کراچی کو نظرانداز کیا جانا پاکستان کی بدقسمتی ہے ورلڈ بینک
میگاسٹی بنانے پر10ارب ڈالرخرچ،ملک میں 20 لاکھ نوکریوں کیلیے 8 فیصد نمودرکار ہوگی۔
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ کراچی کو نظرانداز کیا جانا پاکستان کیلیے بدقسمتی ہے۔
عالمی بینک نے کہا ہے کہ کراچی کے انفرااسٹرکچر، شہری ٹرانسپورٹ، صفائی میں بہتری پانی کی فراہمی، ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے اور حفظان صحت کی ضروریات کو پورا کرکے میگاسٹی بنانے کے لیے اگلے 10سال میں تقریباً 10ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
عالمی بینک کی ٹیم کی سربراہ ناموس ظہیر نے کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے موقع پر کہا کہ کراچی کو ملک کی ترقی کا انجن ہونے کے باوجود خطرات لاحق ہیں، پاکستان کو 20 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کے لیے تقریباً 7 سے8 فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں کراچی کو اہم کردار ادا کرنا پڑ ے گا لیکن بدقسمتی سے اس شہر کو طویل عرصے سے نظرانداز کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی بینک کراچی میں مختلف خدمات کی فراہمی کے حوالے سے مالی امداد فراہم کر رہا ہے جن میں ییلو لائن، پانی منصوبہ اور شہری انتظام کے امور شامل ہیں۔ حکومت کے محدود وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے ڈیولپمنٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہے جس کے بہت بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
ناموس ظہیر نے کہا کہ ڈیولپمنٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمائے کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے نجی شعبے کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب کم ازکم 15 فیصد ہونا چاہیے تاکہ حکومت شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنا سکے۔ کراچی ملک کا مالیاتی اور اقتصادی مرکز ہے جو پاکستان کی مجموعی پیداوار کا 12سے15فیصد پیدا کرتا ہے اور ملک میں روزگار کی پیداوار کا پاور ہاؤس ہے۔
انہوں نے کراچی چیمبرکو مشورہ دیا کہ وہ دستیاب سرکاری اراضی پر حکومت کے ساتھ مل کرنجی شعبے کے سرمایہ کاروں کو راغب کریں جہاں ہوٹلز قائم کرکے سیاحوں کو متوجہ کیاجاسکتا ہے۔
عالمی بینک نے کہا ہے کہ کراچی کے انفرااسٹرکچر، شہری ٹرانسپورٹ، صفائی میں بہتری پانی کی فراہمی، ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے اور حفظان صحت کی ضروریات کو پورا کرکے میگاسٹی بنانے کے لیے اگلے 10سال میں تقریباً 10ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
عالمی بینک کی ٹیم کی سربراہ ناموس ظہیر نے کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے موقع پر کہا کہ کراچی کو ملک کی ترقی کا انجن ہونے کے باوجود خطرات لاحق ہیں، پاکستان کو 20 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کے لیے تقریباً 7 سے8 فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں کراچی کو اہم کردار ادا کرنا پڑ ے گا لیکن بدقسمتی سے اس شہر کو طویل عرصے سے نظرانداز کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی بینک کراچی میں مختلف خدمات کی فراہمی کے حوالے سے مالی امداد فراہم کر رہا ہے جن میں ییلو لائن، پانی منصوبہ اور شہری انتظام کے امور شامل ہیں۔ حکومت کے محدود وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے ڈیولپمنٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہے جس کے بہت بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
ناموس ظہیر نے کہا کہ ڈیولپمنٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمائے کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے نجی شعبے کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب کم ازکم 15 فیصد ہونا چاہیے تاکہ حکومت شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنا سکے۔ کراچی ملک کا مالیاتی اور اقتصادی مرکز ہے جو پاکستان کی مجموعی پیداوار کا 12سے15فیصد پیدا کرتا ہے اور ملک میں روزگار کی پیداوار کا پاور ہاؤس ہے۔
انہوں نے کراچی چیمبرکو مشورہ دیا کہ وہ دستیاب سرکاری اراضی پر حکومت کے ساتھ مل کرنجی شعبے کے سرمایہ کاروں کو راغب کریں جہاں ہوٹلز قائم کرکے سیاحوں کو متوجہ کیاجاسکتا ہے۔