یورپین یونین کی الیکشن رپورٹ اور اپوزیشن
یورپین یونین مبصرین رپورٹ نے الیکشن 2018ء میں تین بنیادی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔
الیکشن 2018ء کی شفافیت کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تو بن ہی چکی ہے، لیکن اب یورپین یونین مبصرین کی الیکشن رپورٹ بھی آ گئی ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں منصہ شہود پر آئی ہے، جب حکومت کے خلاف اپوزیشن میں اتحاد کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں ازسرنو رابطوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ ادھر فضل الرحمن کی سر توڑ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح نوازشریف اور زرداری کو ایک میز پر بٹھا دیں۔
ضمنی الیکشن سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بھی کچھ گرا ہے۔ اس تناظر میں یورپین یونین کی الیکشن رپورٹ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ اس میں الیکشن پر اپوزیشن کے بنیادی اعتراضات کی تائید کی گئی ہے، اور کچھ ایسے سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں، جن کا ابھی تک الیکشن کمیشن کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔اب یہ سوال پارلیمانی کمیٹی میں بھی اٹھائیں گے۔
یورپین یونین مبصرین رپورٹ نے الیکشن 2018ء میں تین بنیادی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ پہلی خامی یہ قرار دی گئی ہے کہ الیکشن 2013ء میں ستر ہزار فوجی اہلکار تعینات کے گئے، اور ان کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس کے برعکس الیکشن 2018ء میں تین لاکھ ستر ہزار اہلکار تعینات کیے گئے، جو پولنگ اسٹیشنزکے باہراور اندر دونوں جگہ موجود تھے۔ چار لاکھ تیس ہزار پولیس اہلکار اس کے علاوہ تھے۔ فوجی اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر چونکہ الیکشن کمیشن کے حکم پر تعینات کیا گیا، لہٰذا یورپین یونین مبصرین نے اس بارے میں الیکشن کمیشن ہی سے استفسار کیا۔ آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے تجویز پیش کی گئی ہے کہ فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر تعینات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
رپورٹ کے بموجب الیکشن کی دوسری خامی یہ تھی کہ الیکشن کمیشن اپنا آئینی فرض بخوبی ادا کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بھی ایک وجہ بنی کہ الیکشن کے فوراً بعد ہی اپوزیشن نے الیکشن کو مشکوک قرار دے دیا۔الیکشن کمیشن کی پہلی ناکامی اس وقت سامنے آئی، جب امیدواروںکی حتمی فہرست جاری کی گئی تو اس میں 925 ایسے نام بھی شامل تھے، جن کی وابستگی کسی نہ کسی درجہ میں کسی مذہبی انتہاپسند گروپ سے تھی۔ ملکی ذرایع ابلاغ اور یورپین یونین مبصرین نے اس پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تو وہ اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکا۔ جب کہ اپوزیشن کو پورا یقین تھا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کراور ان کے ووٹ توڑنے کی حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی دوسری ناکامی یہ تھی کہ ووٹروں کے لیے پولنگ کے بارے میں آگہی مہم الیکشن سے صرف سات روز پہلے شروع کی گئی اور وہ بھی سرسری انداز میں، جس سے پولنگ کے روز ووٹروںکو بے انتہا مشکلات پیش آئیں۔ بدقسمتی سے سیاسی پارٹیوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی۔ نتیجتاً ماضی کی طرح اس بار بھی لاکھوں ووٹ ضایع ہو گئے۔ الیکشن کمیشن کی تیسری ناکامی یہ تھی کہ عین گنتی کے وقت اس کا آرٹی ایس سسٹم فیل ہو گیا اور رات گئے تک وہ اس بارے میں کوئی قابل قبول جواز پیش نہ کر سکا۔
الیکشن کمیشن نادرا کو اور نادرا الیکشن کمیشن کو قصور وار قرار دیتی رہی۔ ساری رات ذرایع ابلاغ چیختے رہے لیکن الیکشن کمیشن پر اس کو کوئی اثر نہ تھا۔ یورپی یونین الیکشن مشن نے سفارش کی ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن سے پہلے پولنگ کے تمام مراحل کے بارے میں مرحلہ وار آگاہی مہم کو الیکشن کمیشن کا فرض اولین قرار دیا جائے۔
رپورٹ کے بموجب الیکشن 2018ء کی تیسری خامی یہ تھی کہ آئین پاکستان الیکشن میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں کافی مبہم ہے۔ ظاہراً آئین پاکستان کا منشا یہ ہے کہ ایک بار جب الیکشن کا عمل شروع ہو جائے تو پھر سوائے الیکشن کمیشن کے، کوئی اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ لیکن اس بار الیکشن میں عدلیہ ماضی سے کچھ زیادہ ہی فعال دکھائی دی۔ الیکشن ٹریبیونلز کے فیصلوں کے خلاف پیٹیشز کی بھرمار ہو گئی۔ الیکشن سے عین پہلے نوازشریف اور ان کے سرگرم امیدواروں کے خلاف عدالتی فیصلوں سے ن لیگ کو سخت نقصان پہنچا ن لیگ کو شکایت تھی کہ ان کے خلاف یہ سب کچھ سیاسی بنیادوں پر اور الیکشن پراثر انداز ہونے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات کچھ معلوم نہ ہوتا تھا کہ کہاں پر الیکشن کمیشن کے اختیارات ختم ہوتے ہیں اور کہاں سے عدلیہ کے اختیارات شروع ہوتے ہیں۔
آخر میں تجویز دی گئی ہے کہ الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات میں آئینی ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ اس کے، الیکشن سے پہلے میڈیا کی مشکلات پر بھی توجہ دلائی گئی ہے اورکہا گیا ہے کہ الیکشن کے دوران بعض پارٹیوں کے بیانیے کو، جو اپنے آپ کو ''اینٹی ایسٹیبلشمنٹ'' کہتی تھیں، من وعن نشر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کچھ اس طرح کا تاثر پیدا کیا گیا کہ جیسے وہ اینٹی ''ایسٹیبلشمنٹ نہیں'' بلکہ ''اینٹی اسٹیٹ'' ہیں۔ لیکن اس بارے میںکوئی تحریری احکامات جاری نہ کیے گئے اور ''سیلف سنسر شپ'' کی ترغیب دی گئی۔ رپورٹ میں یورپی یونین کے مبصرین کو پیش آنے والی مشکلات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔
پورپین یونین الیکشن رپورٹ میں جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اس بارے میں ملکی ذرایع ابلاغ میں بھی کافی کچھ چھپ چکاہے اور نشر ہو چکا ہے۔ لیکن یورپین یونین ابرزور کمیشن چونکہ ایک آزاد بین الاقوامی ادارہ ہے، لہٰذا اس کی رپورٹ کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے لیے اطمینان کا پہلو مگر یہ ہے کہ رپورٹ میں براہ راست دھاندلی کو کوئی الزام نہیں لگایا گیا، بلکہ جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اس کی ذمے داری بھی تحریک انصاف پر عائد نہیں کی جا سکتی۔
اس کی براہ راست ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے، جو اس کی حریف ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے آزاد مرضی سے مل کر بنایا تھا۔الیکشن کمیشن کے چیئرمین کا تقرر بھی دونوں نے مل کر کیا۔ نادرا کے چیئرمین اور پولنگ اسٹاف کی تعیناتی بھی نگران حکومتوں سے پہلے ہوچکی تھی۔ الیکشن 2018ء میں آر ٹی ایس سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ بھی ن لیگ کے دور حکومت میں ہو چکا تھا۔ الیکشن سے پہلے ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن اور نادرا کے ان فیصلوں پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ ان فیصلوں کو کریڈٹ لیتی رہیں۔
رہا فوج کی تعیناتی کا تنازع تو 2008ء میں سب سے پہلے ن لیگ اور پیپلزپارٹی ہی نے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔2013ء میں فوج کی تعیناتی پر بھی ان کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لہٰذا یورپین یونین کی الیکشن رپورٹ میں الیکشن 2018ء میں جن خامیوں کا ہدف تنقید بنایا گیا، ن لیگ اور پیپلزپارٹی بھی ان سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتیں، بلکہ ایک لحاظ سے یہ رپورٹ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے خلاف بھی چارج شیٹ ہے۔
پاکستان میں الیکشن کا عمل ہمیشہ سے شکوک وشبہات کا شکار رہا ہے۔ یہ شکوک وشبہات کتنے حقیقی ہیں اور کتنے غیرحقیقی، اس کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں، کیونکہ یہاں کبھی کسی پارٹی نے اپنی انتخابی شکست تسلیم نہیں کی۔ جو بھی ہارا ہے، اس نے جتینے والے پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ کل تک عمران خان، نوازشریف کی حکومت کو دھاندلی کی پیدوار کہتے تھے، آج نوازشریف عمران خان کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار کہتے ہیں۔
یورپین یونین کی الیکشن رپورٹ نے اپوزیشن کو حکومت کے خلاف جو مواد فراہم کیا ہے ، وہ اس کو حکومت کے خلاف استعمال تو ضرور کرے گی، لیکن افسوس یہ ہے کہ الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی ہیں، ان میں نہ حکومت کی کوئی دلچسپی نظر آتی ہے، نہ اپوزیشن کی کہ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ شاعرنے کہا تھا،
ادھر قافلے راستے کھو چکے ہیں
ادھر ہمت راہ نما تھک چکی ہے
ضمنی الیکشن سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بھی کچھ گرا ہے۔ اس تناظر میں یورپین یونین کی الیکشن رپورٹ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ اس میں الیکشن پر اپوزیشن کے بنیادی اعتراضات کی تائید کی گئی ہے، اور کچھ ایسے سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں، جن کا ابھی تک الیکشن کمیشن کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔اب یہ سوال پارلیمانی کمیٹی میں بھی اٹھائیں گے۔
یورپین یونین مبصرین رپورٹ نے الیکشن 2018ء میں تین بنیادی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ پہلی خامی یہ قرار دی گئی ہے کہ الیکشن 2013ء میں ستر ہزار فوجی اہلکار تعینات کے گئے، اور ان کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس کے برعکس الیکشن 2018ء میں تین لاکھ ستر ہزار اہلکار تعینات کیے گئے، جو پولنگ اسٹیشنزکے باہراور اندر دونوں جگہ موجود تھے۔ چار لاکھ تیس ہزار پولیس اہلکار اس کے علاوہ تھے۔ فوجی اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر چونکہ الیکشن کمیشن کے حکم پر تعینات کیا گیا، لہٰذا یورپین یونین مبصرین نے اس بارے میں الیکشن کمیشن ہی سے استفسار کیا۔ آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے تجویز پیش کی گئی ہے کہ فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر تعینات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
رپورٹ کے بموجب الیکشن کی دوسری خامی یہ تھی کہ الیکشن کمیشن اپنا آئینی فرض بخوبی ادا کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بھی ایک وجہ بنی کہ الیکشن کے فوراً بعد ہی اپوزیشن نے الیکشن کو مشکوک قرار دے دیا۔الیکشن کمیشن کی پہلی ناکامی اس وقت سامنے آئی، جب امیدواروںکی حتمی فہرست جاری کی گئی تو اس میں 925 ایسے نام بھی شامل تھے، جن کی وابستگی کسی نہ کسی درجہ میں کسی مذہبی انتہاپسند گروپ سے تھی۔ ملکی ذرایع ابلاغ اور یورپین یونین مبصرین نے اس پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تو وہ اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکا۔ جب کہ اپوزیشن کو پورا یقین تھا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کراور ان کے ووٹ توڑنے کی حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی دوسری ناکامی یہ تھی کہ ووٹروں کے لیے پولنگ کے بارے میں آگہی مہم الیکشن سے صرف سات روز پہلے شروع کی گئی اور وہ بھی سرسری انداز میں، جس سے پولنگ کے روز ووٹروںکو بے انتہا مشکلات پیش آئیں۔ بدقسمتی سے سیاسی پارٹیوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی۔ نتیجتاً ماضی کی طرح اس بار بھی لاکھوں ووٹ ضایع ہو گئے۔ الیکشن کمیشن کی تیسری ناکامی یہ تھی کہ عین گنتی کے وقت اس کا آرٹی ایس سسٹم فیل ہو گیا اور رات گئے تک وہ اس بارے میں کوئی قابل قبول جواز پیش نہ کر سکا۔
الیکشن کمیشن نادرا کو اور نادرا الیکشن کمیشن کو قصور وار قرار دیتی رہی۔ ساری رات ذرایع ابلاغ چیختے رہے لیکن الیکشن کمیشن پر اس کو کوئی اثر نہ تھا۔ یورپی یونین الیکشن مشن نے سفارش کی ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن سے پہلے پولنگ کے تمام مراحل کے بارے میں مرحلہ وار آگاہی مہم کو الیکشن کمیشن کا فرض اولین قرار دیا جائے۔
رپورٹ کے بموجب الیکشن 2018ء کی تیسری خامی یہ تھی کہ آئین پاکستان الیکشن میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں کافی مبہم ہے۔ ظاہراً آئین پاکستان کا منشا یہ ہے کہ ایک بار جب الیکشن کا عمل شروع ہو جائے تو پھر سوائے الیکشن کمیشن کے، کوئی اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ لیکن اس بار الیکشن میں عدلیہ ماضی سے کچھ زیادہ ہی فعال دکھائی دی۔ الیکشن ٹریبیونلز کے فیصلوں کے خلاف پیٹیشز کی بھرمار ہو گئی۔ الیکشن سے عین پہلے نوازشریف اور ان کے سرگرم امیدواروں کے خلاف عدالتی فیصلوں سے ن لیگ کو سخت نقصان پہنچا ن لیگ کو شکایت تھی کہ ان کے خلاف یہ سب کچھ سیاسی بنیادوں پر اور الیکشن پراثر انداز ہونے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات کچھ معلوم نہ ہوتا تھا کہ کہاں پر الیکشن کمیشن کے اختیارات ختم ہوتے ہیں اور کہاں سے عدلیہ کے اختیارات شروع ہوتے ہیں۔
آخر میں تجویز دی گئی ہے کہ الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات میں آئینی ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ اس کے، الیکشن سے پہلے میڈیا کی مشکلات پر بھی توجہ دلائی گئی ہے اورکہا گیا ہے کہ الیکشن کے دوران بعض پارٹیوں کے بیانیے کو، جو اپنے آپ کو ''اینٹی ایسٹیبلشمنٹ'' کہتی تھیں، من وعن نشر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کچھ اس طرح کا تاثر پیدا کیا گیا کہ جیسے وہ اینٹی ''ایسٹیبلشمنٹ نہیں'' بلکہ ''اینٹی اسٹیٹ'' ہیں۔ لیکن اس بارے میںکوئی تحریری احکامات جاری نہ کیے گئے اور ''سیلف سنسر شپ'' کی ترغیب دی گئی۔ رپورٹ میں یورپی یونین کے مبصرین کو پیش آنے والی مشکلات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔
پورپین یونین الیکشن رپورٹ میں جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اس بارے میں ملکی ذرایع ابلاغ میں بھی کافی کچھ چھپ چکاہے اور نشر ہو چکا ہے۔ لیکن یورپین یونین ابرزور کمیشن چونکہ ایک آزاد بین الاقوامی ادارہ ہے، لہٰذا اس کی رپورٹ کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے لیے اطمینان کا پہلو مگر یہ ہے کہ رپورٹ میں براہ راست دھاندلی کو کوئی الزام نہیں لگایا گیا، بلکہ جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اس کی ذمے داری بھی تحریک انصاف پر عائد نہیں کی جا سکتی۔
اس کی براہ راست ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے، جو اس کی حریف ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے آزاد مرضی سے مل کر بنایا تھا۔الیکشن کمیشن کے چیئرمین کا تقرر بھی دونوں نے مل کر کیا۔ نادرا کے چیئرمین اور پولنگ اسٹاف کی تعیناتی بھی نگران حکومتوں سے پہلے ہوچکی تھی۔ الیکشن 2018ء میں آر ٹی ایس سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ بھی ن لیگ کے دور حکومت میں ہو چکا تھا۔ الیکشن سے پہلے ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن اور نادرا کے ان فیصلوں پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ ان فیصلوں کو کریڈٹ لیتی رہیں۔
رہا فوج کی تعیناتی کا تنازع تو 2008ء میں سب سے پہلے ن لیگ اور پیپلزپارٹی ہی نے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔2013ء میں فوج کی تعیناتی پر بھی ان کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لہٰذا یورپین یونین کی الیکشن رپورٹ میں الیکشن 2018ء میں جن خامیوں کا ہدف تنقید بنایا گیا، ن لیگ اور پیپلزپارٹی بھی ان سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتیں، بلکہ ایک لحاظ سے یہ رپورٹ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے خلاف بھی چارج شیٹ ہے۔
پاکستان میں الیکشن کا عمل ہمیشہ سے شکوک وشبہات کا شکار رہا ہے۔ یہ شکوک وشبہات کتنے حقیقی ہیں اور کتنے غیرحقیقی، اس کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں، کیونکہ یہاں کبھی کسی پارٹی نے اپنی انتخابی شکست تسلیم نہیں کی۔ جو بھی ہارا ہے، اس نے جتینے والے پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ کل تک عمران خان، نوازشریف کی حکومت کو دھاندلی کی پیدوار کہتے تھے، آج نوازشریف عمران خان کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار کہتے ہیں۔
یورپین یونین کی الیکشن رپورٹ نے اپوزیشن کو حکومت کے خلاف جو مواد فراہم کیا ہے ، وہ اس کو حکومت کے خلاف استعمال تو ضرور کرے گی، لیکن افسوس یہ ہے کہ الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی ہیں، ان میں نہ حکومت کی کوئی دلچسپی نظر آتی ہے، نہ اپوزیشن کی کہ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ شاعرنے کہا تھا،
ادھر قافلے راستے کھو چکے ہیں
ادھر ہمت راہ نما تھک چکی ہے