جو جتنا مظلوم اتنا ہی ظالم

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ تم میں جو جتنا مظلوم ہے اتنا ہی ظالم ہے۔

بین الاقوامی جنگی قوانین کی پامالی،آبادیوں پر مظالم،گروہی نسل کشی انسانیت کے خلاف جرائم کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔مگر اقتصادی محاصرے یا مصنوعی قحط یا پھر ماحولیات کو جان بوجھ کے برباد کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے کروڑوں انسانوں کا جو جانی، مالی و سماجی نقصان ہوتا ہے،وہ کیوں انسانیت کے خلاف جرائم کی فہرست میں شامل نہیں ؟

اگر ماحولیاتی قتلِ عام کے سبب جنگلی و انسانی حیات کو پہنچنے والے ناقابلِ تلافی نقصان کے اعداد و شمار کو ہی جمع کر لیا جائے تو گذشتہ سو برس میں ہم اپنے ہی ہاتھوں خود کو جتنا قتل کر چکے، وہ پچھلے سات ہزار برس کی تمام جنگوں میں ہونے والی بربادی سے سو گنا زائد ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ تم میں جو جتنا مظلوم ہے اتنا ہی ظالم ہے۔مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔میں نے جتنے بھی جیدوں سے اس قول کی کنجی کھلوانے کی کوشش کی عقدہ کھلنے کے بجائے اور الجھتا چلا گیا۔مگر پچھلے ایک ہفتے میں اس قول کو میں نے پاکستان کی ماحولیاتی بربادی پر رکھ کے دیکھا تو آنکھیں کھلتی چلی گئیں۔

واضح رہے کہ پاکستان کا شمار پچھلے دس برس سے ان دس چوٹی کے ممالک میں ہو رہا ہے جو تیزی سے آبی قحط سالی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔اب کہا جا رہا ہے کہ کچھ نہ کیا گیا تو دو ہزار پچیس کے بعد زراعت چھوڑ پینے کے صاف پانی کے لالے پڑ جائیں گے۔

یہ تو آپ کے علم میں ہوگا ہی کہ چیف جسٹس ثاقب نثار پاکستان کے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کے ملکی و غیر ملکی آبی کمپنیوں کے ہاتھوں ریپ کا ازخود نوٹس لے چکے ہیں۔بھاشا ڈیم کی فنڈنگ کی جنگ کا کنٹرول روم سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں قائم ہے۔ میڈیا دن رات ڈیم فنڈ میں پیسے دینے کی اپیل دوہرا رہا ہے اور قومی ادارے اور شہری اس اپیل کے سبب کسی حد تک متحرک بھی نظر آ رہے ہیں۔مگر تصویر کا ایک اور رخ شائد سب کی نگاہ سے اوجھل ہے۔سارا زور پانی کی کم ہوتی مقدار بڑھانے اور اسے احتیاط سے استعمال کرنے کی مہم پر ہے۔لیکن جو پانی اس وقت میسر ہے اس کے معیار پر شائد ہی ایک آدھ متعلقہ فریق کے سوا کوئی سنجیدگی سے غور کر رہا ہو۔

میں آپ کو اس وسیع موضوع کا رائتہ بنانے کی ترکیب سمجھانے کے بجائے صرف ایک مثال دوں گا۔ پاکستان میں تین عشرے سے ماحولیات کی وفاقی وزارت قائم ہے۔چاروں صوبوں میں انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسیز ہیں جن کے این او سی کے بغیر کوئی منصوبہ سرکاری و نجی شعبے میں شروع ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کا تعلق براہِ راست یا بلا واسطہ ماحولیاتی بقا سے ہو۔وفاقی و صوبائی سطح پر متعدد قوانین نافذ ہیں جن کا مقصد جنگلی ، آبی و انسانی حیات کا تحفظ ہے۔ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ کوئی بھی صنعتی ، زرعی ، انسانی فضلہ اور آلودہ پانی ٹریٹ کیے بغیر خام شکل میں کسی جھیل، آبی گذرگاہ ، دریا یا سمندر میں نہیں پھینکا یا ڈالا جائے گا۔

اس قانون کے ہوتے عملی صورت یہ ہے کہ پاکستان میں جتنا گند یا آلودہ پانی مذکورہ بالا تمام شعبے پیدا کرتے ہیں ان میں شامل زہریلے مواد کو بے اثر بنانے کا ڈھانچہ بس اتنا ہے کہ ایک فیصد فضلہ اور آلودہ پانی دریا و سمندر میں ٹریٹ کر کے ڈالا جا رہا ہے۔ ننانوے فیصد کچرہ ، فضلہ اور ناقابلِ استعمال پانی براہ راست دریاؤں اور سمندر میں پہنچ رہا ہے۔اس وقت سندھ کی کوئی بڑی جھیل ایسی نہیں جس کا پانی انسانی استعمال کے قابل ہو۔یہ شہادت تو سپریم کورٹ میں بھی پیش ہو چکی ہے کہ سندھ کی اسی فیصد آبادی کو وہ پانی میسر ہے جو انسانی استعمال کے قابل ہی نہیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر تین صوبوں اور شمالی علاقہ جات کے حالات اس ضمن میں تسلی بخش ہیں۔

حال ہی میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کی ایک ماہر ڈاکٹر بشری خان کی ایک رپورٹ کے کچھ مندرجات نظر سے گذرے۔انھوں نے دریائے سندھ کے دو معاون دریاؤں کابل اور سوات کے آبی معیار پر کام کیا ہے۔

انیسویں صدی میں شاہ شجاع مہاراجہ رنجیت سنگھ کو دریائے کابل کے راستے افغان تربوز اور دیگر پھلوں کی سوغات ایک رافٹ پر باندھ کر بھیجا کرتا تھا۔ابھی کل کی ہی بات ہے کہ ٹراؤٹ مچھلی کا کوئی نام لیتا تو شفاف دریائے سوات ذہن میں آتا تھا۔آج صورت یہ ہے کہ ان دونوں دریاؤں میں خام صنعتی و انسانی فضلہ اتنی بڑی مقدار میں پھینکا جا رہا ہے کہ یہ دونوں دریا جو سندھو میں بہنے والے پانی کا پچیس فیصد فراہم کرتے ہیں دریائے سندھ میں گرنے سے پہلے پہلے ایک گندے نالے میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔


دریائے کابل افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پشاور، چار سدہ ، نوشہرہ سے گذرتا ہوا اٹک کے مقام پر دریایے سندھ میں گرتا ہے۔اس دریا کے کنارے سب سے بڑے شہر پشاور میں کہنے کو چار واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہیں مگر ایک بھی کام نہیں کر رہا۔

انگریز نے دریائے کابل اور سوات میں مچھلیوں کی چون اقسام گنی تھیں۔آج بمشکل دو سے تین نسلیں بچی ہیں۔وجہ بہت سامنے کی ہے، دریا میں پھینکے جانے والے گند کی مار آبی حیات نہ سہہ سکی۔مچلھیوں کی ہارمونل کمپوزیشن برباد ہونے لگی اور جو جو نسلیں بانجھ ہوتی گئیں مٹتی چلی گئیں۔جن انسانوں کا گذارہ دریا کے کنارے مچھلی پکڑ کے پکانے اور بیچنے پر تھا ان میں سے بیشتر اپنی دوکان بڑھا گئے۔

رہا ہمارا سمندر تو اس پر تہرا ظلم ہے۔بین الاقوامی ماہی گیر ٹرالرز ہمارے پانیوں کو مچھلیوں سے خالی کر رہے ہیں۔زہریلا دریائی پانی سمندر میں گر رہا ہے اور جو کسر باقی رہ گئی وہ خام صنعتی و انسانی سیوریج کے براہ راست سمندر میں اتارے جانے نے پوری کر دی۔ روزانہ صرف کراچی کا پانچ سو ملین گیلن ان ٹریٹڈ آلودہ آبی زہر سمندر کو پلایا جا رہا ہے۔

دو ہزار تین میں ایک یونانی رجسٹرڈ اڑسٹھ ہزار ٹن تیل سے لدا ٹینکر سی ویو کے ساحل پر پھنس گیا اور اس میں سے اکتیس ہزار ٹن تیل سمندر میں خارج ہو گیا۔ ہمارے کسی ادارے کے پاس اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کے نہ طریقے تھے نہ ہی وسائل۔چنانچہ تیل کے بڑے بڑے تیرتے جزیرے نامیاتی طریقے سے خود ہی شرمندہ ہو کر چند ماہ کے دوران پانی میں گھل مل گئے۔مگر اس حادثے کے ایک برس بعد بھی ساحل سے ٹکرانے والے پانی کی چکناہٹ ختم نہ ہوئی۔

سی ویو وہ واحد غریب پرور ساحل بچا ہے جہاں ڈھائی کروڑ آبادی والے کراچی کے بیشتر غریب غربا کچھ دیر کی سیر کے لیے آتے ہیں۔دو ہزار سترہ میں اسی علاقے میں کچرے اور انسانی فضلے کا ایک بہت بڑا جزیرہ نمودار ہوگیا۔یہ وہ فضلہ تھا جو بارشوں کے سب پھٹ پڑنے والے نالوں سے براہِ راست سمندر میں داخل ہو گیا تھا۔

اور اب پچھلے ہفتے پھر اچانک سندھ بلوچستان کے ساحلی علاقے مبارک ولیج سے چرنا آئی لینڈ تک سیاہ تیل کی ایک بڑی تہہ پھیلتی چلی گئی۔چرنا آئی لینڈ کراچی کے قریب واحد جزیرہ ہے جہاں مونگے کی چٹانیں ہیں اور سکوبا ڈائیونگ ہوتی ہے۔ساحل جزوی طور پر صاف تو کر دیا گیا مگر یہ تیل آیا کہاں سے؟ کوئی یقین سے نہیں بتا پا رہا۔حالانکہ اس ساحل کی دن رات کڑی نگرانی ہوتی ہے۔

ایسے ماحول میں اگر ہم نے پانی کی قلت پر قابو پا بھی لیا تو پھر بھی کس کام کا۔جو میسر ہے وہی قابلِ استعمال نہیں۔مزید کا ہم کیا کریں گے۔ایسا بھی نہیں کہ جھیلوں ، دریاؤں اور سمندروں کو صاف رکھنے کے جدید سستے طریقے میسر نہیں۔لیکن ان طریقوں اور پہلے سے موجود قوانین کے سختی سے نفاذ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ پھر ہم بحثیتِ مجموعی کیسے روئیں گائیں گے کہ ہمارے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے ؟مگر کون کر رہا ہے ؟ اس پر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔

اب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول پھر سے دہراتا ہوں '' تم میں جو جتنا مظلوم ہے اتنا ہی ظالم ہے''۔۔۔۔۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )
Load Next Story