پولی تھین بیگز اور کلین گرین پاکستان
پولی تھین کی تھیلیوں کے ٹکڑے اور ذرات جہاں ایک طرف مٹی اور پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے کلین گرین پاکستان کی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ وفاقی حکومت کا عزم ہے کہ وہ پاکستان بھر کے شہروں، دیہاتوں سے کوڑا کرکٹ اٹھائے گی، نئی نئی لینڈ فل سائٹس بناکر ان میں کوڑا ٹھکانے لگائے گی، ساتھ ہی ساتھ عوام میں صفائی کا شعور پیدا کرنے کے لیے ٹی وی چینلوں پہ ایک آگہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے جوکہ بدقسمتی سے کوئی خاص موثر نظر نہیں آتی۔
ادھر تقریروں اور لیکچروں کا بھی زور ہے، سب کچھ ہو رہا ہے مگر پاکستان کے شہروں، دیہاتوں میں مسلسل اتنا زیادہ کوڑا پیدا ہونے کی بنیادی وجہ کے بارے میں مجال ہے کہ کوئی بھولے سے بھی بات کرے۔
جی ہاں، ہمارا اشارہ پلاسٹک کی ان تھیلیوں کی طرف ہے جنھیں اس معاشرے میں پیار سے ''شاپر'' پکارا جاتا ہے اور لوگ دکانداروں سے باقاعدہ فرمائش کرکے زیادہ سے زیادہ یہ پولی تھین کی تھیلیاں لے کر ان میں سودا سلف لاتے ہیں اور پھر انھیں کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔
اب فرض کیجیے کہ وفاقی حکومت پورے ملک کے ہر شہر، گاؤں، دیہات سے کوڑا کرکٹ صاف کروا دیتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ چند ہی ہفتوں میں اتنا ہی کوڑا پھر جمع ہوجائے گا، کیونکہ مسئلے کی وجہ بدستور موجود رہے گی۔ آپ صرف تباہ حال لاوارث شہر کراچی ہی میں کوئی بیس لاکھ گھروں کا حساب لگا لیجیے۔
ہر گھر میں اوسطاً تقریباً دس پولی تھین کی تھیلیاں تو آ ہی جاتی ہیں، جس کا مطلب ہوا کہ ایک دن میں کراچی کے صرف بیس لاکھ گھروں سے ہی روز کی دو کروڑ پولی تھین کی تھیلیاں پھینکی جاتی ہیں، جوکہ ایک ہفتے کی بن جاتی ہیں 14 کروڑ، یعنی ہر مہینے میں کوئی 60 کروڑ پولی تھین کی تھیلیاں۔
یہ تھیلیاں جو استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں پاکستان بھر میں صرف ایک ہفتے کے اندر اندر ہی کچرے کے کوہ ہمالیہ جیسے پہاڑ کھڑے کردیتی ہیں، مگر ہماری سمجھ میں یہ بات ہی نہیں آتی کہ ان تھیلیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر ملک میں کچرے کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان ان پولی تھین کی تھیلیوں کے ساتھ کبھی کلین گرین پاکستان نہیں بن سکتا، ہم بے شک ایک درخت سے دوسرے درخت پہ کتنی ہی چھلانگیں کیوں نہ لگالیں۔
اگر آپ پاکستان میں پیدا ہونے والے اربن ویسٹ یعنی شہری فضلے کی بات کریں تو اس کا زیادہ تر حصہ تین بنیادی اقسام میں پایا جاتا ہے۔ صنعتی فضلہ، جس کا زیادہ تر حصہ مایع حالت میں ہوتا ہے اور وہ پوری آزادی اور بے حسی سے ٹریٹمنٹ کے بغیر پاکستان کے دریاؤں، نہروں، جھیلوں اور سمندروں میں پھینکا جاتا ہے۔
پچھلے دس سال میں اگر ایک طرف دریائے راوی صنعتی فضلے سے بھرے نالے میں تبدیل ہوا ہے تو دوسری طرف کراچی کے سمندر کو بھی بھرپور طریقے سے تباہ کیا گیا ہے، جو اب اس قدر غلیظ اور آلودہ ہوچکا ہے کہ سمندر میں ساحل سے کئی میل دور بھی ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگا کر کراچی کو پانی فراہم کرنا عملی طور پر ناممکن ہوچکا ہے۔
شہری فضلے کی دوسری قسم میڈیکل ویسٹ یعنی طبی فضلہ ہے، جو ملک بھر میں موجود ہزاروں اسپتالوں اور کلینکوں سے بے دریغ پھینکا جاتا ہے، جس میں سے پلاسٹک کی جراثیم زدہ اور خون آلودہ استعمال شدہ سرنجوں، ڈرپس وغیرہ کو ''ری سائیکل'' کرکے بھی پلاسٹک کی تھیلیاں یعنی شاپر بنائے جاتے ہیں، جنھیں عوام کھانے پینے کی چیزیں لانے لے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شہری فضلے کی تیسری اور سب سے زیادہ عام قسم ہاؤس ہولڈ یعنی گھریلو اور ریٹیل یعنی مارکیٹ کے کچرے پر مشتمل ہے۔ یہ کچرا زیادہ تر ٹھوس حالت میں پایا جاتا ہے اور اس کا تقریباً ستر سے 80 فیصد حصہ پلاسٹک کی چیزوں خصوصاً پلاسٹک کی تھیلیوں سے بنتا ہے۔
پلاسٹک کی تھیلیاں نہ صرف انسانوں اور جانوروں بلکہ ہمارے قدرتی ماحول، زیرزمین پانی اور سیوریج سسٹم کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ کاغذ، سوتی کپڑا اور قدرتی اجزا سے بننے والے دوسرے میٹریل بائیو ڈی گریڈایبل ہوتے ہیں، یعنی یہ قدرتی طور پر وقت کے ساتھ پانی اور مٹی میں حل ہوجاتے ہیں، جب کہ پلاسٹک قدرتی طور پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ ایک طرف پانی، ہوا اور مٹی کو آلودہ کرتی ہے تو دوسری طرف جب کچرے میں موجود پلاسٹک کی تھیلیاں جلائی جاتی ہیں تو اس سے ہوا میں ہائیڈروجن سائنائیڈ جیسی انتہائی زہریلی گیس پیدا ہوتی ہے، جس سے پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ کینسر جیسا جان لیوا موذی عارضہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔
پولی تھین کی تھیلیوں کے ٹکڑے اور ذرات جہاں ایک طرف مٹی اور پانی کو آلودہ کرتے ہیں وہیں مویشیوں سے لے کر مچھلیوں تک کے پیٹ میں پہنچ کر ان کا دودھ اور گوشت سب ہمارے لیے زہریلا بناتے ہیں۔ آپ ذرا کبھی کچرا کنڈیوں، ندی نالوں بلکہ گلی محلے کی سڑکوں تک کا جائزہ لے لیجیے، آپ کو ہر طرف یہ پلاسٹک کی تھیلیاں پڑی نظر آئیں گی۔
ایک تو پہلے ہی روزمرہ کی تقریباً ہر چیز ہی پلاسٹک کی بوتلوں اور ڈبوں میں پیک ہوکر آرہی ہے، اوپر سے ہر گھر میں ہر روز درجن سے بھی زیادہ ان پلاسٹک کی تھیلیوں میں سودا سلف آنے سے ہمارے لٹے پٹے ملک میں کوڑا کرکٹ کا ایسا خوفناک مسئلہ پیدا ہوا ہے جو اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک ہم کم ازکم روزمرہ کے سودا سلف وغیرہ کے لیے ہی ان پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال بند نہ کردیں۔
آج سے پینتیس چالیس سال قبل تک جب یہ موذی پلاسٹک کی تھیلیاں موجود نہیں تھیں اس وقت لوگ کپڑے کے تھیلوں اور بان کی ٹوکریوں میں روزانہ کا سودا سلف وغیرہ لاتے تھے، چنانچہ اس وقت نہ اتنا کوڑا پیدا ہوتا تھا اور نہ ہی کینسر جیسی بیماریاں عام تھیں۔ پھر جیسے جیسے آبادی بے تحاشا بڑھتی گئی اور کسی بھی قسم کی اخلاقی، سماجی اور شہری تربیت سے محروم آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی برائیاں بھی پھیلیں، جن میں پلاسٹک کی یہ تھیلیاں بھی شامل ہیں۔
وفاقی حکومت اگر واقعی کلین گرین پاکستان چاہتی ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعے پورے ملک میں دکانوں پر پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگائے، جس کی خلاف ورزی پر دکانداروں پہ بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ اس قانون پہ عمل درآمد کے لیے باقاعدہ بااختیار سرکاری ٹیمیں بنائی جائیں اور پورے ملک میں چھاپے مارے جائیں۔
تاہم اس قانون پہ عمل درآمد سے پہلے دکانداروں اور لوگوں کو ان پلاسٹک کی تھیلیوں کے متبادل کا بندوبست کرنے کے لیے تین مہینے کا وقت دیا جائے جس میں کسی قسم کا اضافہ یا نرمی نہ ہو۔ میڈیا حسب معمول شور مچائے گا کہ انسانی صحت اور قدرتی ماحول تباہ کرنے والی پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والے بے روزگار ہوگئے تو میڈیا کے اس شور کی پرواہ نہ کی جائے۔
مزید یہ کہ وفاقی حکومت کلین گرین پاکستان کے موجودہ بیکار بے اثر ٹی وی اشتہاروں کی جگہ لوگوں کو سودا سلف وغیرہ لانے کے لیے سوتی کپڑے کے تھیلوں اور بان کی ٹوکریوں کے استعمال کا شعور اور ترغیب دینے والے اشتہار چلائے۔ خود وزیراعظم لوگوں سے اس بارے میں اپیل کریں۔ ساتھ ہی وفاقی حکومت ملک بھر میں کوڑے سے بجلی پیدا کرنے والے WTE پلانٹس بھی لگائے یا پرائیویٹ سیکٹر میں لگائے جانے کی حوصلہ افزائی کرے۔
ادھر تقریروں اور لیکچروں کا بھی زور ہے، سب کچھ ہو رہا ہے مگر پاکستان کے شہروں، دیہاتوں میں مسلسل اتنا زیادہ کوڑا پیدا ہونے کی بنیادی وجہ کے بارے میں مجال ہے کہ کوئی بھولے سے بھی بات کرے۔
جی ہاں، ہمارا اشارہ پلاسٹک کی ان تھیلیوں کی طرف ہے جنھیں اس معاشرے میں پیار سے ''شاپر'' پکارا جاتا ہے اور لوگ دکانداروں سے باقاعدہ فرمائش کرکے زیادہ سے زیادہ یہ پولی تھین کی تھیلیاں لے کر ان میں سودا سلف لاتے ہیں اور پھر انھیں کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔
اب فرض کیجیے کہ وفاقی حکومت پورے ملک کے ہر شہر، گاؤں، دیہات سے کوڑا کرکٹ صاف کروا دیتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ چند ہی ہفتوں میں اتنا ہی کوڑا پھر جمع ہوجائے گا، کیونکہ مسئلے کی وجہ بدستور موجود رہے گی۔ آپ صرف تباہ حال لاوارث شہر کراچی ہی میں کوئی بیس لاکھ گھروں کا حساب لگا لیجیے۔
ہر گھر میں اوسطاً تقریباً دس پولی تھین کی تھیلیاں تو آ ہی جاتی ہیں، جس کا مطلب ہوا کہ ایک دن میں کراچی کے صرف بیس لاکھ گھروں سے ہی روز کی دو کروڑ پولی تھین کی تھیلیاں پھینکی جاتی ہیں، جوکہ ایک ہفتے کی بن جاتی ہیں 14 کروڑ، یعنی ہر مہینے میں کوئی 60 کروڑ پولی تھین کی تھیلیاں۔
یہ تھیلیاں جو استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں پاکستان بھر میں صرف ایک ہفتے کے اندر اندر ہی کچرے کے کوہ ہمالیہ جیسے پہاڑ کھڑے کردیتی ہیں، مگر ہماری سمجھ میں یہ بات ہی نہیں آتی کہ ان تھیلیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر ملک میں کچرے کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان ان پولی تھین کی تھیلیوں کے ساتھ کبھی کلین گرین پاکستان نہیں بن سکتا، ہم بے شک ایک درخت سے دوسرے درخت پہ کتنی ہی چھلانگیں کیوں نہ لگالیں۔
اگر آپ پاکستان میں پیدا ہونے والے اربن ویسٹ یعنی شہری فضلے کی بات کریں تو اس کا زیادہ تر حصہ تین بنیادی اقسام میں پایا جاتا ہے۔ صنعتی فضلہ، جس کا زیادہ تر حصہ مایع حالت میں ہوتا ہے اور وہ پوری آزادی اور بے حسی سے ٹریٹمنٹ کے بغیر پاکستان کے دریاؤں، نہروں، جھیلوں اور سمندروں میں پھینکا جاتا ہے۔
پچھلے دس سال میں اگر ایک طرف دریائے راوی صنعتی فضلے سے بھرے نالے میں تبدیل ہوا ہے تو دوسری طرف کراچی کے سمندر کو بھی بھرپور طریقے سے تباہ کیا گیا ہے، جو اب اس قدر غلیظ اور آلودہ ہوچکا ہے کہ سمندر میں ساحل سے کئی میل دور بھی ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگا کر کراچی کو پانی فراہم کرنا عملی طور پر ناممکن ہوچکا ہے۔
شہری فضلے کی دوسری قسم میڈیکل ویسٹ یعنی طبی فضلہ ہے، جو ملک بھر میں موجود ہزاروں اسپتالوں اور کلینکوں سے بے دریغ پھینکا جاتا ہے، جس میں سے پلاسٹک کی جراثیم زدہ اور خون آلودہ استعمال شدہ سرنجوں، ڈرپس وغیرہ کو ''ری سائیکل'' کرکے بھی پلاسٹک کی تھیلیاں یعنی شاپر بنائے جاتے ہیں، جنھیں عوام کھانے پینے کی چیزیں لانے لے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شہری فضلے کی تیسری اور سب سے زیادہ عام قسم ہاؤس ہولڈ یعنی گھریلو اور ریٹیل یعنی مارکیٹ کے کچرے پر مشتمل ہے۔ یہ کچرا زیادہ تر ٹھوس حالت میں پایا جاتا ہے اور اس کا تقریباً ستر سے 80 فیصد حصہ پلاسٹک کی چیزوں خصوصاً پلاسٹک کی تھیلیوں سے بنتا ہے۔
پلاسٹک کی تھیلیاں نہ صرف انسانوں اور جانوروں بلکہ ہمارے قدرتی ماحول، زیرزمین پانی اور سیوریج سسٹم کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ کاغذ، سوتی کپڑا اور قدرتی اجزا سے بننے والے دوسرے میٹریل بائیو ڈی گریڈایبل ہوتے ہیں، یعنی یہ قدرتی طور پر وقت کے ساتھ پانی اور مٹی میں حل ہوجاتے ہیں، جب کہ پلاسٹک قدرتی طور پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ ایک طرف پانی، ہوا اور مٹی کو آلودہ کرتی ہے تو دوسری طرف جب کچرے میں موجود پلاسٹک کی تھیلیاں جلائی جاتی ہیں تو اس سے ہوا میں ہائیڈروجن سائنائیڈ جیسی انتہائی زہریلی گیس پیدا ہوتی ہے، جس سے پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ کینسر جیسا جان لیوا موذی عارضہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔
پولی تھین کی تھیلیوں کے ٹکڑے اور ذرات جہاں ایک طرف مٹی اور پانی کو آلودہ کرتے ہیں وہیں مویشیوں سے لے کر مچھلیوں تک کے پیٹ میں پہنچ کر ان کا دودھ اور گوشت سب ہمارے لیے زہریلا بناتے ہیں۔ آپ ذرا کبھی کچرا کنڈیوں، ندی نالوں بلکہ گلی محلے کی سڑکوں تک کا جائزہ لے لیجیے، آپ کو ہر طرف یہ پلاسٹک کی تھیلیاں پڑی نظر آئیں گی۔
ایک تو پہلے ہی روزمرہ کی تقریباً ہر چیز ہی پلاسٹک کی بوتلوں اور ڈبوں میں پیک ہوکر آرہی ہے، اوپر سے ہر گھر میں ہر روز درجن سے بھی زیادہ ان پلاسٹک کی تھیلیوں میں سودا سلف آنے سے ہمارے لٹے پٹے ملک میں کوڑا کرکٹ کا ایسا خوفناک مسئلہ پیدا ہوا ہے جو اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک ہم کم ازکم روزمرہ کے سودا سلف وغیرہ کے لیے ہی ان پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال بند نہ کردیں۔
آج سے پینتیس چالیس سال قبل تک جب یہ موذی پلاسٹک کی تھیلیاں موجود نہیں تھیں اس وقت لوگ کپڑے کے تھیلوں اور بان کی ٹوکریوں میں روزانہ کا سودا سلف وغیرہ لاتے تھے، چنانچہ اس وقت نہ اتنا کوڑا پیدا ہوتا تھا اور نہ ہی کینسر جیسی بیماریاں عام تھیں۔ پھر جیسے جیسے آبادی بے تحاشا بڑھتی گئی اور کسی بھی قسم کی اخلاقی، سماجی اور شہری تربیت سے محروم آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی برائیاں بھی پھیلیں، جن میں پلاسٹک کی یہ تھیلیاں بھی شامل ہیں۔
وفاقی حکومت اگر واقعی کلین گرین پاکستان چاہتی ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعے پورے ملک میں دکانوں پر پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگائے، جس کی خلاف ورزی پر دکانداروں پہ بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ اس قانون پہ عمل درآمد کے لیے باقاعدہ بااختیار سرکاری ٹیمیں بنائی جائیں اور پورے ملک میں چھاپے مارے جائیں۔
تاہم اس قانون پہ عمل درآمد سے پہلے دکانداروں اور لوگوں کو ان پلاسٹک کی تھیلیوں کے متبادل کا بندوبست کرنے کے لیے تین مہینے کا وقت دیا جائے جس میں کسی قسم کا اضافہ یا نرمی نہ ہو۔ میڈیا حسب معمول شور مچائے گا کہ انسانی صحت اور قدرتی ماحول تباہ کرنے والی پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والے بے روزگار ہوگئے تو میڈیا کے اس شور کی پرواہ نہ کی جائے۔
مزید یہ کہ وفاقی حکومت کلین گرین پاکستان کے موجودہ بیکار بے اثر ٹی وی اشتہاروں کی جگہ لوگوں کو سودا سلف وغیرہ لانے کے لیے سوتی کپڑے کے تھیلوں اور بان کی ٹوکریوں کے استعمال کا شعور اور ترغیب دینے والے اشتہار چلائے۔ خود وزیراعظم لوگوں سے اس بارے میں اپیل کریں۔ ساتھ ہی وفاقی حکومت ملک بھر میں کوڑے سے بجلی پیدا کرنے والے WTE پلانٹس بھی لگائے یا پرائیویٹ سیکٹر میں لگائے جانے کی حوصلہ افزائی کرے۔