مل گیا مل گیا مل گیا

ایک ’’ سوچ ‘‘ ہی تو ہے کسی پہاڑ کو تو ایک جگہ سے اٹھا کر لے جانا نہیں ہے۔

barq@email.com

ہم نے کہا تھا، کہا تھا ہم نے اور یہ ''بانگ قلم و کالم '' میں کہا تھا کہ اپنے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک دانا دانشور ، عقل دانہ اورعقل کل پڑا ہوا ہے اور ایک دن ان میں سے کوئی وہ نسخۂ کیمیا، وہ امرت دھارا اور وہ تریاق پیدا کرکے ہمارے تمام مسائل کے حل کا چھومنتر ڈھونڈ لے گا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری امیدیں اور توقعات بار آور ہو گئیں اور وہ امرت دھارا ، وہ تریاق اور چھومنتر مل گیا۔

مزید خوشی کی بات ہے کہ یہ کارنامہ ہمارے ہی قلم قبیلے اور کالم لکھیلے صاحب نے دریافت کیا ہے ۔ ہم خود اگرچہ دانا دانشوروں میں سے نہیں بہت دور کی نسبت ان سے رکھتے ہیں مثلاً قیام پاکستان سے پہلے کا قصہ ہے کہ مال روڈ لاہور میں دو خاکروب میاں بیوی سڑک پر جھاڑو لگا رہے تھے کہ اتنے میں تحریک آزادی کا جلوس آکر گزرنے لگا۔ خاکروب میاں بیوی کنارے کھڑے جلوس کو دیکھ رہے تھے۔ بیوی نے میاں سے پوچھا ، یہ کس بات کا جلوس ہے۔ اس پر خاکروب بولا، یہ لوگ ہم سے آزادی مانگ رہے ہیں ۔

چنانچہ ہم بھی صرف اتنا ہی تعلق اس قبیلے سے رکھتے ہیں لیکن فخر کے لیے تو دو پیسے کی افیم بھی کافی ہوتی ہے، جو نسخہ اس کالم نگار ، سوری دانا دانشور کالم نگار نے دریافت اور لانچ کیا ہے وہ صرف چار پانچ الفاظ پر مشتمل ہے لیکن کیا بات ہے ہمیں تو ابھی سے اپنے تمام مسائل حل ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں ۔ وہ چار پانچ الفاظ یہ ہے ۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی ۔

پڑھیے غور کیجیے سوچیے اور پھرکہیے کہ

آکے کہدے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا۔ ہمارے ہاں قدر دانی کی کمی نہ ہوتی تو اس پر اب تک نہ جانے کتنے بریکنگ نیوز لگ چکے ہوتے خصوصی پروگرام بن چکے ہوتے اور کتنے ٹاک شوز بج چکے ہوتے لیکن یہاں جنگل میں مور ناچا اور کسی نے نہیں دیکھا ۔

ہمارے پڑوسی ملک کے چینل اس معاملے میں بڑے تیز ہیں وہ اکثر اس قسم کے پروگرام لانچ کرتے رہتے ہیں کہ یم راج کا محل مل گیا ۔ رام چندر جی کی کمان دریافت ہو گئی ، مہا بھارت کی جنگ کا میدان معلوم ہو گیا سنجیونی بوٹی مل گئی ، راون کے وتھ کا فلاں حصہ مل گیا ، وہ ہانڈی مل گئی جس سے کرش کنیا مکھن چرایا کرتے تھے وہ مقام مل گیا جہاں سیتا زمین میں سما گئی تھی کیلاش پربت پر شیوجی کا آستان ڈھونڈ لیا گیا ۔

لیکن یہاں اتنی بڑی بات ہو گئی ایک امرت دھارامسائل کا نسخہ مل گیا اور کوئی کچھ بھی نہیں کہہ رہا ہے اور یہی وہ '' سوچ '' ہے جس کی تبدیلی کا یہ نسخہ ہے، واقعی ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے جس طرح کسی گاڑی یا مشین کا خراب پرزہ بدلنا ضروری ہو جاتا ہے اور یہ کوئی اتنا بڑا یا خرچ والا کام بھی نہیں ہے، چٹکیوں میں ہو سکتا ہے، کرنا صرف یہ ہے کہ اٹھارہ بیس کروڑ لوگ قبلہ رو ہو کر محمود و ایاز بن جائیں اور اپنی سوچ کا اسٹیرنگ گھما کر چل پڑیں۔


ایک '' سوچ '' ہی تو ہے کسی پہاڑ کو تو ایک جگہ سے اٹھا کر لے جانا نہیں ہے کسی دریا کو موڑ کر الٹی سمت بہانا نہیں ہے کسی لیڈر کو انسان بنانا نہیں اور کسی سرکاری کو کام کرنے پر مجبور کرنا بھی نہیں ہے سیاسی لیڈروں سے سچ بلوانا نہیں سیاسی پارٹیوں کے اپنے اندر موروثیت کے بجائے جمہوریت لانا نہیں ۔ صرف '' سوچ '' تو بدلنا ہے ۔ لو ہم نے تو ابھی سے اپنی سوچ بدل لی ہے اور پاکستان کو نیا پاکستان سمجھ لیا ہے کچھ تکلیف ہوئی کوئی خرچہ آیا ۔ یہاں تک کہ اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی اور سوچ بدل گئی ۔ فیض احمد فیض نے بہت پہلے کہا تھا کہ

یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا

مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے

فیض تو بیچارے ''بخیہ گری ''میں بہت زیادہ معروف تھے لیکن ہم تو بالکل فارغ بیٹھے ہیں اور باتوں کے طوطے مینا یا بٹیر لڑا رہے ہیں زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کا پاجامہ ادھیڑ کر سیا کرتے تھے اور اب سی سی کر ادھیڑنا شروع کیے دیتے ہیں۔ ''سوچ'' ویسے تو اردو کا لفظ ہے لیکن ' سوئچ ''آن کرنے جیسا ہے ۔ سوئچ دبائیے اور سوچ بدل لیجیے۔ بس ہو گیا ۔

ہاں ایک تھوڑی سی دشواری اس وجہ سے پیش آسکتی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں جذبہ ایثار و قربانی بہت زیادہ ہے ساتھ ہی اخلاق بھی، اس لیے کوئی نیک یا اچھا کام کرتے وقت خود غرضی سے کام نہیں لیتے اور پہلے آپ پہلے آپ کے جذبے سے سرشار ہیں مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر شخص خود کو چھوڑ کر اور بھول کر راہ مستقیم پر چلانا بلکہ غازی و شہید بنانا زیادہ اور خود کھانے کے بجائے دوسروں کو کھلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ چاہتا ہے کہ دوسرے اچھے مسلمان بنیں اچھے پاکستانی بنیں نیک و شریف بنیں اور جنت میں پہلے آپ پہلے آپ کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ بڑا ہی نیک جذبہ ہے ۔ اس ماں باپ کی طرح جو خود تو اپنے لیے عید پر کچھ نہ لیں اور بچوں کو سب کچھ دلادیں خود روکھی سوکھی کھائیں یا بھوکے رہیں لیکن بچوں کو اچھے سے اچھا کھلائے بڑا بھائی چھوٹے بھائی بہن کے لیے اپنی خوشی بیچ دے ۔

ایسا ہی جذبہ ایثار و قربانی ہم پاکستانی مسلمانوں میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے دن رات یہی کوشش کرتے ہیں دوسرے اچھے پاکستانی بنیں اچھے مسلمان بنیں جنت کی راہ پر چلیں ۔

وہ کچھ لوگ تھے۔ کسی کام یا نیک کام پر نکلے تو گنتی کرنے لگے ۔ لیکن ہر بار ایک فرد کی کمی پڑ جاتی تھی تقریباً سب نے گنتی کی اور نتیجہ وہی نکلتا ایک فرد کی کمی کیونکہ وہ دوسروں کو گنتے ہوئے خود کو گننا بھول جاتا تھا۔

اور اب اس سوچ کو بدلنے کے سلسلے میں بھی یہی اڑچن پیش آسکتی ہے ہر کوئی چاہے گا کہ دوسرا پہلے اپنی سوچ بدلے یا پہلے دوسروں کی سوچیں بدل دے۔ باقی نسخہ تیر بہدف ہونے میں کلام نہیں ہے ۔ نسخہ مل گیا مل گیا مل گیا صرف استعمال کرنا باقی ہے وہ بھی ہو جائے گا اگر کبھی دوسروں کو کھلانے کے بجائے خود کھانے کا خیال آگیا۔
Load Next Story