حقیقی عدل
عمران خان کی حکومت ان کے سیاسی مخالفین کو جتنی کمزور نظر آ رہی ہے وہ اس سے زیادہ مضبوط ہے۔
اگرچہ ہم اخبار والوں سے نیکی کے کام کم ہی ہوتے ہیں لیکن آج میں خالص رفاہ عامہ کے لیے ایک کالم لکھ رہا ہوں اس کے پڑھنے سے بے شمار لوگوںکو دلی اطمینان حاصل ہو گا اور کسی کے دل کو مطمئن کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
میں جو اطلاع اور خوشخبری دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی حالات کی روشنی میں عمران خان کا اقتدار مستحکم ہے اور اپوزیشن جو کچھ کہہ رہی ہے وہ سب خوش فہمیاں ہیں دل ناکام کو بہلانے کے لیے ۔ یہ خوشخبری خاص بطور خاص عمران خان کے ان متوسلین اور عقیدت مندوں کے لیے ہے جن کے حال اور مستقبل کے منصوبے عمران خان کے اقتدار سے وابستہ ہیں۔یہ تمام لوگ اپنے منصوبوں پر کام جاری رکھیں اور فیض و برکات حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے طریقہ واردات پر بچ بچا کر عمل کرتے رہیں کیونکہ نگرانی کا معاملہ بڑا سخت ہے اور معافی کی گنجائش نہیں ہے۔
جو لوگ خالی خولی خوشامد سے کام چلاتے ہیں وہ فن خوشامد میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ خوشامد ہر حکمران کو پسند ہوتی ہے ۔ جو ہمدرد پردہ رکھنے کے لیے کوئی کاروبار کرتے ہیں وہ خصوصی مراعات کے انتظار میں آگے بڑھتے رہیں کہ ان کے اخراجات کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ جو جلد باز غصے میں اپوزیشن کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کے آغاز میں ہی ان کو برائیاں نظر آرہی ہیں وہ اپنے غصے کو نکالنے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں مگر احتیاط سے کام لیں ۔
یہ چند الفاظ تو حسب عادت بطور مشورہ کہہ دیے جن کی اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے والوں ذہین لوگوں کو زیادہ ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عین ممکن ہے یہ سب پڑھ کر وہ سیاسی کم عقلی اور ناتجربہ کاری کا ماتم کریں لیکن ایک بات میں ان سے زیادہ جانتا ہوں کہ اور وہ یہ ہے کہ سعودی بادشاہ کے بعد سب سے زیادہ مضبوط اقتدار ہمارے جناب عمران خان کا ہے اب جس کسی کو بھی عمران خان کی حمایت کرنی ہے اس کو سوچنے کی ضرورت نہیں لیکن جو اپوزیشن کرنا چاہتی ہے وہ سوچ لے اس کا واسطہ اور سامنا ایک ایسے مضبوط حکمران سے ہے جس کی پشت پر مضبوط ترین قوتیں موجود ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں عمران خان سے پہلے بھی مضبوط ترین حکمران آئے جن کے لیے ہر سمت سے موافق ہوائیں چلتی رہیں لیکن پھر ازخود انھوں نے ان موافق ہوائوں کا رخ موڑ دیا اور گرم ہوائوں کے سامنے بیٹھ کر پگھل گئے ۔
اگر حکومت کے آغاز اور حکمرانوں کی نیت کو دیکھا جائے تو یہ حکومت ایک طویل مدتی حکومت ہو گی، یعنی عمران خان اگر بیرونی حالات کا صحیح ادراک کرتے رہے اور اپنے آپ کو خواہ مخواہ مخالف سمت میں نہ لے گئے تو میرے خیال میں یہ پانچ برس ہی نہیں انھیں دوسری مدت بھی مل سکتی ہے کیونکہ عمران خان نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور ایک حقیقت پسندانہ اور معاملات کا فہم رکھنے والے ایک ماہر سیاسی شخص کی طرح حالات کا صحیح اندازہ کر لیا ہے اور ان تمام راستوں کو ہموار کرتے جا رہے ہیں جن پر انھیں سفر کرنا ہے ۔
ملک کے اندر اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے دوستوں آصف زرداری اور نواز شریف کو عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک ٹیبل پر بٹھانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں ۔ آصف زرداری کبھی کہتے ہیں کہ ان کو نواز شریف کی ضرورت نہیں اور کبھی اپنے آپ کو گلیوں میں گھسیٹنے والے شہباز شریف کو راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں ۔ نواز شریف فضل الرحمٰن کی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرتے ہیں ۔ گویا ملک کے اندر اپوزیشن انتشار کا شکار ہے اور بے دلی سے اپوزیشن کا کردار ادا کیا جا رہا ہے۔
ملک کے اندر حکومت کو ہر ادارے کی طرف سے مکمل حمایت مل رہی ہے ۔بیرونی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک حکومت کی مدد پر آمادہ ہیں اور بڑھ چڑھ کر امداد دینے کو تیار ہیں۔ امریکا جیسی دنیا کی واحد سپر پاور بھی نئی پاکستانی حکومت کو بغور دیکھ رہی ہے اور محتاط انداز میں تعلقات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ہم پاکستانیوں کو اپنی حیثیت اور اہمیت کا اندازہ ہو نہ ہو دنیا کے پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اس ملک کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستان کی توڑ پھوڑ شاید ان کے لیے ممکن نہ ہو اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ اس اہم ملک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے فی الحال یہ خام خیالی دل سے نکال ہی دی جائے تو بہتر ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے، بلکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ حکومت کامیابی سے چل بھی رہی ہے اور مثبت انداز سے آگے بڑھ بھی رہی ہے۔
عمران خان کی حکومت ان کے سیاسی مخالفین کو جتنی کمزور نظر آ رہی ہے وہ اس سے زیادہ مضبوط ہے اور ان کا اقتدار مستحکم ہے۔ اگر عمران خان نے ملک کے اندر اپنی پالیسیوں کو عوامی خدمت میں بہتر بنا دیا ، معاشی صورتحال بہتر کرنے میں وہ کامیاب ہو گئے، اپنے اوپر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی کوئی صورت تلاش کر لی اور احتساب کا دائرہ اپنے ساتھیوں تک بھی وسیع کر دیا یعنی عدل قائم کرنے کی حقیقی کوشش کی تو ان کے اقتدار کے استحکام کے اسباب میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔
خبریں ہیں کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو کسی بھی سیاسی ساتھی اور خاص طور پر عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں کی سفارش پر کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ عمران خان کے چند قریبی رفقاء اس فیصلے سے شاکی نظر آتے ہیں، انھوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے اور حالات کے موافق ہونے کے انتظار میں ہیں ۔عمران خان پہلے ہی چند وزراء کے بارے میں چھان بین شروع کر چکے ہیں اس لیے وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے قریب ترین سیاسی رفقاء کسی الجھن کا شکار ہوں۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
میں جو اطلاع اور خوشخبری دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی حالات کی روشنی میں عمران خان کا اقتدار مستحکم ہے اور اپوزیشن جو کچھ کہہ رہی ہے وہ سب خوش فہمیاں ہیں دل ناکام کو بہلانے کے لیے ۔ یہ خوشخبری خاص بطور خاص عمران خان کے ان متوسلین اور عقیدت مندوں کے لیے ہے جن کے حال اور مستقبل کے منصوبے عمران خان کے اقتدار سے وابستہ ہیں۔یہ تمام لوگ اپنے منصوبوں پر کام جاری رکھیں اور فیض و برکات حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے طریقہ واردات پر بچ بچا کر عمل کرتے رہیں کیونکہ نگرانی کا معاملہ بڑا سخت ہے اور معافی کی گنجائش نہیں ہے۔
جو لوگ خالی خولی خوشامد سے کام چلاتے ہیں وہ فن خوشامد میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ خوشامد ہر حکمران کو پسند ہوتی ہے ۔ جو ہمدرد پردہ رکھنے کے لیے کوئی کاروبار کرتے ہیں وہ خصوصی مراعات کے انتظار میں آگے بڑھتے رہیں کہ ان کے اخراجات کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ جو جلد باز غصے میں اپوزیشن کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کے آغاز میں ہی ان کو برائیاں نظر آرہی ہیں وہ اپنے غصے کو نکالنے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں مگر احتیاط سے کام لیں ۔
یہ چند الفاظ تو حسب عادت بطور مشورہ کہہ دیے جن کی اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے والوں ذہین لوگوں کو زیادہ ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عین ممکن ہے یہ سب پڑھ کر وہ سیاسی کم عقلی اور ناتجربہ کاری کا ماتم کریں لیکن ایک بات میں ان سے زیادہ جانتا ہوں کہ اور وہ یہ ہے کہ سعودی بادشاہ کے بعد سب سے زیادہ مضبوط اقتدار ہمارے جناب عمران خان کا ہے اب جس کسی کو بھی عمران خان کی حمایت کرنی ہے اس کو سوچنے کی ضرورت نہیں لیکن جو اپوزیشن کرنا چاہتی ہے وہ سوچ لے اس کا واسطہ اور سامنا ایک ایسے مضبوط حکمران سے ہے جس کی پشت پر مضبوط ترین قوتیں موجود ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں عمران خان سے پہلے بھی مضبوط ترین حکمران آئے جن کے لیے ہر سمت سے موافق ہوائیں چلتی رہیں لیکن پھر ازخود انھوں نے ان موافق ہوائوں کا رخ موڑ دیا اور گرم ہوائوں کے سامنے بیٹھ کر پگھل گئے ۔
اگر حکومت کے آغاز اور حکمرانوں کی نیت کو دیکھا جائے تو یہ حکومت ایک طویل مدتی حکومت ہو گی، یعنی عمران خان اگر بیرونی حالات کا صحیح ادراک کرتے رہے اور اپنے آپ کو خواہ مخواہ مخالف سمت میں نہ لے گئے تو میرے خیال میں یہ پانچ برس ہی نہیں انھیں دوسری مدت بھی مل سکتی ہے کیونکہ عمران خان نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور ایک حقیقت پسندانہ اور معاملات کا فہم رکھنے والے ایک ماہر سیاسی شخص کی طرح حالات کا صحیح اندازہ کر لیا ہے اور ان تمام راستوں کو ہموار کرتے جا رہے ہیں جن پر انھیں سفر کرنا ہے ۔
ملک کے اندر اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے دوستوں آصف زرداری اور نواز شریف کو عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک ٹیبل پر بٹھانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں ۔ آصف زرداری کبھی کہتے ہیں کہ ان کو نواز شریف کی ضرورت نہیں اور کبھی اپنے آپ کو گلیوں میں گھسیٹنے والے شہباز شریف کو راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں ۔ نواز شریف فضل الرحمٰن کی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرتے ہیں ۔ گویا ملک کے اندر اپوزیشن انتشار کا شکار ہے اور بے دلی سے اپوزیشن کا کردار ادا کیا جا رہا ہے۔
ملک کے اندر حکومت کو ہر ادارے کی طرف سے مکمل حمایت مل رہی ہے ۔بیرونی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک حکومت کی مدد پر آمادہ ہیں اور بڑھ چڑھ کر امداد دینے کو تیار ہیں۔ امریکا جیسی دنیا کی واحد سپر پاور بھی نئی پاکستانی حکومت کو بغور دیکھ رہی ہے اور محتاط انداز میں تعلقات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ہم پاکستانیوں کو اپنی حیثیت اور اہمیت کا اندازہ ہو نہ ہو دنیا کے پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اس ملک کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستان کی توڑ پھوڑ شاید ان کے لیے ممکن نہ ہو اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ اس اہم ملک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے فی الحال یہ خام خیالی دل سے نکال ہی دی جائے تو بہتر ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے، بلکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ حکومت کامیابی سے چل بھی رہی ہے اور مثبت انداز سے آگے بڑھ بھی رہی ہے۔
عمران خان کی حکومت ان کے سیاسی مخالفین کو جتنی کمزور نظر آ رہی ہے وہ اس سے زیادہ مضبوط ہے اور ان کا اقتدار مستحکم ہے۔ اگر عمران خان نے ملک کے اندر اپنی پالیسیوں کو عوامی خدمت میں بہتر بنا دیا ، معاشی صورتحال بہتر کرنے میں وہ کامیاب ہو گئے، اپنے اوپر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی کوئی صورت تلاش کر لی اور احتساب کا دائرہ اپنے ساتھیوں تک بھی وسیع کر دیا یعنی عدل قائم کرنے کی حقیقی کوشش کی تو ان کے اقتدار کے استحکام کے اسباب میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔
خبریں ہیں کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو کسی بھی سیاسی ساتھی اور خاص طور پر عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں کی سفارش پر کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ عمران خان کے چند قریبی رفقاء اس فیصلے سے شاکی نظر آتے ہیں، انھوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے اور حالات کے موافق ہونے کے انتظار میں ہیں ۔عمران خان پہلے ہی چند وزراء کے بارے میں چھان بین شروع کر چکے ہیں اس لیے وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے قریب ترین سیاسی رفقاء کسی الجھن کا شکار ہوں۔