کوچۂ سخن
غزل
لہجہ و لفظ کو اِک ساتھ بدل سکتا ہوں
بات کرتے ہوئے میں بات بدل سکتا ہوں
اٹھ بھی سکتا ہے کبھی میرا یقیں تجھ پر سے
میں رخِ قبلۂ حاجات بدل سکتا ہوں
ابنِ آدم ہوں مرا کوئی بھروسہ بھی نہیں
چند سکوں کے عوض ذات بدل سکتا ہوں
کیا میں کر سکتا ہوں سورج کو اندھیرے کے سپرد
کیا میں اِس دن سے کوئی رات بدل سکتا ہوں
اختیار اس نے مجھے اتنا دیا ہی کب ہے
میں کہاں شہر کے حالات بدل سکتا ہوں
وہ سمجھتا ہے کہ بے چین ہوں ملنے کے لیے
اور میں وقتِ ملاقات بدل سکتا ہوں
تلملایا تو میں ایسے ہوں پرانے پن پر
جیسے فرسودہ روایات بدل سکتا ہوں
آزر اس فن سے اسے کچھ نہیں لینا دینا
یعنی میں اپنی کرامات بدل سکتا ہوں
(دلاور علی آزر، حسن ابدال)
غزل
وہ کہہ رہا ہے تو مان لیتے ہیں یار سارے ہی ہم غلط تھے
مگر جو تھوڑے سے تم غلط تھے، ہم اس سے تھوڑا سا کم غلط تھے
کچھ اس لیے بھی ہماری آہیں تمہارے دل تک پہنچ نہ پائیں
کہیں پہ اپنی زباں غلط تھی، کہیں پہ اپنے ردھم غلط تھے
تھے وہ پرندے سو اس لیے ہی، نئی رتوں میں وطن کو چھوڑا
سو ان کے پیچھے بلکنے والے، تمام پیڑوں کے غم غلط تھے
مری دعا ہے کہ وہ مسافر بھی اپنی منزل کو پائے لیکن
تمام رستے بتا رہے ہیں، گزرنے والے قدم غلط تھے
ترے بدن پر لگے نشاں ہی بتا رہے ہیں مجھے یہ ویسیؔ
تُو جن کو سچا بتا رہا تھا وہ سب خدا کی قسم غلط تھے
(اویس ویسیؔ، اسلام آباد)
غزل
لگے ہیں گھاؤ جو دل پر مجھے آواز دیتے ہیں
مِری غزلوں کو نظموں کو نئے الفاظ دیتے ہیں
تمھیں اپنا سمجھتے تھے کہا تھا حالِ دل تم سے
ہم ایسے لوگ ورنہ کب کسی کو راز دیتے ہیں
میں بِچھتا ہوں جو راہوں میں تُو اُڑتا ہے ہواؤں میں
مِرے یہ ولولے تجھ کو ادائے ناز دیتے ہیں
کبھی الفت جتاتے ہیں کبھی وہ روٹھ جاتے ہیں
ستارِ دل کو وہ کیا کیا انوکھے ساز دیتے ہیں
نہ جانا تم نزاکت جی کسی کی میٹھی باتوں پر
کھلا دھوکا اے سادہ لوح! یہ چارہ ساز دیتے ہیں
(نزاکت ریاض، پنڈ مہری)
''عورت ہوں ناں! ''
مجھے چاہیے ہیں
تمھاری آنکھیں
زمیں کی کوکھ سے پھوٹتی
سَرخوشی کے رنگ دیکھنے کے لیے
اور تمھاری سماعت
بارش میں
قطرۂ نیساں کی آہٹ سننے کے لیے
اور تمھارے ہونٹ
سورج کی تمازت کا لمس
جذب کرنے کے لیے
اور تمھارے ہاتھ
ہوا کی ہتھیلی پر
حیرت کی داستان لکھنے کے لیے
اور مجھے چاہیے ہے
تمھاری ساری محبت
تم سے محبت کرنے کے لیے!
(عارفہ شہزاد، جھنگ)
غزل
وہ ننگے پاؤں جو چل رہی ہے
زمیں خوشی سے مچل رہی ہے
جو آج مہماں بنی ہے تیری
ہماری مہمان کل رہی ہے
یہ اس کے چہرے سے لگ رہا ہے
وہ میری سگرٹ سے جل رہی ہے
کبھی بلا کی شریف تھی یہ
جو آج زیادہ اچھل رہی ہے
لچک نگاہوں میں لانے والی
یہ برف کیسے پگھل رہی ہے
(محسن ظفر ستی، کہوٹہ)
''وہ مجھ سے روٹھ جاتا ہے''
اُسے اچھا نہیں لگتا
مرا سورج کی کرنوں کو ہتھیلی پر سجا لینا
نئے دن کے اجالے کو
ہر اک کمرے کی کھڑکی کھول کر اندر بلا لینا
ہوا سے گفتگو کرنا
دھنک رنگوں میں کھو جانا
یا اپنے صحن کے بوڑھے شجر سے
خیریت معلوم کر لینا
اسے اچھا نہیں لگتا
منڈیروں پر چڑھے دن تو
پرندوں کے لیے دانہ
کٹورا بھر کے پانی کا مرا چھت پر چلے جانا
اسے اچھا نہیں لگتا
چمکتے چاند کو اپنا رفیق و راز داں کہنا
کسی روشن ستارے کو یونہی آواز دے لینا
ذرا سی بات کر لینا
کسی بادل کے ٹکڑے کو
بڑھا کر ہاتھ چھونے کے لیے بے تاب ہو جانا
برسنے کے لیے کہنا
اسے اچھا نہیں لگتا
کوئی تتلی نظر آئے
تو اس کے رنگ سارے
اپنی آنکھوں میں بسا لینا
میرا خوش بُو سے رشتہ
بادلوں سے پیار
بارش کی تمنا
عشق مٹی سے
اسے اچھا نہیں لگتا
میں اپنے گھر کے آنگن میں
بنی کیاری کو تھوڑا وقت دے دوں تو۔۔۔
وہ مجھ سے روٹھ جاتا ہے
وہ مجھ سے روٹھ جائے تو
مجھے دن کے اجالے سے
اندھیرا پھیل جانے تک
کوئی لمحہ، کوئی منظر
ذرا اچھا نہیں لگتا!!
(سدرہ ایاز، کراچی)
غزل
آئینے، آئینے بتا مجھ کو
اچھا خاصا تھا، کیا ہوا مجھ کو
گردشِ روز و شب حساب تو دے
تو نے کتنا بدل دیا مجھ کو
پہلے عجلت میں کھو دیا اس نے
اور پھر ڈھونڈتا رہا مجھ کو
گر ستاروں کو توڑنا چاہوں
توڑنے دے گا کیا خدا مجھ کو؟
ہائے ہائے میں عشق کر بیٹھا
ہائے کوئی تو روکتا مجھ کو!!
(شبیر احرام، کراچی)
غزل
تلخیِ دوراں سے بچ کر مسکرا لیتے ہیں آپ
اس دریدہ شہر میں آنسو چُرا لیتے ہیں آپ
اس فضائے سوگ میں رنج و الم کے درمیاں
درد سارے بھول کر بھی گیت گا لیتے ہیں آپ
گھپ اندھیرا، دور تک وحشت ہی وحشت ہے جہاں
اس چراغِ زیست کو کیسے جلا لیتے ہیں آپ؟
دھوپ میں جھلسے ہوئے پھولوں کو لے کر شاخ سے
تاج کی صورت اِنہیں سر پر سجا لیتے ہیں آپ
پہلے ہی کتنے جلے کاغذ پڑے ہیں جا بجا
یوں جلا کر اپنی غزلیں کیا مزا لیتے ہیں آپ
یہ بھی اچھا ہے کہ غم ہو یا خوشی کا کوئی پَل
بارگاہِ ایزدی میں سر جھکا لیتے ہیں آپ
باتوں باتوں میں عیاں یہ راز بھی ہم پر ہوا
شعر کاشفؔؔ کے بھی اکثر گنگنا لیتے ہیں آپ
(کاشف علی ہاشمی، کراچی)
غزل
کھلے ہیں سارے دریچے سفر اشارہ ہے
ہے اذن آنکھ اٹھاؤ کہ اب کنارہ ہے
ہیں چھید پاؤں میں اتنے مگر رکیں تو کہاں
سفر کی ضد ہے کہ منزل تو بس خسارہ ہے
وہ میرے ساتھ جو ہو لے تو چاند کہلاؤں
جو دیکھے ہم کو، کہے کیا حسیں ستارہ ہے
خزاں میں بکھری بہاروں تمہی کہو کچھ تو
سنا ہے درد محبت کا استعارہ ہے
گلاب پنکھڑی، بادِ صبا سنو تو ذرا
تمہیں بتاؤں کہ اب وہ فقط ہمارا ہے
جو اس کو ٹوٹتا دیکھوں تو دَم نکلتا ہے
کہ آشیاں کو لہو دے کے یوں سنوارا ہے
(سارا خان، راولپنڈی)
دل
اندھیری رات کو میں روز عشق سمجھا تھا
چراغ تو نے جلایا تو دل بجھا میرا
٭٭٭
آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری
دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا
٭٭٭
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
٭٭٭
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
٭٭٭
آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے
٭٭٭
آج تک دل کی آروز ہے وہی
پھول مرجھا گیا ہے بو ہے وہی
٭٭٭
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
٭٭٭
آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں
دل بے تاب کو عادت ہے مچل جانے کی
٭٭٭
آرزو تیری برقرار رہے
دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا
٭٭٭
اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیات
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا
٭٭٭
اچھی صورت نظر آتے ہی مچل جاتا ہے
کسی آفت میں نہ ڈالے دل ناشاد مجھے
٭٭٭
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
٭٭٭
اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی
پھر پھنسا زلفوں میں دل پھر وہی آفت آئی
٭٭٭
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
٭٭٭
چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے
آپ کا صفحہ
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ قارئین! یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ، آپ کے تخیل سے مزین اور آپ کی پسند کے اشعار سے سجے گا۔ آپ ہمیں اپنی نظمیں، غزلیں اور کسی بھی موضوع پر پسندیدہ اشعار اپنی تصویر کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ ہمارا پتا ہے: روزنامہ ایکسپریس(سنڈے میگزین)،
5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچیemail:arif.hussain@express.com.pk