آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس اعظم سواتی عہدے سے استعفیٰ دیں چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران متاثرہ شخص نے عدالت کو بتایا کہ پولیس مجھے، میری بیوی، بیٹوں اور بیٹی کو پکڑ کرلے گئی، میں غریب آدمی ہوں، میرے ساتھ ظلم ہوا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ غریب آدمی سے بدمعاشی کسی صورت قبول نہیں کریں گے، جو کرنا ہے پولیس قانون کے مطابق کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اعظم سواتی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں، اعظم سواتی کی اتنی انا ہے کہ آئی جی تبدیل کروا دیا،ان کا جرم ریاست کے خلاف ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : متاثرہ خاندان نے اعظم سواتی کے بیٹے سے صلح کی تردید کردی
عدالت نے نیب، ایف آئی اے اور آئی بی پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل جے آئی ٹی کے لیے نام دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ملک کی عزت کا معاملہ کہاں سے آگیا، جے آئی ٹی تحقیقات کرے گی چاہے صلح بھی ہوگئی ہو، تسلیم کریں زیادتی کی گئی ورنہ سب قانونی کارروائی کا سامنا کریں، فریقین کے درمیان صلح کو تسلیم نہیں کرتے، کیا اعظم سواتی ملک کے مالک ہیں، غریب کو دبا کر صلح کرلی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اعظم سواتی کو ذاتی حیثیت میں نہیں جانتا، غریب آدمی کا اعظم سواتی سے مقابلہ ہے، یہ لیڈر ہیں جنہوں نے ملک کو چلانا ہے، متاثرہ خاندان تیسرے درجے کے لوگ نہیں تھے، آرٹیکل 82 ون ایف کا براہ راست اطلاق کرتے ہیں، اعظم سواتی نے اختیارات کا غلط استعمال کیا،ایسے لوگوں کوعدالت کیوں برداشت کرے، ملک کو چلانے والے لیڈر سچے اور ایماندار ہونے چاہیے۔
جے آئی ٹی تشکیل؛
سپریم کورٹ نے اعظم سواتی کے معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دیتے ہوئے 14 روز میں رپورٹ طلب کرلی، اس کے علاوہ جے آئی ٹی اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات بھی کرے گی۔ جے آئی ٹی میں آئی بی سے احمد رضوان، ایف آئی اے سے میر واعظ نیاز شامل ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں :وفاقی وزیراعظم سواتی کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹا دیا گیا
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سینئر افسر جے آئی ٹی کا سربراہ ہوگا، جے آئی ٹی دیکھے کیا اعظم سواتی امریکا جا سکتے ہیں، سفارش، طاقت اور دولت کے بل بوتے پر کام نہیں ہوگا، پارٹی نے اللہ کی رضا کے لیے معاف کیا، ہم معاف نہیں کریں گے، اس موقع پر اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ کیس بدھ تک ملتوی کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تلوار آپ پر لٹک رہی ہے، جتنے دن مرضی لے لیں۔