امریکا نے پانچ طالبان کو رہا کر دیا
طالبان کی طرف سے اس ماہ کے اوائل میں افغانستان کے لیے امریکی نمایندے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
غیرملکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے پانچ افراد نے قطر میں قائم طالبان کے سیاسی آفس میں شمولیت اختیار کر لی ہے' ان پانچ ارکان کو2014ء میں گوانتا ناموبے کی جیل سے رہا کیا گیا تھا' افغان طالبان نے ان پانچوں کی رہائی کے بدلے میں امریکی فوج کے ایک سارجنٹ بولی بگدل کو رہا کیا تھا' میڈیا کی اطلاع کے مطابق اس کا اعلان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز کیا ہے۔
آزاد کیے جانے والے پانچوں طالبان کا تعلق جنوبی افغانستان کے علاقے سے ہے اب وہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا حصہ بنیں گے۔ رہا کیے جانے والے طالبان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے ہیں۔
طالبان کے مخالف گروپ، جو ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اگر طالبان امن مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دیں تو ہمارے لیے اور زیادہ مصیبت کی بات ہو گی کیونکہ اس صورت میں کابل کی نمایندگی کون کرے گا، وجہ یہ ہے کہ کابل حکومت خود تقسیم در تقسیم کا شکار ہے صرف نظریات کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ان میں نسلی اختلافات بھی بہت زیادہ ہیں تاہم افغان حکومت کی امن کونسل کے ایک رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے واشنگٹن کو انتباہ کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بعض باتوں کا بطور خاص خیال رکھنا پڑے گا۔
طالبان کی طرف سے اس ماہ کے اوائل میں افغانستان کے لیے امریکی نمایندے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ طالبان کے نمایندے نے بتایا کہ دونوں فریقین میں دوبارہ ملاقات کرنے پر اتفاق بھی ہو گیا ہے۔ پاکستان نے بھی ایک غیر متوقع پیش رفت میں ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا۔ جنھیں2010ء میں افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ ملاقات اس ماہ کے اوائل میں اسلام آباد میں افغانستان پر امریکا کے خصوصی نمایندے خلیل زاد کے دورے کے بعد ہوئی تھی۔
طالبان کے ایک سابق رکن حکیم مجاہد نے جو اب افغان حکومت کی امن کونسل کے رکن کے طور پر کام کر رہے ہیں کہا ہے کہ گوانتا ناموبے کی جیل سے رہا ہونے والے پانچ طالبان کی امن عمل میں شمولیت کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ ان کی بات کو فریق ثانی کی طرف سے بھی خاص طور پر اہمیت دی جائے گی۔
آزاد کیے جانے والے پانچوں طالبان کا تعلق جنوبی افغانستان کے علاقے سے ہے اب وہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا حصہ بنیں گے۔ رہا کیے جانے والے طالبان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے ہیں۔
طالبان کے مخالف گروپ، جو ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اگر طالبان امن مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دیں تو ہمارے لیے اور زیادہ مصیبت کی بات ہو گی کیونکہ اس صورت میں کابل کی نمایندگی کون کرے گا، وجہ یہ ہے کہ کابل حکومت خود تقسیم در تقسیم کا شکار ہے صرف نظریات کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ان میں نسلی اختلافات بھی بہت زیادہ ہیں تاہم افغان حکومت کی امن کونسل کے ایک رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے واشنگٹن کو انتباہ کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بعض باتوں کا بطور خاص خیال رکھنا پڑے گا۔
طالبان کی طرف سے اس ماہ کے اوائل میں افغانستان کے لیے امریکی نمایندے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ طالبان کے نمایندے نے بتایا کہ دونوں فریقین میں دوبارہ ملاقات کرنے پر اتفاق بھی ہو گیا ہے۔ پاکستان نے بھی ایک غیر متوقع پیش رفت میں ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا۔ جنھیں2010ء میں افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ ملاقات اس ماہ کے اوائل میں اسلام آباد میں افغانستان پر امریکا کے خصوصی نمایندے خلیل زاد کے دورے کے بعد ہوئی تھی۔
طالبان کے ایک سابق رکن حکیم مجاہد نے جو اب افغان حکومت کی امن کونسل کے رکن کے طور پر کام کر رہے ہیں کہا ہے کہ گوانتا ناموبے کی جیل سے رہا ہونے والے پانچ طالبان کی امن عمل میں شمولیت کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ ان کی بات کو فریق ثانی کی طرف سے بھی خاص طور پر اہمیت دی جائے گی۔