وجہ سے اور پھر آج کل ان میں پڑھے لکھے بھی بہت ہیں، اس لیے منہ نہ لگناہی بہتر ہے،کیا خبر پڑھ کر ان میں سے اندر کا ''وڈیرہ'' جاگ پڑے اس لیے کھل کر نہ لکھ پائیں گے لیکن ان ہی میں سے ایک نے جن کے آگے پیچھے تو کیا قریب سے بھی گزرنا خطرناک ہے اپنے بیان میں بہت ہی زبردست بات کہی ہے۔
فرماتے ہیں کہ ہم بہت جلد وہ بیرونی دولت لے آئیں گے جو چور لوگ لوٹ کر ''غاروں '' میں چھپائے ہوئے ہیں ۔ گویا ان کا ارادہ '' علی بابا '' بننے کا ہے ۔ ٹھیک ہے بن جایئے لیکن احتیاط کی بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ یہ دولت ظالم چیز ہی ایسی ہے کہ بندے کو علی بابا کر دیتی ہے۔
علی بابا نے بھی جب چالیس چوروں کے غار کا پتہ پایا اور '' سم سم '' کا کوڈ سیکھا تو غار میں پڑی ہوئی دولت نے اسے شکار کر لیا۔ اور وہ اسے حقداروں اور مالکوں تک پہنچانے کے بجائے اپنا گدھا بار کرکے اپنے گھر لے آیا اور اپنی مرجینا کے ساتھ رنگ رلیاں بلکہ '' دولت ملیاں '' منانے لگا ۔ اور جن کو لوٹ لوٹ کر وہ دولت جمع کی گئی تھی وہ بدستور سو کھے ہونٹوں سیٹیاں بجاتے رہے ۔ یہ توہم نے محض احتیاط برتنے کے لیے کہا ہے لیکن اس سے بھی پہلے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کون بنے گا کروڑ پتی کی طرز پر۔ کون بنے گا علی بابا ؟
اور پھر یہ کہانی بھی صرف '' دولفظوں '' یعنی '' سم سم '' میں بیاں نہ ہو پائے گی ۔ کہ یہ ستر سالہ پرانی پریم کہانی ہے جو بہت زیادہ مشکل ہے
تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل
دو لفظوں میں بیاں نہ ہو پائے گی
صرف مشکل ہی نہیں بلکہ پھیلی ہوئی بھی بہت ہے کیونکہ یہ وہ پرانا دور نہیں کہ چور بھی سادہ تھے اور ان کا کوڈ بھی صرف '' سم سم '' تھا، یہ الیکٹرانک بلکہ میگنیٹک بلکہ مائیکرو میگنیٹک دور ہے ۔ بڑے پیچیدہ قسم کے '' کوڈ '' بنائے جا چکے ہیں، صرف دروازے ہی نہیں بلکہ '' غاروں '' کے درو دیوار بھی الیکٹرانک اور میگنیٹک ہو چکے ہیں ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہفت خواں سر کرنا ہے جو علی بابا کے بس کا نہیں رستم کاکام ہے اور ''رستم '' بننے کے لیے اپنے '' بیٹے '' کو بھی اپنے ہاتھوں سے مارنا پڑتا ہے۔ علی بابا کا کیا ہے، ایک گدھا اور ایک کلہاڑی لے کر پھرنے سے بھی آدمی علی بابا بن جاتا ہے۔ ایک مرجینا ہے، وہ بھی ٹرائی ٹرائی اگین کرنے سے آخر کار مل ہی جاتی ہے ۔
لیکن بہت بڑی دشواری اور بھی ہے، ہمیں فی الحال جو علی بابا دستیاب ہو سکتا ہے یا جس کو بنایا جا سکتا ہے یا وہ خود بھی بننے کی خواہش رکھتا ہے، اس میں باقی تو بہت ساری خوبیاں ہیں لیکن ایک قباحت یہ ہے کہ بھلکڑ بہت ہے، ابھی ابھی جو کہتا ہے وہ تھوڑی دیر بعد بھولتا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو خود غصے میں آجاتا ہے پوچھتا ہے،کس نے کہا ہے ۔ یاد دلایئے کہ آپ نے کہا ہے تو لال پیلا ہو کر صاف مکر جاتا ہے، ادھر کہنے سے بھی باز نہیں آتا، کہتا جاتا ہے اور بھولتا جاتا ہے، بھولتا جاتا ہے ۔اور کہتا جاتا ہے اگر نہیں بھولتا تو صرف کہنا اور بولنا نہیں بھولتا ۔
بھول گئے سب کچھ یاد نہیں اب کچھ
لیکن تیری یا د نہیں بھولی ۔ میری جولی
چنانچہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قاسم کی طرح وہ بھی کھل جا سم سم بھول کر سم جا کھل کھل کہہ ڈالے، مطلب یہ کام بڑی بھی ہے اور نازک بھی۔ اور سناہے اماؤنٹ بھی بہت بڑی ہے، اس لیے پہلے ہی نیک وبد سمجھا جائے تو اچھا ہے۔ جب سے ہم نے یہ خبر سنی ہے کہ ستر سال سے چوری ہونے والا سرمایہ واپس لایا جائے گا، دل بلیوں اچھلنے لگا ہے اور دل میں طرح طرح کے منصوبے باندھ رہے ہیں کہ چلو دو چار بوند تو ہمارے بھی منہ میں پڑ جائیں گے، آخرہمیں بھی تو لوٹا گیا ہے، ویسے اس خبر سے ہمارا ایک تحقیقی پراجیکٹ خود بخود پورا ہو گیا ہے۔
ہم ایک عرصے سے تلاش میں تھے کہ انگریز ہمارا جو سرمایہ لوٹتے تھے اور ''کالونیل ازم '' پر لکھنے والے دانا دانشور اپنی موٹی موٹی کتابوں میں یہی لکھتے رہتے تھے کہ انگریزنے ہمیں لوٹ کر سارا مال اپنے ملک بھیجاہے۔ یہ سڑکیں، یہ پل ، یہ ریلوے وغیرہ انھوں نے ہمارے لیے نہیں بلکہ یہ دولت لے جانے کے لیے بنائے تھے، مطلب یہ کہ اتنی بڑی دولت وہ باہر لے جا رہے تھے جس کے لیے انھوں نے پورا مواصلاتی نظام بنایا تھا ۔پھر وہ تو چلے گئے دولت بس رہ گئی، پتہ نہیں کہاں لیکن لوٹنے والے چلے گئے تو دولت کو تو گھر میں ہونا چاہیے تھا لیکن ویراباؤٹ کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ تب ہم نے ابھی پچھلے سال یہ '' تحقیقی پراجیکٹ '' اپنے ذمے لیا تھا۔ یوں کہیے کہ '' سولو ریسرچ '' شروع کی تھی
لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری نئی حکومت نے نئے پاکستان کی بنیادیں کھودتے ہوئے وہ '' سرنگ '' دریافت کر لی جس میں سے یہ دولت باہر جا رہی تھی۔ اب معاملہ آسان ہے ، صرف علی بابا کو بھیجنا ہے ۔کھل جا سم سم یا سم جا کھل کھل کہنا ہے اور دولت لادنا ہے ۔