پاکستان کی آدھی جامعات ایک بھی پی ایچ ڈی نہیں کراسکیں

حکومت پاکستان کو معیاری اور تحقیقی تعلیم کے فروغ کے لیے جامع پالیسی بنانا ہوگی۔

حکومت پاکستان کو معیاری اور تحقیقی تعلیم کے فروغ کے لیے جامع پالیسی بنانا ہوگی۔ فوٹو: فائل

ایک زمانہ تھا کہ گریجویشن پاس افراد اپنے نام کے ساتھ '' بی اے'' بڑے فخر سے لکھواتے تھے اور یہ اُن کے نام کا باقاعدہ حصہ ہوتا تھا کیونکہ اُس وقت ہمارے معاشرے میں شاذونادر ہی ایسے افراد ملتے تھے جنہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہوتی تھی، زیادہ تر ناخواندہ یا پھر پرائمری کی مختلف جماعتیں پاس ہوتے تھے۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک کم ہی لوگ پہنچتے تھے اس لئے بی اے کرنا بڑے فخر اور اعزاز کی بات تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تعلیمی تکریم کے معیارات میں اضافہ ہوتا گیا۔ بی اے کرنا جو کبھی بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی تھی آج ایک عام سی بات خیال ہونے لگی ہے۔

طالب علم اب ایم اے سے بھی آگے ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ایک طرف تو ماضی کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم کے مواقعوں کی زیادہ تعداد میں دستیابی ہے تو دوسری جانب ترقی کرتی دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے علم کے ان اعلیٰ ترین درجات کا حصول ضرورت بنتا جا رہا ہے جس کے بغیر ترقی چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ممکن نہیں۔

پی ایچ ڈی کی صورت میں موجود یہ تعلیمی اشرافیہ دراصل آج کے دور میں ہر ملک کی ترقی کی اساس ہے کیونکہ تحقیق کے بطن سے پھوٹنے والا پی ایچ ڈی کا پودا جب پی ایچ ڈی سکالر کی صورت میں تناور درخت بنتا ہے تو اس کے ثمرات سے ایک جہاں فیضیاب ہوتا ہے۔ اس لئے اب تقریباً تمام ممالک کی یہ ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ اپنے یہاں زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز تیار کریں جس کے لئے جہاں وہ اپنے ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کی استعدادکار میں اضافہ پر زور دیتے ہیں وہیں وہ دیگر ممالک کی جامعات سے بھی استفادہ کرنے کے لئے اپنے طالب علموں اور اساتذہ کو اسکالرشپس پر پی ایچ ڈیز کرنے کے لئے بھیجتے ہیں تاکہ ملکی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور مقامی جامعات میں بھی معیاری پی ایچ ڈی اسکالرز تیار کرنے میں مدد مل سکے۔

یہی حکمت عملی پاکستان میں بھی ہائر ایجوکیشن کمشن کے قیام کے بعد اپنائی گئی جس کے نتیجے میں ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالرز اور جامعات کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت (17 ستمبر2018 تک ) ملک میں ایچ ای سی سے منظور شدہ جامعات اور ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹس کی تعداد 192 تک پہنچ چکی ہے اور ایچ ای سی کی آن لائن پی ایچ ڈی کنٹری ڈائریکٹری کے مطابق ملکی جامعات15036 پی ایچ ڈیز کروا چکی ہیں جن کا 71 فیصد مرد اور29 فیصد خواتین اسکالرز پر مشتمل ہے۔



لیکن اس تمام تر پیش رفت کے باوجود ملک میں پی ایچ ڈی تعلیم کا شعبہ بے شمار مسائل کا شکار ہے کہیں پی ایچ ڈی کروانے والے سپروائزر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں تو کہیں پی ایچ ڈی اسکالرز مختلف طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں اور کہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرنے والا ڈاکٹر گوں نا گوں مصائب کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں تحقیق کے کلچر کے فروغ کی خاطر جامعات میں اضافہ کی حکمت عملی اپنی پوری روح کے ساتھ کار فرما نہیں ہو پائی کیونکہ ابھی تک پاکستان کی 192 جامعات / اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سے صرف93 پی ایچ ڈی کروانے میں کامیاب ہو پائی ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ملک کی 51.5 فیصد یعنی آدھی جامعات نے ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی تیار نہیں کیا۔ایک پی ایچ ڈی مکمل ہونے میں کم از کم چار سے پانچ سال کا عرصہ لیتی ہے اور ایچ ای سی نے زیادہ سے زیادہ 8 سال کے اندر پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی اب شرط بھی عائد کردی ہے۔

اس حوالے سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ پی ایچ ڈی نہ کروانے والی جامعات میں سے تو کافی کو بنے ابھی پانچ سال سے کم کا عرصہ ہوا ہوگا ؟۔ اس تناظر میں صورتحال کچھ یوں ہے کہ ملک کی 41 ایسی جامعات اور ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹس جن کو بنے ہوئے 10 اور اس سے زائد سال کا عرصہ گزر گیا ہے ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی نہیں کروا سکیں۔ جبکہ 33 جامعات اور ڈی اے آئیز( ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس) کو قائم ہوئے5 سے 9 سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن وہ بھی ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی نہیں کرا سکیں یعنی ملک کی ایسی99 جامعات/ ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹس جو ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی نہیں کروا سکے ان میں سے 74 کو بنے ہوئے پانچ سال سے لے کر آدھی سے زائد صدی کا عرصہ ہو چکا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آن لائن پی ایچ ڈی کنٹری ڈائریکٹری اور منظور شدہ جامعات/ ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹ کے17 ستمبر2018 تک کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان میں پی ایچ ڈیز کروانے والی93 یونیورسٹیوں کے25.8 فیصد کا چارٹرڈ پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ہوا ۔ 24.7 فیصد کا سندھ، 23.7 فیصد کا خیبر پختونخوا، 20.4 فیصد کا وفاقی حکومتوں ،3.2 فیصد آزاد جموں وکشمیر اور 2.2 فیصد بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ہوا۔

اسی طرح خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ چارٹرڈ کی حامل 34 جامعات میں سے 22 نے پی ایچ ڈیز کروائی، یوں کے پی کے کی صوبائی چارٹرڈ یونیورسٹیوں کا 65 فیصد پی ایچ ڈیز کرانے میں کا میاب ہوا۔ حکومت پاکستان کی چارٹرڈ جامعات کا 51 فیصد، آزاد جموں وکشمیرکی حکومتوں کی چارٹرڈ یو نیورسٹیوں کا 43 فیصد اور پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی چارٹرڈجامعات کا 44 فیصد فی کس پی ایچ ڈی کروانے میں کا میاب ہوا ہے۔ جبکہ ملکی سطح پر مجموعی طور پر 48 فیصد جامعات پی ایچ ڈیز کروا پائی ہیں۔




پاکستان میں پی ایچ ڈی کروانے والی جامعات 60 فیصد سرکاری اور40 فیصد نجی شعبہ میں کام کر رہی ہیں جبکہ ملک کی 49 فیصد سرکاری اور 47 فیصد نجی جامعات اب تک پی ایچ ڈی کروا سکی ہیں۔ لاہور شہر اس وقت ملک بھر میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز کروانے والا شہر ہے جس کی جامعات نے اب تک 3357 اسکالرز کو پی ایچ ڈیز کروائی ہیں ۔ اسلام آباد 3202 کے ساتھ دوسرے اور 2859 کی تعداد کے ساتھ کراچی تیسرے نمبر پر ہے۔ کراچی وہ سرفہرست شہر ہے جہاں موجود جامعات کی سب سے زیادہ تعداد نے ملک میں پی ایچ ڈیز کروائی ہیں جن کی تعداد اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 17ہے۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر اسلام آباد اور لاہور ہیں جن کی 16جامعات فی کس اب تک پی ایچ ڈیز کرا چکی ہیں۔ ملک میں اس وقت سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز کرانے کا اعزاز جامعہ کراچی کو حاصل ہے جس نے 2530 اسکالرز کو پی ایچ ڈیز کروائی ہیں۔

دوسرے نمبر پر جامعہ پنجاب ہے جس نے 2361 پی ایچ ڈیز اور 1531 کی تعداد کے ساتھ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد تیسر ے نمبر پر ہے۔ پاکستان کے 26 شہروں میں موجود جامعات اب تک پی ایچ ڈیز کروا سکی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز ہمدرد یونیورسٹی کراچی نے کروائی ہیں جن کی تعداد 109ہے جبکہ سرکاری شعبے میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز جامعہ کراچی کے حصہ میں آئی ہیں جو تعداد میں 2530 ہے۔ اسی طرح خواتین کی سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز بھی جامعہ کراچی نے کروائی ہیں جبکہ مردوں کی زیادہ تعداد کو پی ایچ ڈی کروانے کا اعزاز جامعہ پنجاب کے پاس ہے جو بالترتیب 1106 اور1665ہیں۔

ملک کی 41.6 فیصد پی ایچ ڈیز پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے چارٹرڈ یونیورسٹیوں نے کروائی ہیں۔ 24.6 فیصد پی ایچ ڈیز کے ساتھ سندھ دوسرے،22.2 فیصد کے ساتھ وفاقی چارٹرڈ یونیورسٹیاں تیسرے اور 10.6 فیصد پی ایچ ڈیز کے ساتھ خیبر پختونخوا کی جامعات چوتھے نمبر پر ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں 95 فیصد پی ایچ ڈیز سرکاری جامعات اور 5 فیصد نجی یونیورسٹیز نے کروائی ہیں۔گزشتہ سال یعنی 2017 کے دوران ملک کی 185جامعات میں سے 60 نے 663 پی ایچ ڈیز کی ڈگریاں جاری کیں یعنی مذکورہ سال کے دوران ملک کی 32.4 فیصد جامعات پی ایچ ڈی مکمل کر وا پائیں۔ جبکہ 2016 کے دوران 163جامعات میں سے64 یعنی 39 فیصد نے902 پی ایچ ڈی کروائیں۔

ان اعدادوشمار کا تجزیہ ہماری توجہ اس امر کی جانب مبذول کروا رہا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی جامعات کی پی ایچ ڈی آوٹ پُٹ کو مانیٹر کرنے کا ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس کے تحت اُن سے پوچھا جائے کہ جب ایک یونیورسٹی کا بنیادی کام ہی تحقیق کرنا ہے تو اب تک وہ کیوں کوئی پی ایچ ڈی تیار نہیں کر سکیں؟ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے رجسٹرار ڈاکٹر شفیق الرحمٰن جو ملک کی مختلف جامعات میں ا علیٰ انتظامی اور تدریسی عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ''کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی کا دارومدار وہاں کے تعلیمی اداروں کی تحقیقی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ہاں اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے ہوں تو تحقیق بھی Excel کرے گی۔ جامعات کا بنیادی مقصد ہی تحقیق کو فروغ دینا ہے اگر ہم ایسا نہیں کر رہے تو بنیادی طور پر اپنے کام سے انحراف کر رہے ہیں''۔ جامعات کے پی ایچ ڈی تیار نہ کرا سکنے کی وجوہات کے بارے میںوہ کہتے ہیں ۔ '' کہ ہمارے یہاں انفراسٹرکچر موجود ہے۔



آنکھوں کو خیرہ کرنے والی بڑی بڑی عمارتیں ہیں لیکن ان کے اندر دی جانے والی تعلیم میں کوالٹی ناپید ہے۔ پاکستان میں اب یو نیورسٹیوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ سرکاری اور غیرسرکاری جامعات کی ایک لمبی فہرست ہے، اگر کمی ہے تو صرف معیاری تعلیم کی۔ آج ملک کی بہت سی جامعات میں اساتذہ کی مطلوبہ تعداد نہ ہونا اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ غرض فنڈز کی کمی، PhD اساتذہ کی کمی ، سہل پسندی، دور اندیشی کا فقدان، غیر موثر اور غیر فعال پالیسیاں یہ سب وجوہات ملکر جامعات کو پی ایچ ڈیز تیار کرنے سے دور کر دیتی ہیں''۔ کیا جامعات کو پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ ایک خاص عرصہ کے دوران پی ایچ ڈی تیار کرنا شروع کر دیں؟اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے '' یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر تو ہماری توجہ مقدار کی بجائے معیار پر ہے تو پھر لازماً جامعات کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ایک خاص عرصہ کے دوران پی ایچ ڈیز تیار کرنا شروع کر دیں۔



اور اداروں میں اس حوالے سے Structural Change لانے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں میں قائم جو قانون ساز اور پالیسی ساز فورم موجود ہیںان کو فعال کیا جائے۔ ایچ ای سی کی سطح پر بھی مانیٹرنگ سسٹم کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جا سکے اور معیاری PhDs مارکیٹ میں بھیجے جا سکیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جامعات میں ایسے اقدامات بھی کئے جائیں کہ اساتذہ اور طالب علم از خود تحقیق کی طرف راغب ہوں۔



تحقیق کے لئے آپ کو فنانشل سپورٹ چاہیئے ہوتی ہے۔خاص طور پر بائیو یا نیچرل سائنسز کے تجربات کے لئے Equipment اور کیمیکلز کی ضرورت ہوتی ہے۔'' اس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''ہائر ایجوکیشن کمشن اپنے وجود میں آنے کے بعد سے نہایت فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ خاص طور پر تحقیق کو فروغ دینے کے حوالے سے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے کئے گئے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ تاہم ماضی میں ایچ ای سی اور اس سے منسلک جامعات کے بجٹ میں کمی کر نے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے جو منصوبے تھے ان پر کام کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ ان میں سب سے اہم منصوبہ جامعات کے لئے اساتذہ کو تیار کرنا تھا کیونکہ قابل اور باصلاحیت اساتذہ کی غیر موجودگی میں تحقیق کو فروغ نہیں دیا جا سکتا''۔

Load Next Story