ایمان کی ضرورت اور اہمیت
عقائد کی حیثیت حاکم، اور انسان کی حیثیت محکوم کی مانند ہے۔
عقیدہ : لفظ عقیدہ ، عقد سے بنا ہے جس کے معنی باندھنا یا گرہ لگانا ہیں۔ عقیدے سے مراد کسی بندھن میں بندھی ہوئی یا کسے گرہ میں جکڑی ہوئی چیز کے ہیں۔ عقیدہ انسان کی فطری کمزوری ہے۔ حیات انسانی کی بنیادی ضرورت ہے کہ اس کو عقیدے کے بندھن میں باندھ دیا جائے اور اس کی گرہ میں مضبوطی سے جکڑ دیا جائے۔
اسی میں اس کی بھلائی اور خیر و عافیت ہے۔ زندگی اور عقیدے کے درمیان اگر فاصلے حائل ہوجائیں تو زندگی ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگتی ہے، اسی لیے انسان زندہ رہنے کے لیے ہوا، روشنی اور پانی کی طرح ایک صحت مند، عقلی اور فطری عقیدے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔
عام خیالات ، پراگندہ اور منتشر خیالات عقیدہ نہیں ہوتے ۔ عقائد سے مراد چند مضبوط، محکم، غیر متزلزل، غیر مشکوک، مخصوص اساسی، اصولی خیالات ہوتے ہیں۔ جس طرح خون دل سے نکل کر جسم کے مختلف حصوں میں گردش کرتا ہوا دل میں لوٹ آتا ہے اسی طرح انسان کا عمل عقیدے سے چل کر دائرۂ حیات کے مختلف شعبوں سے گزرتا ہوا دوبارہ عقیدے پر جاکر ختم ہوجاتا ہے۔
عقائد کی حیثیت حاکم، اور انسان کی حیثیت محکوم کی مانند ہے۔ انسان پر حکمرانی کے جملہ حقوق اور اختیارات عقیدے کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے افعال و اعمال، حرکات و سکنات، ذہنی تصورات، اندرونی جذبات، نیتیں، ارادوں کی کیفیات، غرضیکہ اس کے وجود کل پر اگر کوئی چیز حکومت کرتی ہے تو وہ اس کا عقیدہ ہے۔
عمل سے عقیدے کی پہچان ہوتی ہے، کیونکہ ہر عمل، عقیدے کا عکس ہوتا ہے۔ انسان کی ساری عملی جدوجہد عقائد کے زیر سایہ پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ اس کی حرارت، قوت اور توانائی سے حیاتِ انسان کے تمام شعبے نقل و حرکت کرتے ہیں۔ عمل کی قسمت عقیدے پرموقوف ہے۔ اعمال اور نیت لازم و ملزم ہیں، جیسی روح ویسے فرشتے، جیسے عقائد ویسے اعمال۔ نیک عقائد نیک اعمال بد عقائد بد اعمال۔
ایمان: اسلام کی اصلاح میں عقیدے کا نام ایمان ہے۔ لفظ ایمان امن سے بنا ہے جس کے معنی مطمئن اور بے خوف ہوجانا ہیں، ایمان سکون اور یقین کامل ہیں کہ صدق دل سے چند مخصوص اصولی خیالات، ایسا گہرا پکا، سچا اعتماد اور یقین ہوجائے کہ اس کے خلاف کسی اور خیال، سوچ اور فکر کو دل و دماغ میں قدم رکھنے کی جگہ نہ ہو، مخالف خیال کے داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ ایمان سے اصل شے جو مقصود و مطلوب ہے وہ اعتماد و یقین، اخلاص و محبت اور عقیدت و احترام کا جذبہ، لگن اور تڑپ ہے۔ اگر ایمان عمل کی بنیاد نہ ہو تو دعویٰ ایمان ہلکا، کچا، جھوٹا اور کھوٹا ہے۔ ایمان تصدیق قلبی، اقرار لسانی اور عمل جوارح انسانی سے عبارت ہے۔
دعوتِ اسلام کا اصل الاصول: اسلام کی دعوت کا روحانی، جوہری اور مرکزی خیال ایمان ہے، قرآن مجید ہر طرح سے، ذکر سے، برہان سے، حکایت سے، بلاغت سے، خوف سے، امید سے، غرضیکہ ہر مناسب موزوں دلنشین نرم و نازک احسن پیرائے میں ایمان کی دعوت ضمیر و وجدان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہی اس کی انسان سے شرط اول ہے۔ اسلام کی تمام امیدیں انسان کے دل سے وابستہ ہیں کہ وہ ایمان سے راضی، خوش اور مطمئن ہوجائے اور زبان سیکلمہ توحید پکار اٹھے۔ ایمان کی اصل لذت اﷲ کی ربوبیت، اسلام کی حقانیت اور محمد ﷺ کے ساتھ ختم رسالت تسلیم کرکے راضی ہوجانے میں ہے۔
ایمان کا گھر: انسان کے تمام اعضا میں اس کا دل ہی ایمان کا گھر ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ''انسان کے بدن میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اگر درست ہے تو تمام بدن درست ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو تمام بدن بگڑ گیا، ہاں وہ ٹکڑا دل ہے''۔ (بخاری)
ایمان کی ضرورت: دل اور ذہن کا ایمان کے ساتھ عقد میں بندھ جانے اور بہ رضا و رغبت سر تسلیم خم کردینے سے ایک مستقل، مضبوط، صالح اور اعلیٰ درجہ کی سیرت بنتی ہے، اوصاف حمیدہ پیدا ہوتے ہیں۔ نفسیت، عقلیت اور قلبیت کی حالت بدل جاتی ہے اور عملی زندگی میں ربط، نظم اور ترتیب کا ظہور ہوتا ہے۔ گلشن سیاست میں حسنات کے رنگ برنگے پھول کھلنے، مہکنے اور پتے ہلنے اور جھڑنے لگتے ہیں۔ اور ایک ایسا نظام حیات قائم ہوتا ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ میں ''زمین اپنے خزانے اگل دیتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں برسانے لگتا ہے'' اور قرآن کی رو سے ''رزق ان کے اوپر سے بھی برسنے لگتا ہے اور نیچے سے بھی ابلنے لگتا ہے''۔
ان کے اوپر برکاتِ ارض و سما و ارض کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ پریشانی اور خوف دور کردیا جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں استحکام نصیب ہوتا ہے۔ دین و دنیا کی صلاح و فلاح ہوتی ہے۔ زمین پر اقتدار عطا ہوتا ہے۔ خوف کی حالت امن میں بدل جاتی ہے۔ ثوابِ دنیا اور حسن ثوابِ آخرت ملتا ہے۔ غرضیکہ کامیابی، عزت شہرت، عظمت ، راحت اور مسرت ایمان پر موقوف ہیں۔
ایمان کی اہمیت: ایمان ایک ایسی ذہنی اور قلبی حالت ہے جس پر افراد کے اصلاح، اخلاق، تنظیم اعمال اور درستیٔ احوال کا انحصار ہے۔ وہ مذہب، تہذیب، تمدن، معاشرت، معیشت کا جیون رس ہے، اسلام کی طاقت کا سرچشمہ، اس کی قوت محرکہ اور قوت نافذہ ہے۔ ایمانیات پر ہی عمارتِ اسلام کی روحانی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور نافذہ ہے۔ ایمانیات پر ہی عمارتِ اسلام کی روحانی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور نافذہ ہے، ایمانیات پر ہی عمارتِ اسلام کی روحانی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی دیواروں کی بنیادیں رکھی ہوئی ہیں۔
اگر ایمانیات خمسہ پر غیر یقینی اور شک کی کیفیت پیدا ہوجائے تو اسلام کی عمارت میں ضعف آنے لگتا ہے اور جوں جوں شکوک و شبہات اور غیر یقینی حالت بڑھتی جاتی ہے، توں توں اس کے شہتیر ہلنے لگتے ہیں اور اگر شکوک و شبہات کی دیمک ایمانیات کو کھا جائے تو اسلام کی پوری عمارت پیوندِ خاک ہوجائے۔ اخلاقی آب و ہوا بگڑ جائے، تنظیم درہم برہم اور اتحاد پارہ پارہ ہوجائے، نیکی اور بدی کی تمیز اٹھ جائے، زر پرستی اور نفس پرستی پھیل جائے، فحاشی، عریانی اور بے راہ روی بڑھ جائے، عزت اور شرافت کا معیار بدل جائے، ذہن کا سکون، قلب کا اطمینان اور انسانیت کا احترام مٹ جائے، زندگی کی حقیقی قدر و منزلت کھوجائے، صحتِ فکر، صحتِ جسم اور پاکیزگیٔ بیان عنقا ہوجائے، دوسروں کی خاطر جینے کا احساس یخ بستہ ہوجائے، غرضیکہ زندگی ٹھٹھر جائے۔
ایمان کا عدم اسلام کا عدم ہے۔ ایمان کی کمزوری اسلام کی کمزوری ہے، ایمان کے بغیر اسلام اپنی کسی بھی حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اسلام جسم ہے تو ایمان اس کی روح ہے، اسلام پھول ہے تو ایمان اس کی خوشبو ہے، اسلام چراغ ہے تو ایمان اس کی روشنی ہے، اسلام دعویٰ ہے تو ایمان دلیل دعویٰ ہے۔
ایمان تصور حیات اور زندگی کے نصب العین کی نشاندہی کرتا ہے۔ احترامِ قانون اور احساس ذمے داری کا جذبہ پیدا کرتا ہے، اشتراکِ عمل کیا قدر مشترکہ فراہم کرتا ہے۔ اسلام ایک خالص انسانی تہذیب کا علمبردار ہے۔ ایک دولتِ مشترکہ کی بنیاد صرف ایسے ایمانیات پر رکھی جاسکتی ہے جو مادی اور حسی نہ ہوں، جن کی حیثیت محض خیالی اور علمی نہ ہو، جب کہ جن میں افکار و اعمال پر گہرے، وسیع ، پائیدار اور مفید اثرات مرتب کرنے کی بھرپور قوت و صلاحیت ہو اور جن کا سب انسانوں سے تعلق بھی یکساں ہوسکے۔
وطن، رنگ، نسل، زبان وغیرہ انسانی وحدت کے دشمن ہیں، وہ ہرگز بین الاقوامی تصور قومیت کے دوست نہیں ہوسکتے۔ انسانی وحدت کا نسخہ کیمیا فقط ایمان ہے، ایک خدا، ایک دین، ایک کتاب اور ایک رسول تسلیم کرکے ہی انسانیت ایک اور نیک بن سکتی ہے، ایک ریاست اور ایک حکومت قائم کرسکتی ہے۔ اس طرح اسلام ایمانیات کی صورت میں دولت مشترکہ کی عقلی فطری اور اصولی بنیاد فراہم کرتا ہے اور دائمی عالمی امن اور بین الاقوامی برادری کے خواب کی تعبیر پیش کرتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان اسلام کی ہدایت کو نور بصیرت سے دیکھے، سوچے اور سمجھے۔
اسی میں اس کی بھلائی اور خیر و عافیت ہے۔ زندگی اور عقیدے کے درمیان اگر فاصلے حائل ہوجائیں تو زندگی ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگتی ہے، اسی لیے انسان زندہ رہنے کے لیے ہوا، روشنی اور پانی کی طرح ایک صحت مند، عقلی اور فطری عقیدے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔
عام خیالات ، پراگندہ اور منتشر خیالات عقیدہ نہیں ہوتے ۔ عقائد سے مراد چند مضبوط، محکم، غیر متزلزل، غیر مشکوک، مخصوص اساسی، اصولی خیالات ہوتے ہیں۔ جس طرح خون دل سے نکل کر جسم کے مختلف حصوں میں گردش کرتا ہوا دل میں لوٹ آتا ہے اسی طرح انسان کا عمل عقیدے سے چل کر دائرۂ حیات کے مختلف شعبوں سے گزرتا ہوا دوبارہ عقیدے پر جاکر ختم ہوجاتا ہے۔
عقائد کی حیثیت حاکم، اور انسان کی حیثیت محکوم کی مانند ہے۔ انسان پر حکمرانی کے جملہ حقوق اور اختیارات عقیدے کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے افعال و اعمال، حرکات و سکنات، ذہنی تصورات، اندرونی جذبات، نیتیں، ارادوں کی کیفیات، غرضیکہ اس کے وجود کل پر اگر کوئی چیز حکومت کرتی ہے تو وہ اس کا عقیدہ ہے۔
عمل سے عقیدے کی پہچان ہوتی ہے، کیونکہ ہر عمل، عقیدے کا عکس ہوتا ہے۔ انسان کی ساری عملی جدوجہد عقائد کے زیر سایہ پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ اس کی حرارت، قوت اور توانائی سے حیاتِ انسان کے تمام شعبے نقل و حرکت کرتے ہیں۔ عمل کی قسمت عقیدے پرموقوف ہے۔ اعمال اور نیت لازم و ملزم ہیں، جیسی روح ویسے فرشتے، جیسے عقائد ویسے اعمال۔ نیک عقائد نیک اعمال بد عقائد بد اعمال۔
ایمان: اسلام کی اصلاح میں عقیدے کا نام ایمان ہے۔ لفظ ایمان امن سے بنا ہے جس کے معنی مطمئن اور بے خوف ہوجانا ہیں، ایمان سکون اور یقین کامل ہیں کہ صدق دل سے چند مخصوص اصولی خیالات، ایسا گہرا پکا، سچا اعتماد اور یقین ہوجائے کہ اس کے خلاف کسی اور خیال، سوچ اور فکر کو دل و دماغ میں قدم رکھنے کی جگہ نہ ہو، مخالف خیال کے داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ ایمان سے اصل شے جو مقصود و مطلوب ہے وہ اعتماد و یقین، اخلاص و محبت اور عقیدت و احترام کا جذبہ، لگن اور تڑپ ہے۔ اگر ایمان عمل کی بنیاد نہ ہو تو دعویٰ ایمان ہلکا، کچا، جھوٹا اور کھوٹا ہے۔ ایمان تصدیق قلبی، اقرار لسانی اور عمل جوارح انسانی سے عبارت ہے۔
دعوتِ اسلام کا اصل الاصول: اسلام کی دعوت کا روحانی، جوہری اور مرکزی خیال ایمان ہے، قرآن مجید ہر طرح سے، ذکر سے، برہان سے، حکایت سے، بلاغت سے، خوف سے، امید سے، غرضیکہ ہر مناسب موزوں دلنشین نرم و نازک احسن پیرائے میں ایمان کی دعوت ضمیر و وجدان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہی اس کی انسان سے شرط اول ہے۔ اسلام کی تمام امیدیں انسان کے دل سے وابستہ ہیں کہ وہ ایمان سے راضی، خوش اور مطمئن ہوجائے اور زبان سیکلمہ توحید پکار اٹھے۔ ایمان کی اصل لذت اﷲ کی ربوبیت، اسلام کی حقانیت اور محمد ﷺ کے ساتھ ختم رسالت تسلیم کرکے راضی ہوجانے میں ہے۔
ایمان کا گھر: انسان کے تمام اعضا میں اس کا دل ہی ایمان کا گھر ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ''انسان کے بدن میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اگر درست ہے تو تمام بدن درست ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو تمام بدن بگڑ گیا، ہاں وہ ٹکڑا دل ہے''۔ (بخاری)
ایمان کی ضرورت: دل اور ذہن کا ایمان کے ساتھ عقد میں بندھ جانے اور بہ رضا و رغبت سر تسلیم خم کردینے سے ایک مستقل، مضبوط، صالح اور اعلیٰ درجہ کی سیرت بنتی ہے، اوصاف حمیدہ پیدا ہوتے ہیں۔ نفسیت، عقلیت اور قلبیت کی حالت بدل جاتی ہے اور عملی زندگی میں ربط، نظم اور ترتیب کا ظہور ہوتا ہے۔ گلشن سیاست میں حسنات کے رنگ برنگے پھول کھلنے، مہکنے اور پتے ہلنے اور جھڑنے لگتے ہیں۔ اور ایک ایسا نظام حیات قائم ہوتا ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ میں ''زمین اپنے خزانے اگل دیتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں برسانے لگتا ہے'' اور قرآن کی رو سے ''رزق ان کے اوپر سے بھی برسنے لگتا ہے اور نیچے سے بھی ابلنے لگتا ہے''۔
ان کے اوپر برکاتِ ارض و سما و ارض کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ پریشانی اور خوف دور کردیا جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں استحکام نصیب ہوتا ہے۔ دین و دنیا کی صلاح و فلاح ہوتی ہے۔ زمین پر اقتدار عطا ہوتا ہے۔ خوف کی حالت امن میں بدل جاتی ہے۔ ثوابِ دنیا اور حسن ثوابِ آخرت ملتا ہے۔ غرضیکہ کامیابی، عزت شہرت، عظمت ، راحت اور مسرت ایمان پر موقوف ہیں۔
ایمان کی اہمیت: ایمان ایک ایسی ذہنی اور قلبی حالت ہے جس پر افراد کے اصلاح، اخلاق، تنظیم اعمال اور درستیٔ احوال کا انحصار ہے۔ وہ مذہب، تہذیب، تمدن، معاشرت، معیشت کا جیون رس ہے، اسلام کی طاقت کا سرچشمہ، اس کی قوت محرکہ اور قوت نافذہ ہے۔ ایمانیات پر ہی عمارتِ اسلام کی روحانی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور نافذہ ہے۔ ایمانیات پر ہی عمارتِ اسلام کی روحانی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور نافذہ ہے، ایمانیات پر ہی عمارتِ اسلام کی روحانی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی دیواروں کی بنیادیں رکھی ہوئی ہیں۔
اگر ایمانیات خمسہ پر غیر یقینی اور شک کی کیفیت پیدا ہوجائے تو اسلام کی عمارت میں ضعف آنے لگتا ہے اور جوں جوں شکوک و شبہات اور غیر یقینی حالت بڑھتی جاتی ہے، توں توں اس کے شہتیر ہلنے لگتے ہیں اور اگر شکوک و شبہات کی دیمک ایمانیات کو کھا جائے تو اسلام کی پوری عمارت پیوندِ خاک ہوجائے۔ اخلاقی آب و ہوا بگڑ جائے، تنظیم درہم برہم اور اتحاد پارہ پارہ ہوجائے، نیکی اور بدی کی تمیز اٹھ جائے، زر پرستی اور نفس پرستی پھیل جائے، فحاشی، عریانی اور بے راہ روی بڑھ جائے، عزت اور شرافت کا معیار بدل جائے، ذہن کا سکون، قلب کا اطمینان اور انسانیت کا احترام مٹ جائے، زندگی کی حقیقی قدر و منزلت کھوجائے، صحتِ فکر، صحتِ جسم اور پاکیزگیٔ بیان عنقا ہوجائے، دوسروں کی خاطر جینے کا احساس یخ بستہ ہوجائے، غرضیکہ زندگی ٹھٹھر جائے۔
ایمان کا عدم اسلام کا عدم ہے۔ ایمان کی کمزوری اسلام کی کمزوری ہے، ایمان کے بغیر اسلام اپنی کسی بھی حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اسلام جسم ہے تو ایمان اس کی روح ہے، اسلام پھول ہے تو ایمان اس کی خوشبو ہے، اسلام چراغ ہے تو ایمان اس کی روشنی ہے، اسلام دعویٰ ہے تو ایمان دلیل دعویٰ ہے۔
ایمان تصور حیات اور زندگی کے نصب العین کی نشاندہی کرتا ہے۔ احترامِ قانون اور احساس ذمے داری کا جذبہ پیدا کرتا ہے، اشتراکِ عمل کیا قدر مشترکہ فراہم کرتا ہے۔ اسلام ایک خالص انسانی تہذیب کا علمبردار ہے۔ ایک دولتِ مشترکہ کی بنیاد صرف ایسے ایمانیات پر رکھی جاسکتی ہے جو مادی اور حسی نہ ہوں، جن کی حیثیت محض خیالی اور علمی نہ ہو، جب کہ جن میں افکار و اعمال پر گہرے، وسیع ، پائیدار اور مفید اثرات مرتب کرنے کی بھرپور قوت و صلاحیت ہو اور جن کا سب انسانوں سے تعلق بھی یکساں ہوسکے۔
وطن، رنگ، نسل، زبان وغیرہ انسانی وحدت کے دشمن ہیں، وہ ہرگز بین الاقوامی تصور قومیت کے دوست نہیں ہوسکتے۔ انسانی وحدت کا نسخہ کیمیا فقط ایمان ہے، ایک خدا، ایک دین، ایک کتاب اور ایک رسول تسلیم کرکے ہی انسانیت ایک اور نیک بن سکتی ہے، ایک ریاست اور ایک حکومت قائم کرسکتی ہے۔ اس طرح اسلام ایمانیات کی صورت میں دولت مشترکہ کی عقلی فطری اور اصولی بنیاد فراہم کرتا ہے اور دائمی عالمی امن اور بین الاقوامی برادری کے خواب کی تعبیر پیش کرتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان اسلام کی ہدایت کو نور بصیرت سے دیکھے، سوچے اور سمجھے۔