دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت
’’ اور میں نے جن و انس کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔‘‘
اس وقت کے مسلمانوں کا عمومی مرض بے حسی اور بے طلبی ہے، لوگوں نے غلط فہمی سے سمجھ لیا ہے کہ ایمان تو موجود ہی ہے، اس لیے ایمان کے بعد جن چیزوں کا درجہ ہے، ان میں مشغول ہوگئے، حالاں کہ سرے سے ایمان پیدا کرنے ہی کی ضرورت باقی ہے۔
قرون اولیٰ کے مقابلہ میں تعلیم و تبلیغ، ارشاد و اصلاح میں ایک عظیم تغیّر یہ ہوا کہ ان کا دائرہ طالبین کے لیے محدود ہو کر رہ گیا، اہل طلب کے لیے تعلیم و اصلاح اور ہدایت و ارشاد کا پورا نظام اور اہتمام تھا، لیکن جن کو اپنے مرض کا احساس ہی سرے سے نہیں اور جو طلب سے خالی ہیں، ان کی طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی، حالاں کہ ان میں طلب کی تبلیغ کی ضرورت تھی، انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے وقت سارا عالم مستغنی اور سود و زیاں سے بے پروا ہوتا ہے۔ یہ حضرات انہیں میں طلب علم پیدا کرتے ہیں اور کام کے آدمی حاصل کر لیتے ہیں، بے طلبوں اور بے حسّوں میں طلب و احساس پیدا کرنا ہی اصل تبلیغ ہے۔
اس احساس و طلب دین اور اسلام کے اصول و مبادی کی تلقین کا ذریعہ کیا ہے؟ اسلام کا کلمہ طیبہ ہی اللہ تعالیٰ کی رسی کا وہ سرا ہے، جو ہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے، اسی سرے کو پکڑ کر آپ اسے پورے دین کی طرف کھینچ سکتے ہیں، وہ کش مکش نہیں کر سکتا، مسلمان جب تک اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے، اس کو دین کی طرف لے آنے کا موقع باقی ہے۔ اس موقع کے (خدانخواستہ) نکل جانے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔
اب مسلمانوں کی اس وسیع اور منتشر آبادی میں دین کا احساس و طلب پیدا کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ ان سے اس کلمے ہی کے ذریعے تقریب پیدا کی جائے اور اسی کے ذریعے خطاب کیا جائے، کلمہ یاد نہ ہو تو کلمہ یاد کرایا جائے، غلط ہو تو اس کی تصیح کی جائے، کلمے کے معنی و مفہوم بتائے جائیں اور سمجھایا جائے کہ خدا کی بندگی و غلامی اور رسول ﷺ کی تابعداری کا اقرار ان سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔
اس طرح ان کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی پابندی پر لایا جائے، جن میں سے سب سے عمومی، سب سے مقدّم اور سب سے اہم نماز ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ وہ سارے دین کی استعداد و قوت پیدا کر دیتی ہے، جس بندگی کا کلمے میں اقرار تھا، اس کا یہ پہلا اور سب سے کھلا ثبوت ہے، پھر اس شخص کی مزید ترقی اور استحکام کے لیے اس کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور اس تعلق کو بڑھانے کی طرف متوجہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ یاد کرنے کی ترغیب دی جائے، نیز یہ بات اس کے ذہن نشین کی جائے کہ مسلمانوں کی طرح زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء اور اس کے احکام و فرائض معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کا کوئی ہنر اور کوئی فن بے سیکھے اور کچھ وقت صَرف کیے بغیر نہیں آتا، دین بھی بے طلب کے نہیں آتا اور اس کو آیا ہوا سجھنا غلطی ہے، اس کے لیے اپنے مشاغل سے وقت نکالنا ضروری ہے۔ یہ کام اتنا بڑا اور اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اس کے لیے چند افراد اور چند جماعتیں کافی نہیں، اس کے لیے عام مسلمانوں کی مسلمانوں میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اگر کروڑوں کے واسطے لاکھوں نہیں اٹھیں گے تو کس طرح کام ہوگا۔
نہ جاننے والے جتنے کروڑ ہیں، جاننے والے اتنے لاکھ نہیں۔ اس کام کے لیے عالمِ اسلام میں ایک عمومی اور دائمی حرکت و جنبش کی ضرورت ہے اور یہ حرکت اور جنبش مسلمانوں کی زندگی میں اصل اور مستقل ہے۔ سکون و وقوف اور دنیا کا اشتغال عارضی ہے، دین کے لیے اس حرکت و جنبش پر مسلمانوں کی جماعت کی بنیاد رکھی گئی اور یہی ان کے ظہور کی غرض و غایت ہے۔ ورنہ دنیا کے سکون و دنیاوی انہماک، کاروبار کی مصروفیت اور شہری زندگی کے کسی ضروری شعبے میں کوئی ایسی کمی نہ تھی، جس کی تکمیل کے لیے ایک نئی امت کی ضرورت ہو۔
مسلمانوں نے جب سے اس جماعتی زندگی اور اصلی کام کو چھوڑ دیا یا ثانوی درجہ دے دیا، اس وقت سے ان کا انحطاط شروع ہوگیا اور جب سے ان کی زندگی میں سکون و استقرار اور پرسکون و مصروف شہری زندگی کی کیفیات و خصوصیات پیدا ہوگئیں، ان کا وہ روحانی زوال اور اندرونی ضعف شروع ہوگیا۔
ہم نے جماعتیں بنا کر دین کی باتوں کے لیے نکلنا چھوڑ دیا، حالاں کہ یہی بنیادی اصل تھی۔ حضور اکرم ﷺ خود پھرا کرتے تھے اور جس نے ہاتھ میں ہاتھ دیا، وہ بھی مجنونانہ پھرا کرتا تھا۔ مکہ کے زمانہ میں مسلمین کی مقدار افراد کے درجہ میں تھی تو ہر فرد مسلم ہونے کے بعد بہ طور فردیت و شخصیت کے منفرداً دوسروں پر حق پیش کرنے کے لیے کوشش کرتا رہا۔ اس کام کے لیے جب مسلمانوں کی جماعتیں نقل و حرکت میں آجائیں تو ان کے کام کا نظام کیا ہوگا اور ترتیب کیا ہوگی ؟ کس چیز کی اور کتنی چیزوں کی دعوت دی جائے گی؟
اصل تبلیغ صرف دو امر کی ہے، باقی اس کی صورت گری اور تشکیل ہے۔ ان دو چیزوں میں ایک مادی ہے اور ایک روحانی۔ مادی سے مراد جوارح سے تعلق رکھنے والی۔ سو وہ تو یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی لائی ہوئی باتوں کو پھیلانے کے لیے ملک بہ ملک اور اقلیم بہ اقلیم جماعتیں بنا کر پھرنے کی سنت کو زندہ کر کے فروغ دینا اور پائیدار کرنا ہے۔ روحانی سے مراد، حق تعالیٰ کے حکم پر جان دینے کا رواج ڈالنا۔ جس کو اس آیت میں ارشاد فرمایا، ترجمہ : '' قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے، جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں آپ سے یہ لوگ تصفیہ کرا دیں ، پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کر لیں۔ '' (النساء) اور میں نے جن و انس کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔
اسی کی حیثیت سے کوشش کرنا، اس وقت بدقسمتی سے ہم کلمے تک سے ناآشنا ہورہے ہیں، اس لیے سب سے پہلے اسی کلمۂ طیبہ کی تبلیغ ہے، جو کہ خدا کی خدائی کا اقرار نامہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم پر جان دینے کے علاوہ درحقیقت ہمارا کوئی بھی مشغلہ نہیں ہوگا۔
کلمہ کے لفظوں کی تصیح کرنے کے بعد نماز کے اندر کی چیزوں کی تصیح کرنے اور نمازوں کو حضور اکرم ﷺ کی نماز جیسی نماز بنانے کی کوشش میں لگے رہنا۔ تین وقتوں کو (صبح و شام اور کچھ حصہ شب کا ) اپنی حیثیت کے مناسب تحصیل علم و ذکر میں مشغول رکھنا۔ ان چیزوں کو پھیلانے کے لیے اصل فریضہ محمدی سمجھ کر وقت نکالنا، یعنی ملک بہ ملک رواج دینا۔
اس پھرنے میں خلق کی مشق کرنے کی نیت رکھنا، اپنے فرائص (خواہ خالق سے متعلق ہوں یا مخلوق کے ساتھ) کی ادائیگی کی سرگرمی، کیوں کہ ہر شخص سے اپنے ہی متعلق سوال ہوگا۔ تصیح نیت، یعنی عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدے وعید فرمائے ہیں، ان کے موافق اس امر کی تعمیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور موت کے بعد والی زندگی کی درستی کی کوشش کرنا۔
قرون اولیٰ کے مقابلہ میں تعلیم و تبلیغ، ارشاد و اصلاح میں ایک عظیم تغیّر یہ ہوا کہ ان کا دائرہ طالبین کے لیے محدود ہو کر رہ گیا، اہل طلب کے لیے تعلیم و اصلاح اور ہدایت و ارشاد کا پورا نظام اور اہتمام تھا، لیکن جن کو اپنے مرض کا احساس ہی سرے سے نہیں اور جو طلب سے خالی ہیں، ان کی طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی، حالاں کہ ان میں طلب کی تبلیغ کی ضرورت تھی، انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے وقت سارا عالم مستغنی اور سود و زیاں سے بے پروا ہوتا ہے۔ یہ حضرات انہیں میں طلب علم پیدا کرتے ہیں اور کام کے آدمی حاصل کر لیتے ہیں، بے طلبوں اور بے حسّوں میں طلب و احساس پیدا کرنا ہی اصل تبلیغ ہے۔
اس احساس و طلب دین اور اسلام کے اصول و مبادی کی تلقین کا ذریعہ کیا ہے؟ اسلام کا کلمہ طیبہ ہی اللہ تعالیٰ کی رسی کا وہ سرا ہے، جو ہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے، اسی سرے کو پکڑ کر آپ اسے پورے دین کی طرف کھینچ سکتے ہیں، وہ کش مکش نہیں کر سکتا، مسلمان جب تک اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے، اس کو دین کی طرف لے آنے کا موقع باقی ہے۔ اس موقع کے (خدانخواستہ) نکل جانے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔
اب مسلمانوں کی اس وسیع اور منتشر آبادی میں دین کا احساس و طلب پیدا کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ ان سے اس کلمے ہی کے ذریعے تقریب پیدا کی جائے اور اسی کے ذریعے خطاب کیا جائے، کلمہ یاد نہ ہو تو کلمہ یاد کرایا جائے، غلط ہو تو اس کی تصیح کی جائے، کلمے کے معنی و مفہوم بتائے جائیں اور سمجھایا جائے کہ خدا کی بندگی و غلامی اور رسول ﷺ کی تابعداری کا اقرار ان سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔
اس طرح ان کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی پابندی پر لایا جائے، جن میں سے سب سے عمومی، سب سے مقدّم اور سب سے اہم نماز ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ وہ سارے دین کی استعداد و قوت پیدا کر دیتی ہے، جس بندگی کا کلمے میں اقرار تھا، اس کا یہ پہلا اور سب سے کھلا ثبوت ہے، پھر اس شخص کی مزید ترقی اور استحکام کے لیے اس کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور اس تعلق کو بڑھانے کی طرف متوجہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ یاد کرنے کی ترغیب دی جائے، نیز یہ بات اس کے ذہن نشین کی جائے کہ مسلمانوں کی طرح زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء اور اس کے احکام و فرائض معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کا کوئی ہنر اور کوئی فن بے سیکھے اور کچھ وقت صَرف کیے بغیر نہیں آتا، دین بھی بے طلب کے نہیں آتا اور اس کو آیا ہوا سجھنا غلطی ہے، اس کے لیے اپنے مشاغل سے وقت نکالنا ضروری ہے۔ یہ کام اتنا بڑا اور اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اس کے لیے چند افراد اور چند جماعتیں کافی نہیں، اس کے لیے عام مسلمانوں کی مسلمانوں میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اگر کروڑوں کے واسطے لاکھوں نہیں اٹھیں گے تو کس طرح کام ہوگا۔
نہ جاننے والے جتنے کروڑ ہیں، جاننے والے اتنے لاکھ نہیں۔ اس کام کے لیے عالمِ اسلام میں ایک عمومی اور دائمی حرکت و جنبش کی ضرورت ہے اور یہ حرکت اور جنبش مسلمانوں کی زندگی میں اصل اور مستقل ہے۔ سکون و وقوف اور دنیا کا اشتغال عارضی ہے، دین کے لیے اس حرکت و جنبش پر مسلمانوں کی جماعت کی بنیاد رکھی گئی اور یہی ان کے ظہور کی غرض و غایت ہے۔ ورنہ دنیا کے سکون و دنیاوی انہماک، کاروبار کی مصروفیت اور شہری زندگی کے کسی ضروری شعبے میں کوئی ایسی کمی نہ تھی، جس کی تکمیل کے لیے ایک نئی امت کی ضرورت ہو۔
مسلمانوں نے جب سے اس جماعتی زندگی اور اصلی کام کو چھوڑ دیا یا ثانوی درجہ دے دیا، اس وقت سے ان کا انحطاط شروع ہوگیا اور جب سے ان کی زندگی میں سکون و استقرار اور پرسکون و مصروف شہری زندگی کی کیفیات و خصوصیات پیدا ہوگئیں، ان کا وہ روحانی زوال اور اندرونی ضعف شروع ہوگیا۔
ہم نے جماعتیں بنا کر دین کی باتوں کے لیے نکلنا چھوڑ دیا، حالاں کہ یہی بنیادی اصل تھی۔ حضور اکرم ﷺ خود پھرا کرتے تھے اور جس نے ہاتھ میں ہاتھ دیا، وہ بھی مجنونانہ پھرا کرتا تھا۔ مکہ کے زمانہ میں مسلمین کی مقدار افراد کے درجہ میں تھی تو ہر فرد مسلم ہونے کے بعد بہ طور فردیت و شخصیت کے منفرداً دوسروں پر حق پیش کرنے کے لیے کوشش کرتا رہا۔ اس کام کے لیے جب مسلمانوں کی جماعتیں نقل و حرکت میں آجائیں تو ان کے کام کا نظام کیا ہوگا اور ترتیب کیا ہوگی ؟ کس چیز کی اور کتنی چیزوں کی دعوت دی جائے گی؟
اصل تبلیغ صرف دو امر کی ہے، باقی اس کی صورت گری اور تشکیل ہے۔ ان دو چیزوں میں ایک مادی ہے اور ایک روحانی۔ مادی سے مراد جوارح سے تعلق رکھنے والی۔ سو وہ تو یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی لائی ہوئی باتوں کو پھیلانے کے لیے ملک بہ ملک اور اقلیم بہ اقلیم جماعتیں بنا کر پھرنے کی سنت کو زندہ کر کے فروغ دینا اور پائیدار کرنا ہے۔ روحانی سے مراد، حق تعالیٰ کے حکم پر جان دینے کا رواج ڈالنا۔ جس کو اس آیت میں ارشاد فرمایا، ترجمہ : '' قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے، جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں آپ سے یہ لوگ تصفیہ کرا دیں ، پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کر لیں۔ '' (النساء) اور میں نے جن و انس کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔
اسی کی حیثیت سے کوشش کرنا، اس وقت بدقسمتی سے ہم کلمے تک سے ناآشنا ہورہے ہیں، اس لیے سب سے پہلے اسی کلمۂ طیبہ کی تبلیغ ہے، جو کہ خدا کی خدائی کا اقرار نامہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم پر جان دینے کے علاوہ درحقیقت ہمارا کوئی بھی مشغلہ نہیں ہوگا۔
کلمہ کے لفظوں کی تصیح کرنے کے بعد نماز کے اندر کی چیزوں کی تصیح کرنے اور نمازوں کو حضور اکرم ﷺ کی نماز جیسی نماز بنانے کی کوشش میں لگے رہنا۔ تین وقتوں کو (صبح و شام اور کچھ حصہ شب کا ) اپنی حیثیت کے مناسب تحصیل علم و ذکر میں مشغول رکھنا۔ ان چیزوں کو پھیلانے کے لیے اصل فریضہ محمدی سمجھ کر وقت نکالنا، یعنی ملک بہ ملک رواج دینا۔
اس پھرنے میں خلق کی مشق کرنے کی نیت رکھنا، اپنے فرائص (خواہ خالق سے متعلق ہوں یا مخلوق کے ساتھ) کی ادائیگی کی سرگرمی، کیوں کہ ہر شخص سے اپنے ہی متعلق سوال ہوگا۔ تصیح نیت، یعنی عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدے وعید فرمائے ہیں، ان کے موافق اس امر کی تعمیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور موت کے بعد والی زندگی کی درستی کی کوشش کرنا۔