مثبت تبدیلی کے خدو خال کہاں گئے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت سے ملنے والا مینڈیٹ اُسے اُس کی خواہش پر دیا گیا ہے، کسی نے زبردستی اُسے مسائل...
پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت سے ملنے والا مینڈیٹ اُسے اُس کی خواہش پر دیا گیا ہے، کسی نے زبردستی اُسے مسائل و مصائب کے اِس منجھدار میں نہیں دھکیلا ہے۔ میاں نواز شریف خود عوام سے انتخابی مہم میں اِس بھر پور مینڈیٹ کی درخواستیں کیا کرتے تھے جب کہ اُنہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ملکی مسائل کتنے بڑے، گھمبیر اور حوصلہ شکن ہیں۔ اب جب اُنہوں نے اقتدار کے اِس اہم منصب کو دل و جان سے قبول کر لیا ہے تو اُسکی تمام ذمے داریوں کا بوجھ بھی اُنہیں اُسی اولوالعزمی، بلند جہتی اور وسیع القلبی سے اُٹھانا پڑے گا۔ اب یہ شور کہ ملکی خزانہ خالی ہے اور وسائل بہت قلیل ہیں عوام کو مطمئن نہیں کر پائے گا۔ عوام گزشتہ پانچ برسوں سے جس عذاب سے گزر رہے تھے اُس سے نکلنے کے لیے اُنہوں نے مسلم لیگ کی قیادت پر اعتبار و اعتماد کیا تھا۔
بجلی کے بحران کا سب کو پہلے سے پتہ تھا یہ کوئی نیا راز افشا نہیں ہوا۔ خود میاں شہباز شریف جب عوام کو لے کر سڑکوں پر احتجاج کیا کرتے تھے یہ بحران اُس وقت بھی پوری شدت کے ساتھ موجود تھا اور جس کے خاتمے کے دعوئے اور وعدے تو اُنہوں نے بہت کیے تھے۔ اب جب اُن وعدوں پر عمل کرنے کا وقت آیا تو زبان خاموش اور کند ہو چکی ہے۔ مسئلے کے حل کی بڑی بڑی تاریخیں دے کر اور عوام کو دلفریب سحر میں گرفتار کر کے اُنہیں یوں بے آسرا اور بے امان چھوڑنے والا خادمِ اعلیٰ نجانے اب کہاں گم ہو گیا ہے۔ بڑا بھائی اُن دعوؤں کو جوشِ خطابت میں ماری جانے والی بڑھکیں اور سمجھ کر در گزر کرنے کی استدعا کر رہا ہے۔ شہر شہر گاؤں گاؤں لوگ سخت گرمی میں جب سراپا احتجاج ہوئے تو ڈنڈے اور لاٹھیوں سے اُن کی ایسی مہمان نوازی کی گئی کہ وہ گرمی کے عذاب ہی کو بھول گئے۔
عوام کو ریلیف چاہیے تھا سو زخمی کر کے اور اُنہیں بستر پر لٹا کر مکمل ریلیف دے دیا گیا۔ الیکشن کے بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو کیا کم ہوتی بلکہ اُس میں شاید مزید اضافہ ہی ہو گیا۔ کراچی کے حصے کی بجلی کم کر کے بھی دیگر علاقوں میں کوئی بہتری دکھائی نہیں دی۔ بحران کے حل کے لیے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی ابھی تک سامنے نہ آ پائی۔ وزیرِ پانی و بجلی تو اِسے اپنے پانچ سالہ دور میں بھی ختم ہوتے نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ جب کہ دیگر اکابرین ِ حکومت اِسے تین سالوں تک جاری و سار ی دیکھ رہے ہیں۔ کوئی واضح پروگرام اور ٹائم فریم قوم کے واگزار نہیں گیا ہے، بس بے یقینی اور بے اطمینانی کی فضا کو اُسی طرح قائم و دائم رکھا گیا ہے جیسے گزشتہ دور میں رکھا گیا تھا۔ عوام کو اِس عذاب سے نکلنے کی کوئی حتمی تاریخ دینے سے ہمارے یہ حکمراں بھی اُسی طرح کترا رہے ہیں جیسے سابقہ حکمراں کترایا کرتے تھے۔
نئی حکومت کو اپنی پیدائش کے ایک ہفتے ہی میں سالانہ وفاقی بجٹ دینے کی ذمے داری بھی نبھانی پڑی جو اُس کے جانے پہچانے ماہرِ معاشیات وزیر ِخزانہ جناب اسحق ڈار نے بہر حال اپنے ذمہ لے لی اور حتی المقدور کوشش کر کے ایک ایسا بجٹ پیش کر دیا جس کو سمجھنے کے لیے اِس قوم شاید چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ اِسے اعداد و شمار کا ایک خوبصورت گورکھ دھندا کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا جس کے ثمرات تو عوام الناس تک کیا پہنچتے البتہ تباہ کاریاں دوسرے دن سے ہی شروع ہو گئیں۔ جی ایس ٹی کو بہانہ بناکر فوراً عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کا وہی حربہ اپنایا گیا جو سابقہ حکمرانوں کا بھی بہت آزمودہ وطیرہ رہا تھا۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکشن ایک لمحے کی تاخیر کیے اِس طرح جاری کر دیا گیا کہ مجوزہ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اِضافے کی منظوری خواہ پارلیمنٹ سے ہو یا نہ ہو حکومت کو اربوں رُپوں کی قبل از وقت اضافی آمدنی ضرور ہو جائے۔
یہ کام کرتے ہوئے اُنہیں ذرا سا بھی احساسِ ندامت اور شرمندگی نہ ہوئی کہ وہ بھی وہی کچھ کرنے جا رہے ہیں جو اُن سے پہلے حکمراں کر گئے۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے سے پہلے کم از کم عوام کی حالتِ زار کا تو خیال کر لیا ہوتا۔ جس گڈ گورننس اور بہتر حکمرانی کے وعدوں پر لوگوں سے ووٹ لیا تھا کیا اِسے اُس کی ایک مثال سمجھا جائے۔ ویسے بھی یہ بجٹ یکم جولائی سے نافذ العمل ہو گا، پھر بھلا اِتنی کیا مجبوری تھی کہ ایک دن کی بھی تاخیر کیے بغیر پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ کر کے بدنامی اپنے سر مول لی۔ بھلا ہو ہمارے چیف جسٹس صاحب کا جنہوں نے فوراً سو موٹو نوٹس لے کر اہلِ اقتدار کو آئین و قانون کے دائرے رہتے ہوئے کام کرنے کی تنبیہ کر ڈالی کہ ابھی فنانس بل بھی منظور نہیں ہوا اور عوام پر یہ ظلم و ستم ڈھا دیا گیا۔ یہ نواز حکومت کو صرف ایک تنبیہ ہرگز نہ تھی بلکہ اُسے احساس دلانا مقصود تھا کہ اگر اُس نے بھی وہی طرز عمل اختیار کیا جو اُس سے پہلے والے حکمرانوں کا تھا تو اُس کا حشر بھی کچھ مختلف نہ ہو گا۔
میاں نواز شریف کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آج کا دور 1999 سے بہت مختلف ہے۔ عوام کا شعور و ادراک بہت بلند ہو چکا ہے۔ ملک کے اندر ایک آزاد عدلیہ کار فرما ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ایک نئی جہت اور ایک نئے انداز سے ہر شخص کا احتساب کر رہا ہے۔ اُس کی نظروں سے اب کوئی بچ نہیں سکتا۔ وہ زمانے لد چکے جب قوم کو اپنے حکمرانوں کے اعمال کی خبر اُن کے جانے کے بعد ہوا کرتی تھی۔ اب یہاں ہر شخص کی حرکات و سکنات کا بلا امتیاز و تفریق جائزہ ایک خود مختار اور آزاد میڈیا کر رہا ہے۔ حکومت اگر صاف ستھرے اسلوب اور طریقوں سے عوام کی خدمت کرے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اُس کی پذیرائی اور ستائش میں کوئی بخل سے کام لیں۔ لیکن اگر اُس نے بھی عوام کے مسائل و مصائب میں کمی کی بجائے اُس میں اضافے کی تدبیریں کیں تو قوم اُنہیں ہر گز معاف نہیں کرے گی۔
جس دور رس، پائیدار اور اجتماعی تبدیلی کے حصول کے لیے اِس ملک کے لوگوں نے الیکشن 2013 میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا اگر اُس میں ذرا سا بھی غفلت اور بے اعتنائی برتی گئی تو پھر حکمرانوں کو اپنے حقِ حکمرانی سے محروم ہونا پڑے گا۔ آج کی پارلیمنٹ میں کوئی سیاسی پارٹی بھی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھانے کو تیار نہیں۔ یہاں ایک طرف سابق حکمران پاکستان پیپلز پارٹی ہے تو دوسری جانب عمران کی تحریکِ انصاف ہے جو پہلی بار ہماری پارلیمنٹ میں اپنا کوئی سیاسی کردار ادا کرنے جا رہی ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن حکمرانوں کا ہر وقت گھیراؤ کرنے کے لیے مکمل کمر بستہ ہے۔ لہذا اربابِ اختیار کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھا نا پڑے گا۔ جلد بازی اور نا اہلیِ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہر فیصلہ انتہائی سوچ بچار اور باہم صلاح مشورے کے بعد کرنا ہو گا۔ ایک نو ٹیفیکشن کے اجراء کے بعد اُس کا واپس لینا حکمرانوں کے اہلیت، قابلیت اور خلوصِ نیت پر سوالیہ نشان کا موجب بنا کرتا ہے۔ ایک غلطی نئے حکمرانوں سے اپنے ابتدائی دنوں ہی میں ہو چکی ہے اب مزید کسی غلطی کا سرزد ہونا خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔
بجلی کے بحران کا سب کو پہلے سے پتہ تھا یہ کوئی نیا راز افشا نہیں ہوا۔ خود میاں شہباز شریف جب عوام کو لے کر سڑکوں پر احتجاج کیا کرتے تھے یہ بحران اُس وقت بھی پوری شدت کے ساتھ موجود تھا اور جس کے خاتمے کے دعوئے اور وعدے تو اُنہوں نے بہت کیے تھے۔ اب جب اُن وعدوں پر عمل کرنے کا وقت آیا تو زبان خاموش اور کند ہو چکی ہے۔ مسئلے کے حل کی بڑی بڑی تاریخیں دے کر اور عوام کو دلفریب سحر میں گرفتار کر کے اُنہیں یوں بے آسرا اور بے امان چھوڑنے والا خادمِ اعلیٰ نجانے اب کہاں گم ہو گیا ہے۔ بڑا بھائی اُن دعوؤں کو جوشِ خطابت میں ماری جانے والی بڑھکیں اور سمجھ کر در گزر کرنے کی استدعا کر رہا ہے۔ شہر شہر گاؤں گاؤں لوگ سخت گرمی میں جب سراپا احتجاج ہوئے تو ڈنڈے اور لاٹھیوں سے اُن کی ایسی مہمان نوازی کی گئی کہ وہ گرمی کے عذاب ہی کو بھول گئے۔
عوام کو ریلیف چاہیے تھا سو زخمی کر کے اور اُنہیں بستر پر لٹا کر مکمل ریلیف دے دیا گیا۔ الیکشن کے بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو کیا کم ہوتی بلکہ اُس میں شاید مزید اضافہ ہی ہو گیا۔ کراچی کے حصے کی بجلی کم کر کے بھی دیگر علاقوں میں کوئی بہتری دکھائی نہیں دی۔ بحران کے حل کے لیے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی ابھی تک سامنے نہ آ پائی۔ وزیرِ پانی و بجلی تو اِسے اپنے پانچ سالہ دور میں بھی ختم ہوتے نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ جب کہ دیگر اکابرین ِ حکومت اِسے تین سالوں تک جاری و سار ی دیکھ رہے ہیں۔ کوئی واضح پروگرام اور ٹائم فریم قوم کے واگزار نہیں گیا ہے، بس بے یقینی اور بے اطمینانی کی فضا کو اُسی طرح قائم و دائم رکھا گیا ہے جیسے گزشتہ دور میں رکھا گیا تھا۔ عوام کو اِس عذاب سے نکلنے کی کوئی حتمی تاریخ دینے سے ہمارے یہ حکمراں بھی اُسی طرح کترا رہے ہیں جیسے سابقہ حکمراں کترایا کرتے تھے۔
نئی حکومت کو اپنی پیدائش کے ایک ہفتے ہی میں سالانہ وفاقی بجٹ دینے کی ذمے داری بھی نبھانی پڑی جو اُس کے جانے پہچانے ماہرِ معاشیات وزیر ِخزانہ جناب اسحق ڈار نے بہر حال اپنے ذمہ لے لی اور حتی المقدور کوشش کر کے ایک ایسا بجٹ پیش کر دیا جس کو سمجھنے کے لیے اِس قوم شاید چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ اِسے اعداد و شمار کا ایک خوبصورت گورکھ دھندا کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا جس کے ثمرات تو عوام الناس تک کیا پہنچتے البتہ تباہ کاریاں دوسرے دن سے ہی شروع ہو گئیں۔ جی ایس ٹی کو بہانہ بناکر فوراً عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کا وہی حربہ اپنایا گیا جو سابقہ حکمرانوں کا بھی بہت آزمودہ وطیرہ رہا تھا۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکشن ایک لمحے کی تاخیر کیے اِس طرح جاری کر دیا گیا کہ مجوزہ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اِضافے کی منظوری خواہ پارلیمنٹ سے ہو یا نہ ہو حکومت کو اربوں رُپوں کی قبل از وقت اضافی آمدنی ضرور ہو جائے۔
یہ کام کرتے ہوئے اُنہیں ذرا سا بھی احساسِ ندامت اور شرمندگی نہ ہوئی کہ وہ بھی وہی کچھ کرنے جا رہے ہیں جو اُن سے پہلے حکمراں کر گئے۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے سے پہلے کم از کم عوام کی حالتِ زار کا تو خیال کر لیا ہوتا۔ جس گڈ گورننس اور بہتر حکمرانی کے وعدوں پر لوگوں سے ووٹ لیا تھا کیا اِسے اُس کی ایک مثال سمجھا جائے۔ ویسے بھی یہ بجٹ یکم جولائی سے نافذ العمل ہو گا، پھر بھلا اِتنی کیا مجبوری تھی کہ ایک دن کی بھی تاخیر کیے بغیر پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ کر کے بدنامی اپنے سر مول لی۔ بھلا ہو ہمارے چیف جسٹس صاحب کا جنہوں نے فوراً سو موٹو نوٹس لے کر اہلِ اقتدار کو آئین و قانون کے دائرے رہتے ہوئے کام کرنے کی تنبیہ کر ڈالی کہ ابھی فنانس بل بھی منظور نہیں ہوا اور عوام پر یہ ظلم و ستم ڈھا دیا گیا۔ یہ نواز حکومت کو صرف ایک تنبیہ ہرگز نہ تھی بلکہ اُسے احساس دلانا مقصود تھا کہ اگر اُس نے بھی وہی طرز عمل اختیار کیا جو اُس سے پہلے والے حکمرانوں کا تھا تو اُس کا حشر بھی کچھ مختلف نہ ہو گا۔
میاں نواز شریف کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آج کا دور 1999 سے بہت مختلف ہے۔ عوام کا شعور و ادراک بہت بلند ہو چکا ہے۔ ملک کے اندر ایک آزاد عدلیہ کار فرما ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ایک نئی جہت اور ایک نئے انداز سے ہر شخص کا احتساب کر رہا ہے۔ اُس کی نظروں سے اب کوئی بچ نہیں سکتا۔ وہ زمانے لد چکے جب قوم کو اپنے حکمرانوں کے اعمال کی خبر اُن کے جانے کے بعد ہوا کرتی تھی۔ اب یہاں ہر شخص کی حرکات و سکنات کا بلا امتیاز و تفریق جائزہ ایک خود مختار اور آزاد میڈیا کر رہا ہے۔ حکومت اگر صاف ستھرے اسلوب اور طریقوں سے عوام کی خدمت کرے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اُس کی پذیرائی اور ستائش میں کوئی بخل سے کام لیں۔ لیکن اگر اُس نے بھی عوام کے مسائل و مصائب میں کمی کی بجائے اُس میں اضافے کی تدبیریں کیں تو قوم اُنہیں ہر گز معاف نہیں کرے گی۔
جس دور رس، پائیدار اور اجتماعی تبدیلی کے حصول کے لیے اِس ملک کے لوگوں نے الیکشن 2013 میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا اگر اُس میں ذرا سا بھی غفلت اور بے اعتنائی برتی گئی تو پھر حکمرانوں کو اپنے حقِ حکمرانی سے محروم ہونا پڑے گا۔ آج کی پارلیمنٹ میں کوئی سیاسی پارٹی بھی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھانے کو تیار نہیں۔ یہاں ایک طرف سابق حکمران پاکستان پیپلز پارٹی ہے تو دوسری جانب عمران کی تحریکِ انصاف ہے جو پہلی بار ہماری پارلیمنٹ میں اپنا کوئی سیاسی کردار ادا کرنے جا رہی ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن حکمرانوں کا ہر وقت گھیراؤ کرنے کے لیے مکمل کمر بستہ ہے۔ لہذا اربابِ اختیار کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھا نا پڑے گا۔ جلد بازی اور نا اہلیِ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہر فیصلہ انتہائی سوچ بچار اور باہم صلاح مشورے کے بعد کرنا ہو گا۔ ایک نو ٹیفیکشن کے اجراء کے بعد اُس کا واپس لینا حکمرانوں کے اہلیت، قابلیت اور خلوصِ نیت پر سوالیہ نشان کا موجب بنا کرتا ہے۔ ایک غلطی نئے حکمرانوں سے اپنے ابتدائی دنوں ہی میں ہو چکی ہے اب مزید کسی غلطی کا سرزد ہونا خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔