ایسے بٹوؤں کا کیا کریں بھیا
کریڈٹ کارڈ کے ساتھ شناختی کارڈ بھی انھوں نے یہ سوچ کر پھینکے ہوں گے کہ پیسے کے بغیر انسان کی کیا شناخت۔
فلپائن کے شہر بتن گاس کے قریب واقع گاؤں میں گٹرلائن بند ہوگئی۔
جب اسے کھولنے کے لیے خاکروب گٹر میں اُترے تو وہاں انھیں بڑی تعداد میں بٹوے ملے، جن میں کریڈٹ کارڈ اور شناختی کارڈ بھی تھے، لیکن رقم نام کو بھی نہ تھی۔ مقامی باشندوں اور پولیس کے لیے یہ معاملہ پُراسرار بنا ہوا ہے، اور وہ حیران ہیں کہ لوگوں نے اپنے پرس بہ معہ کریڈٹ کارڈ اور شناختی کارڈ گٹر میں کیوں ڈال دیے؟ یہ بٹوے نیکیاں تھیں نہ گٹر دریا کہ اٹھایا اور ڈال دیا۔ تو پھر؟ ممکن ہے ان کے مالکوں نے ''سُنسان'' بٹوے اور خالی اکاؤنٹ کی وجہ سے جلے دل کے ساتھ ایسا کیا ہو اور جس طرح غالب نے کہا تھا:
ایسی جنت کا کیا کریں غالب
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
اسی طرح اپنے پرس گٹر کے سُپرد کرتے ہوئے ان مالکانِ بٹوہ نے بھی کہا ہو:
ایسے بٹوؤں کا کیا کریں بھیا
جن میں ہوں نوٹ اور نہ سِکے ہوں
کریڈٹ کارڈ کے ساتھ شناختی کارڈ بھی انھوں نے یہ سوچ کر پھینکے ہوں گے کہ پیسے کے بغیر انسان کی کیا شناخت۔
اس معاملے پر فلپائنی حیران ہوتے رہیں، لیکن ہمیں کوئی حیرت نہیں کہ چشم فلک کو حیران کرتے واقعات تو ہمارے ہاں رونما ہورہے ہیں اور غریبوں کے بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے دریافت ہو رہے ہیں، کوئی فالودہ بیچنے والا کروڑ پتی نکلتا ہے تو کوئی نائب قاصد کمپنی کا مالک۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ہمارا ملک نیک اور دیالو لوگوں سے بھرا ہوا ہے، جو چاہتے ہیں کہ نیکی ایسے چُھپ کے کریں ''جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں۔'' چناں چہ بڑی خاموشی سے کسی غریب کا اکاؤنٹ کھلواتے ہیں، پھر اُس میں کروڑوں روپے جمع کروادیتے ہیں، کبھی کسی مفلس کو کمپنی کا مالک بنادیتے ہیں۔
اس معاملے میں یہ نیکوکار اتنے جذباتی ہیں کہ مرحومین کو بھی نواز دیتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ اگر یہ یہ دریا دل حضرات اپنا مال دان کرنے کے لیے اکاؤنٹ اور کمپنیاں کھولنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بہ جائے تھیلیوں میں رکھ کر گٹروں کے حوالے کردیں، اس طرح گٹر تو بند ہو جائیں گے لیکن بہت سے لوگوں کی قسمت کُھل جائے گی۔
ویسے ہماری شدید خواہش ہے کہ ان پیسے لٹانے والوں کی شناخت ہو اور انھیں عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ عوام کو پتا چلے کہ نیک اور دریادل لوگ کیسے ہوتے ہیں، بل کہ ان کے لیے ایک عجائب گھر بنایا جائے جہاں انھیں محفوظ کردیا جائے، ہر پاکستانی وہاں جا جا کر ان کی زیارت کرتا رہے گا، اور ٹکٹ کی آمدنی سے قومی خزانہ بھرتا رہے گا۔
جب اسے کھولنے کے لیے خاکروب گٹر میں اُترے تو وہاں انھیں بڑی تعداد میں بٹوے ملے، جن میں کریڈٹ کارڈ اور شناختی کارڈ بھی تھے، لیکن رقم نام کو بھی نہ تھی۔ مقامی باشندوں اور پولیس کے لیے یہ معاملہ پُراسرار بنا ہوا ہے، اور وہ حیران ہیں کہ لوگوں نے اپنے پرس بہ معہ کریڈٹ کارڈ اور شناختی کارڈ گٹر میں کیوں ڈال دیے؟ یہ بٹوے نیکیاں تھیں نہ گٹر دریا کہ اٹھایا اور ڈال دیا۔ تو پھر؟ ممکن ہے ان کے مالکوں نے ''سُنسان'' بٹوے اور خالی اکاؤنٹ کی وجہ سے جلے دل کے ساتھ ایسا کیا ہو اور جس طرح غالب نے کہا تھا:
ایسی جنت کا کیا کریں غالب
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
اسی طرح اپنے پرس گٹر کے سُپرد کرتے ہوئے ان مالکانِ بٹوہ نے بھی کہا ہو:
ایسے بٹوؤں کا کیا کریں بھیا
جن میں ہوں نوٹ اور نہ سِکے ہوں
کریڈٹ کارڈ کے ساتھ شناختی کارڈ بھی انھوں نے یہ سوچ کر پھینکے ہوں گے کہ پیسے کے بغیر انسان کی کیا شناخت۔
اس معاملے پر فلپائنی حیران ہوتے رہیں، لیکن ہمیں کوئی حیرت نہیں کہ چشم فلک کو حیران کرتے واقعات تو ہمارے ہاں رونما ہورہے ہیں اور غریبوں کے بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے دریافت ہو رہے ہیں، کوئی فالودہ بیچنے والا کروڑ پتی نکلتا ہے تو کوئی نائب قاصد کمپنی کا مالک۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ہمارا ملک نیک اور دیالو لوگوں سے بھرا ہوا ہے، جو چاہتے ہیں کہ نیکی ایسے چُھپ کے کریں ''جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں۔'' چناں چہ بڑی خاموشی سے کسی غریب کا اکاؤنٹ کھلواتے ہیں، پھر اُس میں کروڑوں روپے جمع کروادیتے ہیں، کبھی کسی مفلس کو کمپنی کا مالک بنادیتے ہیں۔
اس معاملے میں یہ نیکوکار اتنے جذباتی ہیں کہ مرحومین کو بھی نواز دیتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ اگر یہ یہ دریا دل حضرات اپنا مال دان کرنے کے لیے اکاؤنٹ اور کمپنیاں کھولنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بہ جائے تھیلیوں میں رکھ کر گٹروں کے حوالے کردیں، اس طرح گٹر تو بند ہو جائیں گے لیکن بہت سے لوگوں کی قسمت کُھل جائے گی۔
ویسے ہماری شدید خواہش ہے کہ ان پیسے لٹانے والوں کی شناخت ہو اور انھیں عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ عوام کو پتا چلے کہ نیک اور دریادل لوگ کیسے ہوتے ہیں، بل کہ ان کے لیے ایک عجائب گھر بنایا جائے جہاں انھیں محفوظ کردیا جائے، ہر پاکستانی وہاں جا جا کر ان کی زیارت کرتا رہے گا، اور ٹکٹ کی آمدنی سے قومی خزانہ بھرتا رہے گا۔