گیس بندش4 اہم فرٹیلائزرپلانٹس بند ہونےکاخدشہ

ناردرن ریجن کے چاروں پلانٹس کوہفتے میںایک دن گیس ملی،ملازمین فارغ کیے جارہے ہیں.

ناردرن ریجن کے چاروں پلانٹس کوہفتے میںایک دن گیس ملی،ملازمین فارغ کیے جارہے ہیں. فوتو ای ایف پی

لاہور:
حکومتی سطح پر مقامی فرٹیلائزر پلانٹس کیلیے قدرتی گیس کی بندش کا سلسلہ طویل دورانیے تک جاری رہا تو ناردرن ریجن کی گیس کمپنی کے نیٹ ورک پرموجود 4 اہم فرٹیلائزر پلانٹس بند ہونے کے خطرات پیدا ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں ان پلانٹس سے وابستہ ہزاروں افراد بیروزگار ہوجائیں گے۔ یہ بات فرٹیلائزر مینوفیکچررز پاکستان ایڈوائزری کونسل کے ایگزیکٹوڈائریکٹر شہاب خواجہ نے ''ایکسپریس'' سے بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ 18ماہ کے دوران مقامی فرٹیلائزر پلانٹس کیلیے قدرتی گیس کی فراہمی کے حجم میں نمایاں کمی کے باعث ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے22 لاکھ ٹن یوریا کی درآمدات ہوئیں جس پر پاکستان کو1.1ارب ڈالر مالیت کا خطیر زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑا ہے اورحکومت کوتقریباً57ارب روپے مالیت کی زرتلافی بھی قومی خزانے سے فراہم کرنا پڑی ہے۔

شہاب خواجہ نے کہا کہ سوئی ناردرن گیس کے نیٹ ورک پر موجود چاروں فرٹیلائزر پلانٹس پر بینکوں کے 150ارب روپے مالیت کے مجموعی قرضے واجب الادا ہیں اور سال 2012 کے دوران چاروں فرٹیلائزر پلانٹس کو صرف ایک دن فی ہفتہ کے حساب سے گیس فراہم کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ پلانٹس اپنے ملازمین کو فارغ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ معیشت کے دیگر تمام شعبے جن میں سی این جی، پاورسیکٹر اور صنعتی شعبہ شامل ہیں کو قدرتی گیس فراہم کی جارہی ہے لیکن صرف فرٹیلائزر سیکٹر کوقدرتی گیس کی فراہمی مکمل طورپر بندکردی گئی ہے، سال 2011 کی پہلی سہ ماہی کے دوران 9ارب 22کروڑ روپے مالیت کا ریونیو جنریٹ کرنے والے مقامی فرٹیلائزرپلانٹس 32 فیصد کمی کے بعد 6ارب 22کروڑ روپے کے ریونیو جنریشن کی سطح پر آگئے جبکہ سال 2011 کی پہلی سہ ماہی کے 2ارب روپے منافع کے مقابلے میں 2012 کی پہلی سہ ماہی 133فیصد کمی کے بعد 67کروڑ روپے کے نقصان کا شکار ہوگئے ہیں۔


انہوں نے بتایاکہ 2012 کی دوسری سہ ماہی فرٹیلائزر سیکٹر کیلیے مزید بدترین ثابت ہورہی ہے کیونکہ پلانٹس 3ماہ سے مکمل طورپر بند ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کھاد بنانے اور ملکی زرعی معیشت میں اہم کردار اداکرنے والے کھاد پلانٹس کے ساتھ امتیازی سلوک بند کیا جائے کیونکہ کھاد پلانٹس کا خام مال قدرتی گیس ہے جبکہ دوسرے شعبے پٹرول، ڈیزل، اور فرنس آئل کے ذریعے بھی اپنی پیداواری سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ 2010 میں 770 روپے میں دستیاب یوریا بیگ اب 1670روپے میں مل رہا ہے جس سے کسانوں نے گزشتہ 18ماہ میں 53ارب روپے اضافی صرف یوریا کی خرید پر صرف کیے، حکومت کی جانب سے دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی بھی کسانوں تک نہیں پہنچی۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ 3 سال میں 2.2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے فرٹیلائزر پلانٹس بدترین امتیازی سلوک اور 5 سال میں کسانوں کو 504 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کے باوجود حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کسانوں کو سستی کھاد کی فراہمی اور ملکی زرعی پیداوار کو مناسب قیمتوں پر برقرار رکھنے کیلیے ملکی سطح پر سستی کھاد کی پیداوار کو ترجیح دے۔
Load Next Story