گھر مزدور تشدد کا شکار کیوں

ایک تلخ حقیقت ہے کہ 19 ویں صدی کے آغاز تک یہ گھریلوکام غلام مرد وخواتین انجام دیا کرتے تھے۔

PESHAWAR:
سب سے پہلے ہم اپنے سماج کے ان مزدوروں کا ذکرکریں گے، جوکہ گھریلو مزدورکہلاتے ہیں، یہ گھروں میں کام کرکے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں، ان کا کام ہوتا ہے،کھانا تیارکرنا، برتن وکپڑے دھونا،گھرکی صفائی ستھرائی کرنا، باغبانی کرنا۔البتہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 19 ویں صدی کے آغاز تک یہ گھریلوکام غلام مرد وخواتین انجام دیا کرتے تھے مگر پے در پے تحریکوں نے جنم لیا اور تمام قسم کا استحصال وجبر برداشت کرتے کرتے یہ بات تسلیم کروا لی گئی کہ آزاد پیدا ہونے والے انسان کو آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسرکرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

چنانچہ 1804ء میں عالمی پیمانے پر یہ قوانین نافذ کیے گئے کہ انسانوں کی آزادی سلب کرنا یعنی انھیں غلام بنانا جرم ہوگا، پھر برطانوی غلامی مخالف ایک تنظیم نے جو اعداد و شمار جاری کیے اس کے مطابق عصر حاضر میں بھی دو کروڑ ستر لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں میں اکثریت خواتین و بچوں کی ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ یہ رپورٹ 2004ء میں منظر عام پر آئی۔

ہم ذکر کر رہے تھے گھر مزدوروں کا جوکہ نام کی حد تک تو مزدور ضرور ہیں مگر جس قسم کی زندگی بسر یہ کرتے ہیں وہ زندگی گویا غلامی کی زندگی سے بھی بدتر ہے۔ ان مزدوروں کی جو تعداد بتائی جاتی ہے دنیا بھر میں وہ تعداد ہے دس سے بیس کروڑ جب کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2008ء میں جو رپورٹ جاری کی ہے ۔ اس کے مطابق عصر حاضر میں فقط سعودی عرب میں ان غلاموں کی تعداد پندرہ لاکھ افراد پر مشتمل ہے جب کہ خلیجی ممالک ،شمالی امریکا، ہانگ کانگ، جاپان، جنوبی کوریا و سنگاپور میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد بیان کی جاتی ہے ۔

البتہ سرمایہ کاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی ملازمین رکھے جائیں وہ غیر ملکی ہوں تاکہ اپنے حقوق کے لیے کوئی آواز بلند نہ کر سکیں اور خاموشی سے تمام قسم کا جبرو استحصال برداشت کرتے رہیں یہاں تک کہ ان خواتین پر جنسی تشدد بھی کیا جائے تو یہ خواتین کوئی احتجاج نہ کر سکیں۔ یہ سچ ہے کہ یہ خواتین اپنے کنبے کے بہتر مستقبل کے لیے دیار غیرکا رخ کرتی ہیں۔ رہا سوال کہ ان خواتین کا تعلق کن ممالک سے ہے تو ان خواتین کا تعلق بنگلہ دیش، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سری لنکا، صومالیہ، ایتھوپیا اور پاکستان سے ہے اسی پاکستان سے جس کی ترقی کے دعوے ہمارے حکمران شب و روزکرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ بہرکیف ان خواتین کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں اجرتیں نہ دینا یا قلیل ترین اجرتیں دینا یا بروقت اجرت نا ملنا، اوقات کار لامحدود پورا کھانا نہ دینا مارپیٹ جنسی تشدد عام سی بات ہے۔


وطن عزیز کے نو دولتیے گھر مزدور خواتین کو ملازمت دیتے وقت اچھی شکل و صورت کو ترجیح دیتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ عقل مند راہ اشارہ کافی است، البتہ ان گھر مزدوروں میں اکثریت معصوم بچوں کی بھی ہوتی ہے۔ جن کے والدین غربت سے مجبور ہوکر اپنے جگر گوشوں کو تمام تر نتائج سے بے خبر ہونے کے باعث صاحب ثروت لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کثیر تعداد میں اولاد پیدا کرنے والے و اپنے اس کارنامے پر فخرکرنے والے والدین ایسا اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کا بچہ کم سے کم کھانا تو پیٹ بھر کے کھائے گا اور اجرت کے نام پر کچھ رقم ان کو بھی ملتی رہے گی۔ البتہ ان کے بچے کوکن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا یہ والدین ان حالات سے یا تو بے خبر ہوتے ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔

یعنی سب معلوم ہونے کے باوجود چشم پوشی کرنا چنانچہ ان معصوم بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے بدتر سلوک کی خبریں ان محلات نما گھروں تک ہی محدود رہتی ہیں ۔ پھر بھی سیکڑوں واقعات جوکہ رونما ہوتے ان میں ایک آدھ خبر تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ منظر عام پر آ جاتی ہے۔ ان میں ایک خبر ہے فیصل آباد کی تحصیل سمندری سے تعلق رکھنے والی معصوم کنزہ کے بارے میں جوکہ گزشتہ دو برس سے راولپنڈی کی ولایت کالونی میں رہائش پذیر ایک سرکاری آفیسر خاتون کے گھر میں ملازمت کر رہی تھی اور بدترین تشدد کا شکار تھی۔

جسے اس کی مالکن سنگدل خاتون و اس کے سفاک شوہر نے بدترین تشدد کیا یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ 11 سالہ کنزہ نے چوری کی تھی البتہ جب کنزہ پر تشدد کا ذکر ہوا تو اس کی مالکن ڈاکٹر عمارہ و اس کے شوہر ڈاکٹر محسن نے موقف اختیار کیا کہ کنزہ نے گھر سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی اور دیوار پھاندتے ہوئے گری اور اسے چوٹیں آئیں جب کہ سی پی او کے بیان کے مطابق 11 سالہ کنزہ پر مختلف اوقات میں بدترین تشدد کیا گیا جب کہ حالیہ تشدد کے باعث بچی کے سر پر تین ٹانکے آئے جب کہ چوٹ دو سے تین یوم پرانی ہے البتہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے معدے و آنتوں پر ورم ہے دائیں کندھے پر پرانے زخم کا نشان ہے۔ سر پر گہرے زخم ہیں اور کچھ زخموں کے نشان کوئی دو ہفتے قبل کیے گئے تشدد کے ہیں۔

کنزہ کے بیان کے مطابق اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ بیلٹ، پائپ اور چھری سے تشدد کرنے کے نشانات ننھی کنزہ کے جسم پر موجود ہیں جب کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے آفیسر نوید اختر کی مدعیت میں چار دفعات پر مشتمل مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جب کہ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے جب کہ کنزہ کے والد شبیر کا موقف ہے کہ اس نے اپنی بچی کو ڈاکٹر عمارہ کے حوالے اس لیے کیا تھا کہ اس کی بچی کو اچھی و معیاری تعلیم مل سکے اسے کیا خبرکہ اس کی بچی کو اس قدر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ بہرکیف اس نوع کا یہ کوئی اولین کیس نہیں جو کہ منظر عام پر آیا ہے بلکہ ایسے کیسز اکثر منظر عام پر آتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے کیسز میں بااثر افراد سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ایسے کیسز کے حقیقی مجرم کون ہیں وہ غریب والدین جو غربت سے تنگ آکر بلاتحقیق اپنے بچوں کو ان نو دولتیے لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں یا وہ امیر لوگ جوکہ خوف خدا سے عاری ہیں یا حکمران جوکہ ایسے بچوں کو تعلیم و تحفظ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ یا تینوں وقت اگر والدین اپنے بچوں کو فقط کھانا کھلانے سے بھی قاصر ہیں توکیا ضرورت ہے چھ سے آٹھ بچے پیدا کیے جائیں کیا ایسے والدین سے وہ فلمی قسم کا سوال نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اپنے بچوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟ البتہ اس نوع کے تشدد کا خاتمہ ضروری ہے ، ساتھ میں غربت کا خاتمہ بھی ضروری ہے جوکہ ان واقعات کی جڑ ہے۔
Load Next Story