نیا پاکستان
ملک اس غلط اور تباہ کن روش کے مزید جاری رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
دوست دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی جانب ابولاثر حفیظ جالندھری نے اپنے درج ذیل شعر میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
دیکھا جو کھا کے تیرکمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
دوستوں کی دوسری قسم وہ ہے کہ جس کے بارے میں فارسی کا درج ذیل شعر ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے:
دوست آں باشد کے گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی
مطلب یہ کہ دوست وہ ہے جو مصیبت کی گھڑی میں آگے بڑھ کر اپنے پریشان حال دوست کا ہاتھ تھام لے۔ امریکا پاکستان کا اول الذکر قسم کا دوست ہے جس نے ہر مشکل وقت میں طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بالکل برعکس سعودی عرب ہے جس نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ دونوں ممالک کے باہمی رشتے روز اول سے ہی برادرانہ اخوت وخلوص نیت کی بنیاد پر قائم اور استوار ہیں۔
سعودی عرب کو دنیائے اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے تو دوسری جانب اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ہمارے وطن عزیز پاکستان کو اسلام کا قلعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ گویا دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تمام مصلحتوں سے بالا تر ہوکر دین اسلام کے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور دونوں کی نوعیت یک جان دو قالب کی سی ہے۔
چنانچہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورہ سعودی عرب توقع کے عین مطابق بہت کامیاب رہا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ دورہ دو مرحلوں پر مشتمل تھا اور یہ دونوں مراحل اپنی اپنی جگہ خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ ان دونوں دوروں کی سب سے قابل ذکر بات ہمارے نزدیک یہ تھی کہ ان کی بدولت عمران خان کو دو مرتبہ یکے بعد دیگرے روضہ رسولؐ اکرم پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی :
بھرپور ستائش اور دلی مبارک باد کے مستحق ہیں عمران خان کہ انھوں نے اس نادر موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور حضور پاکؐ سے انتہائی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے سرزمین یثرب پر قدم رکھنے سے پہلے جہاز کے اندر ہی اپنے پیروں سے جوتے اتار لیے اور ننگے پاؤں چل کر ہی روضہ اقدس پر حاضری دے کر اقبال کے اس شعر کی یاد تازہ کردی:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
بے شک نبیؐ آخر الزماں سے قلبی محبت اور والہانہ عقیدت دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کی ضمانت ہے۔
الحمدللہ وزیر اعظم عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوا۔ اس دورے سے پاکستان کو اپنے شدید مالی بحران سے نکلنے میں بروقت مدد ملی ہے اور وطن عزیز کے اقتصادی منیجرز نے اطمینان اور سکون کا سانس لیا ہے کہ انھیں آیندہ کی معاشی حکمت عملی کے حوالے سے نہ صرف سانس لینے کی مطلوبہ مہلت مل گئی ہے بلکہ عالمی بینک سے مالی پیکیج کے معاملات طے کرنے میں بھی سہولت حاصل ہوگئی ہے۔
بصورت دیگر عالمی بینک سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہونا پڑتا اور عالمی بینک کی من مانی شرائط کو تسلیم کرنا پڑتا کیونکہ ایک انگریزی کہاوت کے مصداق "beggars are not choosers" وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو ریاض میں منعقدہ سہ روزہ عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کا ثمر یہ ملا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو موجودہ مالی بحران سے نمٹنے کے لیے 6 ارب ڈالر دے گا جس میں 3ارب ڈالر کا ادھار تیل ملے گا اور تین ارب ڈالر نقد دیے جائیں گے۔ ادھار تیل دینے کی سہولت کی مدت تین سال ہوگی جس میں توسیع کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
سعودی عرب پاکستان کے پاس تین ارب ڈالرز بیلنس آف پیمنٹ کے طور پر ڈپازٹ بھی رکھے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں کمی واقع ہوگی اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر و قیمت میں استحکام آئے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے صوبہ بلوچستان میں معدنیات کی تلاش میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں سعودی عرب میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں پاکستانی محنت کشوں کے مسائل پر بھی کافی نتیجہ خیز بات چیت ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ''ڈیوس اِن ڈیزرٹ'' نامی سربراہی کانفرنس میں نہایت سرگرمی کے ساتھ شرکت کرکے پاک سعودی تعلقات میں ایک نئی روح پھونک دی۔ انھوں نے اس کانفرنس میں ایک اہم پاکستانی وفد کے ساتھ ایسے موقع پر شرکت کا صائب فیصلہ کیا جب امریکا، برطانیہ اور جرمنی نے ایک ناخوشگوار واقع کو بہانہ بناکر اس اہم بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اسے ناکام کرنے کا مکروہ منصوبہ بنایا تھا۔
امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے عالمی قوتوں کو بھلا کیونکر یہ گوارا ہوسکتا تھا کہ سعودی عرب جیسا اہم اسلامی ملک اس کانفرنس کی میزبانی کرے۔ ان کی نظر میں تو سعودی عرب محض ایک ''صارف'' کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کانفرنس کے ریاض میں کامیابی سے انعقاد نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ سعودی عرب ایک صارف ملک کے محدود دائرے سے باہر نکل کر صنعتی شاہراہ پر ترقی کی نت نئی منزلیں طے کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ مملکت سعودی عرب کی اس اہم کامیابی اور پیش رفت پر اہل پاکستان کے دل بھی خوشیوں سے سرشار اور لبریز ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب سے بھی ہم جو کچھ لے رہے ہیں وہ بھی ایک ادھار ہی ہے جس کی واپسی ہم پر واجب اور لازم ہے۔ تاہم اس رقم کا ہمیں ایک ایسے وقت پر مل جانا بھی کچھ کم غنیمت نہیں جب ہمارے پاس عالمی بینک کی ناجائز حد تک سخت ترین شرائط کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ مگر انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں سے متعلق وہ سیاسی حلقے بھی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں، جن کی ناقص پالیسیوں اور کرتوتوں کے باعث وطن عزیز بدحالی کی اس انتہا تک پہنچا ہے۔
بزرگوں کے منہ سے اکثر سنی ہوئی یہ کہاوت یاد آرہی ہے : ''چھاج بولے سو بولے' چھلنی بھی بولے' جس میں تین سو بہتر چھید۔'' حالات کا تقاضا یہ ہے کہ بے جا تنقید اور مخالفت برائے مخالفت کے منفی رویے کو ترک کرکے مثبت اور تعمیری طرز سیاست کو فروغ دیا جائے کیونکہ ملک اس غلط اور تباہ کن روش کے مزید جاری رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ برسوں کی جدوجہد کے بعد برسر اقتدار آنے والی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے وزرائے کرام سے بھی ہماری مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی قومی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے اور فضول بیان بازی سے اجتناب کرتے ہوئے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیں تاکہ ان کی تمام توانائیاں بلیم گیم میں ضایع ہونے کے بجائے ملک و قوم کی بہتری اور ترقی کے کام آسکیں۔
ملک ترقی کرے گا تو عوام خوشحال ہوں گے اور عوام خوشحال ہوں گے تو پھر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور کشکول اٹھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ تب وہ نیا پاکستان معرض وجود میں آئے گا جس کا وعدہ موجودہ حکمران سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عام انتخابات کے موقعے پر پاکستان کے عوام سے بڑے زور و شور سے کیا تھا۔
دیکھا جو کھا کے تیرکمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
دوستوں کی دوسری قسم وہ ہے کہ جس کے بارے میں فارسی کا درج ذیل شعر ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے:
دوست آں باشد کے گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی
مطلب یہ کہ دوست وہ ہے جو مصیبت کی گھڑی میں آگے بڑھ کر اپنے پریشان حال دوست کا ہاتھ تھام لے۔ امریکا پاکستان کا اول الذکر قسم کا دوست ہے جس نے ہر مشکل وقت میں طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بالکل برعکس سعودی عرب ہے جس نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ دونوں ممالک کے باہمی رشتے روز اول سے ہی برادرانہ اخوت وخلوص نیت کی بنیاد پر قائم اور استوار ہیں۔
سعودی عرب کو دنیائے اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے تو دوسری جانب اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ہمارے وطن عزیز پاکستان کو اسلام کا قلعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ گویا دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تمام مصلحتوں سے بالا تر ہوکر دین اسلام کے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور دونوں کی نوعیت یک جان دو قالب کی سی ہے۔
چنانچہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورہ سعودی عرب توقع کے عین مطابق بہت کامیاب رہا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ دورہ دو مرحلوں پر مشتمل تھا اور یہ دونوں مراحل اپنی اپنی جگہ خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ ان دونوں دوروں کی سب سے قابل ذکر بات ہمارے نزدیک یہ تھی کہ ان کی بدولت عمران خان کو دو مرتبہ یکے بعد دیگرے روضہ رسولؐ اکرم پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی :
بھرپور ستائش اور دلی مبارک باد کے مستحق ہیں عمران خان کہ انھوں نے اس نادر موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور حضور پاکؐ سے انتہائی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے سرزمین یثرب پر قدم رکھنے سے پہلے جہاز کے اندر ہی اپنے پیروں سے جوتے اتار لیے اور ننگے پاؤں چل کر ہی روضہ اقدس پر حاضری دے کر اقبال کے اس شعر کی یاد تازہ کردی:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
بے شک نبیؐ آخر الزماں سے قلبی محبت اور والہانہ عقیدت دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کی ضمانت ہے۔
الحمدللہ وزیر اعظم عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوا۔ اس دورے سے پاکستان کو اپنے شدید مالی بحران سے نکلنے میں بروقت مدد ملی ہے اور وطن عزیز کے اقتصادی منیجرز نے اطمینان اور سکون کا سانس لیا ہے کہ انھیں آیندہ کی معاشی حکمت عملی کے حوالے سے نہ صرف سانس لینے کی مطلوبہ مہلت مل گئی ہے بلکہ عالمی بینک سے مالی پیکیج کے معاملات طے کرنے میں بھی سہولت حاصل ہوگئی ہے۔
بصورت دیگر عالمی بینک سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہونا پڑتا اور عالمی بینک کی من مانی شرائط کو تسلیم کرنا پڑتا کیونکہ ایک انگریزی کہاوت کے مصداق "beggars are not choosers" وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو ریاض میں منعقدہ سہ روزہ عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کا ثمر یہ ملا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو موجودہ مالی بحران سے نمٹنے کے لیے 6 ارب ڈالر دے گا جس میں 3ارب ڈالر کا ادھار تیل ملے گا اور تین ارب ڈالر نقد دیے جائیں گے۔ ادھار تیل دینے کی سہولت کی مدت تین سال ہوگی جس میں توسیع کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
سعودی عرب پاکستان کے پاس تین ارب ڈالرز بیلنس آف پیمنٹ کے طور پر ڈپازٹ بھی رکھے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں کمی واقع ہوگی اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر و قیمت میں استحکام آئے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے صوبہ بلوچستان میں معدنیات کی تلاش میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں سعودی عرب میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں پاکستانی محنت کشوں کے مسائل پر بھی کافی نتیجہ خیز بات چیت ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ''ڈیوس اِن ڈیزرٹ'' نامی سربراہی کانفرنس میں نہایت سرگرمی کے ساتھ شرکت کرکے پاک سعودی تعلقات میں ایک نئی روح پھونک دی۔ انھوں نے اس کانفرنس میں ایک اہم پاکستانی وفد کے ساتھ ایسے موقع پر شرکت کا صائب فیصلہ کیا جب امریکا، برطانیہ اور جرمنی نے ایک ناخوشگوار واقع کو بہانہ بناکر اس اہم بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اسے ناکام کرنے کا مکروہ منصوبہ بنایا تھا۔
امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے عالمی قوتوں کو بھلا کیونکر یہ گوارا ہوسکتا تھا کہ سعودی عرب جیسا اہم اسلامی ملک اس کانفرنس کی میزبانی کرے۔ ان کی نظر میں تو سعودی عرب محض ایک ''صارف'' کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کانفرنس کے ریاض میں کامیابی سے انعقاد نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ سعودی عرب ایک صارف ملک کے محدود دائرے سے باہر نکل کر صنعتی شاہراہ پر ترقی کی نت نئی منزلیں طے کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ مملکت سعودی عرب کی اس اہم کامیابی اور پیش رفت پر اہل پاکستان کے دل بھی خوشیوں سے سرشار اور لبریز ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب سے بھی ہم جو کچھ لے رہے ہیں وہ بھی ایک ادھار ہی ہے جس کی واپسی ہم پر واجب اور لازم ہے۔ تاہم اس رقم کا ہمیں ایک ایسے وقت پر مل جانا بھی کچھ کم غنیمت نہیں جب ہمارے پاس عالمی بینک کی ناجائز حد تک سخت ترین شرائط کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ مگر انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں سے متعلق وہ سیاسی حلقے بھی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں، جن کی ناقص پالیسیوں اور کرتوتوں کے باعث وطن عزیز بدحالی کی اس انتہا تک پہنچا ہے۔
بزرگوں کے منہ سے اکثر سنی ہوئی یہ کہاوت یاد آرہی ہے : ''چھاج بولے سو بولے' چھلنی بھی بولے' جس میں تین سو بہتر چھید۔'' حالات کا تقاضا یہ ہے کہ بے جا تنقید اور مخالفت برائے مخالفت کے منفی رویے کو ترک کرکے مثبت اور تعمیری طرز سیاست کو فروغ دیا جائے کیونکہ ملک اس غلط اور تباہ کن روش کے مزید جاری رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ برسوں کی جدوجہد کے بعد برسر اقتدار آنے والی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے وزرائے کرام سے بھی ہماری مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی قومی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے اور فضول بیان بازی سے اجتناب کرتے ہوئے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیں تاکہ ان کی تمام توانائیاں بلیم گیم میں ضایع ہونے کے بجائے ملک و قوم کی بہتری اور ترقی کے کام آسکیں۔
ملک ترقی کرے گا تو عوام خوشحال ہوں گے اور عوام خوشحال ہوں گے تو پھر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور کشکول اٹھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ تب وہ نیا پاکستان معرض وجود میں آئے گا جس کا وعدہ موجودہ حکمران سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عام انتخابات کے موقعے پر پاکستان کے عوام سے بڑے زور و شور سے کیا تھا۔