سرمایہ داری جونک کے سوا اور کچھ نہیں

بجٹ کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ہماری آمدن یعنی وسائل یا پیداوار کے مقدار کی لحاظ سے مہینے کے، سال بھر کے یا پانچ سال...

zb0322-2284142@gmail.com

MOHALI:
بجٹ کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ہماری آمدن یعنی وسائل یا پیداوار کے مقدار کی لحاظ سے مہینے کے، سال بھر کے یا پانچ سال کے لیے فی خاندان یا فی محلہ میں تقسیم کر دی جائے۔ مگر سرمایہ دارانہ دنیا میں بجٹ اس فطری نظام کے برعکس ترتیب پاتا ہے۔ پہلے اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ پھر اسے پورا کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس کا پہاڑ توڑا جاتا ہے، مہنگائی بڑھائی جاتی ہے، بے روزگار کیا جاتا ہے، قرض لیے جاتے ہیں، اس کا سُود ادا کیا جاتا ہے اور پھر بھیک مانگی جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسحاق ڈار صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اچانک ان کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ آناً فاناً میں ختم نہیں ہو سکتا۔ آپ نے کیا اسے کوئی سوشلسٹ ملک سمجھ لیا ہے؟ اس سے ثابت ہوا کہ وہ اس بات کو تو کم از کم سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹ ملک میں مسئلہ فوراً حل ہوتا ہے۔ تو پھر سرمایہ داری کیا ہے؟ سرمایہ داری کی اصلیت پر کارل مارکس نے سرمایہ باب 10 میں یوں کہا کہ ''قدر زائد کے لیے اندھے بے قابو جنوں اور درندوں جیسی بھوک سرمائے کو نہ صرف اخلاقی بلکہ جسمانی مشقت کی حدود بھی پار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

یہ انسانی جسم کی نشوونما بڑھوتری اور صحت مندی کے حالات کو غصب کر لیتی ہے۔ یہ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہونے کا وقت بھی چرا لیتی ہے۔ صرف ایک مقصد باقی بچتا ہے کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ قوت محنت کیسے حاصل کی جائے۔ یہ مقصد مزدور کی زندگی میں کمی کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک لالچی کسان زیادہ پیدوار حاصل کرنے کے لیے زمین کی زر خیزی ختم کر دیتا ہے۔''

ذرا بجٹ پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ 80 فیصد غیر پیداواری اخراجات ہیں اور عوام کے روزگار، صحت، تعلیم، علاج معالجے اور روزمرہ کی اشیا ضرورتوں کی قیمتوں میں کمی کا کوئی بھی اعلان نہیں کیا گیا۔ ریاست چونکہ دولت مندوں کی محافظ ہے اس لیے وہ کیونکر 99 فیصد لوگوں کو فائدہ پہنچائے گی۔ اس لیے یہ بجٹ عوام کا نہیں سرمایہ داروں اور سامراجیوں کا ہے۔ نئے مالی سال 2013-14ء کے لیے35 کھرب، 91 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا۔ مالیاتی خسارے کا تخمینہ جو کہ 16 کھرب 51 ارب روپے ہے، قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے11 کھرب 53 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

جس میں 10 کھرب64 ارب ملکی اور 89 ارب سے زائد رقم غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو گی۔ دفاع کا بجٹ 627 ارب روپے ہے۔ ٹیکس پر 822 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سیلز ٹیکس 17 فیصد کیا گیا ہے۔ سیلز ٹیکس بڑھنے سے بہت سی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ خسارے کے بجٹ کو پورا کرنے کے لیے79 ارب روپے کا ہدف نجکاری کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ جب کہ صحت کا 21 ارب روپے اور تعلیم کا 38 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔ توانائی کے بحران سے عوام دو چار ہیں، اس بحران کے حل کے لیے صرف 225 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

بجلی کے نرخوں میں کمی کرنے کے بجائے74 پیسے فی یونٹ مہنگی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ اس دولت مندوں اور آئی ایم ایف کا بجٹ پیش کرنے کے نتیجے میں کھاد، بیٹریاں، پالش، پینٹس، اینملز، وارنش و روغن، ٹائر ٹیوب، کوکنگ آئل، سریا، ٹیلی فون سیٹ، ڈرنکس، بلب، چینی، تیل، گھی، چائے، بسکٹ، چاکلیٹ، تھینرز، کنفیکشنریز اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے، اس سے قبل نگراں حکومت نے صدر مملکت کی طرف سے منی بجٹ کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے سے انکار پر ایف بی آر سے ایس آر او جاری کر کے منی بجٹ کے ذریعے اینٹوں، بجری، کراکری، کٹلری، گھریلو استعمال کے برتن تک پر 100 فیصد ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی سہولت واپس لینے پر قیمتیں بڑھ گئیں۔

ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو ریونیو شارٹ فال کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ذیل کی اشیاء پر حکومت کی جانب سے سبسڈیز دینے کی وجہ سے ہو رہی ہے جس میں تیل، چائے، چینی، خدمات، کھاد، مکینیکل، الیکٹرونک مشینری، آئرن اینڈ اسٹیل، نامیاتی کیمیکل، پیپر اینڈ پیپر بورڈ، متفرق کیمیکل مصنوعات، ربڑ مصنوعات، کافی، ٹیلی کام سروسز اور دیگر شعبے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں یہی ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے جن اشیاء پر ٹیکس لگانے کو کہا تھا ان ہی اشیاء پر نگران اور منتخب حکومت نے ٹیکس عائد کیا ہے (آئی ایم ایف نے 80 فیصد ٹیکس لگانے کو کہا تھا)۔


لیکن پیپلز پارٹی کے وعدے کے مطابق کہ مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 18000 روپے کریں گے۔ سندھ کی حکومت اس پر اب تک دم بخود ہے۔ جب کہ عوام لوڈ شیڈنگ سے بلبلا اٹھے ہیں۔ توانائی کے مد میں صرف 225 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جس ملک میں عدم علاج معالجے کی وجہ سے روزانہ ہزاروں انسان لقمہ جل بن رہے ہیں وہاں صحت کا بجٹ صرف 21 ارب روپے اور جہالت کے اندھیرے میں تعلیم کا بجٹ 38 ارب روپے، مہنگائی اور بے روزگاری پر کوئی بجٹ ہی مختص نہیں ہوتا۔ موجودہ مسلم لیگ کی حکومت گزشتہ پی پی پی کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ سامراج نواز محسوس ہوئی ہے۔ اس لیے یہ سامراجی مفادات کے بر خلاف کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ جیسا کہ ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ کھٹائی میں پڑے گا۔

وزیر خزانہ خود کہتے ہیں کہ مہنگائی8 فیصد بڑھے گی۔ انفرادی دہشت گردی اور پاکستان میں سامراجی مداخلت میں اضافہ ہو گا۔ سابقہ حکومت ہو یا موجودہ یہ سب اقتدار میں آ کر تقریریں لچھے دار کرتے ہیں مگر کبھی بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات کی ضبطگی اور دفاعی بجٹ میں کمی کی بات نہیں کرتے۔ جیسا کہ طاہر القادری اور عمران خان جن کا تعلق عوامی تحریک اور تحریک انصاف سے ہے کبھی بھی آئی ایم ایف سے لا تعلقی، قرضوں کی ضبطگی، دفاعی اخراجات میں کمی، سرمایہ داری کے خاتمے اور ریاست کو جبر کا ادارہ قرار نہیں دیتے۔

یہ بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظام اب اصلاح کا قابل نہیں رہا۔ یہاں محنت کشوں کے انقلاب کی ضرورت ہے جو ریاست، فوج، وزارت، عدالت، صحافت کا خاتمہ کر کے امداد باہمی کا نسل انسانی کا معاشرہ قائم کرے۔ اس لیے کہ ریاست کو غریبوں کی پرواہ نہیں۔

حال ہی میں31 کروڑ روپے کی ڈکیتی کے مقدمے میں مجرموں کو 25،25 سال کی قید ہوئی۔ پھر جو اربوں روپے بینک سے قرض لیے اور آئی جے آئی کو جتوانے کے لیے رقوم تقسیم کیں اور اس کے علاوہ ہزاروں دولت مندوں جنھوں نے اربوں روپے بینکوں سے قرض لے کر واپس ہی نہیں کیے ان میں سیاسی رہنما، نوکر شاہی، جاگیردار، سرمایہ دار، مذہبی، قوم پرست شامل ہیں، کیا انھیں 25،25 سو سال کی قید نہیں ہونی چاہیے؟ مگر ایسا نہیں ہو گا اس لیے کہ ریاست دولت مندوں کی محافظ ہے۔ کسی سرمایہ دار کی فیکٹری میں آگ لگ جاتی ہے تو انشورنس کمپنی نقصانات ادا کرتی ہے۔

یا پھر جب فیکٹری مالکان دیوالیہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو حکومت انھیں بیل آؤٹ دیتی ہے۔ جب کہ بہاولپور میں فتح محمد رحمانی جس کی کباڑی کی دکان تھی آگ لگنے سے جل کر خاک ہو گئی، کو10 لاکھ روپے کا سامان جل کر تباہ ہو گیا۔ یہ اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی تھی۔ کیا اسے ریاست اس کے نقصانات کی رقم ادا کرے گی؟ شاید نہ کرے، اس لیے کہ وہ ایک غریب شہری ہے۔

نو منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مبارکباد دی اور دوسرے دن بیان دیا کہ ایران دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ مگر وہ یہ کہنا بھول گئے کہ امریکا نے سعودی عرب، قطر، مصر، اردن اور دیگر خلیجی بادشاہتوں میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں تقریباً5 لاکھ امریکی فوجیں موجود ہیں ( اسرائیل کے علاوہ جہاں 6 لاکھ امریکی فوجیں موجود ہیں) سعودی عرب، یمن، بحرین، شام، افغانستان اور پاکستان میں مسلسل مداخلت ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ سب کو مساوی بجلی فراہم کی جائے۔

بات درست ہے۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا ممکن ہے؟ اگر ہوتا تو امریکا جرمنی اور جاپان میں غریب بستیوں میں لوگ سردیوں سے ٹھٹھر کر کیوں مر جاتے ہیں؟ پاکستان میں اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے ایک کروڑ 70 لاکھ کے لگ بھگ افراد بے روزگار ہیں۔ انھیں بیروزگاری الائنس دینے کے بجائے من پسند اداروں کی تنخواہیں دوگنی کیوں کر دی گئیں؟ وفاقی بجٹ کیوں627 ارب روپے مختص کیا گیا؟ اس لیے کہ ریاست دولت مندوں کی محافظ ہے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ کارکنوں کا انقلاب برپا کر کے وسائل شہری اپنے ہاتھوں میں لے کر امداد باہمی کا سماج قائم کریں۔ جہاں کوئی ارب پتی ہو نہ کوئی گداگر، ہر سو مساوات کا راج ہو۔
Load Next Story