اصلاح پسند صدر کا منتخب ہونا ایران میں تبدیلی کی علامت ہے باراک اوباما
موقف متضاد ہونے کے باوجود امریکا، روس شام کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ شام کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی یا نوفلائی زون کا قیام مسئلے کا حل نہیں۔
امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں صدر اوباما نے کہا کہ شامی فضائیہ کو حملوں سے روکنے کیلیے شام پر بم پھینکنا ہوں گے، جس سے نہ صرف مزید ہلاکتیں ہوسکتی ہیں بلکہ کیمائی ہتھیاروں کے نشانہ بننے پر تباہی پھیل سکتی ہے ، انھوں نے کہا کہ انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کے علاوہ بھی اس خطے میں امریکا کے سنجیدہ مفادات وابستہ ہیں، ایک ایسا ملک جو اسرائیل کے پڑوس میں واقع ہو امریکا وہاں انتشار نہیں چاہتا۔ انھوں نے کہا کہ ایران میں اصلاح پسند صدر کا منتخب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کے لوگ دوسری سمت میں چلنا چاہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ نئے صدر کے انتخاب سے ایرانی جوہری معاملے پر کوئی بڑی پیش رفت ہوگی۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایران کے ساتھ جوہری تنازع پر بات چیت کرناچاہتے ہیں لیکن ایران پر عائد پابندیاں اس وقت تک نہیں اٹھائی جاسکتیں جب تک ایران یہ ثابت نہ کردے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنارہا۔ دوسری طرف امریکا اور روس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ شام کے معاملے پر دونوں ممالک کے موقف متضاد ہیں تاہم شام کا مسئلہ حل کرنے کیلیے اعلیٰ سطحی کوششیں کرنے پر اتفاق کیا۔ صدر اوباما اور روسی صدر شمالی آئرلینڈ میں دنیا کے 8طاقتور ممالک، جی ایٹ، کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
اجلاس کے علاوہ صدر اوباما اور صدر پوٹن نے دو گھنٹے تک علیحدہ ملاقات کی جس کے بعد دونوں رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے صدور نے کہا کہ موقف میں اختلاف کے باوجود ان کے درمیان امن کی خواہش پر اتفاق ہے۔روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کہا کہ ہمارا موقف ایک دوسرے سے نہیں ملتا مگر ہم تشدد ختم کرنے، ہلاکتوں کی تعداد کو روکنے اور مسائل کو پرامن انداز میں حل کرنے کے عزم میں متفق ہیں۔انہوںنے ایران میں انتخابات کے بعد اچھی توقعات کا اظہار بھی کیا۔ ادھر روس نے ایک بار پھر شام پر نو فلائی زون بنانے کی مخالفت کردی ۔ ترجمان روسی وزارت خارجہ کے مطابق نوفلائی زون سے متعلق حکمت عملی کا مظاہرہ پہلے بھی لیبیا کے حوالے سے دیکھا جاچکا ہے۔
امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں صدر اوباما نے کہا کہ شامی فضائیہ کو حملوں سے روکنے کیلیے شام پر بم پھینکنا ہوں گے، جس سے نہ صرف مزید ہلاکتیں ہوسکتی ہیں بلکہ کیمائی ہتھیاروں کے نشانہ بننے پر تباہی پھیل سکتی ہے ، انھوں نے کہا کہ انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کے علاوہ بھی اس خطے میں امریکا کے سنجیدہ مفادات وابستہ ہیں، ایک ایسا ملک جو اسرائیل کے پڑوس میں واقع ہو امریکا وہاں انتشار نہیں چاہتا۔ انھوں نے کہا کہ ایران میں اصلاح پسند صدر کا منتخب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کے لوگ دوسری سمت میں چلنا چاہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ نئے صدر کے انتخاب سے ایرانی جوہری معاملے پر کوئی بڑی پیش رفت ہوگی۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایران کے ساتھ جوہری تنازع پر بات چیت کرناچاہتے ہیں لیکن ایران پر عائد پابندیاں اس وقت تک نہیں اٹھائی جاسکتیں جب تک ایران یہ ثابت نہ کردے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنارہا۔ دوسری طرف امریکا اور روس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ شام کے معاملے پر دونوں ممالک کے موقف متضاد ہیں تاہم شام کا مسئلہ حل کرنے کیلیے اعلیٰ سطحی کوششیں کرنے پر اتفاق کیا۔ صدر اوباما اور روسی صدر شمالی آئرلینڈ میں دنیا کے 8طاقتور ممالک، جی ایٹ، کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
اجلاس کے علاوہ صدر اوباما اور صدر پوٹن نے دو گھنٹے تک علیحدہ ملاقات کی جس کے بعد دونوں رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے صدور نے کہا کہ موقف میں اختلاف کے باوجود ان کے درمیان امن کی خواہش پر اتفاق ہے۔روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کہا کہ ہمارا موقف ایک دوسرے سے نہیں ملتا مگر ہم تشدد ختم کرنے، ہلاکتوں کی تعداد کو روکنے اور مسائل کو پرامن انداز میں حل کرنے کے عزم میں متفق ہیں۔انہوںنے ایران میں انتخابات کے بعد اچھی توقعات کا اظہار بھی کیا۔ ادھر روس نے ایک بار پھر شام پر نو فلائی زون بنانے کی مخالفت کردی ۔ ترجمان روسی وزارت خارجہ کے مطابق نوفلائی زون سے متعلق حکمت عملی کا مظاہرہ پہلے بھی لیبیا کے حوالے سے دیکھا جاچکا ہے۔