بھاری عوامی مینڈیٹ وزیر اعظم کی صلاحیتوں کا امتحان
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے عوام کی بھرپور تائیدوحمایت کے ساتھ ابھی اقتدارسنبھالا ہے...
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے عوام کی بھرپور تائیدوحمایت کے ساتھ ابھی اقتدارسنبھالا ہے تو ان کے انتہائی قریبی مشاہداتی ذرائع سے معلوم ہونے والی اطلاعات کے مطابق اب کی باروہ پہلے سے بالکل مختلف وزیر اعظم ہیں۔
اس کا عملی مظاہرہ تو قومی اسمبلی ہال میں موجود افراد نے ان کے اقتدار کے پہلے روز ہی یوں دیکھ لیا تھا کہ ایک حکومتی رکن اسمبلی نے ان کی خدمت میں ایک فائل پیش کی جسے انھوں نے دیکھے بغیر ہی اپنے پیچھے وزیر مملکت کی طرف بغیر کسی ہدایت کے کردیا۔ اس بے رخی پر اس رکن اسمبلی کا منہ لٹک سا گیا مگر دیکھنے والوں کو بات سمجھ آگئی کہ اب کی بار بھرپور عوامی وپارلیمانی مینڈیٹ کے نتیجے میں وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کسی کی سننے کیلئے تیار نہیں۔
اور یہی اطلاعات وزیراعظم آفس سے موصول ہورہی ہیںکہ میاں محمد نواز شریف دن گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک اور بسا اوقات تادیراپنے دفتر میں بیٹھے مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے اور احکامات جاری کرتے رہتے ہیں۔ ادھر کابینہ کے اب تک ہونے والے اجلاسوں میں بھی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے یہی احکامات جاری کئے ہیں کہ میرٹ،شفافیت اور کفایت شعاری کے سنہرے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ملک وقوم کی خدمت میں دن رات ایک کردیں۔ کہنے ، سننے اور جذبات کی حد تک یہ ساری باتیں بہت خوش آئند اور خوش فہم ہیں۔
مگر عملی طور پر ان کے اثرات قطعاً معمولی نہ ہوں گے۔دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان کے عمومی روایتی سیاسی ماحول میں میرٹ،شفافیت اور کفایت شعاری کے سنہری اصولوں کے قابل تحسین مثبت نتائج کے ساتھ ساتھ اس کے متوقع منفی سائیڈ ایفکٹس کو اس کے بائی پروڈکٹس کے طور پر برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں۔ اور یہی میاں نواز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔
اس حکومت کا پہلا امتحان وفاقی بجٹ تھا۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم فور میں جب حکومتی اتحادی اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بجٹ پیش کیاگیا تو میاں نواز شریف کی موجودگی میں چند اراکین اسمبلی نے تنخواہوں میں اضافے کا تقاضا کرنا چاہا تو انہیں انتہائی سختی سے یہ کہہ کر بولنے سے روک دیا گیا کہ ملکی اقتصادی و معاشی صورتحال ٹھیک کرنے کے لئے ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، اراکین پارلیمنٹ نے پارٹی ڈسپلن کے پیش نظر خاموشی اختیار کرلی جو انتہائی قابل تحسین ہے، مگر وزیر خزانہ اپنے اس فیصلے پر بہتر گھنٹے تک بھی برقرار نہ رہ سکے اور سوشل میڈیا پر بیٹھے چند سو لوگوں کے دباؤ میں آکر انھوں نے تنخواہوں میں اضافے کے لئے رات گئے بنائی گئی کمیٹی کو بیٹھ کر سر جوڑنے کا موقع بھی نہ دیا اور اگلی صبح از خود تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان بھی کردیا۔
میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے صف اول کے رہنماؤں کو بلاشبہ ملک میں تبدیلی لانا چاہئے لیکن مدتوں سے بگڑے نظام کو سدھارنے کے لئے جس دانش کی ضرورت ہے اس کی کمی بہر طور نظر آرہی ہے۔ پاکستانی قوم انا پسند عوام پر مشتمل ہے، ان کی انا کی تسکین کے لئے نہ سہی خالصتا ان کے مسائل کے حل کے لئے ہی سہی ان کی بات سن تو لی جائے،معاملات پر دوطرفہ بحث و تمحیص کے دروازے تو کھولے جائیں اور اس کے بعد اگر وہ آپ کے دئیے گئے دس فیصد اضافے یا ایک رکن قومی اسمبلی کے لئے ایک کروڑ روپے کی معمولی رقم برائے ترقیاتی منصوبہ جات پر راضی نہ ہوں تو حکومتی زعماء یہ کہنے کے قابل تو ہوں گے کہ ہم نے تمام تر صورتحال ان کے سامنے رکھ دی، اپنی مجبوریاں بھی بیان کردیںاب اگر پھر بھی کوئی راضی نہیں تو ہم کیا کریں۔
ملک میں جاری شدید توانائی بحران کے خاتمے کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں کوئی دو آرا قائم نہیں کی جاسکتیں مگر ہمارے بہترین دوست ملک چین سے پاکستان کے دورے پر آنے والی واحد کاروباری کمپنی نورینکو کی صلاحیتوں پر ہی اعتبار کرتے ہوئے سب کچھ ان کے ہاتھ میں دینا بھی جلد بازی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نورینکو نامی اس کمپنی نے اب تک ایتھوپیا میں صرف 74 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا ایک یونٹ لگایا ہے جبکہ انڈر گراونڈ ٹرین سسٹم کی تنصیب اور چلانے کا واحد تجربہ بھی ایران کے شہر تہران میںشروع کرنے کا ہے۔
عوام کی توقع یہ تھی کہ حکومت وقت اپنے تمام اہم منصوبے ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کرائے گی اور پھر بین الاقوامی کمپنیوں کو ایک شفاف عمل کے ذریعے ان منصوبوں کی نیلامی کرے گی یا سرمایہ کاری کی دعوتیں وصول کرے گی۔ باہر کی سرمایہ کاردنیا میں تاثرتویہی ہوگاکہ ہم اسی کمپنی کو سارا کام دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔اب تک کی حکومتی پیشرفت چاہے وہ وزارت خزانہ میں ہویا خارجہ میں، وزارت پانی وبجلی میں یا وزارت داخلہ میں ہر معاملے میں جلد بازی سے کام لیا گیا اور حسب توقع اس کے نتائج اچھے نہیں آرہے۔
سرتاج عزیز اور طارق فاطمی وزارت خارجہ میں ڈرون حملوں کے حوالے سے جاری بیانات پہ ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔ وزارت خزانہ والے اسحاق ڈار کی پھرتیاں سنبھالنے میں لگے ہیں جبکہ وزیر داخلہ بلوچستان کے معاملے پر بات کی تہہ پر پہنچے بغیر ہی سول اور نیم عسکری سکیورٹی اداروں کے سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے درپے ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں محترم وزیر اطلاعات و نشریات کو اپنے روایتی خوش کن دھیمے پن سے ہٹ کر سرگرمی دکھانا ہوگی ورنہ مسلم لیگ(ن)حکومت بھاری مینڈیٹ اور عوامی دباؤ کے نیچے دبی چلے جائے گی۔
اس کا عملی مظاہرہ تو قومی اسمبلی ہال میں موجود افراد نے ان کے اقتدار کے پہلے روز ہی یوں دیکھ لیا تھا کہ ایک حکومتی رکن اسمبلی نے ان کی خدمت میں ایک فائل پیش کی جسے انھوں نے دیکھے بغیر ہی اپنے پیچھے وزیر مملکت کی طرف بغیر کسی ہدایت کے کردیا۔ اس بے رخی پر اس رکن اسمبلی کا منہ لٹک سا گیا مگر دیکھنے والوں کو بات سمجھ آگئی کہ اب کی بار بھرپور عوامی وپارلیمانی مینڈیٹ کے نتیجے میں وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کسی کی سننے کیلئے تیار نہیں۔
اور یہی اطلاعات وزیراعظم آفس سے موصول ہورہی ہیںکہ میاں محمد نواز شریف دن گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک اور بسا اوقات تادیراپنے دفتر میں بیٹھے مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے اور احکامات جاری کرتے رہتے ہیں۔ ادھر کابینہ کے اب تک ہونے والے اجلاسوں میں بھی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے یہی احکامات جاری کئے ہیں کہ میرٹ،شفافیت اور کفایت شعاری کے سنہرے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ملک وقوم کی خدمت میں دن رات ایک کردیں۔ کہنے ، سننے اور جذبات کی حد تک یہ ساری باتیں بہت خوش آئند اور خوش فہم ہیں۔
مگر عملی طور پر ان کے اثرات قطعاً معمولی نہ ہوں گے۔دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان کے عمومی روایتی سیاسی ماحول میں میرٹ،شفافیت اور کفایت شعاری کے سنہری اصولوں کے قابل تحسین مثبت نتائج کے ساتھ ساتھ اس کے متوقع منفی سائیڈ ایفکٹس کو اس کے بائی پروڈکٹس کے طور پر برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں۔ اور یہی میاں نواز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔
اس حکومت کا پہلا امتحان وفاقی بجٹ تھا۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم فور میں جب حکومتی اتحادی اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بجٹ پیش کیاگیا تو میاں نواز شریف کی موجودگی میں چند اراکین اسمبلی نے تنخواہوں میں اضافے کا تقاضا کرنا چاہا تو انہیں انتہائی سختی سے یہ کہہ کر بولنے سے روک دیا گیا کہ ملکی اقتصادی و معاشی صورتحال ٹھیک کرنے کے لئے ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، اراکین پارلیمنٹ نے پارٹی ڈسپلن کے پیش نظر خاموشی اختیار کرلی جو انتہائی قابل تحسین ہے، مگر وزیر خزانہ اپنے اس فیصلے پر بہتر گھنٹے تک بھی برقرار نہ رہ سکے اور سوشل میڈیا پر بیٹھے چند سو لوگوں کے دباؤ میں آکر انھوں نے تنخواہوں میں اضافے کے لئے رات گئے بنائی گئی کمیٹی کو بیٹھ کر سر جوڑنے کا موقع بھی نہ دیا اور اگلی صبح از خود تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان بھی کردیا۔
میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے صف اول کے رہنماؤں کو بلاشبہ ملک میں تبدیلی لانا چاہئے لیکن مدتوں سے بگڑے نظام کو سدھارنے کے لئے جس دانش کی ضرورت ہے اس کی کمی بہر طور نظر آرہی ہے۔ پاکستانی قوم انا پسند عوام پر مشتمل ہے، ان کی انا کی تسکین کے لئے نہ سہی خالصتا ان کے مسائل کے حل کے لئے ہی سہی ان کی بات سن تو لی جائے،معاملات پر دوطرفہ بحث و تمحیص کے دروازے تو کھولے جائیں اور اس کے بعد اگر وہ آپ کے دئیے گئے دس فیصد اضافے یا ایک رکن قومی اسمبلی کے لئے ایک کروڑ روپے کی معمولی رقم برائے ترقیاتی منصوبہ جات پر راضی نہ ہوں تو حکومتی زعماء یہ کہنے کے قابل تو ہوں گے کہ ہم نے تمام تر صورتحال ان کے سامنے رکھ دی، اپنی مجبوریاں بھی بیان کردیںاب اگر پھر بھی کوئی راضی نہیں تو ہم کیا کریں۔
ملک میں جاری شدید توانائی بحران کے خاتمے کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں کوئی دو آرا قائم نہیں کی جاسکتیں مگر ہمارے بہترین دوست ملک چین سے پاکستان کے دورے پر آنے والی واحد کاروباری کمپنی نورینکو کی صلاحیتوں پر ہی اعتبار کرتے ہوئے سب کچھ ان کے ہاتھ میں دینا بھی جلد بازی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نورینکو نامی اس کمپنی نے اب تک ایتھوپیا میں صرف 74 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا ایک یونٹ لگایا ہے جبکہ انڈر گراونڈ ٹرین سسٹم کی تنصیب اور چلانے کا واحد تجربہ بھی ایران کے شہر تہران میںشروع کرنے کا ہے۔
عوام کی توقع یہ تھی کہ حکومت وقت اپنے تمام اہم منصوبے ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کرائے گی اور پھر بین الاقوامی کمپنیوں کو ایک شفاف عمل کے ذریعے ان منصوبوں کی نیلامی کرے گی یا سرمایہ کاری کی دعوتیں وصول کرے گی۔ باہر کی سرمایہ کاردنیا میں تاثرتویہی ہوگاکہ ہم اسی کمپنی کو سارا کام دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔اب تک کی حکومتی پیشرفت چاہے وہ وزارت خزانہ میں ہویا خارجہ میں، وزارت پانی وبجلی میں یا وزارت داخلہ میں ہر معاملے میں جلد بازی سے کام لیا گیا اور حسب توقع اس کے نتائج اچھے نہیں آرہے۔
سرتاج عزیز اور طارق فاطمی وزارت خارجہ میں ڈرون حملوں کے حوالے سے جاری بیانات پہ ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔ وزارت خزانہ والے اسحاق ڈار کی پھرتیاں سنبھالنے میں لگے ہیں جبکہ وزیر داخلہ بلوچستان کے معاملے پر بات کی تہہ پر پہنچے بغیر ہی سول اور نیم عسکری سکیورٹی اداروں کے سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے درپے ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں محترم وزیر اطلاعات و نشریات کو اپنے روایتی خوش کن دھیمے پن سے ہٹ کر سرگرمی دکھانا ہوگی ورنہ مسلم لیگ(ن)حکومت بھاری مینڈیٹ اور عوامی دباؤ کے نیچے دبی چلے جائے گی۔