سینٹرل جیل میں سرچ آپریشن500موبائل فون بیٹریاں چارجر اور منشیات برآمد

برآمدہونیوالے سامان کو جیل کے احاطے میں حکام نے نذر آتش کردیا،آئندہ بھی سرچ آپریشن کیے جاتے رہیں گے، مظفر عالم صدیقی.

جیل میں منشیات فروشی اور موبائل فون کا استعمال عام ہے،مبینہ طور پر جیل حکام خود بھی اس دھندے میں ملوث ہیں،ذرائع فوٹو: فائل

سینٹرل جیل میں جیل پولیس نے سرچ آپریشن کے دوران متعدد بیرکس اور قیدیوں کے قبضے سے 500 موبائل فون ، بیٹریاں ، چارجر اور بھاری مقدار میں منشیات برآمد ہوئی ، برآمد کرلیں۔

سامان کو جیل کے احاطے میں حکام نے نذر آتش کردیا ، دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشن محض دکھاوا ہے ، جیل کے اندر منشیات فروشی اور موبائل فون کا استعمال معمول کی بات ہوگئی ہے ، مبینہ طور پر جیل پولیس کے اہلکار ملوث ہیں جوکہ لاکھوں روپے اعلیٰ حکام کو پہنچاتے ہیں ، جیل کے اندر اگر سی سی ٹی وی کیمرے اور موبائل فون جیمرز لگادیے جائیں تو ایسے واقعات کا سدباب کیا جاسکتا ہے ، تفصیلات کے مطابق سینٹرل جیل میں گزشتہ روز جیل پولیس نے سرچ آپریشن کیا ، اس دوران متعدد بیرکس اور قیدیوں کی تلاشی لی گئی ، آپریشن کئی گھنٹے طویل تھا۔

اس دوران متعدد قیدیوں سے موبائل فون ، موبائل فون کی بیٹریاں اور چارجر کے علاوہ بھاری مقدار میں منشیات بھی برآمد ہوئی ، ڈی آئی جی جیل خانہ جات مظفر عالم صدیقی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرچ آپریشن کے دوران تقریباً 500 موبائل فون ، بیٹریاں اور چارجر برآمد ہوئے ہیں ، مذکورہ آپریشن معمول کی کارروائی تھی ، جیل میں اس طرح کا آپریشن ہر تھوڑے عرصے بعد کیا جاتا ہے ، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ جب قیدی پیشی پر عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں پر قیدیوں کو موبائل فون اور دیگر اشیا فراہم کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے جیل تک یہ تمام اشیا آجاتی ہیں، انھوں نے مزید وضاحت کی کہ جیل حکام قیدیوں کی تلاشی تو لیتے ہیں لیکن بعض اوقات قیدی اپنا سامان انتہائی مہارت سے چھپاکر جیل کے اندر لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔




ڈی آئی جی مظفر عالم صدیقی نے مزید کہا کہ جیل حکام کی جانب سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں ، انھوں نے آئندہ بھی ایسے سرچ آپریشن جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا، انھوں نے کہا کہ جن قیدیوں کے پاس سے ایسی اشیا برآمد ہوئی ہیں انھیں سزا کے دور پر ایک ہفتے سے 10 روز کے لیے دوسرے قیدیوں سے الگ کردیتے ہیں، دوسری جانب انتہائی باوثوق ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ جیل میں سرچ آپریشن محض نام نہاد آپریشن اور دکھاوا ہے ، جیل کے اندر موبائل فون کا استعمال اور منشیات فروشی ایک معمول کی بات بن گئی ہے۔

، جیل پولیس کے اہلکار خود قیدیوں کو رقم کے عوض موبائل فون چارج کرکے دیتے ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ جیل کے اندر افسران کے منظور نظر قیدی کراٹین چلاتے ہیں اور نئے آنے والے قیدیوں سے ان پر تشدد نہ کرنے کے ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں ، ایسے قیدیوں میں عمر قید اور سزائے موت پانے والے قیدی بھی شامل ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان کے کیس میں عمر قید پانے والا قیدی ڈاکٹر کے نام سے جیل میں مشہور ہے اور اعلیٰ افسران کا انتہائی چہیتا اور ان کے لیے کماؤ پوت ہے، ذرائع نے بتایا کہ ملاقات، بیرک 17 ، بیرک 47 اور دیگر بیرکس میں قیدیوں سے مبینہ طور پر ہزاروں روپے لیے جاتے ہیں جوکہ اعلیٰ افسران کو ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے کی صورت میں دیے جاتے ہیں۔
Load Next Story