خانہ قومیت میں افغان کا قصہ
’’افغان‘‘ لفظ کے زیادہ مشہور ہونے کی کہ یہ نام بے خطر تھا اور پشتون میں سراسر خطرہ تھا۔
انسانی معاشرے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے یہاں میرا اشارہ اس تاریخ کی طرف نہیں ہے جو حکمرانوں یا اشراف نے خود لکھی یا لکھوائی ہے جس میں خود سرائی اور وہ بھی پندرہ فیصد اشرافیہ کے سوا کچھ بھی نہیں جیسے انسانوں کی تاریخ ہر گز نہیں کہا جا سکتا بلکہ پندرہ فیصد اشرافیہ کی اپنی لاف و گراف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ بلکہ ہم یہاں پچاسی فیصد ان بے نام بے نشان اور بے سرو سامان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو اصل انسان بلکہ آد م تھے اور ہیں۔ جو کماتے ہیں، اگاتے ہیں، بناتے ہیں، تعمیر کرتے ہیں اور کھلاتے ہیں اور جن کی تاریخ نہ کبھی لکھی گئی ہے اور نہ لکھی جائے گی کہ وہ صرف '' ہندسے '' ہوتے ہیں۔ اتنے مرے اتنے ڈوبے اتنے جلے اور اتنے کٹ گئے اس معاشرتی تاریخ میں سب کچھ حکمران کی مرضی سے بندھا ہوا ہوتا ہے یا اس کے ساجھے دار اشراف کے پیروں تلے دبا ہوا ہوتا ہے ۔
چنانچہ اس خطے پر ''شاہی اسلام'' کے ساتھ ہی اس فرق اور امتیاز کا بھی جنم ہوا اور انسانوں میں برتر اور کہتر طبقے اور برادریاں پیدا ہوئیں جو تقریباً ہندی ذات پات یعنی منو مہاراج کے قائم کردہ نظام کے مماثل تھیں ۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہاں کھشتری، ویش اور شودر تھے اور یہاں خان، ملک، چوہدری یا رئیس، ہنر مند اور بے زمین و مکان کسان تھے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندی ذات پات والے نظام کی ابتدا بھی ان تین ہی طبقات سے ہوئی تھی۔ ''برھمن'' کا یہ چوتھا عنصر بہت بعد کی پیداوار ہے ۔
ابتدا میں صرف صاحب جائیداد، زمیندار، جاگیر دار یا منصب دار تھا اور باقی سب کو پیشہ ور یا کم ذات سمجھا جاتا تھا۔کہیں کہیں اہل دین کو با عزت مقام تو حاصل تھا اسے استاد، بادشاہ، سید یا میاں گان کہا جاتا تھا لیکن ذات یا طبقے کے لحاظ سے پھر بھی وہ جاگیرداروں ، زمینداروں کے برابر نہیں تھے ۔
مسجد کے ملا اور پیشہ ور لوگ جیسے لوہار، ترکھان، نائی، جلاہا اور موچی کو کم ذات سمجھا جاتا ہے ۔اس موضوع پر ہم نے بہت لکھا ہے، یہ پیشہ ور لوگ ہی صحیح معنی میں قابل احترام ہوتے ہیں جو محنت کر کے رزق حلال کماتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں نہ کہ وہ خان خوانین یا جاگیر دار اور وڈیرے جو باپ داداؤں کی غداریوں، قوم فروشیوں اور حاکموں کی غلامی کر کے جائیدادیں اور جاگیریں پا چکے ہیں یا وہ جو باپ دادا کی عبادتوں اور مزاروں کو فروخت کر کے مفت خوری کرتے ہیں۔چنانچہ اس گزرے زمانے میں خالص خاندانی اور زمیندار و جاگیر یا منصب دار تو حاکم بن گئے اور باقی سارے بیچارے پیشہ ور ہنر مند اور خدمت دینے والوں کو حقیر نام دیے گئے۔ سب سے باعزت نام جو آقاؤں نے اسے دیا وہ ''کسب گر'' تھا جو ہنر سے زیادہ غیر پشتون معنی رکھتا تھا ۔
سوات میں آج بھی کسان، دہقان اور مزدور لوگ خود کو اپنے خان یا وڈیرے کا فقیر کہتے ہیں۔ان کے فقر، فقیر خاص طور پر وہ ہوتا ہے جس کی اپنی زمین یا مکان نہ ہو۔
سوال اب یہ ہے کہ ہر قوم یا نسل یا لوگوں میں یہ پیشہ ور یا کسب گر یا فقیر کہیں آسمان سے تو نہیں ٹپکتے نہ ہی دوسری قوموں سے درآمد کیے جاتے ہیں لیکن حالات نے ان کو کسی پیشے میں ڈالا ہے تو اس کی ذات یا نسل تو نہیں بدلی۔ ہر قوم و نسل کے پیشہ ور اسی حاکم قوم و نسل کے ہوتے ہیں اور خون یا ذات میں کسی سے کم نہیں ہوتے بلکہ اکثر تو ان سے برتر ہوتے ہیں کہ ہر حکومت یا رژیم میں طبقے نئے سرے سے تشکیل پاتے ہیں بلکہ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ نئی حکومت کے ساتھ پرانی حکومت کے معززین لڑتے ہیں اور غریب یا کم ذات لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے نئی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں اور جب وہ بر سر اقتدار آ جاتی ہے تو پرانے دور کے اعلیٰ لوگ ادنی ہو جاتے ہیں اور ادناؤں کو اعلیٰ انعامات و مراعات سے نواز دیا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ خاندان اتنے دور ہوتے ہیں کہ ہوا کا رخ بدلتے ہی اپنا قبلہ بھی بدل لیتے ہیں۔ جیسے آج کے نہایت ہی اعلیٰ برتر اور اونچی ذاتوں کی تحقیق کی جائے تو اندر سے کمی کمین اور قوم کے غدار نکلیں گے ۔ اور آج کے ''ذلیل'' اونچی شاخوں میں جاکر اونچی ذات کے ثابت ہوں گے کیونکہ ہر نئی حکومت ''اپنوں'' کو نوازنے کے ساتھ ''پرائیوں'' کو ہر طرح سے تباہ و برباد بھی کرتی ہے۔ پھر اگر ان بچاروں نے پیٹ پالنے کے لیے کوئی ہنر اختیار کر لیا تو ان کی ذات تو نہیں بدلتی۔ اس پس منظر کے بعد اب پشتون اور افغان کی طرف آتے ہیں۔ ہزار سالہ فارسی غلبے کے دور میں جب سرکاری بھرتی ہوتی تھی تو اس میں قومیت کا خانہ بھی ہوتا تھا ۔
اب اگر بچارا کوئی پیشہ ور کوئی ملازمت حاصل کرتا تو پشتون کے ہوتے ہوئے وہ خانہ قومیت میں' 'پشتون'' تو ڈر کے مارے لکھوا نہیں سکتا تھا ، اس لیے اصلی پشتون ہوتے ہوئے بھی وہ '' افغان '' لکھوا دیتا تھا جو بے ضرر تھا ۔ اس پر ایک عبرتناک لطیفہ بھی ہے کہ ایک ایسا ہی شخص جب بھرتی ہو رہا تھا تو قومیت پوچھنے پر اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا تو چپکے سے بولا ''توکل پہ خدائے پشتون لکھ دو'' یعنی خدا پر توکل کرکے پشتون ہی لکھ دو۔
یہی وجہ ہے ''افغان'' لفظ کے زیادہ مشہور ہونے کی کہ یہ نام بے خطر تھا اور پشتون میں سراسر خطرہ تھا۔ زمانے کی گردش دیکھیے کہ آج پشتون لکھنے میں کوئی خطرہ نہیں لیکن افغان لکھنا خطرے سے خالی نہیں ۔
چنانچہ اس خطے پر ''شاہی اسلام'' کے ساتھ ہی اس فرق اور امتیاز کا بھی جنم ہوا اور انسانوں میں برتر اور کہتر طبقے اور برادریاں پیدا ہوئیں جو تقریباً ہندی ذات پات یعنی منو مہاراج کے قائم کردہ نظام کے مماثل تھیں ۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہاں کھشتری، ویش اور شودر تھے اور یہاں خان، ملک، چوہدری یا رئیس، ہنر مند اور بے زمین و مکان کسان تھے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندی ذات پات والے نظام کی ابتدا بھی ان تین ہی طبقات سے ہوئی تھی۔ ''برھمن'' کا یہ چوتھا عنصر بہت بعد کی پیداوار ہے ۔
ابتدا میں صرف صاحب جائیداد، زمیندار، جاگیر دار یا منصب دار تھا اور باقی سب کو پیشہ ور یا کم ذات سمجھا جاتا تھا۔کہیں کہیں اہل دین کو با عزت مقام تو حاصل تھا اسے استاد، بادشاہ، سید یا میاں گان کہا جاتا تھا لیکن ذات یا طبقے کے لحاظ سے پھر بھی وہ جاگیرداروں ، زمینداروں کے برابر نہیں تھے ۔
مسجد کے ملا اور پیشہ ور لوگ جیسے لوہار، ترکھان، نائی، جلاہا اور موچی کو کم ذات سمجھا جاتا ہے ۔اس موضوع پر ہم نے بہت لکھا ہے، یہ پیشہ ور لوگ ہی صحیح معنی میں قابل احترام ہوتے ہیں جو محنت کر کے رزق حلال کماتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں نہ کہ وہ خان خوانین یا جاگیر دار اور وڈیرے جو باپ داداؤں کی غداریوں، قوم فروشیوں اور حاکموں کی غلامی کر کے جائیدادیں اور جاگیریں پا چکے ہیں یا وہ جو باپ دادا کی عبادتوں اور مزاروں کو فروخت کر کے مفت خوری کرتے ہیں۔چنانچہ اس گزرے زمانے میں خالص خاندانی اور زمیندار و جاگیر یا منصب دار تو حاکم بن گئے اور باقی سارے بیچارے پیشہ ور ہنر مند اور خدمت دینے والوں کو حقیر نام دیے گئے۔ سب سے باعزت نام جو آقاؤں نے اسے دیا وہ ''کسب گر'' تھا جو ہنر سے زیادہ غیر پشتون معنی رکھتا تھا ۔
سوات میں آج بھی کسان، دہقان اور مزدور لوگ خود کو اپنے خان یا وڈیرے کا فقیر کہتے ہیں۔ان کے فقر، فقیر خاص طور پر وہ ہوتا ہے جس کی اپنی زمین یا مکان نہ ہو۔
سوال اب یہ ہے کہ ہر قوم یا نسل یا لوگوں میں یہ پیشہ ور یا کسب گر یا فقیر کہیں آسمان سے تو نہیں ٹپکتے نہ ہی دوسری قوموں سے درآمد کیے جاتے ہیں لیکن حالات نے ان کو کسی پیشے میں ڈالا ہے تو اس کی ذات یا نسل تو نہیں بدلی۔ ہر قوم و نسل کے پیشہ ور اسی حاکم قوم و نسل کے ہوتے ہیں اور خون یا ذات میں کسی سے کم نہیں ہوتے بلکہ اکثر تو ان سے برتر ہوتے ہیں کہ ہر حکومت یا رژیم میں طبقے نئے سرے سے تشکیل پاتے ہیں بلکہ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ نئی حکومت کے ساتھ پرانی حکومت کے معززین لڑتے ہیں اور غریب یا کم ذات لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے نئی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں اور جب وہ بر سر اقتدار آ جاتی ہے تو پرانے دور کے اعلیٰ لوگ ادنی ہو جاتے ہیں اور ادناؤں کو اعلیٰ انعامات و مراعات سے نواز دیا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ خاندان اتنے دور ہوتے ہیں کہ ہوا کا رخ بدلتے ہی اپنا قبلہ بھی بدل لیتے ہیں۔ جیسے آج کے نہایت ہی اعلیٰ برتر اور اونچی ذاتوں کی تحقیق کی جائے تو اندر سے کمی کمین اور قوم کے غدار نکلیں گے ۔ اور آج کے ''ذلیل'' اونچی شاخوں میں جاکر اونچی ذات کے ثابت ہوں گے کیونکہ ہر نئی حکومت ''اپنوں'' کو نوازنے کے ساتھ ''پرائیوں'' کو ہر طرح سے تباہ و برباد بھی کرتی ہے۔ پھر اگر ان بچاروں نے پیٹ پالنے کے لیے کوئی ہنر اختیار کر لیا تو ان کی ذات تو نہیں بدلتی۔ اس پس منظر کے بعد اب پشتون اور افغان کی طرف آتے ہیں۔ ہزار سالہ فارسی غلبے کے دور میں جب سرکاری بھرتی ہوتی تھی تو اس میں قومیت کا خانہ بھی ہوتا تھا ۔
اب اگر بچارا کوئی پیشہ ور کوئی ملازمت حاصل کرتا تو پشتون کے ہوتے ہوئے وہ خانہ قومیت میں' 'پشتون'' تو ڈر کے مارے لکھوا نہیں سکتا تھا ، اس لیے اصلی پشتون ہوتے ہوئے بھی وہ '' افغان '' لکھوا دیتا تھا جو بے ضرر تھا ۔ اس پر ایک عبرتناک لطیفہ بھی ہے کہ ایک ایسا ہی شخص جب بھرتی ہو رہا تھا تو قومیت پوچھنے پر اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا تو چپکے سے بولا ''توکل پہ خدائے پشتون لکھ دو'' یعنی خدا پر توکل کرکے پشتون ہی لکھ دو۔
یہی وجہ ہے ''افغان'' لفظ کے زیادہ مشہور ہونے کی کہ یہ نام بے خطر تھا اور پشتون میں سراسر خطرہ تھا۔ زمانے کی گردش دیکھیے کہ آج پشتون لکھنے میں کوئی خطرہ نہیں لیکن افغان لکھنا خطرے سے خالی نہیں ۔