انتخابات کے بعد نواز لیگ نے قوم پرستوں کو پرے کردیا

شرجیل میمن اور نواز لیگی راہ نماؤں کی ایک دوسرے پر سخت تنقید

ابھی سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت مکمل طور پر تشکیل بھی نہیں دی کہ ممتاز بھٹو گورنر راج کی دھمکیاں دے رہے ہیں، سرجیل میمن فوٹو : فائل

صوبائی وزارت کا حلف اٹھانے کے بعد شرجیل میمن حیدر آباد پہنچے۔

اس موقع پر انہوں نے ممتاز بھٹو کو آڑھے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ابھی سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت مکمل طور پر تشکیل بھی نہیں دی کہ ممتاز بھٹو گورنر راج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سندھ کی عوام نے پیپلزپارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے اور اگر کسی نے سندھ کے عوام مینڈیٹ کو روندنے کی کوشش کی تو پھر سندھ کی عوام نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔

ابھی تازہ تازہ حکومت بنی ہے اس لیے ہم ابھی اپنی توپوں کا رخ ان کی جانب نہیں کرنا چاہتے، ہماری خواہش ہے کہ وہ گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ وہ تمام وعدے جوکہ وہ کر کے آئے ہیں انہیں پورے کریں، ہم ان کے ہر مثبت قدم کی تعریف اور تائید کریں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد کی جانب سے دیے جانے والے بیان پر انھوں نے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر کہا کہ پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانی اور سندھ میں رہنے والے تمام سندھی ہیں۔ پیپلزپارٹی تعصب پر یقین نہیں رکھتی اورنہ ہی اس نے کبھی تعصبانہ سوچ کو فروغ دیا ہے۔ اگر کسی کو اقتدار میں آنا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔

سندھ میں متحدہ، تحریک انصاف اور فنکشنل لیگ سمیت تمام جماعتوں کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں اگر وہ سندھ حکومت میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا تاہم اسے کوئی دوسرا رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔ جو بھی مناسب وقت ہوگا اس پر بلدیاتی الیکشن کرا دیے جائیں گے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے لاپتا کارکنان سے متعلق اپنی لاعلمی ظاہر کی اور کہا کہ اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے وہ سندھ حکومت کو بتائیں، ہم ان سے مکمل تعاون کریں گے۔

شرجیل میمن کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد ممتاز بھٹو کے معتمد و نواز لیگ کے صوبائی راہ نما ایوب شر نے بھی جوابی پریس کانفرنس کر ڈالی۔ انہوں نے شرجیل میمن کے خلاف سخت الفاظ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ممتاز بھٹو مانے ہوئے عزت دار سیاست دان ہیں نو وارد شرجیل میمن سمیت کسی کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا وہ ان کے خلاف ایسی زبان استعمال کریں۔

وزیر اعظم سے ممتاز بھٹو کی صرف ایک ملاقات پر پیپلز پارٹی لرز کر رہ گئی، ابھی تو ممتاز بھٹو کو کوئی ذمہ داری ملی ہی نہیں ہے تو پیپلزپارٹی والوں کو اتنی تکلیف ہو رہی ہے۔ انہوں نے نہایت سخت لب ولہجہ اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیں گے۔ انتخابات میں ہونے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات کرائیں گے، کیوں کہ پیپلز پارٹی کو ملنے والا مینڈیٹ جعلی ہے، جو پولیس اور پولنگ اسٹاف کی مہربانی سے ملا ہے۔


اِدھر سندھ ترقی پسند پارٹی نے سینیئر وائس چیئرمین سمیت سات اہم راہ نماؤں کے استعفا قبول کر کے پارٹی میں پندرہ روز پہلے پیدا ہونے والا بحران ختم کر دیا۔ یکم جون کو سندھ کی قوم پرست سیاست میں اس وقت حیرت کی لہر دوڑی جب سندھ ترقی پسند پارٹی کے سینیئر وائس چیئرمین سمیت سات اہم راہ نماؤں نے عام انتخابات میں پارٹی کی شکست اور پارٹی کی تباہی کا ذمہ دار پارٹی چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی کو قرار دیتے ہوئے بطور احتجاج اپنے عہدوں اور پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفا دینے کا اعلان کر دیا۔

مستعفی ارکان میں ایس ٹی پی کے سینیئر وائس چیئرمین حیدر شاہانی، ڈپٹی جنرل سیکریٹری ہوت خان گاڈھی، سیکریٹری مالیات قادر چنہ، مرکزی رہنما نند لال مالہی، گلزار سومرو، مظفر کلہوڑو اور سارنگ انڑ شامل تھے۔ مستعفی رہنماؤں نے ایس ٹی پی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ڈاکٹر قادر مگسی کے غیر ذمہ دارانہ کردار کے سبب پارٹی کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

اتحادوں کے باعث پارٹی کو پہنچنے والے نقصان پارٹی چیئرمین کی غلط پالیسیوں اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے، لیکن سات مستعفی رہنماوں کی ٹیم میں چند گھنٹے کے بعد ہی پھوٹ پڑ گئی اور ایس ٹی پی کے ترجمان کے مطابق سارنگ انڑ نے پارٹی سے دوبارہ رابطہ کر کے وضاحت کر دی تھی۔

دوسری جانب پارٹی کے اندرونی ذرایع کے مطابق جن لوگوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ انہیں پارٹی نے انتخابات میں سنگین بے ضابطگیوں پر اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کیے ہوئے تھے، تاہم انھوں نے فوراً ہی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ ایس ٹی پی کے سابق سنیئر وائس چیئرمین حیدر شاہانی، جنرل سیکریٹری عبدالحمید میمن، ڈپٹی جنرل سیکریٹری ہوت خان گاڈھی، فنانس سیکریٹری قادر چنہ، پریس سیکریٹری مظفر کلہوڑو سمیت سینٹرل کمیٹی کے اراکین نند لال مالہی، گلزر سومرو کی جانب سے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے دیے گئے استعفوں پر غور و فکر کے بعد انہیں منظور کر لیا گیا ہے۔

وفاقی کابینہ نے وہاں حلف لیا تو سندھ میں دس جماعتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ ن کے اتحادی مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارا، امتیاز شیخ سابق وزیر اعلا سندھ ارباب غلام رحیم، راحیلہ گل مگسی تو نظر آئے ، لیکن اگر کوئی نظر نہیں آئے تو سندھ کے قوم پرست قائدین تھے۔ نواز لیگ اور قوم پرستوں کے درمیان انتخابات کے بعد معاملات میں تبدیلی واضح طور پر محسوس ہو رہی ہے۔ دوسری طرف اب سندھ کے قوم پرست بھی مشکل میں ہوں گے کیوں کہ جب وہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں تو وہ اقتدار میں آ کر انہیں بھول جاتی ہے اور مسلم لیگ ن بھی اس کا اعادہ کرتی ہے۔

سندھ نیشنل پارٹی نے نواز لیگ کو پنجاب کی پارٹی قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ 25 رکنی کابینہ میں نواز لیگ کی جانب سے وزیر اعظم، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے اور 19 وفاقی وزراتیں، پنجاب کے حوالے کی ہیں جس سے ظاہر ہو گیا ہے کہ نواز لیگ، پنجابیوں کی پارٹی ہے۔ انتخابات 2013ء میں اکثریت سے کام یابی حاصل کرنے کے باوجود نواز لیگ وفاقی جماعت نہیں بن سکی۔

تین صوبوں کو صرف چھ وزراتیں دینا نواز لیگ کے تعصب اور پنجاب پرست رویے کا ثبوت ہے، جب کہ نواز لیگ کی طرف سے حکومت بننے کے بعد گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ تمام صوبوں میں برابری کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ بھی سندھ دشمن اور سندھ کے معاشی و قدرتی وسائل پر ڈاکا ہے کیوں کہ سندھ، 71 فیصد گیس اور بجلی کی پیداوار دیتا ہے اس لیے سندھ کو بنیادی اور قانونی طور پر گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پاک صوبہ قرار دیا جائے۔
Load Next Story